متفرق  

محبّت جس کو ہے آلِ عبا سے

حدیثِ سی و پنجم از مشکوٰۃ ،مناقبِ اہلِ بیت علیھم السلام

 

عَنْ زَیْدِ بْنِ اَرْقَمٍ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ  اَنَّ رَسُوْلَ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَسَلَّمَ  قَالَ لِعَلِیٍّ وَ  فَاطِمَۃَ وَالْحَسَنِ وَالْحُسَیْنِ:

’’اَنَا حَرْبٌ لِمَنْ حَارَبَھُمْ وَ سَلْمٌ لِمَنْ سَالَمَھُمْ۔‘‘ (رَوَاہُ التِّرْمِذِیُّ)

 

زید ارقم سے یہ بھی ہے منقول
یعنی کہتے تھے یہ جنابِ رسول
مرتضیٰ شاہِ
لَا فَتٰی کے لیے
اور بہرِ بتول و بہرِ حسن
اور بہرِ حسین ہے یہ سخن
جو لڑے اِن  سے، میں لڑوں اُس سے
حرب اِن کے لیے کروں اُس سے
اورجو صلح اِن کے ساتھ کرے
صلح اور آشتی کی بات کرے
میں بھی کرتا ہوں صلح اُس کے ساتھ
اُس سے کرتا ہوں آشتی کی بات
کاؔ
فیِ خاک پائے آلِ عبا!
نظم کیجے ثنائے آلِ عبا

 

نظم

 

محبّت جس کو ہے آلِ عبا سے
اُسے الفت ہے ختم الانبیا سے
طہارت اہلِ بیتِ شاہِ دیں کی
ہُوئی ثابت کلامِ
اِنَّمَا سے
وہی مومن ہے جس کو ہے محبّت
علی، حسنین سے
خَیْرُالنِّسَا سے
عدو اُن کا عدوئے مصطفیٰ ہے
ہُوا منقول یہ خیرالورا سے
رہوں آلِ عبا کا میں ثنا خواں
یہی، کاؔفی! تمنّا ہے خدا سے

...

