جمیل احمد نعیمی ضیائی، استاذ العلماء، علامہ مفتی
تحریر: ندیم احمد نؔدیم نورانی
ولادت و ہجرت:
اُستاذالفضلاء، جمیل العلما، عمدۃ السلف، قدوۃ الخلف، جمیلِ ملّت حضرت علامہ مولانا جمیل احمد نعیمی ضیائی کا آبائی شہر سہارن پور ہے، جہاں سے آپ کےجدِّ امجد نے حضرت سائیں توکل شاہ کی سرزمین مشرقی پنجاب (بھارت) کے شہر انبالہ (انبالہ چھاؤنی) میں ہجرت فرمائی۔ اِسی شہر میں، ۱۲؍ فروری ۱۹۳۶ء مطابق ۱۸؍ ذوالقعدہ ۱۳۵۴ھ کو بدھ کے دن، آپ کی ولادت ہُوئی۔ بعض مقامات پر، آپ کی ولادت کا سال ’’۱۳۵۵ھ‘‘ لکھا ہے، جو درست نہیں ہے۔ آپ کا تعلّق شیخ برادری سے تھا، آپ کے بزرگ زراعت پیشہ تھے، لیکن والدِ ماجد جناب قادر بخش(متوفّٰی ۱۹۵۸ء) انبالہ کی ایک فلور مِل میں اسسٹنٹ انجینئر تھے۔
تقسیمِ ہند کے وقت اگست ۱۹۴۷ء/ رمضان المبارک ۱۳۶۶ھ میں اپنے والدین اور بہن بھائیوں کے ہمراہ ہجرت کرکے پاکستان تشریف لے آئے، جہاں صدر بازار/ شاہ عالَم گیٹ لاہور میں واقع کراچی محلے میں ڈھائی تین سال تک قیام پزیر رہ کر، ۱۹۵۰ھ میں اپنے گھر والوں کے ساتھ لاہور سے کراچی منتقل ہو گئے اور تا حیات کراچی ہی میں مقیم رہے۔
تعلیم:
حضرت جمیلِ ملّت نے پانی پت کے مشہور قاری اُستاذ القرا حضرت علامہ حافظ قاری محمد اسماعیل سے ناظرہ قرآنِ مجید پڑھا۔دنیوی تعلیم مڈل تک حاصل کی۔ حضرت مولانا مسعود احمد چشتی صابری(جن کی صاحبزادی سے بعد میں آپ کی شادی ہُوئی) سے بہارِ شریعت کا پہلا حصّہ اور کچھ ابتدائی درسی کتب پڑھیں؛ نیز، حضرت علامہ مولانا محمد وارث چشتی، حضرت مولانا قاضی محمد زین العابدین نقشبندیاور حضرت مولانا محمد ارشاد (جو بھارت کےشہر جالندھر کے رہنے والے تھےاور آتش کے نام سے جانے پہچانے جاتے تھے) سے آپ نےصَرف، نحوِ میر وغیرہ درسِ نظامی کی ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ ۱۹۵۲ء سے ۱۹۶۰ء تک آپ نے صدرالافاضل مفسرِ قرآن حضرت علامہ سیّد محمد نعیم الدین مرادآبادی کے شاگردِ ارشد یعنی تاج العلما حضرت مفتی محمد عمر نعیمی(متوفّٰی ۱۹۶۶ء) سے اُن کے قائم کردہ مدرسے ’’مخزن العربیہ بحرالعلوم (آرام باغ، کراچی) میں درسِ نظامی کی بقیہ تعلیم دورۂ حدیث تک مکمّل حاصل کی۔
دستارِ فضیلت:
مدرسۂ مخزن العربیہ بحرالعلوم (آرام باغ، مسجد، کراچی) میں ذوالحجہ ۱۳۷۹ھ مطابق ۱۵؍جون ۱۹۶۰ء میں حضرت جمیلِ ملّت کو سندِ فراغت عطا کی گئی؛ نیز، دستارِ فضیلت کی ایک مجلس کا انعقاد کیا گیا۔ اُس مجلس میں عالمِ اسلام کی مقتدر و ممتاز شخصیات نے شرکت فرمائی، جن میں حسبِ ذیل نام شامل ہیں:
- غزالیِ زماں حضرت علامہ سیّد احمدسعید کاظمی
- مشہور مصنّف و مترجم حضرت علامہ سیّد غلام معین الدین نعیمی
- حضرت مولانا ضیاء القادری بدایونی
- معروف شاعر حضرت مولانا سیّد عبدالسلام باندوی
- حضرت قبلہ پیر فاروق رحمانی(شیخِ طریقت سلسلۂ رحمانیہ)
- جمیلِ ملّت کے اُستاد اور سسرِ محترم حضرت مولانا مسعود احمد چشتی صابری دہلوی
- جمیلِ ملّت کے اُستاد تاج العلما حضرت علامہ مفتی محمد عمر نعیمی
- اُس وقت کے سفیرِ عراق حضرت پیر عبدالقادر
جمیلِ ملّت کے ہم سبق طلبہ:
حضرت جمیلِ ملّت کےہم سبق طلبہ جنھوں نے مدرسۂ مخزن العربیہ بحرالعلوم (آرام باغ، مسجد، کراچی) میں آپ کےساتھ تعلیم حاصل کی اور وہیں اُن کی آپ کے ساتھ دستار بندی بھی ہُوئی، اُن کے نام یہ ہیں:
- مولانا ابو الاَسرارمفتی محمد عبداللہ نعیمی نقشبندی شہید (آپ دارالعلوم نعیمیہ، مجددیّہ نعیمیہ، کراچی کے بانی اور مفتی محمد جان نعیمی مدّ ظلہ العالی کے والد ہیں)
- حافظ محمد ازہر نعیمی ابنِ تاج العلما مفتی محمد عمر نعیمی
- مولانا اقبال حُسین نعیمی
- مولانا عبدالباری برمی
- مولانا غلام مصطفیٰ کشمیری
- مولانا تعظیم الدین بنگالی
- مولانا سراج الفقیہ
- مولانا سراج احمد نعیمی
- مولانا اطہر القادری
- مولانا اختر حُسین
نیز، سابق صدرِ پاکستان محترم ممنون حُسین صاحب نے بھی حضرت جمیلِ ملّتکے ساتھ اِسی مدرسے میں موقوف علیہ تک کتابیں پڑھی تھیں۔ (’’روشن دریچے‘‘،جلدِ اوّل، ص13 تا 14)
تدریس:
حضرت جمیلِ ملّت ابتدائی طور پر، بچوں اور بچیوں کے اسلامیہ اسکول (پرانا حاجی کیمپ، کراچی) میں ۱۹۵۰ء سے مارچ ۱۹۵۲ء تک اُستاذ رہے،اپنا دوبارہ تعلیمی سلسلہ شروع کرنے کی وجہ سے اسکول کی تدریس چھوڑ دی۔ پھرزمانۂ طالبِ علمی ہی میں آپ نے دوبارہ تدریس کا سلسلہ شروع کر دیا۔ دارالعلوم مظہریّہ آرام باغ کراچی اور دارالعلوم قادریّہ جیکب لائن اللہ والی مسجد (ایم اے جناح روڈ) کراچی میں ایک ایک سال تدریسی خدمات سرانجام دیں، پھر اپے اُستادِ محترم تاج العلما حضرت مفتی محمد عمر نعیمی کے حکم پر، اپنے مادرِ علمی دارالعلوم مخرنِ عربیہ میں تدریس کا فریضہ ادا کیا، جہاں آپ موقوف علیہ تک پڑھاتے تھے۔ اُس کے بعد سے دارالعلوم نعیمیہ کراچی میں عمر بھر مسندِ تدریس کو زینت بخشی اور اُستاذالحدیث کے منصب پر فائز رہے۔
چند نامور تلامذہ:
یوں تو حضرت جمیل ملّت کے ہزاروں شاگرد ہیں۔ سرِ دست اُن میں سے چند کے نام ذیل میں درج کیے جاتے ہیں:
1۔ علامہ احمد علی سعیدی (شیخ الحدیث دارالعلوم نعیمیہ)
2۔ علامہ علی عمران صدّیقی (مدرس دارالعلوم نعیمیہ)
3۔ مولانا مفتی سیّد ناصر علی قادری (ٹرسٹی دارالعلوم نعیمیہ)
4۔ ابوالمکرم علامہ ڈاکٹر سیّد محمد اشرف الاشرفی الجیلانی(سجادہ نشین، درگاہِ اشرفیہ، کراچی)
5۔ مولانا سیّد حکیم اشرف الاشرفی الجیلانی (درگاہِ اشرفیہ، کراچی)
6۔ مولانا محمد نصیراللہ نقشبندی (برطانیہ)
7۔ مولانا سیّد نذیر حسین شاہ (مدرس دارالعلوم نعیمیہ)
8۔ مولانا عبداللہ نورانی(شیخ الحدیث والتفسیر جامعہ عالمیہ اسلامیہ للبنات،خواتین اسلامی مشن۔ پاکستان و جامعہ علیمیہ کراچی)
9۔ مولانا منوّر احمد نعیمی نورانی (دارالعلوم نعیمیہ، کراچی)
10۔ مولانا خضرالاسلام نقشبندی (معروف مقرر)
11۔ مولانا سیّد محمد صدّیق نعیمی نورانی (امام و خطیب جامعہ مسجد نظامیہ، ناظم آباد، کراچی) ابنِ علامہ سیّد محمد اعجاز نعیمی(سابق مدرّس دارالعلوم نعیمیہ، کراچی)
