فتح مکہ
۱۸ رمضان المبارک
رسول اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم بتاریخ ۱۰ رمضان المبارک ۸ھ دس ہزار آراستہ فوج لے کر مدینہ سے روانہ ہوئے۔ حضرت عباس جو اب تک مکہ میں مقیم تھے اپنے اہل و عیال سمیت ہجرت کرکے مدینہ کو آرہے تھے وہ مقام حجفہ میں آنحضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ حسب ارشادِ نبوی انہوں نے اہل و عیال کو تو مدینہ بھیج دیا اور خود لشکر اسلام میں شامل ہوگئے۔
رسول اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم مکہ میں حصہ بالائی کی طرف سے داخل ہوئے۔ اعلان کر دیاگیا کہ جو شخص ہتھیارڈال دے گا ابو سفیان کے گھر پناہ لے گا یامسجد میں داخل ہوگا یا دروازہ بند کرلے گا۔ اس کو امن دیا جائے گا۔ حصہ بالائی میں (خیف بنی کنانہ یعنی محصب میں) رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کیلئے خیمہ نصب کیاگیا۔ اور حضرت زبیر نے حسب الارشاد محصب کی حد یعنی حجون کی پہاڑی پر عَلَم کھڑا کردیا۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت خالد بن ولید کو حکم دیا کہ قبائل عرب کے ساتھ مقام اسفل (کدٰی) کی طرف سے داخل ہو اور صفا میں ہم سے آملیں۔ اور کسی سے جنگ نہ کریں۔ مگر صفوان بن امیہ ، عکرمہ بن ابی جہل اور سہیل بن عمرو قریش کی ایک جماعت ساتھ لے کر جندمہ میں سدراہ ہوئے۔ اور حضرت خالد کی فوج پر تیر برسانے لگے۔ چنانچہ حضرت حبیش بن اشعر اور کرزبن جابر فہری رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے شہادت پائی۔ حضرت خالد نے مجبور ہو کر ان پر حملہ کیا۔ وہ تیرہ یا زیادہ لاشیں چھوڑ کر گھروں کو بھاگ گئے اور بعضے پہاڑی پر چڑھ گئے۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے جو تلواروں کی چمک دیکھی تو پوچھاکہ یہ جنگ کیسی ہے؟ عرض کیا گیا کہ شاید مشرکین نے پیش قدمی کی ہے۔ جس کی وجہ سے خالد کو لڑنا پڑا۔ بعد ازاں رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے خالد سے باز پرس کی۔ تو انہوں نے عرض کیاکہ ابتداء مشرکین کی طرف سے تھی۔ فرمایا: ’’قضائے الٰہی بہتر ہے۔‘‘(تاریخ طبری ،۱:۳۹۷)
آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے خیمہ میں ذرا آرام فرمایا، پھر غسل کیا اور ہتھیاروں سے سج کر ناقۂ قصواء پر سوار ہوئے اور اپنے غلام کے لڑکے اسامہ کو اپنے پیچھے سوار کرلیا کوکبہ نبوی بڑی شان و شوکت سے کعبہ کی طرف روانہ ہوا۔ آپ کے دائیں بائیں آ گے پیچھے مہاجرین و انصار تھے جو اس طرح سراپا آہن پوش تھے کہ بجز سیاہہ چشم ان کے بدن کا کوئی حصہ نظر نہ آتا تھا۔ بیت اللہ شریف میں داخل ہو کر آپ ا نے پہلے حجر اسود کو بوسہ دیا۔ پھر اپنی ناقہ پر طواف کیا۔ بیت اللہ کے گرد اور اوپر تین سوساٹھ بت تھے۔جن کے سبب سے وہ خانہ خدا بت خانہ بنا ہوا تھا۔ آپ کے دست مبارک میں ایک لکڑی تھی۔اس سے آپ ایک ایک بت کو ٹہوکے دیتے جاتے تھے اور یہ پڑھتے جاتے تھے:
(ترجمہ) حق آگیا اور باطل مٹ گیا ، بیشک باطل مٹنے والا ہے۔ حق آگیا اور باطل نہ پہلی بار پیدا کرتا ہے اور نہ دوبارہ کرتاہے۔
