عبدالحکیم جوؔش صدّیقی، نجیبِ مصطفیٰ علامہ محمد
قائدِ ملّتِ اسلامیہ حضرت امام شاہ احمد نورانی صدّیقی کے دادا
حضور، نجیبِ
مصطفیٰ حضرت علّامہ شاہ محمد عبد الحکیم جوؔش صدّیقی میرٹھی قُدِّسَ سِرُّہٗ میرٹھ میں پیدا ہوئے۔ آپ میرٹھ کی شاہی
مسجد التمش کے امام و خطیب تھے، خود بھی شاعر تھے اور معروف شاعر مولانا محمد اسماعیل میرٹھی کے
بڑے بھائی تھے، درس و تدریس فرماتے تھے۔
نام: محمد
عبد الحکیم ۔
لقب:
نجیبِ مصطفیٰ۔
خطاب:
حکیم اللہ شاہ۔
شجرۂ
نسب:
آپ نسباً صدّیقی تھے، حضرت سیّدنا محمد بن سیّدنا ابو بکر صدّیق رضی اللہ تعالٰی عنہھما کی
اولاد سےتھے۔
آپ كا شجرۂ نسب یہ ہے:
’’
شاہ عبد الحکیم جؔوش و حکیمؔ صدّیقی بن شیخ پیر بخش بن شیخ غلام احمد بن مولانا محمد باقر
بن مولانا محمد عاقل بن مولانا محمد شاکر بن مولانا عبد اللطیف بن مولانا یوسف بن مولانا داؤد بن مولانا احمد
بن مولانا قاضی صوفی حمید الدین صدّیقی خجندی بن حضرت منصور خجندی(رحمۃ اللہ
تعالٰی علیھم)۔‘‘[1]
تاریخِ ولادت:
حضرت شاہ عبدالحکیم جوش صدّیقی کے فرزندِ ارجمند حضرت علامہ محمد بشیر
صدّیقی علیہ الرحمۃ لكھتے ہیں:
’’ راقمِ آثم
ابو یحییٰ محمد بشیر الصدیقی عرف غلامِ مصطفیٰ (۱۳۰۰ھ)، ۱۳؍ جمادی الاخریٰ ۱۳۰۰ھ بروز
سہ شنبہ (منگل) صبح صادق كے وقت ۲۱؍ مارچ ۱۸۸۳ع كو عالمِ وجود میں آیا۔ اُس روز
حضرت والد صاحب قبلہ قُدِّسَ سِرُّہٗ كی عمر شریف بحسابِ قمری پورے پچاس
(۵۰) سال كی تھی۔‘‘[2]
اس سے معلوم ہوتا ہے كہ حضرت شاہ عبد الحكیم جؔوش صدّیقی كی ولادتِ باسعادت ۱۲۵۰ھ میں
ہوئی تھی؛ نیز، حضرتِ بشیر نے دوسرے مقام پر صراحت كے ساتھ، آپ كا سالِ ولادت: ’’۱۲۵۰ھ‘‘
لكھا بھی ہے۔[3]
لہٰذا، علامہ محمد بشیر صدّیقی علیہ الرحمۃ كی دستی تحریركے مطابق حضرت
شاہ عبدالحكیم جؔوش صدّیقی كی تاریخِ ولادت: ’’۱۳؍
جُمادی الاخریٰ ۱۲۵۰ھ‘‘ہے؛ اور آن لائن كیلنڈر كے
مطابق’’۱۳؍
جُمادی الاخریٰ ۱۲۵۰ھ‘‘ كو عیسوی تاریخ: ’’۱۷؍ اكتوبر ۱۸۳۴ء‘‘ تھی اور دن تھا جمعۃ المبارك۔
اس طرح حضرتِ حكیم كی مكمّل تاریخِ ولادت یہ ہوئی:
’’جمعۃ
المبارك، ۱۳؍ جُمادَی الاخریٰ ۱۲۵۰ھ
مطابق ۱۷؍ اكتوبر ۱۸۳۴ء ۔
بیعت و خلافت:
حضرت
شاہ عبد الحکیم صدّیقی کو حضرت سیّدنا سیّد غوث علی شاہ قلندر پانی
پتی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے شرفِ بیعت و خلافت حاصل تھا؛ علاوہ ازیں،
حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی اورحضرت سیّد شاہ علی حُسین اشرفی الجیلانی