لکھا ہے کوئی تو دُرود اس طرح کا

آغازِ فوائد و فضائلِ درود شریف

لکھا ہے کوئی تو دُرود اس طرح کا
کہ ہے اصلِ صلوات کا وہ نتیجہ
ہوا ہے دُرود اس طرح کوئی مروی
کہ تقریب  ہے واں شمار و عدد کے
کسی کو ہے کیفیتِ خاص حاصل
بَہ وقتِ معیّن ہوا کوئی داخل
کوئی لازمِ حال میں پُر اثر ہے
کہ تاثیر اُس کی کسی حال پر ہے
غرض ایک یہ کیا بڑا فائدہ ہے
کہ حکمِ الٰہی کا لانا بجا ہے
کیا حکم اللہ نے مومنوں کو
کہ تم سب سلام و صلاۃ اُن پہ بھیجو
فرشتے بھی مامور اس امر کے ہیں
کہ حضرت نبی پر وہ صلوات بھیجیں
روایت میں یہ اور مذکور آیا
درود ایک جو کوئی بندہ پڑھے گا
جنابِ الٰہی سے دس بار اُس پر
نزولِ دُرود ہو عنایات گستر
مدارج بھی دس اس بشر کے بڑھیں گے
اور اُس کے لیے نیکیاں دس لکھیں گے
مٹا دیں گے دس جرم و عصیاں کا نقشا
درود ایک کا اتنا درجہ ملے گا
کیا یہ بھی ارشاد خیرالورا نے
حبیبِ خدا خاتمِ انبیا نے
کہ جو میرے اوپر درود ایک بھیجے
تو ستر درود اُس کو پہنچیں خدا سے
ہُوا اور بعض حدیثوں میں وارد
پڑھے جو درود آپ پر بارِ واحد
تو اُس کا ثواب اِس قدر ہے مقرر
کیے اُس نے دس بَردہ آزاد لے کر
لکھا اور یہ ہے ثواب اُس کے بدلے
کہ وہ بیس نوبت لڑا کافروں سے
روایت میں یہ اور وارد ہوا ہے
درودوں کا پڑھنا قبولِ دعا ہے
وجوبِ شفاعت بھی اُس کے لیے ہے
گواہی بھی حضرت کی اُس کے لیے ہے
بروزِ قیامت یہ درجہ ملے گا
قریبِ حبیبِ خدا وہ رہے گا
رسولِ خدا بابِ جنّت پہ جس دم
کھڑے ہوں گے آ کر وہ مخدومِ عالَم
تو وہ شخص بھی آپ کے ساتھ ہوگا
حمایت میں ان کی اُس اوقات ہوگا
درود آپ پر جو کہ پڑھتا رہا ہے
تو اُس دن قریب آپ کے اُس کی جا ہے
نہ پہنچے کوئی دوسرا اُس مکاں پر
یہ پہنچے گا نزدیکِ حضرت جہاں پر
قیامت کا دن کیا قیامت کا دن  ہے
مصیبت، فضیحت، ندامت کا دن ہے
تو اُس دن بھی حضرت وکیل اُس کے ہوں گے
شفیعِ قیامت کفیل اُس کے ہوں گے
اُسے بخشوائیں گے حضرت ہمارے
کریں گے اُسے بحرِ غم سے کنارے
جو ترکِ فرائض کسی سے ہُوا ہے
مگر وہ دُرود آپ پر پڑھ رہا ہے
فواتِ فرائض کا بدلا وہی ہے
عوض ایسے جرم و خطا کا وہی ہے
جہاں حشر میں ہے مکاں صادقوں کا
وہاں پڑھنے والا دُرودں کا ہوگا
یہ ہے اور رحمت نصیبِ مصلّی
شفا اُس کو بیماریوں سے ملے گی
نہ ہوگی جگہ اُس کے دل میں خطر کو
نہ دیکھے گا وہ روئے رنج و ضرر کو
صفائی سے دل اُس کا پُر نور ہوگا
سبھی خیر و برکت سے معمور ہوگا
سبھی اُس کے کاموں میں آجائے برکت
وہ اولاد و اموال میں پائے برکت
نہ آئے کبھی اُس پہ فقر و فلاکت
رہے ہر بلا سے وہ بندہ سلامت
سبھوں کو دمِ واپسیں کا خطر ہے
اُس ہنگام سے کانپتا ہر بشر ہے
مگر اس صفت کا جو ہے  کوئی بندا
کہ ورد و درود اُس کا ٹھہرا وظیفہ
جو اُس کے لیے مرگ کا وقت آئے
خلاصی وہ سکرات سے جلد پائے
نہ دیکھے وہ  تلخی دمِ داپسیں کی
نہ سختی اُٹھائے گا وہ یومِ دیں کی
کیا یہ بھی ارشاد خیرُ الوٰری نے
حبیبِ خدا سرورِ انبیا نے
کہ جو کوئی انساں مِرا نام سُن کر
نہ لایا وہ
صَلِّ عَلٰی کو زباں پر
ہوا اُس کو رتبہ بخیلی کا حاصل
ہوا وہ بخیلوں میں فی الحال شامل
یہاں اور بھی خوف پیشِ نظر ہے
کہ اُس کے لیے بد دعا کا خطر ہے
ہوا اور مسطور یہ وصفِ کامل
کہ ہوں جسں جگہ پر مجالس، محافل
پڑھیں لوگ وہاں کچھ درودِ  تحیت
تو آتی ہے اہلِ محافل پہ رحمت
بیاں کیجے وصفِ دُرود اور کیا کیا
درود آپ پر جو کہ پڑھتا رہے گا
قیامت میں اُس کو ثباتِ قدم ہے
مصیبت سے واں کی بری لاجَرم ہے
عبورِ صراط اس کو مشکل نہیں ہے
کہ نورِ درود اُس جگہ ہم قریں ہے
اگرچہ فضائل ہیں مرقوم اکثر
مگر ایک یہ وصف ہے سب سے بہتر
کہ جو کوئی کہتا ہے
صَلِّ اِلٰہِیْ
بروحِ جنابِ رسالت پناہی
تو اُس لفظ کے ساتھ نام اُس بشر کا
حضورِ مبارک میں ہے عرض ہوتا
حضورِ جنابِ نبیِّ معظّم
کہ ہے مرجعِ قدسیانِ مکرم
وہاں نام جس شخص کا پہنچتا ہے‎
تو اُس شخص کا واہ کیا مرتبہ ہے
اب اے دوستو، محبو، عزیزو!
درودِ مبارک کے رتبے کو سوچو!
کہ ایک ایک کا نام جس کے سبب سے
حضورِ مبارک میں معروض ہووے
تو دن رات تم یہ وظیفہ نہ چھوڑو
کبھی اِس عریضے سے مُنھ کو نہ موڑو
درود و سلام عرض کرتے رہو تم
مناسب تو یہ ہے کہ ہر دم کہو تم
اِلٰہِیْ فَصَّلِ وَ سَلِّمْ کَثِیْرًا
عَلٰی مَنْ اَتَانَا بَشِیْرًا نَذِیْرًا
خواصِ دُرود اور ہے یہ بھی آیا
کہ اس ورد کا جو کہ شاغل رہے گا
تو چہرہ مبارک رسولِ خدا کا
رہے دلِ میں اُس کے بہت جلوہ فرما
ملے گی اُسے خواب میں بھی زیارت
مشرف وہ ہوگا بہ دیدارِ حضرت
بروزِ جزا شافعِ روزِ محشر
رکھیں ہاتھ پر اُس کے دستِ مطہر
محبت فرشتے بھی اُس سے کریں گے
درود و تحیت کی ترغیب دیں گے
طلائی قلم خامۂ نقرئی سے
لکھیں گے درودِ مبارک  فرشتے
کریں گے خدا سے دعا عافیت کی
اور اُس کے لیے التجا مغفرت کی
ہوئی اور وارد عجائب روایت
کہ جو کوئی غائب بدرگاہِ حضرت
سلامِ و درود آپ پر بھیجتا ہے
تو عنوانِ تبلیغ اس طرح کا ہے
کہ وہ جو فرشتے اسی کام پر ہیں
غریبانِ آفت کے پیغامبر ہیں
بَہ درگاہِ اقدس بہ دربارِ اطہر
سلام اِس طرح عرض کرتے ہیں جا کر
کہ یعنی وہ کاؔفی ولد رحم علی کا
یہ ہدیہ ہے معروض و اِبلاغ کرتا

...

