سود کی حرمت کا بیان

اَلَّذِیۡنَ یَاۡکُلُوۡنَ الرِّبٰوا لَا یَقُوۡمُوۡنَ اِلَّا کَمَا یَقُوۡمُ الَّذِیۡ یَتَخَبَّطُہُ الشَّیۡطٰنُ مِنَ الْمَسِّؕ ذٰلِکَ بِاَنَّہُمْ قَالُوۡۤا اِنَّمَا الْبَیۡعُ مِثْلُ الرِّبٰواۘ وَاَحَلَّ اللہُ الْبَیۡعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰواؕ فَمَنۡ جَآءَہٗ مَوْعِظَۃٌ مِّنۡ رَّبِّہٖ فَانۡتَہٰی فَلَہٗ مَا سَلَفَؕ وَاَمْرُہٗۤ اِلَی اللہِؕ وَمَنْ عَادَ فَاُولٰٓئِکَ اَصْحٰبُ النَّارِۚ ہُمْ فِیۡہَا خٰلِدُوۡنَ﴿۲۷۵﴾

وہ جو سُود کھاتے ہیں (۱) قیامت کے دن نہ کھڑے ہوں گے مگر جیسے کھڑا ہوتا ہے وہ جسے آسیب نے چھو کر مخبوط بنادیاہو(۲) یہ اس لئے کہ انہوں نے کہا بیع بھی تو سُود ہی کے مانند ہے اور اللّٰہ نے حلال کیا بیع کو اور حرام کیا سُود تو جسے اس کے رب کے پاس سے نصیحت آئی اور وہ باز رہا تو اسے حلال ہے جو پہلے لے چکا (۳) اور اس کا کام خدا کے سپرد ہے (۴)اور جو اب ایسی حرکت کرے گا وہ دوزخی ہے وہ اس میں مدتوں رہیں گے(۵)

(۱) اس آیت میں سود کی حرمت اور سود خواروں کی شامت کا بیان ہے سود کو حرام فرمانے میں بہت حکمتیں ہیں بعض ان میں سے یہ ہیں کہ سود میں جو زیادتی لی جاتی ہے وہ معاوضہ مالیہ میں ایک مقدار مال کا بغیر بدل و عوض کے لینا ہے یہ صریح ناانصافی ہے دوم سود کا رواج تجارتوں کو خراب کرتا ہے کہ سود خوار کو بے محنت مال کا حاصل ہونا تجارت کی مشقتوں اور خطروں سے کہیں زیادہ آسان معلوم ہوتا ہے اور تجارتوں کی کمی انسانی معاشرت کو ضرر پہنچاتی ہے۔ سوم سود کے رواج سے باہمی مودت کے سلوک کو نقصان پہنچاتا ہے کہ جب آدمی سود کا عادی ہوا تو وہ کسی کو قرض حسن سے امداد پہنچانا گوارا نہیں کرتا چہار م سود سے انسان کی طبیعت میں درندوں سے زیادہ بے رحمی پیدا ہوتی ہے اور سود خوار اپنے مدیون کی تباہی و بربادی کا خواہش مند رہتا ہے اس کے علاوہ بھی سود میں اور بڑے بڑے نقصان ہیں اور شریعت کی ممانعت عین حکمت ہے مسلم شریف کی حدیث میں ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سود خوار اور اس کے کار پرداز اور سودی دستاویز کے کاتب اور اس کے گواہوں پر لعنت کی اور فرمایا وہ سب گناہ میں برابر ہیں۔

(۲) معنٰی یہ ہیں کہ جس طرح آسیب زدہ سیدھا کھڑا نہیں ہوسکتا گرتا پڑتا چلتا ہے، قیامت کے روز سود خوار کا ایسا ہی حال ہوگا کہ سود سے اس کا پیٹ بہت بھاری اور بوجھل ہوجائے گا اور وہ اس کے بوجھ سے گرگر پڑے گا۔ سعید بن جبیر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا: کہ یہ علامت اس سود خور کی ہے جو سود کو حلال جانے۔

(۳) یعنی حرمت نازل ہونے سے قبل جو لیا اس پر مواخذہ نہیں ۔

(۴) جو چاہے امر فرمائے جو چاہے ممنوع و حرام کرے بندے پر اس کی اطاعت لازم ہے۔

(۵) مسئلہ :جو سود کو حلال جانے وہ کافر ہے ہمیشہ جہنم میں رہے گا کیونکہ ہر ایک حرام قطعی کا حلال جاننے والا کافر ہے۔

تجویزوآراء