افضل قادری ،اُستاذالاساتذہ علامہ پیر محمد
نام: محمد افضل قادری۔
لقب: پیر، اُستاذالاساتذہ۔
تاریخِ ولادت:
۴؍ جمادی الاولیٰ ۱۳۷۲ھ مطابق ۲۰؍ جنوری ۱۹۵۳ ء۔
مَقامِ ولادت:
آپ کی ولادت آپ کے آبائی گاؤں مراڑیاں شریف کے قریب محلہ ٹبی مرل گجرات میں ہوئی ۔
جَدِّ امجد:
اُستاذالاساتذہ حضرت علامہ پیر محمد افضل قادری کے دادا جان فقیہِ اعظم حضرت مولانا خواجہ پیر محمد نیک عالم قادری اپنے زمانے کے درسِ نظامی کے ممتاز استاذ تھے؛ جن سے حضرت سیّد جلال الدین شاہ صاحب ( بھکی شریف) ، حضرت خواجہ پیر محمد اسلم قادری، حضرت علامہ مولانا محمد نواز گیلانی، حضرت علامہ مولانا فیض احمد، حضرت علامہ مولانا علی محمد کشمیری، علامہ سیّد قاسم شاہ( خطیب بری امام، اسلام آباد) جیسے اَکابر علمائے کرام نے درسِ نظامی کی تعلیم حاصل کی۔ آپ اَعلیٰ تقویٰ وطہارت اور زہد وعبادت کی وجہ سے بارگاہِ نبوی میں اس قدر منظورِ نظر تھے کہ آپ کی دعا سے خلیفۂ شیرِ ربّانی حضرت سیّد یعقوب شاہ صاحب ماجرہ شریف نز د کنجاہ اور کئی دیگر سالکین، زیارتِ نبوی سے مشرف ہوئے۔ آپ اس قدر مستجاب الدعوات تھے کہ کئی بار آپ کی دعا سے اُسی وقت آسمان پر بادل چھا ئے اور خوب بارش ہوئی۔
والدِ ماجد:
حضرت پیر محمد افضل قادریکے والدِ گرامی قطب الاولیا، اُستاذ العلما حضرت خواجہ پیر محمد اسلم قادری فاضل مدرسۂ غوثیہ بٹالہ شریف انڈیا وخلیفۂ مجاز دربارِ عالیہ بٹالہ شریف ہیں۔ آپ کے والدِ گرامی عارفِ کامل اور متبحر عالم دین تھے۔آپ کی زندگی عبادت وریاضت ، خدمتِ خلق، اصلاح وارشاد، تعلیمِ علوم دین، کثرتِ درود شریف، یتیموں کی پرورش، ساداتِ عظام کی خدمت وتعظیم ، عشقِ رسول ومحبّتِ غوثِ اعظم اور جامعہ قادریہ عالمیہ سمیت درجنوں دینی مدارس کے قیام سے عبارت ہے۔
تعلیم:
حضرت پیر محمد افضل قادری نے تصوّف وسلوک کی تعلیم اپنے والدِ گرامی سے حاصل کی۔ درسِ نظامی کی تعلیم اپنے والدِ گرامی اور دیگر جیّد اساتذہ سے مکمل کی اور پھر ۱۹۶۷ء سے ۱۹۶۹ء تک حکیم الامّت مُفتیِ اعظم حضرت مفتی احمدیار خاں نعیمی سے دوسال میں شرح وبسط مکمل صحاح ستہ (دورۂ حدیث) کی تعلیم حاصل کی۔ درسِ نظامی کی تدریس ۱۹۶۷ء سے شروع کردی تھی پھر ۱۹۷۳ء میں امام المحدثین مُفتیِ اعظم حضرت علامہ ابوالبرکات سیّد احمد شاہ صاحب مرکزی دارالعلوم حزب الاحناف لاہور سے دوبارہ دورۂ حدیث پڑھا اور اُن سے علمِ کلام، فتوی نویسی اور مُناظرے کی تعلیم حاصل کی اور منطق وفلسفہ کی بالائی کتب اور علمِ طب وحکمت کی تعلیم امام المنقول والمعقول حضرت علامہ مولانا سلطان احمد چشتی گولڑوی (حاصلاں والا شریف) سے حاصل کی۔ نیز، آپ نے ۱۹۷۰ء سے ۱۹۷۶ء تک پرائیویٹ تیاری کرکے میٹرک، ایف اے، بی اے اور فاضل عربی کے امتحانات پاس کیے اور پنجاب یونیورسٹی لاہور سے ایم اے اسلامیات کا امتحان پاس کیا۔