سلامٌ علیک اے حبیبِ الٰہی

صلو علیہ واٰلہ


سلامٌ  علیک اے حبیبِ الٰہی
سلامٌ علیک اے رسالت نہ پاہی
سلامٌ  علیک اے مہِ برجِ رحمت
سلامٌ علیک اے درِ دُرجِ رحمت
سلامٌ علیک اے سنراوارِ تحسیں
مناقب تمہارا ہے طٰہٰ و یاسیں
سلامٌ علیک اے شہِ دین و دنیا
اگر تم نہ ہوتے، کوئی بھی نہ ہوتا
سلامٌ علیک اے خدا کے پیارے
قیامت میں ہم عاصیوں کے سہارے
سلامٌ علیک اے خبردارِ اُمّت
یہاں اور وہاں آپ غم خوارِ اُمّت
درود آپ پر اور سلام ِ خُدا ہو
قیامت تلک بے حد و انتہا ہو
سنا واہ کیسا یہ جاں بخش مژدہ
کہ مژدہ نہیں کوئی اُس سے زیادہ
کہ جو اُمتی سرورِ انبیا کا
درود اور تسلیم  ہے عرض کرتا
تو اُس 
محفلِ خاصِ نور و ضیا میں
حضورِ جنابِ رسولِ خدا میں
بیاں ہونا ہے اُس کے نام و نشاں کا
کیا جاتا ہے ذکر صلوات  خواں کا
سنو اور بھی، اے محبو! بشارت
کہ تھی جاوداں آپ کی خاص عادت
کہ  جو کوئی کرتا سلام اُن کو آ کے
جوابِ سلام اُس کو فی الفور دیتے
یہاں بھی جوابِ سلامِ مصلّی
یقیں ہے کہ آئے بنامِ مصلّی
عجب، دوستو! یہ تفاخر کی جا ہے
کہ جس کے لیے پا
سخِ مصطفیٰ ہے
اگر عمر بھر ہم سلام اُن پہ بھجیں
اور اُس کا جواب بھی اُن سے سن لیں

جواب ایک وہ کیا ہے وافی ہمیں ہے
سبھی دین و دنیا میں کافی ہمیں ہے
بر آئیں مطالب، مقاصد تمامی
طفیلِ عنایات خیرالانامی
سعادت کوئی اس سے برتر نہیں ہے
کرامت کوئی اس کی ہمسر نہیں ہے
یہ اَخلاقِ اعظم تھے خیرالورا کے
کہ کرتے سلام آپ لوگوں سے آگے
کوئی پیش دستی نہ کرتا نبی سے
مقدم تھے تسلیم میں  وہ سبھی سے
جوابِ سلامِ غریبانِ اُمّت
بھلا کس طرح اب نہ ہوگا عنایت
وہاں سے جواب ایک بھی، اے کفایت!
تمامی مہمات کو ہے کفایت
بیاں کرتے یوں واقفانِ خبر ہیں
کہ وہ جو
مَلَک کاتبِ خیر و شر ہیں
گناہانِ مردِ مصلّی کو بے شک
نہیں لکھتے ہیں وہ
مَلَک تین دن تک
دُرود اک عجب نسخۂ کیمیا ہے
کہ پڑھنے سے جس کے یہ کچھ فائدہ ہے
درود اور ہے یہ بھی برکت
چھڑاتا ہے یہ ورد غیبت کی عادت
درود اور جو شخص پڑھتا رہے گا
اُسے حشر میں عرش سائے میں لے گا
عجب اُس کی قسمت کہ روزِ قیامت
ملے عرش کا جس کو
ظلِّ کرامت
ترازو جو واں ہونے والی نصب ہے
وہ جائے خطر ہے، مقامِ تعب  ہے
وہاں بھی گراں ہوگا پلّہ  اُسی کا
درود آپ پر جو کہ پڑھتا رہے گا
ہوئی اور  مذکور یہ بھی حقیقت
کہ روزِ قیامت بوقتِ عدالت
حضورِ خدائی زمین و زماں میں
کسی شخص کو لائے گی اُس مکاں میں
فرشتوں کو ہوئے گا یہ حکم صادر
کہ تم نے کیا ہے جو یہ شخص حاضر
اِدھر اِس کا ویوانِ اعمال لاؤ
سبھی دفتر حال اِس کا دکھاؤ
فرشتے جو ہوئیں گے اُس وقت حاضر
تو دیکھیں گے اُس میں سراسر کبائر
تو اُس دم وہ عاصی گُنہ گار بندہ
نہایت ہے معْموم و محزون ہوگا
رکھیں گے جو میزاں میں اعمال اُس کے
تو پلّہ جھکے گا بہت وزنِ بد سے
نِکوئی کا پلّہ بہت ہوگا ہلکا
کہ واں وزن ہوگا نہ حُسنِ عمل کا
لرزنے لگے گا وہ بدکار عاصی
جو دیکھے گا اپنی خطا و معاصی
فرشے وہاں آئیں گے مستعد ہو
کہ داخل کریں جلد دوزخ میں اُس کو
کہ نا گاہ اک مردِ زیبا شمائل
کہ ہو جس کے مُنھ سے خجل ماہِ کامل
تجلّی کا عالَم جبیں سے قدم تک
منوّر مکرّم وہ روئے مبارک
وہ عارض کی خوبی وہ گیسو کا عالَم
وہ
عینِ حیا چشم و ابرو کا عالَم
وہ حُسنِ تبسم لبوں میں ہُویدا
ہر انداز سے لاکھ اعجاز پیدا
وہ
صَلِّ عَلٰی جلوۂ قدّ و قامت
کہ جانِ قیامت پہ لائے قیامت
عیاں چال سے صاف رفتارِ رحمت
وہ ہر ہر قدم نورِ اَنوارِ رحمت
غرض آن کر وہ خراماں خراماں
کھڑے ہوں گے یک بار نزدیکِ میزاں

