مقام منیٰ
منیٰ کی وادی اور سرزمین معجزاتی ہے۔ اس کی تاریخ بھی قدیم ہے۔ انبیاء کرام اور مرسلین عظام یہاں تشریف لاتے رہے ہیں، مسجد خیف اُس عظیم قطعہ اراضی پر تعمیر کی گئی ہے کہ جہاں ۷۰ انبیاء کرام کے مزارات واقع ہیں اور اسی جگہ پیارے آقا مدنی تاجدار صلی اللہ علیہ وسلم نے منیٰ میں خطبہ ارشاد فرمایا تھا نیز یہیں نمازیں ادا فرمائی تھی۔ منیٰ میں واقع جمرات کی بھی تاریخی حقیقت ہے، جو اس طرح ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے اپنے خلیل سیدنا ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام کو خواب میں حکم فرمایا کہ اپنے بیٹے حضرت سیّدنا اسمٰعیل علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اللہ کی راہ میں اپنے ہاتھوں سے قربان کریں تو حضرت خلیل اللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے بیٹے حضرت سیدنا اسمٰعیل علیہ الصلوٰۃ والسلام سے اپنے خواب کا ذکر فرمایا، تو سعاد ت مند بیٹے نے جواب دیا کہ آپ کو جو حکم ملا ہے اس پر عمل کیجیے میں ان شاء اللہ صبر کرنے والوں میں رہوں گا۔ حضرت اسمٰعیل علیہ الصلوٰۃ والسلام کا یہ خوبصورت فدویا نہ اور اطاعت گذارانا جواب اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام مقدس قرآن مجید میں بیان فرماکر دنیا بھر کے بیٹوں کے لیے سعادت مندی اختیار کرنے کا بے مثال نمونہ قرار دیا ہے۔تیئیسواں(۲۳) پارہ، ۳۷ واں سورہ ’’والصّٰفّٰت‘‘آیت نمبر ۱۰۲ میں عظیم باپ اور سعادت مند بیٹے کا مکالمہ یوں درج ہے :
قَالَ یَا بُنَیَّ اِنِّیْ اَرَیٰ فِیْ الْمَنَامِ اَنِّیْ اَذْبَحُکَ فَانْظُرْ مَاذَا تَرٰی قَالَ
یٰٓاَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ سَتَجِدُنِیْ اِنْ شَآءَ اللّٰہُ مِنَ الصّٰبِرِیْنَ
(ترجمہ) ’’اے میرے بیٹے ! میں نے خواب میں دیکھا میں تجھے ذبح کرتا ہوں اب تو دیکھ تیری کیا رائے ہے؟ کہا : اے میرے باپ ! کیجیے جس بات کا آپ کو حکم ہوتا ہے خدا نے چاہا تو قریب ہے کہ آپ مجھے صابر پائیں گے‘‘۔
اس وقت کی دنیا کی انتہائی معزز اور عظیم فیملی یعنی حضرت ابراہیم، حضرت اسمٰعیل اور حضرت سیّدہ حاجرہ علیہم السلام اجمعین اسی میدان منیٰ میں موجود تھی۔ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے بیٹے حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کو قربان کرنے کے لیے چلے تو انہوں نے اپنی اہلیہ حضرت سیّدہ حاجرہ علیہا السلام کو کچھ گوش گزار نہیں فرمایا۔ شیطان مردود اس اطاعت کے عمل سے بہت پریشان ہورہا تھا لہٰذا وہ حضرت سیّدہ حاجرہ علیہا السلام کی خدمت میں جاکر کہنے لگا،تمہارے شوہر تمہارے بیٹے کو گھمانے پھرانے اور سیر کرانے کے لیے نہیں لے کر گئے ہیں، ارے تمہارے شوہر تو تمہاری گود اُجاڑنے گیا ہے تمہارے بیٹے کو قربان کرنے گیا ہے، جلدی جاؤ اور اپنی ممتا کا واسطہ دے کر اپنے بچے کو واپس لاؤ۔ حضرت سیّدہ حاجرہ علیہا السلام نے کہا کہ میرا شوہر کوئی عام انسان نہیں وہ اللہ کا رسول ہے اللہ کے حکم سے ہی اپنے بیٹے کو لے کر گیا ہے، شیطان نے کہا !ارے تم سوچو تو صحیح تمہارا ایک ہی تو بیٹا ہے وہ اپنی جان سے گیا تو کیا ہوگا ؟ اپنے بیٹے کی جان بچاؤ اور اسے لے کر شوہر سے دور چلی جاؤ، کہیں کسی گوشہ میں جاکر چھپ جاؤ۔ حضرت سیّدہ حاجرہ نے اس کا یہ اصرار دیکھ کر سمجھ لیا کہ یہ میرا ہمدرد کوئی انسان نہیں بلکہ یہ شیطان ہے اور مجھے اپنے خاوند کے خلاف بھڑکا رہا ہے لہٰذا انہوں نے فرمایا ! تو خبیث شیطان ہے میں تجھے پہچان گئی ہوں چنانچہ آپ نے چند کنکریاں اُٹھا کر اُسے مارتے ہوئے فرمایا : اگر اللہ تعالیٰ کی رضا اسی میں ہے میراخاوند بیٹے کو قربان کرے تو میں بھی تو رضائے الٰہی کی جستجو رکھتی ہوں اگر اللہ ہم سے اسی قربانی کے نتیجے میں راضی ہوتا ہے تو میں بھی راضی ہوں آپ نے شیطان کو کنکریاں ماریں وہ بھاگنا چاہتا تھا تو زمین نے اُسے پکڑ لیا، حضرت سیّدہ حاجرہ علیہا السلام کے آگے گڑگڑانے لگا کہ آئندہ نہیں ورغلاؤں گا مجھے چھوڑ دیجیے۔ پھر زمین کی گرفت سے آزاد ہوا۔ جس جگہ شیطان کو زمین نے جکڑا تھا یہاں چھوٹے شیطان کا علامتی نشان بنادیا گیا ہے۔ ابلیس لعین حضرت حاجرہ سے مایوس ہونے کے بعد حضرت سیّدنا اسمٰعیل علیہ السلام کے پاس گیا اور انہیں ورغلانے کی کوشش کی۔ شیطان نے کہا کہ تمہارے باپ نے خواب کی بات پر عمل کرنے کا جو فیصلہ کیا ہے یہ ٹھیک نہیں ہے۔ زندگی ایک بار ملتی ہے اگر تمہارے باپ نے تمہیں قربان وذبح کردیا تو پھر دوبارہ زندگی نہیں ملے گی، موقع ہے تم پیچھے چل رہے ہو تمہارا باپ آگے آگے جارہا ہے بس اس سے بہتر موقع نہیں ہوگا خاموشی سے پیچھے ہی سے بھاگ جاؤ۔ حضرت اسمٰعیل علیہ السلام نے بھی سمجھ لیا کہ یہ شیطان لعین ہے چنانچہ آپ علیہ السلام نے فرمایا: جو زندگی اللہ کے نام پر قربان ہوجائے تو پھر دائمی زندگی مل جاتی ہے، حضرت اسمٰعیل علیہ السلام نے لاحول ولا قوۃ الا باللہ العلی العظیم پڑھا تو شیطان بھاگا، پھر زمین نے شیطان کو جکڑ لیا، جس جگہ زمین نے شیطان کی گرفت کی اُس جگہ ’’درمیانے شیطان‘‘ کی علامت قائم کی گئی ہے۔ شیطان اس کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس آیا اور ان کے دل میں وسوسے پیدا کرنے لگا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو شیطان کہنے لگا کہ تم کیسے باپ ہو ؟ کیا بیٹے کی محبت نہیں ہے ؟ تم اپنے بیٹے کو قربان کرکے گھر واپس جاؤ گے تو تمہاری بیوی جب تم سے پوچھے گی کہ بیٹا کہاں ہے ؟ تو کیا جواب دو گے ؟ ارے خواب تو خواب ہی ہوتا ہے کوئی وحی تو نازل نہیں ہوئی تھی، تم خواب کی بات پر عمل کرنے لگے، کیا واقعی تم اپنے بیٹے کو قربان کردوگے ؟ حضرت ابراہیم علیہ السلام استقامت کا پہاڑ بنے ہوئے تھے۔ آپ نے نہایت حوصلہ مندی اور جرأت سے جواب دیا کہ ہاں میں اپنے ہاتھوں اپنے ایک بیٹے ہی کو کیا اگر اور بیٹے ہوتے اور اللہ کا حکم ہوتا تو تمام بیٹے اللہ کی رضا کے لیے قربان کردیتا۔ حضرت سیّدنا ابراہیم علیہ السلام نے شیطان کو کنکریاں ماریں شیطان چیختا ہوا بھاگا تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے کہنے سے زمین نے شیطان کو جکڑ لیا اور اسی مقام پر بڑے شیطان کا علامتی نشان آج بھی موجود ہے۔دوسری روایت یہ ہے کہ شیطان نے تین مرتبہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پائے استقامت متزلزل کرنا چاہے تو حضرت خلیل نے تینوں مرتبہ اسے کنکریاں ماریں اور زمین نے جن مقامات پر شیطان کو جکڑا، وہیں علامتی شیطان بنادئیے گئے ہیں جہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے اسمٰعیل علیہ السلام کو قربان کرنے کے موقع پر لٹایا تھا وہاں ایک مسجد ’’کبش‘‘ واقع تھی جو اب شہید کردی گئی ہے۔حج کے موقع پر اللہ تعالیٰ نے ’’رمی جمرات‘‘ کو واجب قرار دیا ہے۔ شیاطین کی رمی کے وقت یہ پڑھنا چاہیے۔
بِسْمِ اللّٰہِ اَللّٰہُ اَکْبَر رَغْمًا لِّلشَّیْطٰنِ وَرَضِیَ لِلرَّحْمٰنِ
مِنیٰ میں ایک ہی وقت میں ۲۵ تا ۳۰ لاکھ حجاج کرام جمع ہوتے ہیں، یہاں کھانا بھی ضائع ہوتا ہے، یہاں کثیر تعداد میں مرد وعورت بول وبراز بھی کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود منیٰ میں مکھی پیدا نہیں ہوتی ہے۔ یہ معجزہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔منیٰ میں ایک پہاڑ ’’جبل ثبیر‘‘ کے بارے میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ: ’’یہ جنتی پہاڑ ہے‘‘۔