12۔ مولانا محمد ناصر خان چشتی (الناصر پبلی کیشنز و مکتبۂ نعیمیہ، کراچی)
13۔ مولانا حمّاد رضا ابنِ حضرت مفتی احمد میاں برکاتی (حیدرآباد، سندھ)
14۔ ڈاکٹر محمد عارف خان ساقی(کراچی)
15۔ صاحبزادہ نورالعارفین نقشبندی (لندن)
16۔ مولانا ریاض محمود نعیمی (حضرت جمیلِ ملّت کے خادمِ خاص، لائبریرین) وَغَیْرُھُمْ
بیعت اورخلافت و اجازت:
حضرت جمیلِ ملّت کو اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں قادری بریلوی کے خلیفۂ اجل یعنی قطبِ مدینہ حضرت مولانا ضیاء الدین احمد قادری مہاجر مدنی سے شرفِ بیعت حاصل ہے؛ نیز، اُن سے دلائل الخیرات شریف کی اجازت بھی پائی۔ آپ کے اُستاد و سسرِ محترم حضرت مولانامحمد مسعود احمد دہلوی نے آپ کو عملیات کی اجازت کے ساتھ ساتھ سلسلۂ چشتیہ صابریّہ کی اجازت سے نوازا، اُنھیں اپنے والدِ ماجد حضرت کرامت اللہ دہلوی سے اور اُنھیں حضرت حاجی امداداللہ مہاجر مکی سے اجازت و خلافت حاصل ہے۔
حج و زیارت:
حضرت جمیل ملّت نے پہلی بار ۱۹۶۳ء میں حجِ بیت اللہ کا شرف پایا، اُس سال پاکستان سے خانۂ کعبہ کے لیے غلاف لے جایا گیا تھا، حضرت مولانا عبدالحامد بدایونی کی زیرِ قیادت، جو جلیل القدر علما غلاف لے کر گئے تھے، اُن میں آپ بھی شامل تھے۔ اس موقع پر مدینۂ منوّرہ میں قائدِ اہلِ سنّت حضرت علامہ شاہ احمد نورانی کا نکاح قطبِ مدینہ مولانا ضیاء الدین مدنی کی پوتی سے ہُوا، نکاح کے گواہوں میں حضرت جمیلِ ملّت بھی شامل تھے؛ نیز ، اسی موقع پر آپ کو حضرت قطبِ مدینہ سیّدی ضیاء الدین احمدقادری مدنی سے بیعت کا شرف حاصل ہُوا۔ دوسری مرتبہ حج و زیارت کی سعادت۱۹۸۰ء میں حاصل کی؛ نیز، آپ نے دس سے زیادہ مرتبہ عُمرے کرنے کا شرف بھی پایا۔
جہادِ کشمیرمیں مثالی کردار:
ستمبر ۱۹۶۵ء میں پاکستان اور انڈیا کی جنگ ہُوئی تو جمیلِ ملّت حضرت علامہ جمیل احمد نعیمی اور مفتی غلام قادر کشمیری نے جہادِ کشمیر کے حوالےسے مجاہدین کی مالی اِعانت کے لیے، مجاہدِ ملّت مولانا عبدالحامد بدایونی کی قیادت میں چونڈہ اور کشمیر کے مختلف شہروں کا دورہ کیا۔ اس وقت دس ہزار روپے نقد رقم آپ نے صدرِ آزاد کشمیر سردار محمد ابراہیم خان کے حوالے کی؛ اس کے علاوہ، کثیر مقدار میں خورد و نوش کا سامان جس کی مالیت تقریباً ۳؍ لاکھ روپے تھی، کراچی سے آپ اپنے ساتھ لے کر گئے تھے، وہ سامان آپ نے مظفرآباد کی مرکزی جامع مسجد سلطانی میں اپنے ہاتھوں سے تقسیم کیا۔ آپ اور آپ کے ساتھیوں نے نہ صرف سامان تقسیم کیا، بلکہ کشمیر کے فلک بوس پہاڑوں کا پیدل سفر کرکے اپنے وعظ اور تبلیغ کے ذریعے لوگوں کے دلوں میں جذبۂ جہاد بھی پیدا کیا۔ تاریخِ کشمیر میں علمائے اہلِ سنّت کا کردار آج بھی درخشاں باب کی حیثیت رکھتا ہے۔(’’حیاتِ جمیل معِ اَفکارِ جمیل‘‘،جلد دوم، ص 45)
جلوسِ عیدِ میلاد النبی ﷺ (بولٹن مارکیٹ تا نشتر پارک):
پہلے پہل، میلاد شریف کے جلوس میں کچھ غیرِ شرعی اُمور بھی پائے جاتے تھے، قائدِ ملّتِ اسلامیہ حضرت امام شاہ احمد نورانی صدّیقی کی تجویز و تحریک، جمیلِ ملّت حضرت علامہ جمیل احمد نعیمی کی کوششوں اور بعض دیگر بزرگوں کی حمایت و تعاون سے کراچی میں بولٹن مارکیٹ سے شروع ہو کر نشتر پارک پر اختتام پزیر ہونے والے شرعی تقاضوں سے ہم آہنگ عیدِ میلاد النبیﷺ کے جلوس کا آغاز ہُوا۔
اِس ضمن میں خود جمیلِ ملّت فرماتے ہیں:
’’شروع شروع میں انجمن مسلمانانِ پنجاب پاکستان بننے سے پہلے اور پاکستان بننے کے بعد عیدِ میلاد النبیﷺ کا جلوس نکالا کرتے تھے اور اس جلوس میں بینڈ باجے وغیرہ بجائے جاتے تھے۔ حضرت قائدِ اہلِ سنّت مولانا شاہ احمد نورانی ()نے اِس پر اعتراض کیا۔ حضرت کا موقف تھا کہ ہمارا جُلوس خالص مذہبی نوعیت کا ہونا چاہیے، جس میں نعت خوانی، ذکر و اَذکار اور علمائے کرام کی تقاریر ہونی چاہییں۔ میں نے حضرت کی اِس تجویز کو پسند کیا اور اس کام کا بیڑا اُٹھانے کا عزم کر لیا۔ اَلْحَمْدُ لِلہ، یہ سعادت بھی فقیر کو نصیب ہُوئی کہ جلوس کا روٹ یہ طے پایا کہ میمن مسجد بولٹن مارکیٹ سے شروع کیا جائے اور نشتر پارک میں ختم کیا جائے۔ یہ جلوس اُس وقت سے شروع ہُوا تھا اور آج۲۰۰۸ء میں ۳۶ سال ہو رہے ہیں اور بِحَمدِ اللہِ تَعَالٰی، آج بھی پوری آب و تاب سے یہ سلسلہ جاری و ساری ہے اور اِنْ شَآءَ اللہ، جب تک شمعِ رسالتﷺ کے پروانے موجود ہیں، یہ سلسلہ جاری رہے گا۔
اِس جُلوس کے بانی اَرکان میں یہ حضرات بھی تھے:
- قائدِ اہلِ سُنّت امام الشاہ احمد نورانی صدّیقی
- شیخ الحدیث علّامہ عبدالمصطفیٰ الازہری
- مجاہدِ ختمِ نبوّت صوفی ایاز خاں نیازی
- خطیبِ پاکستان مولانا محمد شفیع اوکاڑوی‘‘ (’’حیاتِ جمیل معِ اَفکارِ جمیل‘‘،جلد دوم، ص 45 تا 45)
انجمن محبانِ اسلام:
جمیلِ ملّت نے اکتوبر ۱۹۶۲ء کو ’’انجمن محبانِ اسلام‘‘ کے نام سے ایک تنظیم تشکیل دی، جس کے پہلے صدر محمد حسین لوائی بنے۔
انجمن طلبۂ اسلام:
جمیلِ ملّت نے ۲۰؍ جنوری ۱۹۶۸ء کو سبز مسجد صرافہ بازار میں ’’انجمن محبانِ اسلام‘‘ کا نام بدل کر ’’انجمن طلبۂ اسلام‘‘ رکھ دیا۔ یہ تنظیم اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے طلبہ کے دلوں میں عشقِ مصطفیٰﷺ جا گزیں کرنے اور اُن کے احوال کی اصلاح کرنے کے لیے قائم کی گئی۔
جماعتِ اہلِ سُنّت پاکستان کی نظامت:
جمیلِ ملّت ۱۵؍ جنوری ۱۹۷۱ء سے ۳۰؍ مارچ ۱۹۷۴ء تک جماعتِ اہلِ سنّت پاکستان کے ناظمِ اعلیٰ رہے۔
جمعیتِ علمائے پاکستان:
۱۹۷۰ء میں جب جمعیتِ علمائے پاکستان کے مختلف دَھروں کو ختم کر کے اس کی تشکیلِ نو کی گئی تو جہاں اُس کے متفقہ صدر حضرت خواجہ قمرالدین سیالوی اور ناظمِ اعلیٰ حضرت علامہ سیّد محمود احمد رضوی منتخب ہُوئے، تو وہیں اُس کے مرکزی عہدیداروں میں حضرت جمیلِ ملّت کا نام بھی سرِ فہرست تھا۔