وہ ہلکا جو ہو اُس کے میزاں کا پلّہ
رکھیں اُس میں کاغذ کا چھوٹا سا پرچہ
وہیں نیک کاموں کا پلّہ گراں ہو
رہائی کا ساماں اُس کی عیاں ہو
جو دیکھے وہ اس مرحمت کا تماشا
رہے دنگ، حیران، حیرت زدہ سا
کہا کون آئے تھے یہ ذاتِ عالی
کہ مجھ کو حیاتِ ابد آج بخشی
فرشتے کہیں گے یہ خیر الورا سے
رسولِ خُدا خاتمِ انبیا سے
یہ پرچہ ترازو میں جو رکھ دیا ہے
کہ جس نے گراں سنگ پلّہ کیا ہے
یہ پرچہ وہی کاغذِ با صفا تھا
کہ تو نے درود ایک اِس میں لکھا تھا
لکھا عمر بھر میں فقط ایک نوبت
ملی جس کے بدلے رہائی کی دولت
غرض اُس کو جنّت میں داخل کریں گے
سبھی عیش و عشرت کا سامان دیں گے
ہوا تھا دُرودِ مبارک کا کاتب
ملے اُس
کے بدلے یہ عالی مَراتب
لکھا اور یہ وصفِ صلوات خواں ہے
کہ ہر طرح سے  اُس کو امن و اماں ہے
قیامت کی بھی تشنگی سے نڈر ہے
دہن اُس کا واں سیر و سیراب تر ہے
جو پائے گا وہ عشرت و
عیشِ جنّت
تو اُس کے لیے ہوگی حوروں کی کژت
بہت اُس کو عزت کا ساماں ملے گا
ملے گی اُسے ثروتِ دین و دنیا
حصولِ سعادت بھی اُس کے لیے ہے
درودِ ہدایت بھی اُس کے لیے ہے
ہدایت، صلاحیت و رشدِ وافی
سبھی کچھ شرف ہے نصیبِ مصلی
پسِ نامِ حق یہ جو صلِّ علٰی ہے
تو اُس کا بہت ہی بڑا فائدہ ہے
کہ ہے پہلے نامِ خداوندِ اکبر
درود اس سے پیچھے جنابِ نبی پر
سپاس الٰہی بھی ہے اس سے پیدا
 اس عنواں سے ہے شکر اُس کا ہویدا
درودوں کے الفاظ سے ہے نمایاں
کہ ہے رفعتِ شانِ حضرت کا خواہاں
سوال و طلب یہ جو ہے کبریا سے
وہ راضی ہے ایسے سوال و دعا سے
یہ بے شبہ ایسا سوال و طلب ہے
کہ ہر طرح سے موجِبِ حُبِ رب ہے
نبی کو بھی اُس شخص سے دوستی ہے
کہ جو واصفِ جاہ و شانِ نبی ہے
اگر کوئی صلوات کو کر کے شامل
ہوا حق تعالیٰ سے حاجت کا سائل
تو وہ بس صلاۃِ نبی کے سبب سے
مقاصد کو پائے گا درگاہِ رب سے
ہوا قابلِ
فضلِ خاصِ الٰہی
طفیلِ صلاۃِ رسالت پناہی
کیا جو وسیلہ رسولِ خدا کا
ہوا مستحق وہ قبولِ دعا کا
یہاں اور ہے ایک برہانِ اظہر
کہ صدرِ درودِ مبارک میں اکثر
مقدّم ہے اسِمِ جنابِ الٰہی
کہ ہے بس وہی لا
ئقِ بادشاہی
یہی
اَللّٰھُمَّ کہ ہے اسمِ ذاتی
ہے مِرآتِ اَسمائے وصفی صفاتی
ہوا ا
ہلِ عرفاں سے منقول ایسا
کہ جو شخص
اَللّٰھُمَّ ہے کہتا
تو گویا باَسمائے حسنیٰ تمامی
بیادِ خدا اُس نے کی خوش کلامی
ہوا اب تو لازم یہ سب ا
ہلِ دیں پر
کہ ہیں وہ فدا سیّد المرسلین پر
کہ کرتے رہیں اس عبادت کی کثرت
کہ ہے نام جس کا درودِ تحیت
نہ ہوں اس عمل میں وہ زنہار قاصر
کہ ہے اس میں واللہ کیا فیض حاضر
شمارِ عدد کچھ وہ مخصوص کر کے
درودِ مبارک رہیں روز پڑھتے
یہ ہدیہ کریں وہ بطرزِ دوامی
روانہ بدربارِ خیرالانامی
شمارِ ہزار اس جگہ معمد ہے
کہ اعداد میں معتبر مستند ہے
جو اتنا نہ ہو، پانسو بار ہو تو
کہ ہے رتبۂ اکتفا
اس عدد کو
ہوا اور وارد حدیثِ نبی میں
حدیثِ نبی ہاشمی ابطحی میں
کہ کاموں میں وہ کام خیرالعمل ہے
کہ موقوف ہونے سے وہ بے خلل ہے
اگرچہ عمل وہ بہت مختصر ہو
مگر دائماً کوئی کرتا ہو اُس کو
یہ تھوڑا مگر اُس بڑے سے بڑا ہے
کہ موقوف اکثر وہ ہوتا رہا ہے
سنو اور یہ قول ا
ہلِ ولا کا
محبانِ درگاہِ خیرالورا کا
کہ دس سو پڑھو تم درودِ مبارک
اگر کم پڑھو تو پڑھو پانچ سو تک
اگر پانچ سو بھی نہ ہوئے میسر
تو ہاں تین سو ہی پڑھو تم مقرر
اگر تین سو میں بھی ہوتے ہو قاصر
تو دو سو پڑھو جان و دل کر کے حاضر
پڑھو صبح کو سو تو پھر شام کو سو
ہوا اس طریقے سے ہر روز دو سو
ارادہ جو سونے کا ہنگامِ شب ہو
تو وردِ درودِ مبارک بَہ لب ہو
لکھا ہے کسی نے یہ کیا قولِ لائق
کہ جو کوئی مومن، بَہ اِخلاصِ صادق
ہوا جس عبادت پہ مصروفِ عادت
تو ہوتی ہے  اُس کو وہ عادت عبادت
غرض جس پہ عادی ہوا کوئی انساں
وہ کام اُس کے اوپر ہوا سہل وآساں
سنو اس سے بھی اور جو سہل تر ہے
شرف میں زیادہ ہے گو مختصر ہے
کہ لفظِ ہزار آ گیا ہے جہاں پر
تو فضلِ ہزار اس جگہ ہے میسر
بَہ تحقیق طالب نے کی جب کہ کثرت
اور اُس ورد کے اُس کو آئی حلاوت
مذاقِ دل و جاں ہوا اُس کا شیریں
ہوئی روح کو تقویت اور تسکیں
ہوئی اُس کے باطن کو وہ بات حاصل
کہ ہے جیسے مشہور یہ قولِ قائل
فذکر الحبیب للمریض طبیب
کہ ذکرِ حبیب اِس طرح کا بجا ہے
مریضِ طلب کو طبیبِ دوا ہے
تعجب ہے کہ ایماں کی مدعی سے
کہ غافل رہے وہ درود نبی سے
درودِ مبارک عجب نورِ جاں ہے
کلیدِ درِ برکتِ بے کراں ہے
بدرگاہِ شاہنشہِ دین و دنیا
کسی نے کیا آ کے معروض ایسا
کہ میں وقت اپنے تمامی مقرر