عرف اشرفی میاں رحمۃ اللہ تعالٰی علیہما ایسی بلند ہستیوں
سےبھی آپ كو شرفِ خلافت حاصل تھا۔
حضور
اشرفی میاں کے5 خلفا: شاہ عبدالحکیم اور اُن کے4 فرزند:
علّامہ شاہ محمود احمد قادری رفاقتی کان
پوری دَامَتْ بَرَکَاتُھُمُ الْعَالِیَۃ رقم طراز ہیں:
’’حضرت مولانا شاہ عبد الحکیم صدّیقی علیہ
الرحمۃ شاعر بھی تھے اور ’’حکیم‘‘ اور ’’جوش‘‘ تخلص کرتے تھے۔ ان کو بیعت ِ
اِرادت کا شرف حضرت حاجی شاہ امداد اللہ مہاجر مکی علیہ الرحمۃ سے
حاصل ہوا تھا۔ حضورِ پُرنور حضرت مخدوم الاولیا (حضرت شاہ علی حسین اشرفی
میاں) علیہ الرحمۃ کی شرفِ زیارت سے مشرف ہوئے تو طالبِ ارشاد
ہوئے، عقیدت و محبّت اور تعلّقِ قلبی نے رنگ جمایا تو حضور
نے حلقِ راس کر ا کر خلافت و اجازت سے سرفراز فرمایا؛ حضورِ پُر
نور کے حکم سے خلفائے کرام کی فہرست (ب)، جو طبقۂ علما کے ساتھ مخصوص ہے، حضرت
مولانا شاہ عبد الحکیم کا نامِ نامی پہلے نمبر پر درج ہوا۔ اس فہرست میں درجِ
ذیل الفاظ ہیں:
’’مولانا مولوی عبد الحکیم صاحب خجندؔی المخاطب بہ ’حکیم
اللہ شاہ‘، محلّہ مشائخاں (کو) بعطائے تاج دلق و مثالِ خلافت
و عملِ مقراض جمیع سلاسل عطا فرمائی گئی۔ ۲۷؍ ذی
قعدہ ۱۳۲۳ہجری‘۔‘‘[4]
حضور اشرفی میاں قُدِّسَ سِرُّہُ الْعَزِیْز کے
خلفائے کرام کی جو فہرست طبقۂ علما سے مخصوص ہے اُس کے سرِفہرست یعنی سب سے
پہلے حضرت شاہ عبد الحکیم صدّیقی کام نامِ مبارک اس طرح درج ہے:
’’مولانا مولوی عبد الحکیم صاحب خجندی المخاطب بہ ’حکیم
اللہ شاہ‘، محلّہ مشائخاں (کو) بعطائے تاج دلق و مثالِ خلافت
و عملِ مقراض خلافت جمیع سلاسل عطا فرمائی گئی۔ ۲۷؍ ذی قعدہ ۱۳۲۳ہجری میں مُجاز و ماذون فرمائے گئے۔‘‘[5]
پھر آگے چل كر، اِسی فہرست میں حضرت شاہ عبد الحکیم
صدّیقی علیہ الرحمۃ کا اسمِ مبارک دوبارہ یوں مذکور ہے:
’’مولوی عبد الحکیم المخاطب بہ ’حکیم اللہ شاہ‘ ۲۷؍ ذی القعدہ شاہ جہاں پور، ضلع میرٹھ، مدرّسِ اوّل مدرسۂ
حنفیّہ ، قصور، لاہور۔‘‘[6]
’’حکیم اللہ شاہ‘‘ کا خطاب:
مندرجۂ بالا اقتباسات سے معلوم ہوا کہ حضور
اشرفی میاں نے حضرت شاہ عبد الحکیم صدّیقی علیہما الرحمۃ کو ’’حکیم اللہ
شاہ‘‘ کےخطاب سے نوازا تھا۔
حضرت شاہ عبدالحکیم صدّیقی کے چارفرزندانِ
گرامی (خلیفۂ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا مبلغِ اسلام حضرت علّامہ
شاہ احمد مختار صدّیقی، علّامہ محمد بشیر صدّیقی، علّامہ نذیر احمد خجندی اور
