مقام عرفات
مکۃ المکرمہ شہر، حرم شریف کی حدود میں ہے، اس شہر کے اطراف وجوانب میں حرم شریف کی حدود مختلف فاصلوں تک ہیں، مثلاً : اگر ہم بیت اللہ شریف کو مکۃ المکرمہ کا مرکز سمجھیں تو مدینہ منورہ کے راستے میں ’’تنعیم‘‘ کے مقام تک ۷ کلومیٹر ( ۴ میل، ۶۱۵گز)۔ طائف کے راستہ میں قبل عرفات ۲۲ کلومیٹر ( ۱۳ میل ۱۱۷۹گز)جبکہ ’’جعرانہ‘‘ کے مقام تک ۲۸ کلومیٹر( ۱۷میل ۷۰۱گز)۔جدّہ کے راستے میں ’’حدیبیہ‘‘ مسجد الشجرہ کے مقام تک ۲۲ کلومیٹر (۱۳میل ۱۱۷۹گز)۔جبکہ جدّہ کی موجودہ موٹروے کے راستے میں ’’مسجد الشمیسی‘‘ یمن کی جانب ’’اضأۃ لبن‘‘ تک ۲۰ کلومیٹر ( ۱۲ میل ۷۵۲گز)حدود حرم ہیں۔ حدود حرم کا مجموعی رقبہ ۱۲۰ مربع میل یا ۳۱۰۰۸مربع کلومیٹر ہے۔ منیٰ، مزدلفہ، حرم شریف کی حدود میں ہیں جبکہ عرفات حرم شریف سے باہر ہے۔ میدان عرفات کی قدیم تاریخ ہے جس کا تعلق حضرت آدم علیہ السلام سے ہے۔ اسی میدان عرفات میں حضرت آدم علیہ السلام کا پیکر خاکی تخلیق ہوا۔ تخلیق کے بعد اللہ تعالیٰ نے روح کو حکم دیا کہ وجود آدم میں داخل ہو، روح وجود آدم علیہ السلام میں داخل ہوکر گھبرا کر باہر آگئی اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عرض کیا کہ ’’اندر بہت اندھیرا ہے ‘‘۔ اللہ تعالیٰ جل جلالہٗ نے اپنے پیارے محبوب علیہ الصلوٰہ والسلام کے نور اقدس کو حضرت آدم علیہ السلام کے جبینِ مبارک میں رکھا، نور مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی ضیاء پاشیوں سے حضرت آدم علیہ السلام کا وجود مبارک ظاہر اور باطن دونوں اعتبار سے منورمجلّی ہوگیا۔ستھرا، ستھرا، نکھرا، نکھرا اور اُجلا،اُجلا ہوگیا۔ پھر اللہ کے حکم سے ’’روح ‘‘ حضرت آدم علیہ السلام کے جسم اقدس میں داخل ہوگئی۔ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں اور جنات پر حضرت آدم علیہ السلام کی برتری کے لیے فرشتوں سے ’’علم الاسمآء‘‘دریافت فرمائے تو فرشتے جواب نہ دے سکے۔ جب حضرت آدم علیہ السلام سے یہی سوال کیا گیا تو آپ نے نورِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل ’’علم الاسمآء‘‘بیان فرمادیے۔ حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق ’’عرفات‘‘ میں ہوئی۔ ٹیسٹ یعنی امتحان ’’وادئ نعمان‘‘ میں ہوا، وادی نعمان عرفات کے دوسری طرف واقع ہے، اور یہیں اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کی علمی برتری ثابت ہوجانے پر ’’وادئ نعمان ‘‘ میں حضرت آدم علیہ السلام کو اشرف المخلوقات کا تاج عزّت وعظمت عطا فرمایا، صفی اللہ کا لقب عطا فرمایا اور تعظیماً مسجود ملائکہ قرار دے کر فرشتوں کو حکم دیا کہ حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کریں۔ عزازیل یعنی ابلیس نے سجدہ نہیں کیا۔ اور راندۂ درگاہ ہوگیا۔ قرآن مجید میں اس کی تفصیل موجود ہے۔
وَاِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰٓئِکَۃِ اسْجُدُوْا لِآٰدَمَ فَسَجَدُوْا اِلاَّاِبْلِیْسَ اَبٰی وَاسْتَکْبَرَ وَکَانَ مِنَ الْکٰفِرِیْنَo
ترجمہ :اور یاد کرو جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو تو سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے کہ منکر ہوا اور غرور کیا اور کافر ہوگیا۔(کنزالایمان)
حجاج کرام ! یاد رکھیے: اللہ تعالیٰ اگر چاہتا تو حضرت آدم علیہ السلام کو علمی برتری اور تعظیمی سجدہ کے شرف سے قبل جنت میں جگہ عطا فرمادیتا، مگر اللہ تعالیٰ نے پہلے اپنے ’’صفی‘‘یعنی انتخاب کیے ہوئے حضرت آدم علیہ السلام کو علمی برتری وعظمت کا موقع عطا فرمایا اور حضرت آدم صفی اللہ علیہ السلام نے اپنی عظمت کو ثابت کیا تو پھر اللہ تعالیٰ نے ’’جنت‘‘ میں حضرت آدم علیہ السلام کو رہائش عطا فرمائی۔گویا ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے جدّ بزرگوار اور اللہ کے انتخاب کردہ حضرت آدم علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے انتخاب کی لاج رکھی اور اپنے آپ کو پہلے اس قابل ثابت کیا پھر جنت میں آباد ہوئے۔ ہمارے لیے اس میں ایک پیغام ہے کہ میری اولادو ! تم جنت میں آباد ہونے کے قابل خود کو ثابت کرو۔