کروں بہرِ صلواتِ خوانی مقرر
کیا اس کو ارشاد خیر الورا نے
حبیبِ خدا خاتمِ انبیا نے
کہ گر اس عمل کا تو عامل ہوا ہے
سبھی حلِ مشکل کو اکتفا ہے
کہ یعنی درودِ مبارک کی کثرت
مہمات سے بخشتی ہے فراغت
یہاں اور  قولِ جنابِ علی﷜ ہے
کلامِ علی ابنِ عمِّ نبی ہے
سنو حاصلِ قولِ شیرِ خدا کا
علیِ ولی نائبِ مصطفیٰ کا
کہ جو کیفیت ہے بذکرِ الٰہی
نہ اس لطف کی دوسری چیز پائی
جو بالفرض اس ذکر سے مطلبِ دل
نہ ہوتا ہمیں جو کہ ہوتا ہے حاصل
تو اس کے عوض ہم تمامی عبادت
سمجھتے درودِ مبارک کی کثرت
غرض یہ کہ اس کا عوض اور بدلا
جو ہوتا درودِ مبارک ہے ہوتا
جو ہیں سالکانِ طریقِ ولایت
تو اُن کے لیے ہے یہ راہِ ہدایت
کہ  اس کو فتوحِ عظیمہ سمجھ کر
زباں کو کریں معدنِ قند و شکر
مشائخ نے کی کیا ہی تقریرِ کامل
کہ ہوئے میسر نہ گر پیرِ کامل
تو اس وقت وردِ درودِ مبارک
مریدوں کو پیرِ طریقت ہیں بے شک
یہ ہے واسطہ اس طرح کا مکمل
کہ ہے طالبِ حق کو اک شیخ حاصل
مشایخ سے منقول یہ بھی ہوا ہے
کہ رتبہ عجب
قُلْ ھُوَ اللہُ کا ہے
کہ اس کی قراءت سے جانا اَحَد کو
ہے پہچانا اللہ واحد صمد کو
ہوا اور یہ بھی مشائخ سے مروی
کہ تاثیرِ وردِ درود ایسی پائی
عجب اس کی کثرت نے جلوہ دکھایا
ہوئی باریابِ حضورِ معلا
ملی سرورِ انبیا کی حضوری
تمنّائے دل ہوگئی اس کی پوری
کہا ہے یہ شیخِ علی متقی نے
طبیبِ مریضانِ دردِ دلی نے
کہ صلوات کی جو کہ کثرت کرے گا
وہ حضرت نبی کی زیارت کرے گا
اُسے خواب میں ہو میسر یہ دولت
کہ ملتی ہے سوتے میں اکثر یہ دولت
وہ یا بخت بیدار ہو جس کسی کا
وہ بیداری میں چشم سے دیکھ لے گا
وہ حکمِ کبیر اک کتابِ سند ہے
وہاں ہے بہ تحقیق یہ مسئلہ طے
لکھا اور یہ عبدِ حق دہلوی نے
کہ وہ عبدِ وہاب جو متقی تھے
کیا ایسا ارشاد اس مقتدا نے
محبِّ جنابِ حبیبِ خدا نے
کہ وقتِ درود و سلام، اے عزیزو!
عجب بحر رحمت میں تم تیرتے ہو
کہا جب کہ
اللہم زباِں سے
تو دیکھو کہاں تک گئی اس بیاں سے
وہ دریائے رحمت جو اللہ کے ہیں
بحارِ کرم اس شہنشاہ کے ہیں
وہاں مثلِ غواص غوطہ لگائے
دُر و گوہرِ بے بہا ہاتھ آئے
کہا جب کہ حضرت پہ
صَلِّ اِلٰہِیْ
تو آئے بہ بحرِ رسالت پناہی
تمہیں لے گئی موجِ دریائے رحمت
لگے ہاتھ کیا کیا گہرہائے رحمت
کہا جب کہ
صَلِّ عَلٰٓی اٰلِ اَحْمَد
تو آئی بدریائی اَفضالِ احمد
شمولِ صحابہ کیا جب یہاں پر
ہوئی بحر لطف و کرم کی شناور
غرض ایسے ایسے بحارِ عطا سے
نہ جاؤ گے مایوس تشنہ، پیاسے
کہ یاں ہر طرف مرحمت موج زن ہے
وہ ہر موج کوہِ معاصی شکن ہے
یہ رحمت کا قلزم جہاں جوش مارے
اساسِ گنہ بیخ و بن سے اُکھاڑے
ہمیں تو یقیں بل کہ حق الیقیں ہے
کہ جو واصفِ سیّد المرسلیں ہے
نہ دیکھے گا وہ عسرتِ دین و دنیا
روا اُس کی ہو حاجتِ دین و دنیا
مشایخ جو ہیں شاذلی خانداں کے
مشرف اُنھوں نے کیا اس بیاں سے
کہ پیرِ طریقت نہ ہو گر میسّر
تو کیجے درودِ مبارک کو رہبر
یہ اس طرح کا مرشِدِ پُر ضیا ہے
کہ طالب کے باطن کو دیتا جِلا ہے
درودِ نبی کا یہ ہے فیضِ کامل
نظر جس سے آتی ہے عرفاں کی منزل
بلا واسطہ سرورِ انبیا سے
مشرف وہ کرتا ہے نورِ ہدا سے
فیوضِ جنابِ نبیِ مکرم
دکھاتا ہے وردِ درودِ معظّم
محیطِ کراماتِ دریائے عرفاں
کہ ہیں عبدِ قادر وہ محبوبِ سبحاں
جنابِ سیادت نسب غوثِ اعظم
سپہرِ ولایت کے قطبِ مکرّم
بہارِ ریاضِ امامِ حسن ہیں
وہ سرمستِ صہبائے جامِ حسن ہیں
سپہدارِ میدانِ شیرِ الٰہی
سزاوارِ ایوانِ مشکل کشائی
وہ ہیں قطبِ افراد دور زماں کے
وہ غوثِ معظّم ہیں فریاد خواں کے
جہاں بہرہ ور اُن کے دستِ کرم سے
قوی پشت ہیں اولیا اس قدم سے
طریقہ یہ ہے آپ کے خانداں کا
کہ وہ خانداں فخر ہے سب جہاں کا
کہ جس نے کیا وردِ صلوات حاصل
عجب اُس کو حاصل ہوا فضلِ کامل
کہ بے  واسطہ خاتمِ مرسلاں سے
مشرف ہوا نعمتِ جاوداں سے
سخاوت محدّث بڑا نامور ہے
کیا اُس نے اس نقل کو مشتہر ہے
سوا اُس کے بھی اور اہلِ خبر نے
لکھا راویانِ خجستہ سِیَر نے
کہ اک شخص تھا نام اُس کا محمد
وہ کرتا تھا اس کام میں کوشش و کد
معین درود اُس نے کچھ کر رکھا تھا
کہ ہنگامِ خفتن وہ تھا اُس کو پڑھتا
غرض ایک شب اُس نے پائی زیارت
جنابِ رسولِ خدا کی زیارت
وہ سوتے میں ناگاہ کیا دیکھتا ہے
کہ گھر میرا پُر نور روشن ہوا ہے
مِرے گھر میں ہیں آپ تشریف لائے
عجب شوکت و شانِ رحمت سے آئے
فروغ جمالِ مبارک سے اُس دم
ہوا میرے گھر میں تجلی کا عالَم
یہاں مدح خواں کب خموشی کی جا ہے
مقامِ سراپائے خیرالورا ہے

