بیعۃالرضوان و صلح حدیبیہ

        اس سال کے تمام  واقعات میں سب سے زیادہ اہم اور شاندار واقعہ ”بیعۃالرضوان “  اور ”صلح حدیبیہ “  ہے۔ تاریخِ  اسلام  میں اس واقعہ  کی بڑی اہمیت  ہے کیونکہ اسلام کی تمام  آئندہ  تر قیوں  کا راز اسی کے دامن سے وابستہ  ہے۔  یہی وجہ ہے کہ گو بظاہر یہ ایک مغلوبانہ  صلح تھی۔ مگر قرآن مجید میں خدا وند تعالیٰ  نے اس کو ”فتح مبین“  کا لقب عطافرمایا۔

ذوالقعدہ۶ھ میں حضور ﷺ چودہ سو  صحابۂ  کرام رضی اللہ عنہم اجمعین  کے ساتھ عمرہ  کا احرام باندھ کر مکہ مکرمہ کے لئے روانہ ہوئے ۔ حضور ﷺ کو اندیشہ تھا کہ شاید کفار مکہ ہمیں عمرہ  ادا کرنے سے روکیں گے اس  لئے آپ نے پہلے ہی قبیلۂ خزاعہ کے  ایک شخص کو مکہ مکرمہ بھیج دیا تھا تاکہ وہ کفار مکہ کے ارادوں کی خبر لائے جب آپ کا قافلہ مقام عرفان کے قریب پہنچا تو وہ شخص  یہ خبر لے کر آیا کہ کفارمکہ نے تمام  قبائل عرب کے کافروں  کو جمع  کر کے یہ کہہ دیا ہے کہ مسلمانوں کو ہر گز ہر گز مکہ میں داخل نہ ہونے دیا جائے۔ چنانچہ کفار قریش نے اپنے تمام ہمنوا قبائل کو جمع کرکے ایک فوج تیار کرلی اور مسلمانوں کا راستہ روکنے کے لئے مکہ مکرمہ سے باہر نکل کر مقام ”بلدح“  میں پڑاؤ ڈال دیا   خالد بن ولید اور ابو جہل کا بیٹا عکرمہ یہ دونوں دو سوچنے ہوئے  سواروں کا دستہ لے کر مقام ”غمیم“  تک پہنچ  گئے۔  جب حضور ﷺ کو راستہ میں خالد بن ولید کے سواروں  کی گرد نظر آئی تو آپ ﷺنے شاہراہ سے ہٹ کر سفر شروع کردیا ۔  اور عام راستہ سے کٹ کر آگے بڑھے اور ”حدیبیہ  “میں پہنچ کر پڑاؤ ڈالا۔یہاں پانی کی بے حد کمی  تھی۔ ایک ہی کنواں تھا  وہ چند گھنٹوں میں ہی  خشک ہوگیا۔           

مصطفی کر یم ﷺکی مبارک انگلیوں سےپانی کا چشمہ ابل پڑا۔

جب صحابہ کرام پیاس سے بے تاب ہونے لگے تو حضور ﷺ نے ایک بڑے پیالہ میں اپنادست مبارک ڈال دیا اور آپ کی مقدس انگلیوں سے پانی کا چشمہ جاری ہوگیا۔ پھر آپ ﷺنے خشک کنوئیں میں  وضو کا غسالہ  اور اپنا ایک تیر ڈال دیا تو کنویں میں اس قدر پانی ابل پڑا کہ پورا لشکر اور تمام جانور اس کنوئیں  سے کئی دنوں تک سیراب ہوتے رہے۔(بخاری غزوۂ حدیبیہ جلد ۲ ص ۵۹۸، بخاری جلد ۳۷۸)

انگلیاں ہیں فیض پر  ٹوٹے ہیں پیاسے جھوم کر

                                         ندیاں پنجاب  ِرحمت کی ہیں  جاری واہ واہ (حدائق بخشش)

بیعۃالرضوان:

        مقام حدیبیہ میں پہنچ  کر حضور ﷺ نے یہ دیکھا کہ سب لوگ احرام باندھے ہوئے ہیں اس حالت میں جوئیں بھی نہیں مار سکتے، تو آپ نے مناسب سمجھا کہ کفار مکہ سے مصالحت کی گفتگو  کرنے کے لئے کسی کو مکہ بھیج دیا  جائے، چنانچہ اس کام کے لئے آپ نے حضرت عمر ﷜ رضی اللہ عنہ کو منتخب  فرمایا ۔ لیکن انہوں نے یہ کہہ کر معذرت کردی کہ یا رسول اللہ ﷺ کفارمکہ  میرے بہت سخت دشمن ہیں اور مکہ میں میرے قبیلہ کا کوئی ایک شخص بھی ایسا نہیں ہے جو  مجھ کو ان سے بچا سکے ۔ یہ سن کر آپ نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو مکہ بھیجا ، انہوں نے مکہ پہنچ کر کفار قریش کو حضور ﷺ کی طر ف سے  صلح کا پیغام  پہنچایا۔  حضرت عثمان ﷜ رضی اللہ عنہ مالداری اور اپنے قبیلہ والوں کی حمایت و پاسداری کی وجہ سے کفار قریش کی نگاہوں میں بہت زیادہ معززتھے  اس لئے کفار مکہ  ان پر کوئی دست درازی  نہیں کر سکے بلکہ ان سے یہ کہا کہ ہم آپ کو اجازت دیتے ہیں کہ آپ کعبہ کا طواف اور صفاو مروہ کی سعی کر کے اپناعمرہ ادا کرلیں ۔ مگر ہم محمد (ﷺ)  کو  ہر گز کعبہ کے قریب نہ آنے دیں گے