اور وہ منہ کے بل گرتے جاتے تھے۔ جب اس طرح بیت اللہ شریف بتوں سے پاک ہوگیا تو آپ نے حضرت عثمان بن طلحہ سے کنجی لیکر دروازہ کھولا۔ اندر داخل ہوئے تو حضرت ابراہیم و اسمٰعیل علیہما السلام کے مجسمے نظر پڑے۔ جن کے ہاتھوں میں جواء کھیلنے کے تیر دیے ہوئے تھے۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا :’’ خدا غارت کرے۔ اللہ کی قسم ان دونوں نے کبھی تیروں سے جواء نہیں کھیلا۔‘‘ کعبہ کے اندر ہی لکڑیوں کی ایک کبوتری بنی ہوئی تھی جسے آپ نے اپنے دست اقدس سے توڑڈالا۔ اور تصویریں جو تھیں وہ مٹا دی گئیں۔ پھر دروازہ بند کردیا گیا۔ اور حضرت اسامہ و بلال و عثمان بن طلحہ آپ ا کے ساتھ اندر رہے آپ نے نماز پڑھی اور ہرطرف تکبیر کہی پھر دروازہ کھول دیا گیا۔ مسجد حرام قریش کی صفوں سے بھری ہوئی تھی۔ آپ نے دروازے کے بازوؤں کو پکڑ کر یہ خطبہ پڑھا:
’’ ایک خدا کے سوا اور کوئی معبود نہیں۔ اس کا کوئی شریک نہیں۔خدا نے اپنا وعدہ سچا کیا اور اپنے بندے کی مدد کی اور کافروں کے گروہوں کی تنہا شکست دی۔آگاہ رہو کہ تمام مفاخریا خون یا مال ہر قسم کا سوائے کعبہ کی تولیت اور حاجیوں کی سقایت کے میرے ان دو قدموں کے نیچے ہیں۔ آگاہ رہو کہ قتل خطا جو عمد کے مشابہ ہو، تازیانہ سے ہو یا عصا سے اس کا خون بہا ایک سو اونٹ ہیں جن میں سے چالیس کے پیٹوں میں بچے ہوں۔ اے گروہ قریش! خدا نے تم سے جاہلیت کا غرور اور نسب کاافتخار دور کر دیا۔ تمام لوگ آدم کی اولاد سے ہیں اور آدم مٹی سے ہیں۔‘‘(طبقات ابن سعد، ۱:۴۳۱، طبری،۱:۴۰۱)
پھر یہ آیت تلاوت فرمائی:
’’ اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہیں شاخیں اور قبیلے کیا کہ آپس میں پہچان رکھو بے شک اللہ کے یہاں تم میں زیادہ عزت والا وہ جوتم میں زیادہ پرہیز گار ہے بے شک اللہ جاننے والا خبردار ہے۔‘‘
(کنز الایمان فی ترجمۃ القرآن، پارہ ۲۶، الحجرات :۱۳)
خطبہ کے بعد آپ قریش کی طرف متوجہ ہوئے جن سے مسجد بھری ہوئی تھی۔ اعلانِ دعوت سے اب تک ساڑھے سترہ سال میں قریش نے آپ سے اور آپ کے اصحاب سے جو جو سلوک کیے تھے وہ سب ان کے پیش نظر تھے۔ اور خوف زدہ اس انتظار میں تھے کہ دیکھئے کیا سلوک کیا جاتا ہے۔ آپ ا اب اس شہرمیںہیں جہاں سے نکلے تھے تو اندھیری رات اور فقط صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ ساتھ تھے۔ آج آپ داخل ہوتے ہیں تو یوں خطاب فرمایا: ’’اے گروہ قریش! تم اپنے گمان میں مجھ سے کیسے سلوک کی توقع رکھتے ہو؟‘‘
وہ بولے :
’’نیکی کی توقع رکھتے ہیں۔ آپ شریف بھائی اور شریف برادر زادہ ہیں‘‘
یہ سن کر حضور رحمۃ اللعالمین نے فرمایا:
’’آج تم پر کوئی الزام نہیں۔ جائو، تم آزاد ہو۔‘‘(طبری، ۱:۴۰۱)
اعلانِ عفو کے بعد آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم مسجد حرام میں بیٹھ گئے ۔ بیت اللہ شریف کی کنجی آپ کے دستِ مبارک میں تھی۔ حضرت علی اور حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما میں سے ہر ایک نے عرض کیا کہ کنجی ہمیں عنایت ہو۔مگر آپ نے حضرت عثمان بن طلحہ بن ابی طلحہ کو عطا فرمائی۔