...

سراپا وہ صَلِّ عَلٰی آپ کا تھا

صَلُّوْا عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ

سراپا وہ صَلِّ عَلٰی آپ کا تھا
کہ ہر عضو حسنِ تجلی نما تھا
حبیبِ خدا کا جمالِ مکرم
سنراوارِ تحسین و حمد و ثنا تھا
جبینِ مصفّا میں حُسنِ مصفّا
ہلال اور ماہِ تمام ایک جا ہیں
بہارِ لطافت میں بے مثل و ثانی
گُلِ بے خزاں عارضِ مصطفیٰ تھا
مدوّر جو کہتی ہیں چہرے عالَم
وہ تدویر سے بھی ورآء الورا تھا
وہ
صَلِّ عَلٰی گندمی رنگ اُن کا
کہ غازہ رخِ عالمِ نور کا تھا
چمکتا تھا کیا نورِ حُسنِ صباحت
فروغ ملاحت دمکتا ہوا تھا
مزیّن بَہ پیرایۂ اعتدالی

خوش اندام اندامِ خیرُ الورا تھا
وہ چشمِ مبارک کی روشن سیاہی
کہ سر چشمۂ نور جس کا گدا تھا
وہ دندان و لب غیرتِ وردِ ہر جاں
وہ حُسنِ تبسم کا عالَم نیا تھا
وہ بحر تبسم میں موجِ تبسم
کہ دریوزہ گر جس کا آبِ تقا تھا
وہ حُسنِ ادا کس زباں سے ادا ہو
تبسم میں اُن کے جو حُسنِ ادا تھا
کروں اُس شمائل کا کیا وصف، کاؔفی!
سراپا سبھی خوبیوں سے بھرا تھا
جنابِ نبی نے مبارک زباں سے
یہ فرمایا اُس مردِ صلوات خواں سے
کہ آ میرے نزدیک تو لا دہن کو
کہ دوں تیرے، اے شخص! بوسہ دہن کو
سبب اس کا یہ ہے کہ تو میرے اوپر
درود اور صلوات پڑھتا ہے اکثر