حضرت عثمان نے رضی اللہ عنہ نےکعبہ کے طواف سے  انکار کردیا، اور کہا کہ میں  بغیر رسول اللہ ﷺ کو ساتھ لئے کبھی ہر گز اکیلے اپنا عمرہ نہیں ادا کرسکتا۔ اس پر بات بڑھ گئی اور کفار نے آپ کو مکہ  میں روک لیا۔ مگر حدیبیہ کے میدان میں خبر مشہور ہوگئی کہ کفار مکہ نے ان کو شہید کردیا۔ حضورﷺکو جب یہ خبر پہنچی تو آپ نے فرمایا کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے خون کا بدلہ لینا فرض ہے، یہ فرما کر آپ ایک ببول کے درخت کے نیچے بیٹھ گئے۔ اور صحابہ کرام سے فرمایا کہ تم سب لوگ میرے ہاتھ پر اس بات کی بیعت کر و کہ  آخری دم تک تم لوگ میرے وفادار اور جان نثارر ہوگے۔ تمام صحابہ کرام نے نہایت ہی ولولہ  انگیز جوش و خروش کے ساتھ جان نثاری کا عہد کرتے ہوئے حضورﷺ کے دست حق پرست پر بیعت کر لی۔ یہی وہ بیعت  ہے جس کا نام تاریخ اسلام میں ”بیعت الرضوان “ ہے۔ حضرت حق جل مجدہ نے اس بیعت اور اس درخت کا تذکرہ قرآن  مجید کی سورۃ فتح میں اس طرح فرمایا ہے کہ:

اِنَّ الَّذِیۡنَ یُبَایِعُوۡنَکَ اِنَّمَا یُبَایِعُوۡنَ اللہَ ؕ یَدُ اللہِ فَوْقَ اَیۡدِیۡہِمْ

ترجمئہ کنزالایمان: یقیناً جو لوگ (اے رسول) بیعت کرتے ہیں وہ تو اللہ ہی سے بیعت کرتے ہیں ،ان کے ہاتھ پر اللہ کا ہاتھ  ہے۔(سورۃ الفتح  آیت۹)

اس سورۃ فتح میں دوسری جگہ ان بیعت کرنے والوں کی فضیلت اور ان کے اجر و ثواب کا قرآن مجید نےاس طرح خطبہ پڑھا کہ:۔

لَقَدْ رَضِیَ اللہُ عَنِ الْمُؤْمِنِیۡنَ اِذْ یُبَایِعُوۡنَکَ تَحْتَ الشَّجَرَۃِ فَعَلِمَ مَا فِیۡ قُلُوۡبِہِمْ فَاَنۡزَلَ السَّکِیۡنَۃَ عَلَیۡہِمْ وَ اَثٰبَہُمْ فَتْحًا قَرِیۡبًا ﴿ۙ۱۸﴾

تر جمئہ کنز  الایمان: بیشک اللّٰہ راضی ہوا ایمان والوں سے جب وہ اس پیڑ کے نیچے تمہاری بیعت کرتے تھے  تو اللّٰہ نے جانا جو ان کے دلوں میں ہے  تو ان پر اطمینان اتارا اور انہیں جلد آنے والی فتح کا انعام دیا۔(سورۃ الفتح  آیت۱۸)

لیکن ”بیعۃ الرضوان“ ہوجانے کے بعد پتا چلا کہ  حضرت عثمان رضی للہ عنہ  کی شہادت کی خبر غلط تھی، وہ باعزت  طور پر مکہ  میں زندہ و سلامت تھے اور پھر وہ بخیر و عافیت حضورﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوگئے۔

صلح حدیبیہ کیونکر ہوئی:

حدیبیہ  میں سب سے پہلاشخص  جوحضور ﷺ کی خدمت میں  حاضر ہوا اور وہ بدیل بن ورقہ خزاعی تھا ان کا قبیلہ  اگرچہ ابھی تک مسلمان نہیں ہوا تھا ۔ مگر یہ لوگ حضور ﷺ کے حلیف اور انتہائی مخلص  و خیر خواہ تھے۔ بدیل بن ورقاء نے آپ کو خبر دی کہ کفار قریش نے کثیر تعداد میں فوج جمع کرلی ہے۔  اور فوج کے ساتھ راشن کے لئے دودھ والی اونٹنیاں  بھی ہیں۔ یہ لوگ آپ سے جنگ کریں گے، اور آپ کو خانہ کعبہ تک نہیں پہنچنے دیں گے۔

حضورﷺ نے فرمایا کہ تم قریش کو میرا یہ پیغام پہنچا دو کہ ہم جنگ کےارادہ  سے نہیں آئے ہیں اور نہ ہم جنگ چاہتے ہیں ہم یہاں صرف عمرہ ادا کرنے کی عرض سے آئے ہیں۔ مسلسل  لڑائیوں   سے قریش کو بہت کافی  جانی و مالی نقصان پہنچ  چکا ہے لہٰذا ان کے حق میں  یہی بہتر ہے کہ وہ جنگ نہ کریں بلکہ مجھ سے ایک مدت معینہ  کے لے صلح  کا معاہدہ کرلیں تو بہتر ہوگا۔ اگرانہوں نےمجھ سے جنگ کی تو مجھے ا س ذات کی قسم ہے جس کے قبضۂ قدرت  میں میری جان ہے کہ میں ان سے اس وقت تک لڑوں گا کہ میری گردن میرے بدن سے الگ ہوجائے۔