آپ ۱۹۷۱ء سے ۱۹۷۲ء تک جمعیتِ علمائے پاکستان سندھ کے ناظم رہے۔ آپ کی خدمات کا اعتراف کرتے ہُوئے، قائدِ اہلِ سنّت علامہ شاہ احمد نورانی صدّیقی نے آپ کو ۱۹۷۰ء میں صوبائی اور ۱۹۸۸ء میں قومی اسمبلی کا ٹکٹ عطا فرمایا۔ نیز، آپ جمعیت علمائے پاکستان کی مرکزی مجلسِ عاملہ شوریٰ کے رُکن بھی رہے اور جمعیت علمائے پاکستان کی مرکزی سپریم کونسل کے چیئرمین بھی رہے۔ ۱۹۸۷ء سے ۱۹۹۵ء تک اس کے مرکزی صدر کے منصب پر بھی فائز رہے۔
مسجدِ آرام باغ اور صاحبِ دلائل الخیرات کا عرس:
حضرت جمیلِ ملّت نے حاجی محمد ہارون صاحب اور اُن کے رفقا کے ساتھ مل کر، پاکستان میں پہلی مرتبہ آرام باغ مسجد کراچی میں صاحبِ دلائل الخیرات حضرت شاہ محمد سلیمان جزولی کے سالانہ عرس کی تقریب کا آغاز کیا۔ یہ سلسلہ تسلسل کے ساتھ جاری و ساری ہے۔
تحریکِ پاکستان میں کردار:
تحریکِ پاکستان کے وقت اگرچہ حضرت جمیلِ ملّت نو عمر تھے، لیکن اس کے باوجود مسلم لیگ کے جلسے جلوس وغیرہ میں شریک ہونا، پاکستان کے حق میں نعرے لگوانا اور لیگی اخبارات کا تسلسل سے مطالعہ کرنا آپ کا پسندیدہ مشغلہ تھا۔
تحریکِ ختم نبوّتﷺ:
جمیلِ ملّتنے سترہ سال کی عمر میں ۱۹۷۳ء کی تحریکِ ختمِ نبوّتﷺ میں بھرپور کام کیا، ۱۹۷۴ء کی تحریکِ ختمِ نبوّتﷺ میں بھی اہم کردار ادا کیا، جلسے جلوس نکالے، اس تحریک کو کامیابی سے ہم کنار کرنے میں قربانیاں دیں۔
تحریکِ نظامِ مصطفیٰﷺ:
جمیلِ ملّت حضرت علامہ جمیل احمدنعیمینے ۱۹۷۷ء کی تحریکِ نظامِ مصطفیٰﷺ میں بھی حصّہ لیا اور اس میں بڑھ چڑھ کر کام کیا، اس تحریک کے دوران، جیل میں قید و بند کی صعوبتیں بھی جھیلیں۔
تحریکِ بحالیِ جمہوریت:
جب ملک میں جمہوریت کو خطرہ لاحق ہُوا، تو جمہوریت کو بحال کرنے کے لیے تحریکِ بحالیِ جمہوریت چلائی گئی، اُس تحریک میں بھی اپنے رفقائے کرام کے ساتھ بڑھ چڑھ کر حصّہ لیا۔
دارالعلوم نعیمیہ کراچی میں خدمات:
حضرت جمیلِ ملّت کا شمار دارالعلوم نعیمیہ کراچی کے بانی ارکان میں ہوتا ہے اور اس کےمینیجنگ ٹرسٹی ہونے کے ساتھ ساتھ اُستاذالحدیث اور ناظمِ تعلیمات کے منصب پر بھی فائز رہے۔
ترجمانِ اہلِ سنّت کی ادارت:
جمیلِ ملّت کی ادارت میں ماہ نامہ ’’ترجمانِ اہلِ سنّت‘‘ بھی نکلتا رہا، جس کے چند شمارے احقر کے پاس بھی موجود ہیں۔ تابشِ اہلِ سنّت حضرت علامہ محمد منشا تاؔبش قصوری دَامَتْ بَرَکَاتُھُمُ الْعَالِیَۃ لکھتے ہیں:
’’ترجمانِ اہلِ سنّت کے وہ شمارے یاد گار ہیں، جو آپ (جمیلِ ملّت) کی ادارت میں نکلتے رہے۔‘‘(’’حیاتِ جمیل معِ اَفکارِ جمیل‘‘،جلد دوم، ص 20)
تنظیم المدارس:
حضرت علامہ محمد منشا تاؔبش قصوری دَامَتْ بَرَکَاتُھُمُ الْعَالِیَۃ رقم طراز ہیں:
’’تنظیم المدارس اہلِ سنّت پاکستان کے قیام میں آپ (جمیلِ ملّت) کا ہاتھ نمایاں ہے۔‘‘ (’’حیاتِ جمیل معِ اَفکارِ جمیل‘‘،جلد دوم، ص 20)
ورلڈ اسلامک مشن پاکستان:
قائدِ ملّتِ اسلامیہ حضرت امام شاہ احمد نورانی صدّیقی نے ۱۹۹۷ء میں حضرت جمیلِ ملّت کو اُن کی خدمات کے اعتراف میں ورلڈاسلامک مشن (ٹرسٹ) کا ٹرسٹی مقرر کیا۔
جمیلِ ملّت ایک خطیب:
جمیلِ ملّت ایک عمدہ خطیب بھی تھے۔ اپنے اُستاذِ محترم تاج العلما حضرت علامہ مفتی محمدعمر نعیمی کے حکم پر ۱۹۵۶ء میں سبز مسجد صرّافہ بازار (کراچی) میں خطیب مقرر ہُوئےاور اس حکم پر عمر بھر عمل پیرا رہے۔ نیز، آپ نے مختلف پلیٹ فارمز، سے اور بے شمار محافل و مجالس میں بھی عمر بھر اپنی خطابت کے جوہر دکھائے ہیں۔
جمیلِ ملّت ایک مصنّف و مؤلّف:
جمیلِ ملّت اپنی گونا گوں تعلیمی و سیاسی مصروفیات کے باوجود، مختلف موضوعات پر قلم بھی اُٹھایا ہے۔ آپ نے جو کتب و رسائل تصنیف و تالیف فرمائے اور چَھپ کر منظرِ عام پر آئے، اُن کے نام یہ ہیں:
- سیرتِ پیغمبرِ انقلابﷺ
- پیغمبرِ اعظمﷺ
- سبیلِ امام حُسین کا شرعی حکم
- اساتذۂ کرام کی ذمّے داریاں
- علمائے اہلِ سنّت کے لیے لمحۂ فکریّہ
- برکاتِ صلاۃ و سلام معِ ندائے خیرالانامﷺ
- رمضان المبارک کے مسائل و فضائل
- عظیم دن اور عظیم راتیں
- گیارھویں شریف کے فُیوض و برکات
- فتنۂ قادیانیت کی سرکوبی میں علمائے اہلِ سنّت کا کردار
- حضرت امام جعفر صادق کی ولادت وشہادت کی تاریخ
- امریکا وبرطانیہ مسلمانوں کے ازلی دشمن ہیں
- فلسفہ ومسائلِ نماز
- فلسفہ وفضائلِ جہاد
- فاتحہ کی شرعی حیثیت
- فضائلِ شعبان المعظم
- فلسفۂ قربانی ومسائلِ عیدالاضحیٰ
- اسلام کا تصوّرِ قومیّت
- افضل التوسل بہ سیّدا لرسل ﷺ
- تبلیغی جماعت کی حقیقت
- شجرۂ مبارکہ حضراتِ چشتیہ صابریّہ
- حضور سیّدِ عالَمﷺ بَہ حیثیتِ مثالی شوہر
- کونڈوں نذرونیاز کی شرعی حیثیت
- روشن دریچے (جلدِ اوّل) (ذوالحجہ ۱۴۳۶ھ / ستمبر ۲۰۱۵ء)
- روشن دریچے (جلدِ دوم) یہ تکمیل کے مراحل میں تھی کہ حضرت کا وصال ہو گیا۔
- بانیانِ سلسلۂ نعیمیہ (رجب ۱۴۳۸ھ/ اپریل ۲۰۱۷ء)
- تاریخِ دارالعلوم نعیمیہ کراچی(۱۴۴۱ھ/ ۲۰۲۰ء)۔
نوٹ: ’’تاریخِ دارالعلوم نعیمیہ کراچی‘‘ کے صفحہ نمبر 2 پر، اس کی تاریخِ اشاعت: ’’محرم الحرام 1441ھ/ نومبر 2019ء‘‘ لکھی ہے؛ جب کہ صفحہ نمبر 6 پر، جمیلِ ملّت نے اپنے ’’اظہارِ تشکر‘‘ کی تاریخ: ’’6؍ جمادی الآخر 1441ھ مطابق 02 ؍جنوری 2020ء‘‘ رقم کی ہے، جس سے معلوم ہُوا کہ یہ کتاب ۲۰۲۰ء میں شائع ہُوئی ہے۔
اہلِ قلم کی سرپرستی و حوصلہ اَفزائی:
جمیلِ ملّت نے نہ صرف خود کتابیں لکھیں، بلکہ متعدد لکھنے والوں سے کتابیں لکھوا کر اُنھیں شائع بھی کیا، خود میری بھی تین کتابیں آپ نے شائع کی ہیں۔ آپ اہلِ قلم کی بڑی حوصلہ افزائی فرمایا کرتے تھے، اور اُن سے کام لیتے تھے، آپ ملاقات کے وقت، نیز فون کرکے بھی، کتاب کے حوالے سے پوچھا کرتے تھے کہ آج کل کیا کام ہو رہا ہے، کتاب کس مرحلے تک پہنچی۔
جمیلِ ملّت پر کتاب و خصوصی نمبر:
- ’’حیاتِ جمیل معِ اَفکارِ جمیل‘‘: جمیلِ ملّت کی حیاتِ مبارک ہی کے دوران، آپ کی حیات و خدمات پر، کتاب ’’حیاتِ جمیل معِ اَفکارِ جمیل‘‘ کی جلدِ اوّل ۱۴۲۹ھ/ ۲۰۰۸ء میں، جب کہ جلدِ دوم ۱۴۳۰ھ/ ۲۰۰۹ء میں شائع ہُوئی۔ اِس کے مؤلّف صاحبزادہ مولانا فیض الرسول نورانی ہیں۔ پہلی جلد کے کُل صفحات: ۳۶۸ ہیں؛ جب کہ دوسری جلد کے کُل صفحات: ۳۰۰ ہیں۔ یہ دونوں جلدیں مکتبۂ اہلِ سنّت، جامعہ نظامیہ رضویہ، لاہور، اندرونِ لوہاری گیٹ، لاہور سے شائع ہُوئیں۔