بیان ایسا کرتا ہے اپنا وہ راوی
کہ اُس وقت مجھ کو بہت شرم آئی
نہ دیکھا یہ رتبہ کچھ اپنے دہن کا
کہ لاؤں قریبِ دہانِ مصفّا
مجھے پاسِ آداب گو روکتا تھا
مگر ا
مرِ عالی بھی لانا بجا تھا
بجائے دہن اپنا رخسار لا کے
کیا سامنے سرورِ انبیا کے
مشرف ہوا بوسۂ شاہِ دیں سے
جنابِ نبی رحمت العالمیں سے
یکا یک اٹھا میں جو بیدار ہو کر
تو پایا سبھی اپنے گھر کو معطّر
مِرے گھر میں وہ نکہتِ جاں فزا  تھی
کہ واں نکہتِ مشک بھی کم بہا تھی
رہی آٹھ دن تک یہ حالت حقیقت
کہ آتی تھی رخسار سے میرے نکہت
مہکتا تھا گھر اور رخسار میرا
ہوا واہ کیا بخت بیدار میرا
محبو! ذرا سوچنے کی یہ جا ہے
درودِ مبارک کا کیا مرتبہ ہے
کیا شیخ احمد نے مذکور ایسا
کہ شبلی ابوبکر کے پاس آیا
ابوبکر جس کا ’’مجاہد‘‘ لقب تھا
جو شبلی کو آتا ہوا اُس نے دیکھا
اٹھا سرو قد بہرِ تعظیمِ شبلی
بجا لایا عنوانِ تکریمِ شبلی
بہت کر کے اُلفت گلے سے لگایا
نہایت محبّت سے ماتھے کو چوما
یہاں قولِ اقلیسی اس طرح کا ہے
بیاں اُس محقق نے ایسا کیا ہے
کہ میں نے ابوبکر سے التجا کی
کہ یا سیّدی تم نے یہ بات کیا کی
سمجھیے کہ بغداد میں جو بشر ہے
وہ شبلی کو مجنون کہتا مگر ہے
کہا کرتے ہو تم بھی دیوانہ اُس کو
سبب ایسی توقیر کا کچھ بتاؤ
ابوبکر بولے کہ شبلی کی عزت
کہ کی آج میں نے بانواعِ اُلفت
یہ اپنی خوشی سے محبت نہیں کی
تبیعت یہ ہے سیّد المرسلیں کی
سنو اس حقیقت کا مذکور ہے یوں
کہ   میں اس طرح خواب میں دیکھتا ہوں
کہ ہیں سرورِ انبیا جلوہ فرما
حضورِ مبارک میں شبلی بھی آیا
اٹھے دیکھ کر  اُس کو
ختمِ رسالت
ملاقات کی با کمالِ محبّت
میانِ دو چشم اس کے بوسہ دیا پھر
کیا عرض میں نے کہ کیا اس میں تھا سر
جواب ایسا مجھ کو دیا شاہ دیں نے
جنابِ نبی رحمت العالمیں نے
کہ شبلی کی یعنی یہ ٹھری ہے عادت
کہ پڑھ کر نماز اور ہوکر فراغت
پڑھا کرتا ہے یہ بطرز دوامی
لَقَدْ جَآءَ کُمْ کی یہ آیت تمامی:


لَقَدْ جَآءَکُمْ رَسُوۡلٌ مِّنْ اَنۡفُسِکُمْ عَزِیۡزٌ عَلَیۡہِ مَاعَنِتُّمْ حَرِیۡصٌ عَلَیۡکُمۡ بِالْمُؤْمِنِیۡنَ رَءُوۡفٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۱۲۸﴾

فَاِنۡ تَوَلَّوْا فَقُلْ حَسْبِیَ اللہُ ٭۫ۖ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّاہُوَؕ عَلَیۡہِ تَوَکَّلْتُ وَہُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیۡمِ ﴿۱۲۹﴾٪

 

