حسین علی، المعروف، ادیب رائے پوری، سید
نام ونسب: اسم گرامی: سیّد حسین علی۔ لقب: ادیبِ اہلسنّت ۔ آپ ’’ادیب رائے پوری‘‘ سے معروف تھے۔سلسلۂ نسب: سیّد حسین علی المعروف ادیب رائے پوری بن حکیم سیّد یعقوب علی۔ رحمۃ اللہ علیہما۔
تاریخِ ولادت: آپ کی ولادت 1928ء مطابق 1346ھ کو ’’رائے پور‘‘ مدھیہ پردیش، ہند میں ہوئی۔
تحصیل علم: آپ نے ابتدائی تعلیم رائے پور میں حاصل کی۔ فارسی آپ کے گھر کی زبان تھی اور خاندانی پیشہ طب تھا۔ اس لیے بچپن سے ہی فارسی سے گہرا تعلق رہا۔ فارسی زبان کے دو قابلِ قدر اُستاد مولانا عبدالرحمٰن الٰہ آبادی اور ماسٹر شیو پرشاد سے آپ نے فارسی کی تعلیم حاصل کی۔فنِ شاعری میں آپ کو دہلی کے عظیم شاعر حضرت بے خوؔد دہلوی کے شاگردِ رشید حضرت فدؔا خالد دہلوی سے شرفِ تلمذ حاصل تھا۔ وہ ایم اے (اردو) تھے۔ ا ِس کے علاوہ علمائے اہلِ سنّت کی صحبت سے کبھی رو گردانی نہیں کی، ہمیشہ ان کی صحبت میں رہ کر استفادہ کرتے رہے۔
بیعت: آپ سلسلۂ عالیہ سہروردیّہ میں حضرت پیر آفاق سہروردی علیہ الرحمۃ کے دستِ حق پرست پر بیعت تھے۔ حضرت آفاق کا مزارِ مبارک دہلی سے قریب ایک مقام ’’رٹول‘‘ میں ہے، جہاں کے آم ’’انور رٹول‘‘ مشہور ہیں۔
پاکستان آمد: سر زمینِ پاک پر آپ کی آمد کی تاریخ بھی یادگار ہے۔ قیامِ پاکستان سے صرف ایک رات قبل یعنی 13؍ اگست 1947ء کو پاکستان تشریف لائے اور کراچی (سندھ) میں مستقل سکونت اختیار کی۔
نعتیہ خدمات: جہانِ حمد و نعت کی مایۂ ناز شخصیت ادیب رائے پوری کو یہ انفرادیت حاصل ہے کہ آپ نے نعت گوئی کے علاوہ نعت خوانی اور فروغِ نعت کے لیے شان دار و یادگار خدمات انجام دی ہیں۔ یہ نعتیہ خدمات ان خطوط پر استوار ہیں جنہیں ہر زمانے اور ہر دور میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جائے گا۔
(1) ماہ نامہ نوائے نعت کراچی: ادیب رائے پوری کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ انہوں نے نعتیہ ادب کو فروغ دینے کے لیے1980ء میں کراچی سے سب سے پہلا ماہ نامہ ’’نوائے نعت‘‘ جاری کیا۔ آپ کی ادارت میں اِس ماہ نامے نے مختلف مدارج طے کرتے ہوئے 8 سال مکمّل کیے۔ اپنوں کی لاتعلقی و عدم دل چسپی کی وجہ سے یہ ماہ نامہ بند ہوگیا،لیکن ادیب رائے پوری صاحب کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اردو زبان میں نعت کےلیے یہ پہلاماہ نامہ ہے۔ بعد میں پورے ملک میں جہاں بھی یہ سلسلہ شروع ہوایہ سب اسی سلسلے کی مبارک کڑیاں ہیں۔
(2) پاکستان نعت کونسل: 1970ء کو پاکستان نعت کونسل کی بنیاد رکھی گئی۔ اس ادارے کے تحت عظیم الشان نعتیہ خدمات انجام دی گئیں۔ یادگار تقریبات کا اہتمام ہوتا رہا۔ اس ادارے کے زیرِ اہتمام ہونے والی تقریبات نے وطنِ عزیز میں فروغِ نعت کے حوالے سے کلیدی کردار ادا کیا۔