- سہ ماہی ’’اَنوارِ رضا(جوہرآباد)‘‘ کا ’’حضرت مفتی جمیل احمد نعیمی نمبر‘‘ یہ خصوصی نمبر ۲۰۲۰ء میں شائع ہُوا۔
جمیلِ ملّت ایک شاعر:
جمیلِ ملّت شعر و سخن کا بھی ذوق رکھتے تھے، اپنی تقاریر و تحاریر میں موقع و محل کی مناسبت سے برجستہ اَشعار بھی پیش فرماتے تھے؛ نیز، آپ خود بھی ایک اچھے شاعر تھے اور ’’نعیمی‘‘ تخلص کرتے تھے۔ چنانچہ آپ فرماتے ہیں:
’’1976ء میں جب میں اپنی والدۂ ماجدہ اور اہلیۂ کے ساتھ عمرے کی سعادت حاصل کرنے کے لیے حاضر ہُوا تو روضۂ رسولﷺ کے سامنے حاضری کے وقت، میں نے یہ اَشعار تحریر کیے:
مدینے کے صبح اور شام، اللہ اللہ!
ہیں وقفِ دُرود و سلام، اللہ اللہ!
منوّر، معطّر فضائیں جہاں کی
یہی ہے وہ اَرضِ حَرام، اللہ اللہ!
ملائک جہاں سر جھکاتے ہیں ہر دم
یہی ہے وہ اعلیٰ مقام، اللہ اللہ!
جو مانگا کسی نے اُسے وہ مِلا ہے
یہ اپنا نصیبِ مَرام، اللہ اللہ!
بُلائیں گے آقا، نعیمیؔ! دوبارہ
یہی ہے دعا صبح و شام، اللہ اللہ!‘‘
(’’حیاتِ جمیل معِ اَفکارِ جمیل‘‘،جلد دوم، ص 118؛ سہ ماہی ’’اَنوارِ رضا جوہرآباد‘‘ کا’’حضرت مفتی جمیل احمد نعیمی نمبر‘‘، ۲۰۲۰ء، ص 238)
ماہ نامہ ’’ترجمانِ اہلِ سنّت‘‘، کراچی کے کسی شمارے میں علمائے اہلِ سنّت کی مدح میں آپ کا کلام نظر سے گزرا، پھر وہ ’’حیاتِ جمیل مع اَفکارِ جمیل‘‘ (جلدِ اوّل، ص 30) میں نظر آیا۔
وہ کلام ذیل میں درج کیا جاتا ہے:
بوئے گُلِ رسالت علمائے اہلِ سنّت
بادِ سیمِ سنّت علمائے اہلِ سنّت
تنویرِ نورِ وحدت علمائے اہلِ سنّت
روشن چراغِ ملّت علمائے اہلِ سنّت
بادِ کرم کے جھونکے، ابرِ کرم کے دھارے
بحرِ عطائے رحمت علمائے اہلِ سنّت
مہر و مہِ شریعت، نورِ رہِ طریقت
سرچشمۂ عنایت علمائے اہلِ سنّت
ماہر اُصول کے ہیں، نائب رسولﷺ کے ہیں
سلطانِ مُلک و ملّت علمائے اہلِ سنّت
شانِ جمالِ رحمت، کانِ جلال و عظمت
کونین کی ہیں دولت علمائے اہلِ سنّت
سنّی کو بخشیں طاقت، رضوی کو بخشیں قوّت
ہیں دین کی شجاعت، علمائے اہلِ سنّت
مقصد تمھارا اعلیٰ، سب مقصدوں سے بالا
ہے ’’مصطفیٰﷺ کی عظمت‘‘،علمائے اہلِ سنّت!
حق کا ہے بول بالا، باطل کا مُنھ ہے کالا
کیا خوب ہے ہدایت علمائے اہلِ سنّت
دے دیں نعیمیؔ کو بھی دستِ کرم کا صدقہ
دنیا و دیں کی نعمت علمائے اہلِ سنّت
سُنّی انسائیکلوپیڈیا:
جمیلِ ملّت کو اکابر علما و مشائخ ِ اہلِ سنّت کی تاریخ ازبر تھی، آپ اُن سے محبت رکھتے اور اپنی مجالس میں کا اکثر اُن کا ذکرِ خیر فرماتے؛ اُن سے متعلق کتب لکھواتے اور چھپوا کر شائع کراتے رہتے تھے۔ تابشِ اہلِ سنّت حضرت علامہ محمد منشا تاؔبش قصوری دَامَتْ بَرَکَاتُھُمُ الْعَالِیَۃ تو آپ کے بارے میں یوں لکھتے ہیں:
’’جمیل ملّت، جمیل العلماء و المشائخ کا سینۂ بے کینہ تواریخ کا حسین دفینہ ہے۔ ان کے قلبِ جمیل میں بیسیوں علما و مشائخ اور تاریخی ہستیوں کے واقعات محفوظ ہیں۔ راقم نے بارہا عرض کیا کہ حضرت! اپنی یاد داشتوں کو نوکِ قلم پر لائیں، آپ ہمارے لیے ’’سُنّی انسائیکلوپیڈیا کی حیثیت رکھتے ہیں۔‘‘
(’’حیاتِ جمیل معِ اَفکارِ جمیل‘‘،جلد دوم، ص 21)
تبلیغی دورے:
جمیلِ ملّت نے ۱۹۶۱ء میں دیو دمّن (ہندوستان) اور گوا کا تین ماہ کا تبلیغی دورہ کیا، اس دورے کے موقع پر، آپ کے دستِ مبارک پرمتعدد ہندو اور عیسائی مشرف بَہ اسلام ہُوئے۔ علاوہ ازیں، ۱۹۸۱ء میں سری لنکا، ۱۹۸۲ء میں حکومتِ ایران کی دعوت پر ایران ، اگست ۱۹۸۴ء میں انگلینڈ اور اکتوبر ۱۹۸۵ء میں مظفّرآباد آزاد کشمیرکا دورہ کیا۔ ۱۹۸۷ء میں حضرت امام شاہ احمد نورانی کی قیادت میں بغداد میں منعقدہ عظیم الشان کانفرنس میں شرکت کی۔ نیز، تقریباً ہر سال رمضان المبارک میں آپ عرب امارات کے تبلیغی دورے پر تشریف لے جایا کرتے تھے۔
حُسنِ اَخلاق و اَصاغر نوازی:
جمیلِ ملّت حُسنِ اخلاق میں اپنی مثال آپ تھے، آپ چھوٹے سے چھوٹے فرد کے ساتھ بھی، بڑی خوش اخلاقی سے پیش آتے، جو لوگ آپ کی خدمت میں اکثر حاضری کا شرف پایا کرتے تھے، وہ کبھی کسی وجہ سے دو تین ہفتے نہ آپاتے تو فون کرکے اُن کی خیریت دریافت کرتے، اور اُنھیں آنے کی دعوت دیتے، خود مجھ پر بھی حضرت نے ایسی شفقت متعدد بار فرمائی ہے۔ آپ ضرورت مند حضرات کی مالی امداد بھی فرماتے تھے، اور جب کوئی آپ کا شکریّہ ادا کرتا تو آپ فرماتے کہ آپ کا شکریّہ کہ آپ نے فقیر کا نذرانہ قبول فرمایا۔
مہمان نوازی:
آپ بڑے مہمان نواز واقع ہُوئے تھے: چائے، کولڈ ڈرنک وغیرہ سے ہمیشہ مہمانوں کی خاطر مدارات کرتے، کتابوں کا تحفہ عطا فرماتے، خوشبو لگانے کے لیے عطر کی شیشی آگے بڑھاتے۔
امام شاہ احمد نورانی سے رفاقت:
جمیلِ ملّت کی حضرت امام شاہ احمد نورانی صدّیقی سے ۱۹۵۲ء میں شناسائی ہُوئی اور رفاقت و دوستی کا رشتہ قائم ہُوا، جو نہ صرف حضرت شاہ احمد نورانی کے وصال (۲۰۰۳ء) تک قائم رہا، بلکہ آپ نےخود اپنے وصال تک بھی اِسے نبھایا۔ آپ تقریباً ہر مجلس میں حضرت امام شاہ احمد نورانی کا ذکرِ خیر فرمایا کرتے تھے۔مدینۂ منوّرہ میں، ۲۵؍ ذوالحجہ ۱۳۸۲ھ مطابق ۱۹؍ مئی ۱۹۶۳ءبروزِ اتوار، جب قطبِ مدینہ حضرت مولانا ضیاءالدین احمد مدنی کی پوتی محترمہ اَمَۃُ الرَّحْمٰن سلمہ بنتِ فضیلۃ الشیخ حضرت مولانا محمد فضل الرحمٰن مدنی سے امام نورانی کا نکاح ہُوا، تو اُس نکاح کے گواہوں میں جمیلِ ملّت کا نام بھی شامل ہے؛ جب کہ دوسرے گواہ مفتیِ اعظم کشمیر حضرت مولانا غلام قادر کشمیری تھے۔
حضرت جمیلِ ملّت نے ۲۹؍ محرم الحرام ۱۴۳۱ھ مطابق ۱۶؍ جنوری ۲۰۱۰ء بروز ہفتہ، دارالعلوم نعیمیہ (کراچی) میں دورانِ گفتگو،مجھے بتایا کہ ۱۹۶۳ء میں جب وہ مدینۂ منوّرہ حاضر ہُوئے تھے، تو اُس موقع پر حضرت علامہ شاہ احمد نورانی صدّیقی اُنھیں اپنے والدِ ماجد مبلغِ اعظم علامہ شاہ محمد عبدالعلیم صدّیقی کے مکان میں لے کر گئے اور بتایا کہ میرے والدِ ماجد نے اِس حدیث :