بدیل بن ورقاء آپ کایہ پیغام لے کر کفارمکہ کے پاس گیا اورکہا کہ میں محمد (ﷺ)  کا ایک پیغام  لے کر آیا ہوں۔ اگر تم  لوگوں کی مرضی ہوتو میں ان کا پیغام  تم  لوگوں کو سناؤں ۔ کفار مکہ  کے شرارت پسند لونڈے جن کا جوش ان کے ہوش پر غالب تھا شور مچانے لگے کہ  نہیں ، ہر گز نہیں ۔ ہمیں ان کا پیغام سننے کی کوئی ضرورت نہیں ہے لیکن کفار مکہ کے سنجیدہ اور سمجھ دار لوگوں نے پیغام سنانے کی اجازت دیدی اور بدیل بن ورقاء نے حضورﷺ کی دعوت ِ صلح کو ان لوگوں کے سامنے پیش کر دیا۔ یہ سن کر قبیلہ  قریش کاایک بہت ہی معمراور معزز سردار عروہ بن مسعود ثقفی کھڑا ہوگیا۔ اور اس نےکہا کہ اے قریش میں تمہارا باپ نہیں؟ سب نے کہا کہ کیوں نہیں ، پھر اس نے کہا کہ کیا تم میرے بچے نہیں ؟ سب نے کہا کیوں نہیں۔ پھر اس نے کہا کہ میرے بارےمیں تم لوگوں کو کوئی بد گمانی تو  نہیں؟سب نے کہا کہ نہیں ہر گز نہیں ۔ اس کے بعد عروہ بن مسعود نے کہا کہ محمد (ﷺ) نے بہت ہی سمجھداری اور بھلائی  کی بات پیش کردی ، لہٰذا تم لوگ مجھے اجازت دو کہ میں ان سے مل کر معاملات طے کروں ۔ سب نے اجازت دے دی کہ بہت اچھا۔ آپ جائیے  ۔ عروہ بن مسعود وہاں  سے چل کر حدیبیہ کے میدان میں جا پہنچا اور حضورﷺ کو مخاطب کر کے یہ کہا کہ بدیل بن ورقا ء کی زبانی آپ کا پیغام ہمیں ملا !اے محمد (ﷺ)   مجھے آپ سے یہ کہنا ہے کہ اگر آپ نے لڑکر قریش کو برباد کر کے دنیا سے نیست و نابود کردیا تو مجھے بتائیے ،کہ کیا آپ سے پہلے کبھی  کسی عرب نے  اپنی ہی قوم کو برباد کیا ہے؟ اور اگرلڑائی  میں قریش کا پلہ بھاری پڑا تو آپ کے ساتھ جو یہ لشکر ہے میں ان میں سے ایسےچہروں کو دیکھ رہا ہوں کہ یہ سب آپ کو تنہا چھوڑکر بھاگ جائیں گے۔  عروہ بن مسعود کا یہ جملہ  سن کر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ   ﷜ کو صبر  و ضبط کی تاب نہ رہی۔ انہوں نے تڑپ کر کہا اے عروہ  ! چپ ہوجا اپنی دیوی”لات“ کی شرمگا چوس کیا ہم بھلا اللہ تعالی کے رسول ﷺ کو چھوڑکر بھاگ جائیں گے۔

عروہ بن مسعود  نے تعجب سے پوچھا کہ یہ کون شخص ہے؟ لوگوں  نے کہا کہ یہ حضرت ابو بکر صدیق  رضی اللہ عنہ ہیں ۔ عروہ  بن مسعود نے کہا کہ  مجھے اس ذات کی قسم جس کے قبضۂمیں میری جان ہےاے ابو بکر! اگر تیرا ایک احسان مجھ پر نہ ہوتا جس کا بدلہ میں اب تک تجھ کو نہیں دے سکا ہوں   تو میں تیری اس تلخ  گفتگو کا جواب دیتا ، عروہ  بن مسعود  اپنے آپ کو سب سے بڑا آدمی سمجھتاتھا۔ اس لئے جب وہ حضورﷺ  سے کوئی بات کہتا تو ہاتھ بڑھا کر آپ کی ریش مبارک کے قریب کرلیتا   اور بار بار آپ کی مقدس داڑھی پر ہاتھ لگاتا  تھا۔ حضرت مغیرہ بن شعبہ  ﷜ جو ننگی تلوار لے کر حضورﷺ  کے  پیچھے کھڑے تھے ۔ وہ عروہ بن مسعود کی اس جرائت اور حرکت کو برداشت نہ کرسکے۔ اور عروہ  بن مسعود  جب ریش مبارک کی طرف ہاتھ بڑھا تا تو وہ تلوار کا قبضہ اس کے پاتھ پر مارکر اس سے کہتے  کہ ریش مبارک سے اپنا ہاتھ ہٹا لے ۔عروہ بن مسعود نے اپنے  سر اٹھایا اور پوچھا کہ یہ کون آدمی ہے لوگوں نے بتایا کہ یہ مغیرہ بن شعبہ ہیں تو عروہ بن مسعود نے ڈانٹ کر کہا کہ اے دغاباز کیا میں تیری عہد شکنی کو سنبھالنے کی کوشش نہیں کر رہا ہوں؟ (حضرت مغیرہ بن  شعبہ ﷜ نے  چند آدمیوں کی قتل کر دیاتھا جس کا خون بہا عروہ بن مسعود نے اپنے پاس سے ادا کیا تھا  یہ اسی طرف اشارہ تھا)۔

اس کے بعد عروہ بن مسعود صحابہ کرام کو دیکھنے لگا اور لشکر گاہ دیکھ بھال کر وہاں سے روانہ ہوگیا۔ عروہ بن مسعود نے حدیبیہ  کے میدان میں صحابہ کرام کی حیرت انگیز اور تعجب خیز عقیدت و محبت کا منظر دیکھاتھا اس کے دل  پر بڑا اثر ڈالا تھا چنانچہ  اس نے قریش کے لشکر میں پہنچ کر اپنےتائثرات کو  ان لفظوں میں بیان کیا:

صحابۂ کرام رضوان اللہ تعالی عنہم اجمعین کاعشق رسولﷺ:

عروہ بن مسعود نے کہا ،اے میری  قوم ! خدا کی قسم ! جب محمد ﷺ اپنا کھنکھار تھوکتے ہیں تو وہ کسی نہ کسی صحابی کی ہتھیلی میں پڑتا   ہے اور وہ فرطِ عقیدت سے اس کو اپنے چہرے،  اور اپنی کھال پر مل لیتا ہے، اور اگر وہ کسی بات کا ان لوگوں  کو حکم  دیتے ہیں تو  سب کے اس تعمیل  کے لئے  جھپٹ  پڑتے ہیں اور وہ جب وضو کرتے ہیں، توان کے اصحاب ان کے وضو کے دھوون پر اس طرح ٹوٹتے ہیں کہ گویا ان میں تلوار چل جائیگی، اور وہ جب کوئی گفتگو کرتے ہیں تو عام اصحاب خاموش ہوجاتے ہیں ، اور ان کے صحابہ کے دلوں میں ان کی اتنی زبرست عظمت ہے کہ کوئی شخص ان کی طرف نظر بھر نہیں دیکھ سکتااے میری قوم! خدا کی قسم میں نےبہت سے بادشاہوں   کادربار دیکھا ہے۔  میں قیصر و کسریٰ اور نجاشی کے درباروں میں بھی باریاب ہو چکا ہوں ۔ مگر خدا کی قسم ! میں نے کسی بادشاہ کی اتنی تعظیم کرتے ہوئے نہیں دیکھا ہے جتنی تعظیم محمد (ﷺ)  کے صحابہ محمد(ﷺ) کی کرتے ہیں“۔

عروہ بن مسعود،  کی یہ گفتگو سن کر قبیلہ ٔبنی کنانہ کے ایک  شخص نے جس کانام ”جلیس“  تھا کہا کہ تم لوگ مجھ کو اجازت دو کہ میں ان کے پاس جاؤں  ، قریش نے کہا کہ ”ضرور جائیے“ چنانچہ یہ شخص  جب بارگاہ رسالت کے قریب پہنچا تو آپ نے صحابہ  سے فرمایا  کہ یہ فلاں شخص ہے اور یہ اس قوم سے تعلق رکھتا ہے جو قربانی کے جانوروں کی تعظیم کرتے ہیں لہٰذا تم لوگ قربانی کے جانوروں کو اس کے سامنے کھڑا کردو ۔ اور سب لوگ ”لبیک“ پڑھنا شروع کردو۔ اس شخص نے جب قربانی  کےجانوروں کو دیکھا اور احرام کی حالت میں صحابہ کرام کو ”لبیک“  پڑھتے ہوئے  سنا تو کہا سبحان اللہ ! بھلا ان لوگوں کو کس طرح مناسب ہے کہ بیت اللہ سے روک دیا جائے؟  وہ فوراً ہی پلٹ کر کفار مکہ کے پاس پہنچا اور کہا کہ میں اپنی انکھوں سے دیکھ کر  آرہا ہوں  کہ قربانی کے جانور ان لوگوں کے ساتھ ہیں اور سب احرام کی حالت میں ہیں۔ اس کے بعد ایک شخص کفار مکہ کے لشکر میں سے کھڑا ہوگیا اور جس کا نام مکر بن حضص تھا ۔ اس نے کہا کہ مجھ کو تو تم لوگ وہا ں جانے دو۔ قریش نے کہا تم بھی جاؤ، چنانچہ  یہ چلا ، جب یہ نزدیک پہنچا تو حضور ﷺ نے فرمایا  کہ یہ ایک مکرز ہے۔ یہ بہت ہی لچا آدمی ہے اس نے آپ سے گفتگو شروع کی۔ ابھی اس کی بات پوری بھی نہ ہوئی تھی کہ نا گہاں ”سہیل بن عمرو“ آگیا۔ اس کو دیکھ  کر آپ نے نیک فال کے طور پر یہ فرمایا کہ سہیل آگیالواب تمہارا معاملہ  سہل  ہوگیا۔ چنانچہ  سہیل  نے آتے ہی کہا آئیے ہم اور آپ کے درمیان معاہدہ  کی ایک دستاویز لکھ لیں۔ حضورﷺ نے اس کو منظور فرمالیا اور حضرت علی ﷜ کو دستاویز لکھنے کے لئے طلب فرمایا۔ سہیل بن عمرو اورحضور ﷺ کے درمیان دیر تک صلح کے شرائط پر گفتگو ہوتی رہی بالآ خر چند شرطوں پر دونوں کا اتفاق ہوگیا۔ حضورﷺ نے حضرت علی ﷜ سے ارشاد فرمایا کہ لکھو ﷽سہیل نے کہا  کہ ہم ”رحمن“  کو نہیں جانتے کہ یہ کیا ہے؟ آپ ”باسمک اللھم “ لکھوائیے جو ہمارا اور آپ کا پرانا دستور ہے۔مسلمانوں نے کہا کہ ہم  ﷽کے سوا کوئی اور دوسرا لفظ نہیں لکھیں گے مگر حضورﷺ نے سہیل کی بات مان لی اور فرمایا کہ اچھا ۔ اے علی! باسمک اللھمہی لکھ دو ، پھر حضور ﷺ نے یہ عبارت لکھوا ئی  ”ھٰذا ماقضی علیہ محمد رسول اللہ“ یعنی یہ وہ شرائط ہیں۔ جن پر قریش کے ساتھ محمد رسول اللہﷺ نے صلح کا فیصلہ کیا ۔ سہیل پھر بھڑک گیا اور کہنے لگا کہ خدا کی قسم ! اگر ہم جان لیتے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں تو نہ ہم آپ کو بیت اللہ سے روکتے ، نہ آپ سے جنگ کرتے ۔ لیکن آپ ”محمد بن عبداللہ“ لکھئے آپ نے فرمایا کہ خدا کی قسم! میں محمد رسول اللہ بھی ہوں،اور محمد بن عبداللہ بھی ہوں۔ یہ اور بات ہے کہ تم لوگ میری رسالت کو جھٹلاتے ہو۔ یہ کہہ کر آپ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ ﷜سے فرمایا! محمد رسول اللہ کو مٹا دو،اور اس کی جگہ محمد بن عبداللہ لکھ دو ۔ حضرت علی ﷜رضی اللہ عنہ سے زیادہ کون مسلمان آپ کا فرمانبردار ہوسکتا ہے؟ لیکن محبت کے عالم میں کبھی کبھی ایسا مقام بھی آجاتا ہے  کہ سچے محب کو بھی اپنے محبوب کی فرمانبرادری سے محبت ہی کے جذبہ میں انکار کرنا پڑتا ہے۔حضرت علی ﷜ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! میں آپ کے نام کو ہر گز نہیں مٹاؤں گا۔ آپ نے فرمایا کہ اچھا مجھے دکھاؤ میرا نام کہاں ہے،حضرت علی ﷜ نے اس جگہ پر انگلی رکھ دی۔ آپ نے وہاں سے ”رسول اللہ“  کا لفظ مٹا دیا۔ بہرحال صلح کی تحریر مکمل ہوگئی اس دستاویز میں یہ طے کر دیا گیا کہ فریقین کے درمیان دس سال تک لڑائی بالکل موقوف رہے گی۔ صلح نامہ کی باقی دفعات اور شرائط یہ تھیں کہ:

۱۔  مسلمان اس سال بغیر عمرہ ادا کیے واپس چلے جائیں۔

۲ ۔  آئندہ سال عمرہ کے لئے آئیں اور صرف تین دن مکہ میں ٹھہرکر واپس چلے جائیں۔

۳۔  تلوار کے سوا کوئی دوسرا ہتھیار لے کر نہ آئیں ۔ تلوار بھی نیام کے اندر رکھ کر تھیلے وغیرہ میں بند ہو۔

۴۔  مکہ میں جو مسلمان پہلے سے مقیم ہیں ان میں سے کسی کو اپنے ساتھ نہ لے جائیں اور مسلمانوں میں سے اگر کوئی مکہ میں رہنا چاہے تو اس کو نہ روکیں۔

۵۔  کافروں یا مسلمانوں میں سے کوئی شخص  اگر مدینہ  چلا جائے تو واپس کر دیا  جائے لیکن اگر کوئی مسلمان مدینہ سے مکہ چلا جائے تو وہ واپس نہیں کیا جائے گا۔

۶۔  قبائل عرب کو اختیار ہوگا کہ وہ فریقین میں سے جس کے ساتھ چاہیں دوستی کا معاہدہ کرلیں۔

یہ شرطیں ظاہر ہے کہ مسلمانوں کے سخت خلاف تھیں اور صحابہ کرام کو اس پر بڑی زبردست ناگواری  رہی ۔ مگر وہ فرمان رسالت کے خلاف دم مار نےسے مجبور تھے۔ابن ہشام جلد   ۳ ، ص۳۱۷ وغیرہ)

حضرت ابو جندل  رضی اللہ عنہ کا معاملہ:

یہ عجیب اتفاق ہے کہ معادہ لکھا جا چکا تھا ۔ لیکن ابھی  اس پر فریقین کے دستخط  نہیں ہوئے تھے کہ اچانک اسی سہیل بن عمرو کے صاحبزادے حضرت ابو جندل ﷜رضی اللہ عنہ اپنی بیڑیاں گھسیٹتے ہوئے  گرتے پڑتے "حدیبیہ"ََ  میں مسلمانوں کے درمیا ن آن پہنچے ۔ سہیل بن عمرو اپنے بیٹے کو دیکھ کر کہنے  لگا کہ اے محمد (ﷺ ) اس معادہ کی دستاویز پر دستخط  کرنے کے لئے میری پہلی شرط یہ  ہے کہ آپ ابو جندل رضی اللہ عنہ کو میری طرف واپس کردیں۔ آپ نے فرمایا کہ ابھی تو اس معاہدہ پر فریقین کے دستخط ہی نہیں ہوئے ہیں۔ ہمارے اور تمہارے دستخط ہو جانے کے بعد یہ معاہدہ نافذ ہوگا۔یہ سن کر سہیل بن عمرو کہنے لگا کہ پھر جائیے میں آپ سے کوئی صلح نہیں کروں گا ۔ آپ نے فرمایا  کہ اچھا اے سہیل تم اپنی طرف سے اجازت دے دو کہ میں ابو جندل رضی اللہ عنہ کو اپنے پاس رکھ لوں۔ اس نے کہا کہ میں ہر گز کبھی اس کی اجازت نہیں دے سکتا۔ حضرت ابو جندل ﷜ نے جب دیکھا کہ میں پھر مکہ لوٹا دیا جاؤ ں گا تو انہوں نے مسلمانوں سے فریاد کی اور کہا کہ اے جماعت مسلمین ! دیکھو مشرکین کی طرف لوٹا یا جا رہا ہوں ۔ حالانکہ میں مسلمان ہوں اور تم مسلمانوں کے پاس آگیا ہوں  کفار کی مار سے ان کے بدن پر چوٹوں کے جو نشانات تھے انہوں نے ان نشانات کو دکھا دکھا کر مسلمانوں کو جوش دلایا ۔  حضرت عمر ﷜ رضی اللہ عنہ پر حضرت ابو جندل ﷜ رضی اللہ عنہ کی تقریر سن کر ایمانی جذ بہ بیدار ہوگیا اور وہ  جوش میں بارگاہ رسالت ﷺمیں پہنچے اور عرض  کیا   کہ کیا آپ سچ مچ  اللہ  کے رسول نہیں ہیں  ؟ ارشاد فرمایا کیوں نہیں ؟ انہوں نے کہا کہ کیا ہم حق پر اور  ہمارے دشمن باطل پر نہیں ہیں؟ ارشاد فرمایا  کہ کیوں نہیں؟ انہوں نے کہا کہ کیا پھر ہمارے دین میں ہم  کو یہ ذلت کیوں دی جا رہی ہے؟ آپ  نے فرمایا اے عمر رضی اللہ عنہ! میں اللہ کا رسولﷺ ہوں، میں اس کی نافرمانی نہیں کر تا ہوں،وہ میرا مدد گار ہے پھر حضرت عمر ﷜ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ! کیا  آپ ہم سے یہ وعدہ نہ فرماتے تھے کہ ہم عنقریب  بیت اللہ  میں آکر طواف کریں گے؟ ارشاد فرمایا کہ کیا میں نے تمہیں یہ خبر دی تھی کہ ہم اس سال بیت اللہ داخل ہوں گے؟ انہوں نے کہا کہ "نہیں" آپ نے ارشاد فرمایا! کہ میں  پھر کہتا ہوں کہ تم یقیناً کعبہ میں پہنچو گےاور اس کا طواف کرو گے۔