(3) نعت اکیڈمی کا قیام: 1980ء کو ’’پاکستان نعت اکیڈمی‘‘ کے نام سے ایک نئے ادارے کی بنیاد رکھی گئی۔ پاکستان نعت اکیڈمی کے بانی و صدر ادیب رائے پوری نے 1982ءمیں کراچی میں اس اکیڈمی کے تحت برِّصغیر (پاک و ہند و بنگلہ دیش) کی تاریخ میں سب سے پہلی ’’عالمی نعت کانفرنس‘‘ کا انعقاد کیا۔ اپنی نوعیت کے حوالے سے ہونے والی اس منفرد کانفرنس میں امریکہ، یورپ، مشرقِ وسطیٰ، ساؤتھ ایشیا، افریقہ اور برِّ صغیر کی معروف شخصیات نے شرکت کی۔ 1984ءمیں پاکستان نعت اکیڈمی کے زیرِ اہتمام برطانیہ کے تین شہروں لندن، برمنگھم اور بریڈ فورڈ میں عالمی نعت کانفرنس کے تین یادگار اجتماعات منعقد کیے گئے۔ اس کے علاوہ دسمبر 1984ء ہی میں ویسٹ انڈیز کے شہر ’’ٹرینی ڈاڈ‘‘ میں ’’نعت کانفرنس‘‘ منعقد ہوئی۔ اس بات کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ یہ اس شہر کی پہلی نعت کانفرنس تھی جسے خوب پذیرائی حاصل ہوئی۔ سلور جوبلی ایوارڈ 1992ء برِّصغیر میں اپنی نوعیت کی یہ پہلی نعتیہ ایوارڈ تقریب تھی، جس میں ایک سو ایوارڈ تقسیم کیے گئے۔ پہلی مرتبہ کسی ایک چھت کے نیچے دنیائے نعت کے تقریباً تمام ملکی وغیر ملکی سرکردہ حضرات موجود تھے۔ اس سے پہلے اور نہ اس کے بعد کوئی دوسری تقریب ایسی منعقد ہوسکی۔ برِّصغیر میں نعت کے موضوع پر، پی ۔ ایچ۔ڈی کرنے والی شخصیات نے شرکت کی۔ شعرائے کرام ، نعت خواں حضرات، ریڈیو، ٹی وی کے پروڈیوسرز، مختلف انجمنوں کے صدور سربراہ اور دیگر معززین کو چیئرمین سینٹ آف پاکستان جناب وسیم سجاد صاحب نے انعامات تقسیم کیے۔ دنیائے نعت میں ادیب رائے پوری کی اس نمایاں نعتیہ خدمات کو بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔
نعتیہ شاعری: شاعری تازگی، توانا لہجہ، موثر انداز، وسیع مطالعہ اور قدیم و جدید اسالیب پر گرفت آپ کی شاعری کے بنیادی اوصاف ہیں۔ آپ کے کلام کو شعر و ادب کے حلقوں میں بے اتنہا پسند کیا جاتا ہے۔ آپ کی زیادہ تر نعتیں مقبولیت کے مقام پر فائز ہیں۔ ادیب ایک پختہ گو اور کہنہ مشق نعت گو شاعر کی حیثیت رکھتے تھے۔
تصنیف و تالیف:آپ نے تصنیف و تحقیق کے حوالے سے بھی گراں قدر خدمات انجام دیں ہیں۔ اِن میں سے بعض کے نام درجِ ذیل ہیں:
1۔ اس قدم کے نشاں: آپ کا سب سے پہلا مجموعۂ نعت ہے ۔ 1977ء کو آپ نے خود شائع کیا۔ مدینۂ منوّرہ کی حاضری کے موقع پر جب ادیب نے یہ کتاب حضرت قطبِ مدینہ کی خدمت میں پیش کی تو انھوں نے فرمایا:’’نعت گوئی ایک مقدّس فن ہے، جس سے وہی شاعر حقیقی طور پر عہدہ برآ ہوسکتا ہے جس کے دل میں عشقِ رسالت مآبﷺ کار فرما ہو۔ ’’ایمان‘‘ سرکارِ دو عالَم ﷺ کی محبّت کا نام ہے۔ جب تک دل میں ایمان کی روشنی نہ ہو، طبیعت اس طرف مائل نہیں ہوسکتی۔ وہ لوگ مبارک باد کے مستحق ہیں جو اس وقت مشعلِ نعت ہاتھوں میں اٹھائے تاریکیوں کو روشنیوں میں بدل رہے ہیں۔ الحاد، بے دینی اور بے یقینی نے روحانی اَقدار پر قبضہ جمائے رکھا ہے، اِس شر کا مقابلہ کرنے کے لیے شہنشاہِ کون و مکاں ﷺ کی سیرت کے پہلو، اور حُبِّ رسول ﷺکی تبلیغ ، وقت کا سب سے اہم تقاضا ہے۔عزیز اَدیب رائے پوری سَلَّمَہٗ اِس فریضے کو نہایت عقیدت، جذبے اور محبّت سے انجام دے رہے ہیں۔ مجھے جس قدر بھی اِن کا کلام دیکھنے اور سننے کا موقع ملا، اُس میں والہانہ عقیدت، ذوق و شوق، سوزو گداز ، اور جذبات کی گہرائی پائی جاتی ہے، وہ اپنے ان پاکیزہ جذبات کے ساتھ ساتھ زبان و بیان پر پوری دسترس رکھتے ہیں اور شعری محاسن سے بھی خوب واقف ہیں۔ میری دعا ہے کہ مولائے کریم از طفیلِ سرورِ کونین، صاحبِ قَابَ قَوْسَیْنﷺ ادیب کے ذوق و شوق میں ترقی عطا فرمائے اور ان کا کلام مقبولِ بارگاہ ِرسالت مآب ہو۔آمین ثم آمین۔‘‘
2۔ تصوّرِ کمالِ محبّت:دوسرا مجموعۂ نعت جو کہ 1979ء کو شائع ہوا۔
3۔ مَدارج النعت: اِس میں حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر عہدِ حاضر تک نعت کا تدریجی ارتقا ہے، جس میں قرآنِ حکیم کے علاوہ دیگر کتبِ سماوی کے حوالوں نے موضوع کی اہمیت میں چار چاندلگادیے ہیں۔ عبرانی زبان کے نمونے، چینی زبان کے وہ نایاب نمونے جو اب تک نظر سے نہیں گزرے اور دیگر معلومات پر مشتمل یہ کتاب 1986ء میں شائع ہوئی۔
4۔ مشکوٰۃ النعت: ادیب کی یہ دوسری علمی و تحقیقی کاوش ہے جس میں عربی کی نعتیہ شاعری کا تاریخی و تحقیقی جائزہ لیا گیا ہے اور یہ 1993ء کو اشاعت پذیر ہوئی۔
5۔ دُرودِ تاج(تحقیق و تشریح): نام سے موضوع ظاہر ہے۔ یہ ضخیم کتاب 1997ء کو کراچی سے شائع ہوئی۔
6۔ مقصود کائنات: آپ کا تیسرا نعتیہ کلام ہے۔ اس میں نئے کلام کے علاوہ ادیب کے اس سے پہلے شائع ہونے والے دو نعتیہ شعری مجموعے ’’اس قدم کے نشاں‘‘ اور ’’تصورِ کمالِ محبت‘‘ کا بھی تمام تر کلام موجود ہے۔
7۔نعتیہ ادب میں تنقید اور مشکلاتِ تنقید (تنقیدی کتاب) مطبوعہ 1999ء
8۔ موجِ اِضطراب (قرآنی مضامین کا انتخاب 2004ء)
9۔ اردو زبان و ادب کا ارتقا، تصوف کی روشنی میں
10۔ مرزا غالب کی نعتیہ شاعری
11۔ مقالاتِ ادیب رائے پوری (مختلف موضوعات پر فکر انگیز مضامین)
12۔ ستاروں سے آگے جہاں (نعتیہ اسٹیج ڈرامہ)
13۔ خاک آلود ستارے(ظلم و جبر کے خلاف قلمی بغاوت)
سفرِ حرمینِ شریفین: آپ نے کئی بار حج و عمرہ کی سعادت حاصل کی۔
شادی و اولاد: شادی ہوئی، مگر کوئی اولاد نہیں ہوئی۔
وصال: یکم رمضان المبارک 1425ھ مطابق 16؍ اکتوبر 2004ء بروز ہفتہ 76 سال کی عمر میں اس جہانِ فانی سے رحلت فرماگئے میوہ شاہ قبرستان (کراچی) میں اپنے خاندانی اَفراد کے برابر مدفون ہوئے۔(ماخذ: ارمغانِ ادیب(انتخابِ کلام) مرتّبہ شہزاد احمد، مطبوعۂ قطبِ مدینہ پبلشرز، کراچی، 2002ء)