’’جس سے ہو سکے کہ مدینے میں مَرے، تو اُسے چاہیے کہ وہ مدینے ہی میں مَرے۔‘‘
پر،عمل کرتے ہُوئے اپنی عمر کے آخری حصّے میں مدینۂمنوّرہ میں یہ گھر بنایا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کی یہ تمنّا پوری فرمائی کہ مدینے میں موت آئے اور وہیں پر تدفین بھی ہو۔
’’ندائے انجمن‘‘ کو دیے گئے اپنے ایک انٹرویو میں جمیلِ ملّتفرماتے ہیں:
’’قابلِ فخر ہیں وہ لمحات جو قائدِ اہلِ سنّت امام شاہ احمد نورانی کی رفاقت میں گزرے۔‘‘
(’’حیاتِ جمیل معِ اَفکارِ جمیل‘‘،جلد ِ اوّل، ص 89)
آپ اپنے ایک دوسرے انٹرویو میں فرماتے ہیں:
’’اپنے والدِ ماجد اور حضرت قائدِ اہلِ سنّت امام نورانی کے وصال پر بہت رویا ہوں۔‘‘
(’’حیاتِ جمیل معِ اَفکارِ جمیل‘‘،جلددوم، ص 102)
امام نورانی سے جمیلِ ملّت کی رشتے داری:
حضرت جمیلِ ملّت نے ۲۹؍ محرم الحرام ۱۴۳۱ھ مطابق ۱۶؍ جنوری ۲۰۱۰ء بروز ہفتہ، دارالعلوم نعیمیہ (کراچی) میں دورانِ گفتگو،اِس فقیر (ندیم احمد نؔدیم نورانی) کو جو معلومات فراہم کی، اُس کا خلاصہ درجِ ذیل ہے:
’’قائدِ اہلِ سنّت حضرت علامہ شاہ احمد نورانی صدّیقی کے برادرِ اصغر محترم حماد سبحانی میاں مدّ ظلہ العالی کی شادی روزنامہ آغاز کے مالک مرحوم محمدعمرفاروقی صاحب کی نواسی آمنہ سے ہُوئی، اور سبحانی میاں کی ساس صاحبہ، حضرت جمیلِ ملّت کی اہلیۂ محترمہ کی پھوپھی زاد بہن ہیں۔ محمد عمرفاروقی کے بیٹے محمد انور فاروقی ہیں۔‘‘
خستہ حال ٹیکسی میں سفر، گاڑی کیوں نہیں خریدی:
آپ نے ایک ملاقات میں راقم الحروف (ندیم احمدنؔدیم نورانی) سے فرمایا کہ ’’میں چاہوں تو ایک ڈیڑھ لاکھ کی کوئی گاڑی لے سکتا ہوں، لیکن جب یہ سوچتا ہوں کہ میرے قائد شاہ احمد نورانی نے گاڑی نہیں خریدی تو گاڑی خریدنے کا خیال ترک کر دیتا ہوں‘‘۔ چنانچہ جمیلِ ملّت نے اپنے سفر کے لیے ایک ٹیکسی ڈرائیور ’’سعید‘‘ کو متعیّن کیا ہُوا تھا اور اکثر مجھے اُس ٹیکسی میں بٹھا کر، دارالعلوم نعیمیہ سے بس اسٹاپ تک اور کبھی کبھی نیپا چورنگی تک ڈراپ بھی کیا کرتے تھے اور اُسی ٹیکسی میں ۱۲؍ جمادی الآخرہ ۱۴۳۸ھ مطابق ۱۲؍ مارچ ۲۰۱۷ء بروز اتوار، دوپہر کے کھانے پر، آپ دارالعلوم نعیمیہ(کراچی) سے میرے ساتھ ناظم آباد نمبر1 میں واقع میرے غریب خانے تشریف بھی لائے، اور کرایہ بھی خود ہی ادا کیا۔ کبھی کبھی آپ رکشے میں بھی سفر فرمایا کرتے تھے۔
شریکِ حیات:
جمیلِ ملّت کو اپنی شریکِ حیات محترمہ فیروزہ بیگم سے بڑی محبّت تھی، اکثر مجھ سے اُن کی صحت یابی و سلامتی کے لیے دعا کرنے کو کہا کرتے تھے، اُن کی خوشی کا خیال رکھا کرتے تھے، میں نے اپنی کتاب مسمّٰی بَہ اسمِ تاریخی: ’’علامہ حاجی محمد بشیر صدّیقی کا سفرِ زندگی(۱۴۳۸ھ)‘‘ و ملقب بَہ لقبِ تاریخی: ’’یک اجل تحریر در حیاتِ بشیر(۲۰۱۷ء)‘‘ کے ٹائٹل پر یہ عبارت درج کروائی:
’’حسبِ ارشاد و بَاِہتمام: جمیلِ ملّت علّامہ جمیل احمد نعیمی ضیائی‘‘
پھر آپ کو دکھائی تو آپ نے فرمایا کہ اِس عبارت کے آخر میں ’’چشتی صابری‘‘ کا بھی اضافہ کروالیں، میری اہلیہ اس بات کی شکایت کرتی ہیں کہ آپ ’’ضیائی‘‘ کی نسبت تو لکھتے ہیں میرے والدِ ماجد نے جو آپ کو خلافت عطا فرمائی ہے اُن کی نسبت ’’چشتی صابری‘‘ تحریر نہیں کرتے۔
چنانچہ حضرت کے حکم پر میں نے ٹائٹل پر ’’چشتی صابری‘‘ کی نسبت کا اضافہ کر دیا۔ اِس سے یہ معلوم ہُوا کہ جمیلِ ملّت کو اپنی اہلیۂ محترمہ کی خوشی کا کتنا خیال تھا۔ وہ خود بھی بڑی پاک طینت و بااخلاق خاتون ہیں اورسدا آپ کی وفا شعار و اطاعت گزار رہیں، جس کا اعتراف،حضرت جمیلِ ملّت اِن اَلفاظ میں کرتے ہیں:
’’اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور اُس کے محبوبﷺ کے صدقے چالیس سال سے زائد کا عرصہ ہوگیا ہے، فقیر رشتۂ اِزدِاج سے منسلک ہے۔ اِس عرصے میں خانوادۂ علمی حضرت شیخ المشائخ الشاہ کرامت اللہ دہلوی () کی پوتی اور حضرت علّامہ حافظ محمد مسعود صاحب چشتی صابری () کی صاحبزادی میری اہلیہ ہیں۔ میں نے اپنی اہلیہ کو اپنا اطاعت گزار اور وفا شعار پایا۔ اَلْحَمْدُ لِلہ! ایک مرتبہ حج اور متعدد مرتبہ عمرے کی غرض سے جب میں دیارِ حبیبﷺ حاضر ہُوا تو میری اہلیہ میری خدمت میں مستعد رہیں اور کفایت شعار ہونے کے ساتھ ساتھ سلیقہ مند خاتون بھی ہیں؛ نیز، خوشی اور غمی، خوش حالی اور تنگ دستی میں احقر کا ساتھ دیا۔ اَحکامِ شریعت، عبادت و ریاضت اور دُرود و سلام کی حتی الوسع پابندی کرتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنے حبیبِ پاک، صاحبِ لَوْلَاکﷺ کے صدقے، اُن کو صحت اور سلامتیِ ایمان کے ساتھ رکھے۔
وہ مسکرائے، جان سی کلیوں میں پڑ گئی
دیکھا جو مسکرا کے تو گلشن بنا دیا‘‘
(’’حیاتِ جمیل معِ اَفکارِ جمیل‘‘،جلد دوم، ص 117)
جمیلِ ملّت کی اولاد:
حضرت جمیلِ ملّت کی بھتیجی محترمہ رِضوانہ عُرف صَفیّہ، اور آپ کی اہلیۂ محترمہ کے بھانجے جناب اعجاز احمد صاحب سے موصول شدہ معلومات کے مطابق، آپ کی کوئی اَولاد نہیں تھی، نہ کوئی بیٹا اور نہ ہی کوئی بیٹی۔ لہٰذا، یہ بات غلط فہمی پر مبنی ہے کہ آپ کی بیٹیاں تھیں۔
بہن بھائی:
حضرت جمیلِ ملّت کے والدِ ماجد جناب قادر بخش کو اللہ تعالیٰ نے تین بیٹوں اور دو بیٹیوں سے نوازا، جن کے نام، بَہ ترتیبِ ولادت، حسبِ ذیل ہیں:
- محمد صدّیق: آپ لیاقت آباد نمبر ۲، نزدِ سی ون ایریا
(کراچی) کے قبرستان میں مدفون ہیں۔ آپ کی اہلیۂ محترمہ کا نام: قمرالنساء بیگم ہے۔
- قُرَیشہ: آپ کی قبر لانڈھی ساڑھے تین نمبر(کراچی) کے قبرستان میں ہے۔
- محمد سعید احمد: آپ نئی کراچی کے قبرستان میں مدفون ہوئے۔ آپ کی اہلیۂ محترمہ کا نام: شمیم بیگم ہے۔
- جمیل احمد نعیمی: آپ محمد شاہ قبرستان (نارتھ کراچی) میں سپردِ خاک کیے گئے۔ آپ کی زوجۂ محترمہ کا نام: فیروزہ بیگم ہے۔اللہ تعالیٰ اِنھیں صحت و عافیت اور ایمان کی سلامتی کے ساتھ سلامت رکھے!