خلیفۂ اعلیٰ حضرت مبلغِ اسلام علّامہ شاہ محمد عبدالعلیم صدّیقی میرٹھی
مدنی علیہم الرحمۃ) بھی حضور اشرفی میاں سے شرفِ خلافت رکھتے تھے، جس سے متعلّق
عبارات چوتھے (بیعت اور اجازت و خلافت) اوردسویں باب (بہن بھائی) میں نقل کی جائیں
گی۔
ایك قادر الکلام شاعر:
خطیب العلما حضرت علّامہ مولانا نذیر احمد
خجندؔی علیہ الرحمۃ کی سرپرستی میں بمبئی سے ایك ماہ نامہ
’’شاہ راہ‘‘ كے نام سے بھی نكلتا تھا، اُس میں آپ كے والدِ ماجدحضرت علّامہ شاہ
محمد عبد الحکیم صدّیقی علیہ الرحمۃ کاحسبِ ذیل ایک نعتیہ قصیدہ
شائع ہوا تھا، جو اُسی ماہ نامے كی سرخی (Heading)كے ساتھ ہدیۂ قارئین کیا جاتا ہے:
’’ذوق شوق
جذباتِ قبلۂ کونین و کعبۂ دارین، زبدۃ العارفین، سراج
السالکین، عارف باللہ نجیب رسالت پناہ حضرت مولانا الحاج شاہ محمد عبد الحکیم جؔوش
و حکیمؔ قُدِّسَ
سِرُّہُ الْعَظِیْم
الٰہی! نعتِ احمد سے بیاں شیریں زباں تر ہو
سخن مقبول و تکرارِ سخن قندِ مقرر ہو
قریبِ روضۂ اقدس اگر مدفن میسّر ہو
دلِ مضطر کو آغوشِ لحد آغوشِ مادر ہو
اگر خاکِ مدینہ خوبیِ قسمت سے بستر ہو
وہ ہم سے خاکساروں کے لیے پھولوں کی چادر ہو
تِری بوئے محبّت سے دماغِ جاں معطّر ہو
تِری شمعِ تجلّی سے حریمِ دل منوّر ہو
الٰہی! لطف سے تیرے مقدّر یار و یاور ہو
حکیمِ جبہ فرسا ہو رسول اللہ کا در ہو
عیاں ہے شانِ حق، نامِ خدا کیا شان پائی ہے
تمھیں شایاں ہے رمزِ ’مَنْ رَّاٰنِیْ‘ گر زباں پر ہو
تمھارے نام کے صدقے تمھاری شان کے قرباں
نبی اللہ احمد ہو مقدّس ہو مطہر ہو
محمد مصطفیٰ خیر البریّہ رحمتِ عالم
امام الانبیا سیّد شفیعِ روزِ محشر ہو
تمھیں پایا خدا پایا تمھیں دیکھا خدا دیکھا
جمالِ حق نما اپنا دکھا دو تم کہ مظہر ہو
تمھارے دیکھنے والے لحد میں بھی نہ گھبرائیں
وہاں بھی جوشِ الفت سے خیالِ روئے انور ہو
مِری چشم تمنّا شکلِ آئینہ ہوئی
حیراں
تمھاری خاکِ پا، یا مصطفیٰ![7] کحل الجواہر ہو
ہماری سجدہ ریزی بھی کبھی تو کام آ جائے
برنگِ نقشِ پا، یا رب! درِ حضرت پہ یہ سر ہو
تِرے کوچے کی مٹّی ہی مجھے اکسیرِ اعظم ہے
الٰہی! زرد رو وہ ہو جسے کچھ خواہشِ زر ہو
تمھارے طالبوں کو تشنہ کامی کا گلہ کیوں ہو
عنایت آپ سے جو ہو وہ جامِ حوضِ کوثر ہو
جہاں کے مال و دولت کو نہ دیکھے آنکھ اُٹھا کر وہ
تمھارے عشق کی دولت سے جس کا دل تونگر ہو
تم اپنے خاکساروں کو نگاہِ مہر سے دیکھو
کہ ذرّہ ذرّہ اُن کی خاک کا خورشیدِ خاور ہو
جمالِ حق نما اپنا دِکھا دو، یا حبیب اللہ!