دربارِ رسالت ﷺسے اٹھ کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ﷜ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس آئے  اور وہی گفتگو کی جو بارگاہ رسالت میں عرض کر چکے تھے آپ نے فرمایا  ! اے عمر رضی اللہ عنہﷺ!وہ خدا کے رسول ہیں۔ وہ جو کچھ کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ہی کے حکم سے کرتے ہیں وہ کبھی خدا کی نا فرمانی نہیں کرتے اور خدا ان کا مددگار ہے اور خدا کی قسم ! یقیناً وہ حق پر ہیں لہٰذا تم ا نکی رکاب تھامے رہو۔(ابن ہشام ، جلد۳، ص ۲۱۷)

حضرت عمررضی اللہ عنہ﷜ کو تمام عمر ان باتوں کا صدمہ رہا اور سخت رنج و افسوس رہا جو انہوں نے جذبہ بے اختیاری میں حضورﷺ  سے کہہ دی تھیں زندگی بھر وہ اس سے توبہ و استغفار کرتے رہے  اور اس کے کفارہ کے لئے انہوں نے نمازیں پڑھیں، روزے رکھے، خیرات کی، غلام آزاد کیے، بخاری شریف میں اگر چہ ان اعمال کا مفصل تذکرہ نہیں ہے،اجمالاً ہی ذکر ہے ۔ لیکن دوسری کتابوں میں نہایت تفصیل کےساتھ یہ تمام باتیں بیان کی گئی ہیں۔

بہر حال یہ بڑے  سخت امتحان اور آز مائش کا وقت تھا۔ ایک طرف حضرت ابو جندل رضی اللہ عنہ گڑ گڑا کر مسلمانوں سے فریاد کر رہے ہیں اور ہر مسلمان اس قدر جوش میں بھرا ہوا ہے کہ اگر رسول ﷺکا ادب مانع نہ ہوتا تو مسلمانوں کی تلواریں نیام سے باہر نکل نکل پڑتیں ۔ دوسری طرف معاہدہ پر دستخط  ہوچکے ہیں اور اپنے عہد کو پورا کرنے کی ذمی داری سر پر آن پڑ ی ہے۔ حضور ﷺ نے موقع کی نزاکت کا خیال فرماتے ہوئے  حضرت ابو جندل ﷜ رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ تم صبر کرو۔ عنقریب اللہ تعالی  تمہارے لئے اور دوسرے مظلوموں کے  لئے ضرور کوئی راستہ نکالے گاہم صلح کا معاہدہ کر چکے ہیں، اب ہم ان لوگوں سے بد عہدی نہیں کرسکتے  الغرض حضرت ابو جندل رضی اللہ عنہ ﷜ کو اسی طرح پابز نجیر پھر مکہ واپس جانا پڑا۔

جب صلح  نامہ مکمل ہوگیا تو حضورﷺ نے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو حکم دیا کہ اٹھو اور قربانی کرو اور سرمنڈا کر احرام کھول دو۔ مسلمانوں کی ناگواری  اور ان کے غیظ و غضب کا  یہ عالم تھا کہ فرمان نبوی سن کر ایک شخص بھی نہیں اٹھا مگر ادب کے خیال سے کوئی ایک لفظ بو ل بھی نہ سکا ۔ آپ نے حضرت بیبی ام سلمہ ﷜ رضی اللہ عنہاسے اس کا تذکرہ فرمایا تو انہوں نے عرض کیاکہ میری رائے یہ ہے کہ آپ کسی سے کچھ بھی نہ کہیں اور خود اپنی قربانی کر لیں اور با ل ترشوالیں چنانچہ آپ نے ایسا ہی کیا ۔ جب صحابۂ کرام  رضی اللہ عنہم نے آپ کو قربانی کر کے احرام اتارتے دیکھ لیا ۔ تو پھر وہ لوگ مایوس ہوگئے کہ اب اپنا فیصلہ نہیں بدل سکتے تو سب لوگ قربانی کرنے لگے اور ایک دوسرے کے بال تراشنےلگے مگر اس قدر رنج و غم میں بھرے ہوئے تھے کہ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ایک دوسرے کو قتل کر ڈالیں گےاس کے بعد رسول اکرم ﷺ نے اپنے اصحاب کے ساتھ مدینہ منورہ کے لئے روانہ ہوگئے ۔(بخاری جلد ۲، ص ۶۱۷، باب عمرۃ القضاء مسلم جلد ۸ ص ۱۰۴ صلح حدیبیہ ، بخاری جلد ، ص ۳۸۰ باب شروط  فی الجہاد)