- اقبال بیگم: آپ، اَلْحَمدُ للہ، بَہ قیدِ حیات ہیں، کراچی کے علاقے سرجانی ٹاؤن میں رہائش پزیر ہیں۔
بہن بھائیوں سے متعلّق مذکورۂ بالا تفصیل مجھے حضرت جمیلِ ملّت کی بھتیجی محترمہ رِضوانہ عُرف صَفیّہ بنتِ جناب محمد صدّیق صاحب سے حاصل ہُوئی۔اِس تفصیل سے معلوم ہُوا کہ اِس وقت حضرت کے بہن بھائیوں میں سے صرف ایک بہن اقبال بیگم ہی بَہ قیدِ حیات ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ انھیں اور حضرت کی اہلیۂ محترمہ کو صحت و عافیت اور ایمان کی سلامتی کے ساتھ سلامت رکھے اور جمیلِ ملّت اور اُن کے والدین اور تمام بہن بھائیوں کی مغفرت فرمائے ، اعلیٰ علیین و جنّت الفردوس میں بلند درجات سے نوازے اور تا صبحِ قیامت اِن کی قبور پر رحمت و اَنوار کی بارش برسائے۔
آمِیْن بِجَاہِ سَیِدِ الْمُرْسَلِیْنَﷺ!
جمیلِ ملّت سے میری رشتے داری:
جمعۃ المبارک، ۱۱؍ ذیقعد ۱۴۴۱ھ مطابق ۳؍ جولائی ۲۰۲۰ء کو، میری اہلیہ کی بڑی بہن زُبَیدہ نازکی بیٹی خَولہ بنتِ جناب سیّد واجد علی کی شادی،جمیلِ ملّت حضرت علامہ جمیل احمد نعیمی کی بھتیجی رِضوانہ عُرف صَفیّہ کے فرزند جناب سیّد رَطَاب عُرف کاشان ولدسیّد ریحان سے ہُوئی۔ اِس طرح یہ فقیر (ندیم احمد نؔدیم نورانی) حضرت جمیلِ ملّت کے بڑے بھائی محمد صدّیق کے نواسے رَطاب عُرف کاشان کا خلیا سسر ہُوا۔
مُریدین:
اپنے وصال سے ۶؍ سال پہلے، گیارھویں شریف کے دن، ۱۱؍ ربیع الآخر ۱۴۳۶ھ مطابق یکم فروری ۲۰۱۵ء بروزِ اتوار، دوپہر ساڑھے بارہ بجے، دارالعلوم نعیمیہ کراچی میں حضرت جمیلِ ملّت نے جس خوش نصیب بچے کو اپنا پہلامرید ہونے کا شرف بخشا تھا، وہ تھا محترم سیّد عبدالصمد صاحب زِیْدَ مَجْدُہٗ کا فرزندِ دل بند: ’’سیّد محمد حسن‘‘۔ اُس وقت،میں بھی وہیں دارالعلوم میں موجود تھا، اُسی موقع پر میں نے اپنی کتاب’’جب جب تذکرۂ خُجندؔی ہُوا‘‘ دیکھی تھی، جسے حضرت جمیلِ ملّت نے شائع کروایا تھا، اور اُس کے چند روز بعد ۸؍ مارچ کو اُس کتاب کی تقریبِ رونُمائی بھی منعقد کرائی تھی۔ اُس بچے کو مُرید کرنے کے سترہ دن بعد، بروزِ بدھ ۲۸؍ ربیع الآخر ۱۴۳۶ھ مطابق ۱۸؍ فروری ۲۰۱۵ء کو دارالعلوم نعیمیہ (کراچی) ہی میں حضرت مفتی منیب الرحمٰن مد ظلہ العالی کے کمرے میں، دوسرے نمبر پر، میرے چاروں بچوں: حُمیرا، اُمامہ، مریم اور محمد عُزیر احمد نورانی کو مُرید ہونے کی سعادت بخشی، اسی موقع پر، مجھے طالب ہونے کا شرف بھی عطا فرمایا اور پھر اتوار ۱۲؍ جمادی الآخرہ ۱۴۳۸ھ مطابق ۱۲؍ مارچ ۲۰۱۷ء کو میرے غریب خانے پر تشریف لائے تو اُس موقع پر میری اہلیہ راشدہ عُرف فاز کو بھی اپنے ذریعے سلسلۂ چشتیہ صابریّہ میں طالب ہونے کی سعادت عطا فرمائی، جو پہلے ہی سے مسعودِ ملّت حضرت علامہ پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود احمد نقشبندی مجددی مظہری سے شرفِ بیعت رکھتی ہیں۔
خلفا:
وصال سے چند سال پہلے تک حضرت جمیلِ ملّت نے کسی کو اپنا خلیفہ نہیں بنایا تھا، لیکن پھر جب لوگوں کے اِصرار پر، یہ سلسلہ شروع کیا تو جہاں آپ نے بہت سے علمائے کرام کو خلافت سے نوازا، وہیں انجمن ضیائے طیبہ کراچی سے وابستہ دو اَفراد یعنی سرپرست انجمن ضیائے طیبہ مفتی محمد اکرام المحسن فیضی مدظلہ العالی اور اِس فقیر (ندیم احمد نؔدیم نورانی) کوبھی شرفِ اجازت و خلافت عطا فرمایا؛ نیز انجمن ضیائے طیبہ ہی کے چیئرمین علّامہ سیّد محمد مبشر قادری زِیْدَ مَجْدُہٗ کو بھی اجازت سے سرفراز کیا۔
علالت:
وصال سے کچھ عرصہ قبل، حضرت جمیلِ ملّت علالت کا شکار ہو کر گھر میں صاحبِ فراش ہو گئے، کچھ روز تو شدید ہچکیاں لگی رہیں، بعد میں قے (اُلٹیاں) بھی آنے لگیں، نتیجتاً کافی کمزوری و نقاہت طاری ہو گئی۔ حاجی حنیف طیّب صاحب زِیْدَ مَجْدُہٗ کے علم میں یہ بات آئی تو آپ نے اصرار کیا کہ انھیں المصطفیٰ ویلفیئر ہسپتال میں داخل کرادیا جائے۔ چنانچہ وصال سے دس بارہ روز قبل، آپ المصطفیٰ ویلفیئر ہسپتال(گُلشنِ اقبال، کراچی) کی چوتھی منزل پر واقع آئی سی یو روم میں داخل ہوگئے۔ چنانچہ جمعۃ المبارک، ۲۶؍ ربیع الاوّل ۱۴۴۲ھ مطابق ۱۳؍ نومبر ۲۰۲۰ء کو دوپہر تقریباً ساڑھے بارہ بجے، یہ فقیر (ندیم احمد نؔدیم نورانی) آپ کی عیادت کے لیے ہسپتال پہنچا، جہاں آپ کی اہلیۂ محترمہ آئی سی یو وارڈ کے باہر بیٹھی ہُوئی تھیں، پہلے اُن سے ملاقات ہُوئی اور اُن ہی سے حضرت کی علالت، نیز، ہسپتال میں داخلے کی مذکورۂ بالا تفصیل حاصل ہُوئی نیز آپ نے یہ خوش خبری بھی دی کہ طبیعت پہلے سے بہتر ہے، ڈاکٹرز کہہ رہے ہیں کہ آج انھیں آئی سی یو سے جنرل وارڈ میں شفٹ کر دیں گے؛ پھر آپ ہی کی رہ نمائی سے میں آئی سی یو روم میں حضرت کی عیادت کے لیے حاضر ہُوا۔ آپ کی دست بوسی کی، آپ کی صحت یابی کے لیے دعائیں کیں اور آپ سے دعا کا خواست گار ہُوا۔ حضرت جمیلِ ملّت نے فرمایا کہ طبیعت پہلے سے بہتر ہے، اب صرف کمزوری محسوس ہو رہی ہے، آپ دعا کیجیے گا۔ اس طرح میں اللہ ربّ العزّت کا شکر ادا کرتے ہُوئے، ہسپتال سے خوشی خوشی لوٹا۔ کیا خبر تھی کہ چار دن بعد حضرت جمیلِ ملّت دارِ فنا سے دارِ بقا کی طرف رحلت فرما کر، اپنے چاہنے والوں کے دلوں میں اپنے غم کی ایک نئی دنیا آباد کرجائیں گے۔
وصالِ پُر ملال:
وصال سے دو روز قبل، حضرت جمیلِ ملّت کو المصطفیٰ ویلفیئر ہسپتال سے منتقل کر کے، ڈاؤ میڈیکل کووِڈ سینٹر (نیپا چورنگی، گُلشنِ اقبال، کراچی) میں، قرنطینہ کر دیا گیا، جہاں حضرت جمیلِ ملّت، منگل، یکم ربیع الآخر ۱۴۴۲ھ مطابق ۱۷؍ نومبر ۲۰۲۰ء کا دن گزار کر، ساڑھے گیارہ بجے شب، خالقِ حقیقی سے جا ملے۔
اِنَّا لِلہِ وَ اِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ!