ہمہ تن چشم ہوں، چشمِ تمنّا اب منوّر
ہو
پھروں یوں در بہ در کیوں ہند میں، اے رحمتِ
عالم!
مِرا ملجا و ماویٰ یا حرم یا آپ کا در ہو
نسیمِ شہر ِ احمد سے کِھلے[8] یہ غنچۂ خاطر
دلِ شیدا بہ رنگِ بوئے گُل جامہ سے باہر ہو
دِکھایا جلوۂ برقِ تجلّی ایک عالم کو
اگر مومن کے دل میں ہو منافق کی زباں پر ہو
کہاں ہم اور کہاں
’لَا تَقْنَطُوْا‘
یہ فیضِ حضرت ہے
نزولِ رحمتِ حق آپ پر، اے بندہ پرور! ہو
گنہگارانِ اُمّت میں سے مَیں بھی ایک عاصی ہوں
لوائے حمد روزِ حشر مجھ پر سایہ گستر ہو
رسول اللہ! اب مجھ کو مدینے میں بُلا لیجے
کہ ہر دم روضۂ اطہر کا نظّارہ میسّر ہو
حکیمِؔ شیفتہ دردِ جدائی سے تڑپتا ہے
کرم فرما، رسول اللہ! کرم فرما کہ جاں بر ہو
خداوندا! بہ حقِّ شاہِ بطحا احمدِ
مُرسل
دمِ آخر زبانِ جؔوش پر اَللّٰہُ اَکْبَر ہو‘‘[9]
اَولادِ امجاد:
آپ کے سات بیٹے اور سات ہی بیٹیاں تھیں۔ سات بیٹوں میں سے مندرج:
ذیل چار فرزندانِ گرامی نے آفاقی شہرت پائی:
خلیفۂ اعلیٰ حضرت امام
احمد رضا مبلغِ اسلام حضرت علّامہ شاہ احمد مختار صدّیقی، الحاج علّامہ
محمد بشیر صدّیقی، علّامہ نذیر احمد خجندی اور خلیفۂ اعلیٰ حضرت مبلغِ اسلام
علّامہ شاہ محمد عبدالعلیم صدّیقی میرٹھی مدنی۔ (علیہم الرحمۃ)
وصالِ مبارک:
آپ کا وصال 3؍ جمادی الاُخری کو ہُوا۔ آپ کے سالِ وصال میں تین روایات نظر
سے گزری ہیں: 1322ھ، 1323ھ اور 1324ھ۔
مزارِ مبارك:
نجیبِ مصطفیٰ حضرت علامہ شاہ محمد عبدالحكیم جؔوش صدّیقی علیہ الرحمۃ كی قبرِ مبارك
احاطۂ چشتی پہلوان شاہ، میرٹھ (ہندوستان) میں واقع ہے۔[10]
اللہ تبارك و تعالٰی آپ كی
مرقدِ مبارك پر، تا صبحِ قیامت اپنی رحمتوں كی بركھا نازل
فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ رَحْمَۃٍ لِّلْعَالَمِیْن ﷺ!