حضرت عثمان بن طلحہ کابیان ہے کہ ’’ہجرت سے پہلے مجھے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم مکے میں ملے۔آپ نے مجھے دعوت اسلام دی۔ میں نے کہا اے محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ! تجھ سے تعجب ہے کہ تو چاہتا ہے کہ میں تیری پیروی کروں۔ حالانکہ تو نے اپنی قوم کے دین کی مخالفت کی ہے اور ایک نیا دین لایا ہے۔ ہم جاہلیت میں کعبہ کو دوشنبہ اور پنجشنبہ کے دن کھولا کرتے تھے۔ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم لوگوں کے ساتھ کعبہ میں داخل ہونے کے ارادے سے آئے ، میں نے آپ سے درشت کلامی کی اور آپ کو برا بھلا کہا۔ مگر آپ نے درگزر کیا اور فرمایا:’’ عثمان تو یقیناًعنقریب ایک دن اس کنجی کو میرے ہاتھ میں دیکھے گا کہ جہاں چاہوں رکھ دوں۔ ‘‘میں نے کہا: اس دن بے شک قریش ہلاک ہو جائیں گے اور ذلیل ہو جائیں گے۔ اس پر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بلکہ زندہ رہیں گے اور عزت پائیں گے۔‘‘ اور آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کعبہ میں داخل ہو ئے۔ آپ کے اس ارشاد نے مجھ پر اثر کیا میں نے گمان کیا کہ جیسا آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا عنقریب ویساہی ہونے جائے گا۔ اور ارادہ کیا کہ مسلمان ہو جاؤں۔ مگر میری قوم مجھ سے نہایت درشت کلامی کرنے لگی۔ جب فتح مکہ کا دن آیا تو آپ نے مجھ سے فرمایا۔ عثمان! کنجی لا۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے کنجی مجھ سے لے لی۔ پھر وہی کنجی مجھے دے دی اور فرمایا۔ لو یہ پہلے سے تمہاری ہے اور تمہارے پاس ہمیشہ رہے گی۔ ظالم کے سوا اسے کوئی تم سے نہ چھینے گا۔ عثمان! اللہ نے تم کو اپنے گھر کا امین بنایا ہے۔ پس اس گھر کی خدمت کے سبب سے جو کچھ تمہیں ملے اسے دستور شرعی کے موافق کھاؤ۔ جب میں نے پیٹھ پھیری آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے مجھے پکارا میں پھر حاضر ہوا۔ فرمایا۔ کیا وہ بات نہ ہوئی جو میں نے تجھے سے کہی تھی۔ اس پر مجھے ہجرت سے پہلے مکہ میں آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا وہ قول یاد آگیا۔ میں نے عرض کیا کہ ’’ہاں(وہ بات ہو گئی) میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اللہ عزجل کے رسول ہیں۔‘‘ (مدارج النبوت، ۲:۴۸۷۔۴۸۸)
اس حدیث میں تین پیشنگوئیاں ہیں ۔ وہ تینوں پوری ہوگئیں۔آج بھی کعبہ معظمہ کے کلید بردار ان ہی کی اولاد میں شیخ عبد العزیز شعابی ہیں۔
اس روز آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم دیر تک مسجد میں رونق افروز رہے نماز کا وقت آیا تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے حکم سے حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے کعبہ کی چھت پر اذان کہی۔ ابو سفیان جو حرب اور عتاب بن اسدی اور حارث بن ہشام کعبہ کے صحن میں بیٹھے ہوئے تھے ۔ اذان کی آواز سن کر عتاب بولا کہ خدا نے اسید کو یہ عزت بخشی کہ اس نے یہ آواز نہ سنی ورنہ اسے رنج پہنچتا۔ حارث بولا خداکی قسم اگر یہ حق ہوتا تو میں اس کی پیروی کرتا۔ ابو سفیان نے کہا، میں تو کچھ نہیں کہتا اگر کہوں تو یہ کنکریاں ان کو میرے قول کی خبر دیں گی۔ جب آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ان لوگوں کے پاس ہو کر نکلے تو فرمایا کہ تمہاری باتیں مجھے معلوم ہوگئیں تم نے ایسا ایسا کہا ہے۔ حارث و عتاب یہ سنتے ہی کہنے لگے۔ ’’ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ خدا کے رسول ہیں۔ ان باتوں کی اطلاع کسی اور کو نہ تھی ورنہ ہم کہہ دیتے کہ اس نے آپ کو بتادیں۔
مسجد سے آپ کوہِ صفا پر تشریف لے گئے۔ وہاں مردوں اور عورتوں نے اسلام قبول کرکے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے دستِ اقدس پر بیعت کی ۔ مردوں میں حضرت معاویہ اور مستورات میں ان کی والدہ ہند بھی تھیں۔جو حضرت امیر حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کا کلیجہ چبا گئی تھی۔(رواہ البخاری، مدارج النبوت، ۲:۵۰۵)
عفوِ عام سے نو یا دس اشخاص مستثنٰی تھے ۔ جن کی نسبت حکم دیا گیا تھا کہ جہاں ملیں قتل کر دیے جائیں۔ اس حکم کی وجہ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا ذاتی انتقام نہ تھا بلکہ اور مختلف جرم تھے۔ ا ن میں سے صرف تین یعنی ابن خطل۔ مقیس بن ضبابہ اور ابن خطل کی کنیز قریبہ قتل ہوئے۔ابن خطل اور مقیس قصاص میں قتل کیے گئے۔ قریبہ اسلام کی ہجو گایا کرتی تھی۔ باقی سب کو امن دیا گیا۔ اور ایمان لائے۔ ایک دشمن اسلام عیسائی مصنف ان دس اشخاص کی تفصیل دے کر یوں لکھتا ہے:
’’ اس طرح عفو کے مقابلے میں حکم قتل کی صورتیں کالعدم تھیں اور سزائے موت جہاں فی الواقع عمل میں آئی (شاید باستثنائے مغنیہ) محض پولیٹیکل مخالفت کے سوا اور جرموں کی وجہ سے غالباً روا تھی۔ جس عالی حوصلگی سے (حضرت) محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس قوم سے سلوک کیا جس نے اتنی دیر آپ سے دشمنی رکھی اور آپ کا انکار کیا۔ وہ ہر طرح کی تحسین و آفرین کے قابل ہے حقیقت میں گذشتہ کا معافی اور اس کی گستاخیوں اور اذیتوں کی فراموشی آپ ہی کے فائدے کیلئے تھی۔ مگر تاہم اس کیلئے ایک فراخ و فیاض دل کی کچھ کم ضرورت نہ تھی۔‘‘(سر ولیم میور، لائف آف محمد)
فتح مکہ کے دوسرے روز خزاعہ نے ہذیل کے ایک شخص کو جومشرک تھا قتل کر ڈالا اس پر نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے حمد و ثنا کے بعد یوں خطاب فرمایا:
(ترجمہ) تحقیق مکہ کو اللہ تعالیٰ نے حرم قرار دیا اور لوگوں نے حرام نہیں کیا۔جو شخص خدا اور روزِ آخرت پر ایمان رکھتا ہے اس کیلئے جائز نہیں کہ اس میں خون بہائے اور نہ اس کا درخت کاٹے اگر کوئی اس میں رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے جنگ کے سبب قتال کو رخصت کہے تو اس سے کہہ دو کہ خدا نے اپنے رسول کو اجازت دی تم کو اجازت نہیں دی مجھے بھی دن کی ایک ساعت اجازت دی گئی۔ اور آج پھر اس کی حرمت ایسی ہوگئی جیسا کہ کل (فتح سے پہلے) تھی۔ چاہئے کہ جو یہاں حاضر ہے غائب کو یہ پیغام پہنچا دے۔‘‘(بخاری و مدارج النبوت،۲:۴۹۳)
جب مکہ بتوں سے پاک ہوچکا تو مکہ کے گرد جو بت (منات، لات، عزیٰ، سواع) وغیرہ تھے وہ سرایا کے ذریعہ منہدم کردیئے گئے۔