اِس آیت کو پڑھ کر کے وہ انتہا تک
پڑھا کرتا ہے پھر درودِ مبارک
غرض یہ کہ اُس پر جو یہ مرحمت ہے
یہی واسطہ موجبِ مکرمت ہے
لکھا ہے اس احوال کو مجدِ دیں نے
کیا ہے بیاں شیخِ اہلِ یقیں نے
کہ تھا میرے ہم سائے میں کوئی رہتا
قضائے الٰہی سے وہ مر گیا تھا
غرض بعدِ رحلت پسِ چند مدّت
نظر آ گیا خواب میں ایک نوبت
سوال اُس سے میں نے کیا دیکھتے ہی
کہ کیا کیفیت قبر میں نے تو نے دیکھی
کہا اُس نے احوال کیا پوچھتے ہو
اگر پوچھتے ہو تو اب مجھ سے سن لو
کہ جس وقت آئے نکیر اور منکر
ہوا عرصۂ عافیت تنگ مجھ پر
عجب تنگیِ حال  نے مُنھ دکھایا
عجب طرح کا حال در پیش آیا
وہ دہشت وہ وحشت وہ تنگی کا عالم
بجز صورتِ غم نہ تھا کوئی ہمدم
اس اَحوال کو دیکھ کر میں نے جانا
نہیں دین، ایمان سے مجھ کو بہرا
کہ ناگاہ مرقد میں اک شخص آیا
مکرم مبارک بروئے مصفا
نکیر اور منکر کھڑے تھے اُدھر کو
مصیبت کے عالم میں تھا میں اِدھر کو
کہ آتے ہی وہ مردِ زیبا شمائل
ہوا مجھ میں اور اُن فرشتوں میں حائل
سکھایا جواب اُن فرشتوں کا مجھ کو
کہ دے تو جواب اس طرح مستقل ہو
غرض میں ہوا جب کہ ثابت بَہ حجت
ہوئی میرے اُوپر سے زائل مصیبت
ہوا واہ کیا موردِ لطفِ باری
ہوئی کیا ہی آسان مشکل ہماری
جو میں نے یہ احسان و اکرام دیکھا
تو اس شخص سے حال و احوال پوچھا
کہ تم کون ہو اور آئے  کہاں سے
کہ میں چھٹ گیا امتحاں کے مکاں سے
مجھے آپ نے ایسی حجت سکھائی
کہ دستِ ملائک سے پائی رہائی
یہ کہنے لگا مجھ سے وہ پاک پیکر
کہ صلوات کو تو جو پڑھتا تھا اکثر
تو وردِ درودِ نبی کے سبب سے
ملی ہے یہ صورت مجھے لطفِ رب سے
مِرا یہ تمامی وجودِ مصفا
نتیجہ ہے صلوات خوانی کا گویا
نہیں ہے ولادت مِری اُمّ و اب سے
بنا ہوں درودِ نبی کے سبب سے
تِرے ساتھ ہوں ہر جگہ، ہر مکاں پر
رہوں گا وہیں تو رہے گا جہاں پر
بَہ وقتِ مصیبت بَہ ہنگامِ شدّت
کروںگا تِری میں رفاقت معیت
کیا کعب احبار نے ذکر اِس کا
کہ موسیٰ نبی کو یہ پیغام آیا
کہ گر میرے مدّاح و حامد نہ ہوئیں
تو باراں کے قطرے فلک سے نہ برسیں
جماؤں زمیں پر نہ میں ایک دانہ
معطّل رکھوں اور سب کارخانہ
اگر تجھ کو اس بات کی ہے تمنّا
کہ میں تجھ سے نزدیک ہو جاؤں ایسا
کہ جیسے کلام و زباں متصل ہے
و یا کالبد اور جاں متصل ہے
و یا جس طرح چشم و نورِ بصر ہے
کہ ہر وقت اُنھیں قربتِ یک دگر ہے
کیا عرض موسیٰ نے، اے ربِّ عزت!
عطا مجھ کو ایسی ہی کیجے معیت
ہوا حکم گر یہ عطا مانگتا ہے
درودِ محمد سے ملتی عطا ہے
درود اُن کے اُوپر جو اکثر پڑھے گا
یہ سب نسبتِ قرب حاصل کرے گا
روایت ہوئی دوسری اور مروی
کہ موسیٰ کو پہنچا یہ حکمِ الٰہی
کہ گر تجھ کو منظور و مطلوب یہ ہو
کہ دیکھے نہ محشر کی تو تشنگی کو
تو پڑھیے محمد پہ صلوات اکثر
درودوں میں ہو صَرف اوقات اکثر
ابی بکر صدّیق سے ہے روایت
کہ کہتے ہیں وہ صدرِ بزمِ صداقت
کہ پڑھنا درود و تحیت نبی پر
گناہوں کو کرتا ہے نابود یک سَر
مٹاتا ہے جرم و گناہ اِس طرح سے
کہ آتش کو جس طرح پانی بہا دے
کہوں کیا سلامِ نبی کی فضیلت
کہ ثابت ہوئی اُس کی ایسی فضیلت
کہ ابلاغِ صلوات حضرت نبی پر
ہے بردے کے آزاد کرنے سے بہتر
کہوں وصف کیا حبِ خیرالورا کا
کہ ہیں حبِ احمد میں اوصاف کیا کیا
محبت نبی کی ہے کیا بے بدل شے
جہاد و غزا پر فضیلت اسے ہے
ہوا ہے یہ ثابت بیانِ انس سے
کہ جب دو مسلمان ہیں آپس میں ملتے
ملاقات کے وقت ہاتھوں کو اپنے
ملاتے ہیں وہ پنجۂ یک دگر سے
درود اور اُس وقت اپنے نبی پر
جو پڑھتے ہیں دونوں مسلماں برادر
جدا ہونے پاتے نہیں یک دگر سے
کہ جرم  و گناہ اُن کےجاتے ہیں بخشے
گناہانِ اوّل گناہانِ آخر
سبھی بخش دیتا ہے خلّاقِ اکبر
روایت یہ منقول ہے بوالحسن سے
جنابِ علی شاہِ خیبر شکن سے
کہ سلطانِ دیں، سرورِ انبیا نے
کیا ایسا ارشاد خیر الورا نے
کہ جو حجِ اسلام کرنے کو آئے
ادا کر کے حج پھر وہ غزْوے کو جائے
تو ہے ایسے غزْوے کا یہ اجرِ کامل
کہ ہے چار سو حج سے غزوہ مقابل
غرض سُن کے اس بات کو وہ جماعت
نہ تھی جن کو حج اور غزْوے کی طاقت
ہوئے دل شکستہ وہ بے طاقتی سے
سُنی جب فضیلت یہ حضرت نبی سے
وہیں حکم آیا خدائے جہاں کا
جنابِ شفیعِ قیامت کو ایسا
کہ جو کوئی بھیجے درودِ مبارک
تِرے اوپر اے میرے محبوب بے شک
وہ پہنچے گا ثواب و جزا کو
کیا چار سو بار گویا غزا کو
وہ ہر ایک غزْوے کا رتبہ ہے ایسا
عوض چار سو حج کا ہوتا ہے جیسا
کہا بو مظفر نے احوال اپنا
کہ میں اتفاقاً رہِ کعبہ بھولا
وہیں  سامنے میرے دو شخص آئے
مجھے جادۂ راستہ پر وہ لائے
کہا میں نے تم کون ہو او عزیزو
مجھے اپنے نام و نشاں تو بتاؤ
کہا ایک نے خضر ہے نام میرا
یہ الیاس ہے دوسرا ساتھ والا
پھر اُن سے کہا میں نے یہ بھی بتادو
کہ دیکھا ہے تم نے رسولِ خدا کو
بیاں خضر و الیاس نے کی حقیقت
کہ کی ہے رسولِ خدا کی زیارت
کیا عرض پھر میں نے، اے رہنماؤ!
قسم ربِّ عزت کی دیتا ہوں تم کو
کہ جو کچھ جنابِ نبی سے سنا ہے
بیاں کیجیے مجھ سے وہ حال کیا ہے
اُنہوں نے کہا ہم نے ایسا سُنا تھا
جناب نبی سے کہ جو یوں کہے گا

...