تدریس:
حضرت پیر محمد افضل قادری کی زندگی دینی وملی تحریکوں، باطل قوتوں سے ٹکراؤ، اصلاح وارشاد، خدمتِ خلق، اندرون وبیرون ملک مدارس ومساجد کی تعمیر اور درس وتدریس میں گزری ۔ نے ۱۹۶۷ء سے نصف صدی سے زائد عرصہ کریما سعدی سے لے کر بخاری شریف تک متعدد بار مکمّل درسِ نظامی اور اس کے ساتھ فاضل عربی کی تدریس کرنے کا شرف پایا۔ آپ نے ہمیشہ ملک بھر میں تنظیمی، تحریکی دورے کیے لیکن آپ نے کئی بار ملتان، فیصل آباد، سرگودھا، راولپنڈی اور پشاور جیسے دوردراز شہروں میں رات کو جلسوں سے خطاب کیا اور صبح ۸/۹ بجے نیک آباد مراڑیاں شریف پہنچ کر آرام کیے بغیردرسِ نظامی بالخصوص بخاری شریف کے اَسباق پڑھائے اور ملک بھر میں بے شمار دورہ جات کے باوجود بہت ہی کم ناغے کیے۔ آپ کی تدریس کے کمالات سے ہے کہ آپ مشکل سے مشکل سبق کی ایسی تقریر فرماتے کہ طلبہ کو وہ تقریر ہمیشہ کے لیے یاد رہتی نیز عبارت سننے کے دوران صرف ونحو کے مسائل کا خوب اجرا بھی کرادیتے۔ آپ کے سینکڑوں خلفا اور ہزاروں تلامذہ پاکستان اور بیرونِ ممالک میں دینِ اسلام کی تعلیم، تدریس ، اصلاح وارشاد اور دیگر دینی خدمات میں مصروفِ عمل ہیں۔
پیر افضل قادری بحیثیتِ مُناظر:
حضرت پیر افضل قادری درسِ نظامی اور علومِ عربیہ واسلامیہ کے بے مثل استاذ ہونے کے ساتھ ساتھ بلند پایہ خطیب، عظیم مصلح ومرشِد اور روحانی پیشوا ہیں اور ہرمیدان میں فاتحِ مناظرہ ہیں۔ ۱۹۸۴ء میں جہلم میں دورانِ مناظرہ اہل حدیث فرقہ کے چوٹی کے محدث و مناظر حافظ عبدالقادر روپڑی کی حدیثِ پاک میں اَغلاط کی نشان دِہی کرکے انہیں مبہوت کرکے رکھ دیا جس کے نتیجے میں فرقۂ اہلِ حدیث کو شکستِ فاش ہوئی۔ آپ نے ۱۹۹۹ء میں بحالیِ قبر ِحضرتسیّدہ آمنہ رضی اللہ تعالٰی عنھا کی عالمگیر تحریک کے دوران حرمین شریفین کے علما سے ۱۱ سوالات کیے، لیکن آج تک اس مذہب کا کوئی عالم ان کا جواب لکھنے کی جسارت نہیں کر سکا۔
تعلیمی، فلاحی و سیاسی خدمات:
حضرت پیر محمد افضل قادری کے عظیم کارناموں سے ایک کارنامہ نیک آباد میں ’’قادریہ عالمیہ یونیورسٹی(برائے طالبات) ‘‘ہے جس سے سال (۲۰۲۰ء) میں درسِ نظامی کے چاروں درجات سے ۱۱۸۰عدد، عربی فاضل، میٹرک، ایف اے، بی اےسے ۱۴۷ عدد، ترجمۃ القرآن اور حفظ القرآن سے ۱۵۹ عدد، اعتکاف کورس سے ۴۳۹ عدد اور اسلامی معلوماتی کورسز سے ۱۳۴۱ عدد، کل ۳۲۶۶ عدد طالبات میں اسناد تقسیم کی گئی ہیں۔
آپ نے ۱۹۸۵ء میں تین سال کی محنتِ شاقّہ سے نالہ بھمبر گجرات پر۸ میل لمبا حفاظتی بند تعمیر کروایا جس کی بدولت گجرات شہر اور ۳۵ دیہات سیلاب کی تباہ کاریوں سے محفوظ ہو گئے۔ آپ نے متعدد سڑکیں پختہ کرائیں، درجنوں دیہاتوں میں سوئی گیس کی لائنیں بچھوائیں، نیک آباد میں خواجہ اسلم فری ڈسپنسری قائم کی اور ’’افضلیہ ویلفیئر فاؤنڈیشن‘‘ کے ذریعے نادار لوگوں کی امداد کی اور خصوصاً زلزلۂ کشمیر و مانسہرہ ۲۰۰۵ء زلزلۂ بلوچستان ۲۰۰۸ء اور تباہ کن سیلابوں، بارشوں اور آفتوں میں ملک بھر میں تباہ حال لوگوں کی بھر پورامداد کی۔