ماخوذ:
’’علامہ
حاجی محمد بشیر صدّیقی کا سفرِ زندگی‘‘ (ملقب بہ لقبِ تاریخی ’’یک اجل تحریر
در حیاتِ بشیر(۲۰۱۷ء)‘‘
از: ندیم احمد نؔدیم نورانی، تاریخ اشاعت: 1438ھ/ 2017ء، شائع کردۂ بزمِ
چشتیہ صابریہ، دارالعلوم نعیمیہ، کراچی، باہتمام جمیلِ ملّت حضرت علامہ
جمیل احمد نعیمی ضیائی چشتی صابری۔
[1] ’’حیاتِ اسماعیل‘‘، ص۳۰؛ دستی تحریرِعلامہ محمد
بشیرصدّیقی علیہ الرحمۃ ۔
[2] دستی تحریرِعلامہ محمد
بشیرصدّیقی علیہ الرحمۃ۔
[3] دستی تحریرِعلامہ محمد
بشیرصدّیقی علیہ الرحمۃ۔
[4] ’’حیاتِ مخدوم الاولیاء
محبوبِ ربّانی‘‘، ص ۳۳۶۔
[5] ’’حیاتِ مخدوم الاولیاء
محبوبِ ربّانی‘‘، ص ۳۰۰۔
[6] ’’حیاتِ مخدوم الاولیاء
محبوبِ ربّانی‘‘، ص ۳۱۰۔
[7] ماہ نامہ ’’شاہ راہ‘‘ میں اِس
مقام پر ’’خاکِ پا، یا مصطفیٰ‘‘ کی جگہ ’’خاکِ پایا۔ مصطفیٰ‘‘
تھا۔اگلے شمارے (یعنی ربیع الثانی ۱۳۵۶ھ) میں حضرت علامہ غلام بھیک
نیرنگ
کا ایک خط شائع ہوا، جس میں ’’شاہ
راہ‘‘ ربیع الاوّل کی چند اغلاط کی نشان دِہی کے ساتھ اُن کی تصحیح بھی کی
گئی تھی۔ اُسی کے مطابق یہاں تصحیح کر لی گئی ہے۔ (ندیم نورانی)
[8] ماہ
نامہ ’’شاہ راہ‘‘ میں اِس مقام پر ’’کِھلے‘‘ کی جگہ ’’کُھلے‘‘ تھا۔ حسبِ سابق
تصحیح کر لی
گئی۔ (ندیم نورانی)
[9] ماہ نامہ ’’شاہ راہ‘‘، بمبئی، ربیع الاوّل ۱۳۵۶ھ، ص ۳۔
نوٹ: مبلغِ اعظم حضرت علامہ
شاہ محمد عبد العلیم صدّیقی علیہ الرحمۃ نے اپنی تصنیفِ لطیف
’’ذکرِ حبیب ﷺ‘‘ (حصّۂ دوم) کے ابتدائی صفحات میں اِس نعت شریف کے صرف سات منتخب
اشعار درج فرمائے ہیں؛ اِس انداز سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے ’’ذکرِ حبیب ﷺ‘‘ میں
حضرت علامہ شاہ محمد عبد الحکیم صدّیقی علیہ الرحمۃ کے جو کلام شامل
فرمائے ہیں، شاید وہ منتخب اشعار پر مشتمل ہوں۔ (ندیم نورانی)
[10] ’’تذكرۂ خانوادۂ علیمیہ، ص۴۱؛ ماہ نامہ ’’پیامِ حرم‘‘ جمدا شاہی (انڈیا)
كا مبلغ ِ اسلام نمبر،
مارچ ۲۰۱۵ء، ص 7 اور 89۔