بچھڑا کچھ اِس ادا سے کہ رُت ہی بدل گئی
اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا
اپنے ایک آفس کے ساتھی اور دوست مدثر اکرام کے ٹیکسٹ میسج سے مجھے حضرت جمیلِ ملّت کے وصال کی اندوہ ناک خبر کی اطلاع ملی، پھر بعدِ فجر، برادرِ طریقت حضرت مولانا منوّر احمدنعیمی نورانی زِیْدَ مَجْدُہٗ (دارالعلوم نعیمیہ، کراچی) سے اس خبر کی تصدیق ہو گئی۔ اِس خبر نےمجھے ہلا کر رکھ دیا، اور کچھ دیر کے لیے سکتے میں ڈال دیا۔
نمازِ جنازہ:
بدھ، یکم ربیع الآخر ۱۴۴۳ھ مطابق ۱۸؍ نومبر۲۰۲۰ء، بعدِ نمازِ ظہر، دارالعلوم نعیمیہ(کراچی) میں مفتیِ اعظم پاکستان حضرت مفتی پروفیسر منیب الرحمٰن دَامَتْ بَرَکَاتُھُمُ الْعَالِیَۃ نے پہلے حضرت جمیلِ ملّت کی شان میں کچھ تعریفی و توصیفی کلمات ارشاد فرمائے؛ بعد ازاں، ۲؍ بج کر ۹؍ منٹ پر نمازِ جنازہ کی امامت اور حضرت کی مغفرت و بلندیِ درجات کے لیے دعا فرمائی۔
شُرکائے نمازِ جنازہ:
نمازِ جنازہ میں امیر مرکزی جماعتِ اہلِ سنّت پاکستان پیر میاں عبدالخالق قادری آف بھرچونڈی شریف،مفتیِ اعظم سندھ مفتی محمدجان نعیمی، علامہ سیّد عظمت علی شاہ ہمدانی (دارالعلوم قمرالاسلام، کراچی) مفتی محمدعبدالعلیم قادری، صاحبزادہ مفتی محمد زبیر ہزاروی(مہتمم دارالعلوم غوثیہ، کراچی)،مفتی اللہ بخش قادری، ابوالمکرم پیر علامہ ڈاکٹر سیّد محمد اشرف اشرفی الجیلانی، مفتی محمد الیاس رضوی، مفتی رفیق الحسنی، مفتی غلام نبی فخری،مفتی فیاض احمد نقشبندی، جانشینِ مسعودِ ملّت صاحبزادہ مولانا ابوالسرور محمد مسرور احمد نقشبندی مسعودی، مفتی محمد اسماعیل حُسین نورانی، علامہ محمد عبداللہ نورانی، علامہ سیّد محمدصدّیق نعیمی نورانی، علامہ سیّد زاہدسراج قادری، مفتی رفیع الرحمٰن نورانی، مولانا عبدالرحمٰن صدّیقی نورانی، مفتی عابد مبارک، علامہ جہانگیر صدّیقی، ابوالحماد علامہ محمداسرارقادری، ملک محمدشکیل قاسمی، علامہ عبدالمتین نعیمی، بلال سلیم قادری، علامہ قاضی احمدنورانی، علامہ سیّد عقیل انجم قادری،مفتی محمدغوث صابری، مستقیم نورانی، ڈاکٹرسیّد محمدعلی شاہ، علامہ محمداشرف گورمانی، سرپرستِ انجمن ضیائے طیبہ و ایڈیٹر اِن چیف ماہ نامہ ضیائے طیبہ کراچی نبیرۂ بیہقیِ وقت مفتی محمد اکرام المحسن فیضی، بانیِ انجمن ضیائے طیبہ سیّد اللہ رکھا قادری ضیائی اور اُن کے فرزند چیئرمین انجمن ضیائے طیبہ و ایڈیٹر ماہ نامہ ضیائے طیبہ کراچی علّامہ سیّد محمد مبشر قادری، مفتی محمد سیف اللہ باروی( اُستاذ دارالعلوم حنفیہ غوثیہ، کراچی و سابق مفتی دارالافتا، انجمن ضیائے طیبہ، کراچی)، مفتی محمد احسن اُویسی(ناظم و مدرّس دارالعلوم میمن، نیو میمن مسجد، بولٹن مارکیٹ کراچی و سابق مفتی دارالافتا انجمن ضیائے طیبہ، کراچی) محترم محمد مقصود حُسین اُویسی نوشاہی، قاری نیازحسین اکرمی، سیّد عمران حسین، محمدعلی قریشی،اے ٹی آئی کے مرکزی ڈپٹی جنرل سیکرٹری نبیل مصطفائی، عبدالغنی شاہزیب، اُسامہ مصطفیٰ اعظمی، محمد فیصل گھڑیالی، انجمن ضیائے طیبہ کراچی کے گرافکس ڈیزائنر محمد مدثر اکرام، اور دارالعلوم نعیمیہ کے اساتذہ و طلبہ و عملہ؛ نیز، یہ اَحقر (ندیم احمدنؔدیم نورانی) اور اَحقر زادہ محمد عُزیر احمد نورانی سمیت کثیر علما و مشائخ و عوامِ اہلِ سنّت نے شرکت کی سعادت حاصل کی۔
شرکائے جنازہ کی مذکورۂ بالا فہرست میں جو نام درج ہیں، اُن میں سے کچھ نام تو میں نے صاحبزادہ مولانا زُبیر ہزاروی صاحب کے فیس بُک پیج سے لیے ہیں اور اکثر و بیشتر نام اپنے ذاتی مشاہدے کی بنا پرشامل کیے۔
رحلت(انتقال) کا سبب اور وقت:
اگرچہ مشہور یہی ہے کہ حضرت جمیلِ ملّت کی رحلت(انتقال)، کَرونا(Coronavirus) کے سبب ہُوئی؛ لیکن در حقیقت یہ سبب متعیّن نہیں ہے۔
جمیلِ ملّت کی اہلیۂ محترمہ کے بھتیجے جناب اعجاز احمد صاحب کے مطابق ڈاؤمیڈیکل کووِڈ سینٹر(نیپا چورنگی، گُلشنِ اقبال، کراچی) کی طرف سے جو سندِ رحلت یعنی موت کاتصدیق نامہ(Death Certificate) دیا گیا ہے، اُس میں سببِ رحلت سے متعلق یہ اَلفاظ لکھے ہیں:
“Corona/ Cardiac Arrest”
جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی رحلت کرونا کی وجہ سے ہُوئی ہے یا پھر ہارٹ اٹیک کے سبب؛ البتہ جناب اعجاز احمد صاحب نے اِس بات کی تصدیق کی ہے کہ آپ کی کرونا (Corona)کی رپورٹ مُثبت(Positve) آئی تھی؛ جس کے مطابق، آپ کرونا میں مبتلا ہو گئے تھے۔
اعجاز بھائی کے مطابق اِسی ڈیتھ سرٹیفیکیٹ میں آپ کی رحلت کا وقت: رات ساڑھے گیارہ بجے لکھا ہے۔
آخری دیدار :
نمازِ جنازہ کے بعد دارالعلوم نعیمیہ میں، حضرت جمیلِ ملّت کا آخری دیدار کرایا گیا اور پھر تدفین کے وقت بھی بعض حضرات کویہ سعادت حاصل ہُوئی۔ اِس موقع پر بھی مجھے اور میرے بیٹے محمد عزیر احمد نورانی کو تقریباً ساڑھے تین بجے سہ پہر حضرت کے آخری دیدار کا شرف حاصل ہُوا۔
تدفین:
محمد شاہ قبرستان (نارتھ کراچی، نزد ڈسکو موڑ) میں واقع ایک اِحاطے میں آپ کی تدفین عمل میں آئی۔ یہ اِحاطہ دربارِ چشتیہ کے