آپ نے جماعتِ خدّام اہلِ سنّت پاکستان ، جماعتِ اہلِ سنّت پاکستان، عالمی تنظیمِ اہلِ سنّت ، ناموسِ رسالت محاذ، پاکستان سنّی اتحاد کونسل اور تحریکِ لبیک یارسول اللہ میں بنیادی اور مرکزی کردار ادا کیا اور ناموسِ رسالت ، ختمِ نبوّت ، نظامِ مصطفی ، تحفظ آثارِ رسول وآثارِ آل واصحاب اور انسداد فحاشی کی سیکڑوں مہمات اور تحریکوں میں مجاہدانہ خدمات انجام دیں اور ہمیشہ امر بالمعروف ونہی عن المنکر اور جابر حکمرانوں کے سامنے کلمۂ حق کی آواز بلند کرنے کی اعلیٰ مثالیں قائم کیں اور اس سلسلے میں ۱۶ بار پنجاب کی مختلف جیلوں میں اور چار بار میاں والی جیل میں قیدِ تنہائی کے ساتھ نظر بندرہے اور اس دوران ۵۳ روز غازی علم الدین شہید کے ’’محض کمرہ‘‘ میں بھی مبحوس رہے اور آپ کی تحریک پر میاں والی جیل میں مسجد غازی علم الدین شہید تعمیر کرائی گئی۔
تحریکِ لبیک یارسول اللہ:
آپ نے اپنی علالت اور بڑھاپے کے باوجود ’’تحریکِ لبیک یارسول اللہ ‘‘ کی بنیاد رکھی جو پاکستان اور دنیا بھر میں بے حد مقبول ہوئی۔ آپ نے اس تحریک کو پروان چڑھانے کےلیے تاریخی قربانیاں پیش کیں۔
خطبات و مقالات اَفضلیہ:
یہ کتاب جو کہ علوم ومعارف کا عظیم خزانہ ہے۔ عقائدِ اسلامیہ، احکامِ شرعیہ، مسائلِ فقیہہ، مَواعظِ دینیہ، سیرت وتاریخ، تصوّف واخلاق، نکاتِ اَفضلیہ اور بے شمار دیگر فوائد پر مشتمل ہے۔
علما و مشائخ، وکلا وجج حضرات ، اساتذہ وطلبہ، ڈاکٹرز اور تمام شعبۂ زندگی کے لوگوں حتی کہ کم پڑھے لکھے لوگوں کے لیے بھی نہایت مفید اور بے مثال علمی وتحقیقی مواد ہے۔
اَولادِ اَمجاد:
حضرت پیر محمد افضل قادرینے بھی اپنے والدِ گرامی کی پیروی کرتے ہوئے اپنے تمام بیٹوں اور بیٹیوں کو دینِ اسلام کی تعلیم وخدمت پر مامور کیا ہوا ہے اور آپ کے بڑے صاحبزادے مفتی پیر محمد عثمان علی قادری نیک آباد کا مرکز چلارہے ہیں۔ آپ کی ایک بیٹی گجرات شہر میں ، ایک بیٹی نومنگھم برطانیہ میں اور ایک بیٹی نیک آباد میں دینی خدمات انجام دے رہی ہیں اور چھوٹے دو بیٹے صاحبزادہ محمد صدّیق علی قادری اور صاحبزادہ پیر محمد حسنین علی قادری بھی علمی مشاغل میں مصروفِ عمل ہیں۔
وصالِ پُر ملال:
۲؍ رمضان المبارک ۱۴۴۵ھ مطابق ۱۳؍ مارچ ۲۰۲۴ء بروز بدھ، گجرات (پاکستان) میں ہوا۔
تدفین:
آپ کی تدفین خانقاہِ افضلیہ نیک آباد مراڑیاں شریف (گجرات، پاکستان) میں کی گئی۔
ماخذ:
’’خطبات و مقالاتِ افضلیہ‘‘(’’مصنّف پر ایک نظر‘‘ از مفتی محمد شہزاد قادری)، صفحات 544 تا 547 (ملخصاً)۔
مفتی محمد شہزاد قادری
مفتی ومدرس جامعہ قادریہ عالمیہ، نیک آباد، گجرات، پاکستان