فتح مبین:

اس صلح کو تمام صحابہ رضی اللہ عنہم نے ایک مغلوبانہ صلح ، اور ذلت آمیز معاہدہ ،سمجھا اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ ﷜ کو اس سے جو رنج و صدمہ گزرا وہ آپ پڑھ چکے ۔ مگر اس کے بعد یہ آیت نازل ہوئی کہ:

اِنَّافَتَحْنَا لَکَ فَتْحًا مُّبِیْنًا              

ترجمۂ کنزالایمان: اے حبیب ! ہم نے آپ کو فتح مبین عطا کی (سورۃالفتح آیت۱)

خدا وند قدوس نے اس صلح کو ”فتح مبین“ بنایا ۔ حضرت عمر ﷜ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ کیا یہ فتح ہے ؟ آپ نے ارشاد فرمایا کہ ”ہاں یہ فتح ہے“۔

گو اس وقت اس صلح نامہ کے بارے میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے خیالات اچھے نہیں تھے۔ مگر اس کے بعد کے واقعات نے بتادیا کہ درحقیقت یہ صلح تمام فتوحات کی کنجی ثابت ہوئی ،اور سب نے مان لیا کہ واقعی  صلح حدیبیہ  ایک ایسی فتح مبین تھی جو مکہ میں اشاعت ِ اسلا م بلکہ فتح مکہ کا زریعہ  بن گئی اب تک مسلمان اور کفار ایک دوسرے سے الگ تھلگ  رہتے تھے ایک دوسرے سے ملنے جلنے کا موقع ہی نہیں ملتا تھا مگر اس صلح کی وجہ سے ایک دوسرے کے یہاں  آمدو رفت آزادی کے  ساتھ گفت و شنید ااور تبادلۂ خیالات کا راستہ کھل گیا۔  کفار مدینہ  آتے اور مہینوں ٹھہر کر   مسلمانوں  کے کردار و اعمال کا گہرا مطالعہ کرتے ، اسلامی  مسائل اور اسلام کی خوبیوں کا تذکرہ سنتے جو مسلمان مکہ جاتے اور اپنے چال چلن، عفت شعاری اور عباد ت گزاری سے کفار کے دلوں پر اسلام کی خوبیوں کا ایسا نقش بٹھا دیتے کہ خود بخود کفار اسلام کی طرف مائل ہوتے جاتے تھے۔  چنانچہ  تاریخ گواہ ہے کہ صلح حدیبیہ  سے فتح مکہ تک  اس قدر کثیر تعداد میں لوگ مسلمان ہوئے کہ اتنے کبھی نہیں ہوئے تھے۔ چنانچہ  حضرت خالد بن الولید رضی اللہ عنہ (فاتح شام) اور حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ (فاتح مصر) بھی اسی زمانے میں خود بخود مکہ سے مدینہ جا کر مسلمان ہوئے۔ (سیرۃ ابن ہشام جلد ۳ ، ص ۲۷۷ تا ۲۷۸)

مظلومین مکہ:

ہجرت کے بعد جو لوگ مکہ میں مسلمان ہوئے انہوں نے کفار کے  ہاتھوں بڑی بڑی مصیبتیں براشت کیںان کو زنجیروں میں باندھ کر کوڑے سے مارتے تھےلیکن جب بھی ان میں سے کوئی شخص موقع پاتاتو چھپ کر مدینہ آجاتا تھاصلح حدیبیہ نے اس کا دروازہ بند کردیا کیونکہ  اس صلح نامہ میں یہ شرط تحریر تھی کہ مکہ سے جو شخص  بھی ہجرت کرکے مدینہ جائے گا  وہ پھر واپس مکہ بھیج دیا جائیگا۔

حضرت ابوبصیر رضی اللہ عنہ کا کارنامہ:

صلح  حدیبیہ  سے فارغ  ہو کر جب حضور ﷺ مدینہ  منورہ واپس تشریف لائے تو سب سے پہلے جو بزرگ مکہ مکرمہ سے ہجرت کر کے مدینہ منورہ آئے وہ حضرت ابو بصیر ﷜ تھے ۔ کفار مکہ نے  فوراً  دو آدمی مدینہ روانہ کیےکہ ہمارا آدمی واپس کر دیجئے حضور ﷺ نے حضرت ابو بصیر ﷜ رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ ”تم مکے چلے جاؤ“  تم جانتے ہو کہ ہم نے قریش سے معاہدہ کرلیا ہے اور ہمارے دین میں عہد شکنی اور غداری جائز نہیں ہے ، حضرت ابو بصیر ﷜ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا !  یارسول اللہ ﷺکیا آپ مجھےکافروں کے حوالہ فرمائیں گے تاکہ وہ مجھے  کفر پر مجبور کریں؟ آپ نے ارشاد فرمایا کہ تم جاؤ! خداوند کریم تمہاری  رہائی کا کوئی سبب بنادے گا آخر مجبور ہوکر حضرت ابو بصیر رضی اللہ عنہ ﷜  دونوں کافروں کی حراست میں مکہ واپس ہوگئے ۔ لیکن جب مقام ”ذولحلیفہ“ میں پہنچے تو سب کھانے کے لئے بیٹھے اور باتیں کرنے لگے حضرت ابو بصیر رضی اللہ عنہ ﷜ نے ایک کافر سے کہا کہ اجی ! تمہاری تلوار بہت اچھی معلوم  ہوتی ہے۔ اس نے خوش ہوکر نیام تلوار سے نکال کر دکھائی  اور کہا کہ بہت ہی عمدہ تلوار ہے  اورمیں نےبارہا لڑائیوں میں اس کا تجربہ کیا ہے حضرت ابو بصیر رضی اللہ عنہ ﷜ نے کہا کہ ذرا میرے ہاتھ میں دو میں بھی دیکھوں کہ کیسی تلوار ہے؟ اس  نےتلوار ان کے ہاتھ میں دے دی۔ انہوں نےتلوار ہاتھ میں لے کر اس زور سے  ماری کہ  کافر کی گردن کٹ گئی اور اس کا سر دور جاگرا اس کے ساتھی نے جو یہ منظر دیکھا تو وہ سر پر پیر رکھ کر بھاگااور سرپٹ دوڑتا ہوا مدینہ منورہ پہنچا اور مسجد نبوی  میں گھس گیا۔ حضور اکرم ﷺ  نے اس کو دیکھتے ہی فرمایا کہ یہ شخص  خوفزدہ  معلوم ہوتا ہے اس نے ہانپتے کانپتے ہوئے بارگاہ نبوّت  میں عرض کیا کہ میرے ساتھی کو ابو بصیر رضی اللہ عنہ نے قتل  کر دیا ہے اور میں بھی ضرور مارا جاؤں گا اتنے میں حضرت ابو بصیر ﷜  رضی اللہ عنہ بھی ننگی تلوار ہاتھ میں لئے ہوئے آن پہنچے اور عرض کیا  یا رسول اللہﷺ ﷜ اللہ تعالیٰ نے آپ کی ذمہ داری پوری کردی  کیونکہ صلح نامہ کی شرط کے بموجب آپ نے تو مجھے  واپس کر دیاتھا۔ اب یہ اللہ تعالیٰ کی مہر بانی ہے کہ اس نے مجھے  ان کافروں سے نجات دے دی۔ حضورﷺ کو اس واقعہ سے بڑارنج پہنچا اور آپ نے خفا ہو کر فرمایا کہ:

وَیْلُ اُمِّہٖ مِسْعَرُ حَرْبٍ لَوْ کَانَ لَہُ اَحَدٌ

ترجمہ :  اس کی ماں مرے ! یہ تو لڑائی بھڑکا دے گا کاش اس کے ساتھ کوئی آدمی ہوتا جو اس کو روکتا۔

حضرت ابو بصیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  اس جملہ سے سمجھ گئے اورساحل سمندر کے قریب مقام ”عیص“ میں جاکر ٹھہرے ادھر مکہ سے حضرت ابو جند ل ﷜ رضی اللہ عنہ اپنی زنجیر کاٹ کر بھاگے اور وہ بھی وہیں پہنچ گئےپھر مکہ کے دوسرے مظلوم مسلمانوں کی جنگل میں ستر آدمیوں کی جماعت جمع ہوگئی  کفار مکہ کے تجارتی قافلوں کا یہی راستہ تھا کہ کفار  کا ناک میں سانس دم کردیا تھا بالآخر کفار قریش نے خدا  اور رشتہ داری کا واسطہ دے کر حضورﷺ کو خط لکھا کہ ہم صلحنامہ  میں اپنی شرط سے باز آئے ہیں آپ ان لوگوں کو ساحل سمندر سے مدینہ بلالیجئے اور اب ہماری طرف سے اجازت ہے کہ جو مسلمان بھی مکہ سے بھاگ کر مدینہ جائے آپ اس کو مدینہ میں ٹھہرا لیجئے  ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہ ہوگا۔(بخاری باب الشروط فی الجہادجلد۱ ، ص ۳۸۰)

یہ بھی  روایت ہے کہ قریش نے خود ابو سفیان کو مدینہ بھیجا کہ ہم صلح نامہ حدیبیہ میں اپنی شرط سے دست بردار ہوگئے لہٰذا  آپ حضرت ابو بصیر ﷜ رضی اللہ عنہ کو مدینہ میں بلا لیں تاکہ ہمارے تجارتی قافلے ان لوگوں کے قتل و غارت سے محفوظ ہو جائیں۔

چنانچہ  حضورﷺ نے حضرت ابو بصیر ﷜ رضی اللہ عنہ کے پاس خط بھیجا گیا کہ تم اپنے ساتھیوں سمیت مقام ”عیص“  سے چلے آؤ۔ مگر افسوس: کہ فرمان رسالت ﷺان کے پاس ایسے وقت میں پہنچا جب نزع کی حالت میں تھےمقدس خط کو انہوں نے اپنے ہاتھوں میں لے کر سر آنکھوں پر رکھا اور ان کی روح پرواز کر گئی حضرت ابو جندل ﷜ رضی اللہ عنہ نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل جل کر ان کی تجہیز و تکفین کا انتظام کیا اور دفن کے بعد ان کی قبر شریف کے پاس یادگار کے لئے ایک مسجد بنادی پھر فرمان رسول ﷺکے بموجب  یہ سب لوگ وہاں سے آکر مدینہ  میں آباد ہوگئے۔(مدارج النبوۃ جلد ۲،ص۲۱۸)

 

فائدہ :اس سے معلوم ہوا کہ مزارات کے ساتھ  مسجد بنانا بدعت    نہیں ہے ،بلکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی سنت ہے۔

تجویزوآراء