بالمقابل چند قدم آگے واقع ہے۔ اس احاطے کے متعلق حضرت جمیلِ ملّت کی اہلیۂ محترمہ کے بھانجے جناب اعجاز احمد صاحب سے موصول شدہ معلومات کا خلاصہ یہ ہے:
’’حضرت جمیلِ ملّت کے ایک دیرینہ معتقد جناب رشید صاحب کی ملکیت میں ہے، جس میں اُن کے والدین اور ایک بہن کی قبریں پہلے ہی سے ہیں اور خود رشید صاحب بھی وہیں دفن ہونے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ رشید صاحب نے حضرت جمیلِ ملّت سے خواہش ظاہر کی تھی کہ آپ کی تدفین اُن کے اِحاطے میں ہو۔ حضرت نے اُن کی خواہش کے مطابق اپنی تدفین کی وصیت کر دی تھی؛ لہٰذا، اس وصیت کو عملی جامہ پہناتے ہُوئے آپ کو اُسی احاطے میں سِپردِ خاک کر دیا گیا؛ نیز، یہ بات بھی طے شدہ ہے کہ حضرت کی اہلیۂ محترمہ کے وصال کے بعد، اُن کی تدفین بھی اُسی جگہ حضرت کے قرب میں ہوگی۔‘‘
تدفین کے وقت صاحبزادہ زُبیر ہزاروی صاحب (مہتمم دارالعلوم غوثیہ، کراچی) نے حضرت جمیلِ ملّت کی شان میں کچھ تعریفی و توصیفی کلمات ارشاد فرمائے اور فاتحہ کے بعد، آخر میں حضرت علامہ احمد علی سعیدی صاحب دَامَتْ بَرَکَاتُھُمُ الْعَالِیَۃ نے دعا فرمائی۔
سوئم:
نمازِ جنازہ کے بعد، دارالعلوم نعیمیہ میں پہلے حضرت مفتی منیب الرحمٰن صاحب اور پھر قبرستان میں حضرت جمیلِ ملّت کی اہلیۂ محترمہ کے بھانجے جناب اعجاز احمد صاحب نے اعلان کیا کہ ہفتہ ۲۱؍ نومبر کو صبح ۹؍ بجے سے دوپہر ساڑھے بارہ بجے تک دارالعلوم نعیمیہ میں حضرت جمیلِ ملّت کی محفلِ سوم منعقد کی جائے گی؛ لیکن، شبِ جمعہ، ربیع الآخر ۱۴۴۲ھ کی چوتھی شب جمعرات ۴؍ ربیع الآخر ۱۴۴۲ھ مطابق ۱۹؍ نومبر ۲۰۲۰ء کو رات ۸؍ بج کر ۴۸؍ منٹ پر عاشقِ رسولﷺ امیرالمجاہدین اُستاذ العلما حضرت علّامہ مولانا خادم حُسین رضوی صاحب کا انتقال ہو گیا، جن کے جنازے میں شرکت کے لیے کراچی سے بھی بے شمار عوام و خواص لاہور چلے گئے، اِس وجہ سے حضرت جمیلِ ملّت کا سوئم مؤخّر کر دیا گیا۔ چنانچہ حضرت کے سوئم کی محفل، بروز جمعرات ۱۰؍ ربیع الآخر ۱۴۴۲ھ مطابق ۲۶؍ نومبر ۲۰۲۰ء کو صبح ۹؍ بجے سے شروع ہو کر، دوپہر تقریباً پونے ایک بجے اختتام پزیر ہُوئی۔ اختتام پر حاضرین کی خدمت میں لنگر شریف بھی پیش کیا گیا۔ محفلِ سوئم سے حسبِ ذیل حضراتِ علمائے کرام نے خطاب کیا:
حضرت علامہ احمد علی سعیدی (شیخ الحدیث، دارالعلوم نعیمیہ، کراچی)،مفتی محمد وسیم اختر مدنی(اُستاذ،شعبۂ فقہ دارالعلوم نعیمیہ، کراچی)، مفتی اسماعیل حُسین نورانی(رئیس دارالافتاء، جامعہ اَنوار القرآن، گُلشنِ اقبال، بلاک ۵، کراچی)،علامہ ڈاکٹر فریدالدین قادری(سجادہ نشیں،خانقاہِ قادریّہ عِلمیّہ، سولجر بازار، کراچی)، علامہ محمد رضوان نقشبندی (مہتمم جامعہ اَنوار القرآن، گُلشنِ اقبال، بلاک ۵، کراچی)، علامہ مفتی محمد رفیق الحسنی(بانی و مہتمم جامعہ مدینۃ العلوم، گلستانِ جوہر، کراچی)، صاحبزادہ محمد ریحان نعمان امجدی (مہتمم دارالعلوم امجدیّہ، کراچی)، مفتی محمد الیاس رضوی اشرفی (بانی و مہتمم جامعہ نضرۃ العلوم، کراچی)، حاجی محمد امین عطّاری(رُکنِ شوریٰ ، دعوتِ اسلامی) اور مفتیِ اعظم پاکستان پروفیسر منیب الرحمٰن (چیئرمین رویتِ ہلال کمیٹی پاکستان ومہتمم دارالعلوم نعیمیہ، کراچی)
مآخذ و مَراجع:
اس مضمون کی تیاری میں حسبِ ذیل کتب و شخصیات سے مدد لی گئی ہے:
- ’’حیاتِ جمیل معِ اَفکارِ جمیل‘‘ از صاحبزادہ فیض الرسول نورانی، جلدِ اوّل(۲۰۰۸ء) و دوم(۲۰۰۹ء)، مطبوعۂ مکتبۂ اہلِ سنّت ، جامعہ نظامیہ رضویہ، لاہور۔
- ’’روشن دریچے‘‘از جمیل ِ ملّت علامہ جمیل احمد نعیمی، (۲۰۲۰ء)، (ستمبر ۲۰۱۵ء)، مطبوعۂ دارالعلوم نعیمیہ، کراچی و بزمِ چشتیہ صابریّہ، کراچی۔
- ’’تاریخِ دارالعلوم نعیمیہ کراچی‘‘ از جمیل ِ ملّت علامہ جمیل احمد نعیمی، (۲۰۲۰ء)، مطبوعۂ دارالعلوم نعیمیہ، کراچی و بزمِ چشتیہ صابریّہ کراچی۔
- سہ ماہی ’’اَنوارِ رضا(جوہرآباد)‘‘ کا ’’حضرت مفتی جمیل احمد نعیمی نمبر‘‘، خصوصی نمبر، ۲۰۲۰ء۔
- ’’تذکرۂ مُحدّث سورتی‘‘ از خواجہ رضی حیدر، سورتی اکیڈمی، ۲؍ ڈی۔ ۵/۱۶، ناظم آباد نمبر ۲، کراچی۔
- جمیلِ ملّتسے خود ذاتی طور پر موصول شدہ معلومات۔
- حضرت جمیلِ ملّت کی اہلیۂمحترمہ سے حضرت کی علالت اور المصطفیٰ ویلفیئر ہسپتال میں داخلے کی تفصیل حاصل ہُوئی۔
- حضرت جمیلِ ملّت کے بہن بھائیوں سے متعلق معلومات اور اہلیۂ محترمہ کا نام، حضرت کی بھتیجی محترمہ رِضوانہ عُرف صَفیّہ صاحبہ زوجۂ جناب سیّد ریحان صاحب نے فراہم کیں۔
- رحلت کامقام اور ڈیتھ سرٹیفیکیٹ میں مندرج رحلت کا وقت اور سبب؛ نیز اِحاطۂ تدفین سے متعلق تفصیل، حضرت جمیلِ ملّت کی اہلیۂ محترمہ کے بھانجے محترم جناب اعجاز احمد صاحب سے موصول ہُوئیں۔
- حضرت جمیلِ ملّتکی کوئی اَولاد نہیں تھی، یہ بات محترمہ صفیہ صاحبہ اور محترم اعجاز احمد صاحب دونوں کے ذریعے پتا چلی۔
- شرکائے نمازِ جنازہ میں سے کچھ نام حضرت مفتی عبدالحلیم ہزاروی کے فرزند صاحبزادہ مولانا زبیر ہزاروی صاحب کے فیس بُک پیج سے لیے گئے۔