جب اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت حوّا سلام اللہ علیھا کو زمین پر الگ الگ مقامات پر اتارا، حضرت آدم علیہ السلام سری لنکا میں اور حضرت حوّا سلام اللہ علیھا جدّہ میں۔ جدّہ عربی میں دادی کو کہتے ہیں گویا ساحلی شہر ’’جِدّہ‘‘ کے نام سے یعنی حضرت حوا علیہا السلام کے قدم مبارک کے فیوضات کا مظہر ہے۔ حضرت آدم علیہ السلام، اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا فرماتے رہے، یہاں تک کہ تین سو برس گزر گئے پھر بھی دعا کی قبولیت کا اشارہ نہیں ملا۔ پھر چلتے چلتے یہاں میدان عرفات پہنچے تو اچانک ایسا محسوس ہوا کہ کوئی بھولا ہوا سبق یاد آگیا۔ جگہ پہچانی پہچانی سی لگی اور کیوں نہ پہچان ہوتی کہ آپ کے وجود میں ’’روح ‘‘ نے اسی جگہ استقرار کیا تھا۔آپ کو یہ بھی یاد آیا کہ روح پہلے داخل ہوکر اندھیرے کے باعث باہر آگئی تھی تو پھر ظلمت وتاریکی کو دور کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے میری پیشانی میں اپنے محبوب کا نور رکھا تھا۔ بس یہ یاد آتے ہی حضرت آدم علیہ السلام نے نور مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا وسیلہ پیش کیا، تین سو برس سے جو دعا وصل اجابت سے دور تھی اب قبولیت شرف سے معمور ہوگئی، صرف یہی نہیں بلکہ آپ کی اہلیہ محترمہ حضرت سیّدہ حوّا سلام اللہ علیھا آپ پر ظاہر کردی گئی، نگاہوں سے حجابات اُٹھ گئے آپ نے ’’جبل رحمت‘‘ پر سے ساحل جدہ پر اپنی اہلیہ محترمہ کو ملاحظہ فرمایا اورجِدّہ جاکر انہیں لے کر آئے۔ اور اسی عرفات کے میدا ن آئے اور اپنی اہلیہ کو اپنی تخلیق کے بارے میں اور نورِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم پیشانی میں رکھے جانے کے بارے میں اور اسی نور کے وسیلہ سے دعا کی قبولیت کے بارے میں بتایا۔اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو ان کی پیشانی میں موجود ’’نور‘‘ کا عرفان وقتی طور پر بھلادیا تھا، اس میدان میں وہ عرفان دوبارہ ملااسی لیے اس میدان کو ’’عرفہ‘‘یا ’’عرفات‘‘ کہتے ہیں یعنی ’’پہچان لینے کی جگہ‘‘۔ یہ میدانِ عرفات حشر کا بھی میدان ہوگا۔ اسی اعتبار سے اسے ’’لچکدار میدان‘‘ یا ’’معجزاتی میدان ‘‘ بھی کہتے ہیں۔ دنیا بھر سے لاکھوں حاجی یہاں آتے ہیں۔ کبھی جگہ کم نہیں ہوتی جب یہ میدان حشر ہوگا تو دنیا بھر میں جتنے انسان آئے چلے گئے، اور جو موجودہ ہیں اور جو آئیں گے۔ وہ سب جمع ہوں گے۔ انسانوں کے علاوہ جنّات اور جانوربھی جمع ہوں گے۔
حج کا رکن اعظم یعنی سب سے بڑا فرض ’’وقوف عرفات‘‘ یہاں ادا ہوتا ہے، یہاں جو گنہگار بھی آتا ہے، اللہ تعالیٰ کا اس پر یہ کرم ہوتا ہے کہ روایات کے مطابق اللہ تعالیٰ فرشتوں سے فرماتا ہے کہ آج زمین پر یہ بندے کیا کررہے ہیں ؟ فرشتے عرض کرتے ہیں ! اے اللہ ؛ تیرے بندے تیری بارگاہ میں حاضر ہیں وہ لبّیک لبّیک کی صدائیں پکاررہے ہیں۔ اللہ فرماتا ہے کہ اے فرشتو ! بتاؤ کیا میرے بندے فساد کررہے ہیں ؟ فرشتے عرض کرتے ہیں ! نہیں ؛ اے اللہ ! یہ تو محبت اور امن وامان کی بات کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ! اے فرشتو ؛ بتاؤ میں ان سے کیا سلوک کروں ؟ فرشتے عرض کرتے ہیں ! اے اللہ ؛ تو انہیں وہ عطا فرمادے جو یہ طلب کررہے ہیں جس پر فرشتوں کو گواہ بناکر اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ عزوجل فرماتا ہے، ’’مجھے اپنے عزت وجلال کی قسم ہے آج عرفات میں آنے والے اگر سمندر میں بننے والے جھاگ، ریت کے ذرات اور بارش کے قطروں سے زیادہ گناہ بھی لے کر آئے ہوں تو بھی میں نے انہیں بخش دیا معاف کردیا۔ اولیاء کرام فرماتے ہیں کہ یوم عرفہ اگر کوئی پرندہ بھی میدان عرفات سے گذر جائے تو وہ پرندوں میں حاجی مشہور ہوتا ہے۔ یوم عرفہ میدان عرفات میں حضرت ادریس علیہ السلام، حضرت الیاس علیہ السلام اور حضرت خضر علیہ السلام بھی تشریف لاتے ہیں جبکہ لاتعداد فرشتے، رجال الغیب اور اقطاب واغواث بھی ہرسال حج کے اجتماع میں شریک ہوتے ہیں۔
میدان عرفات میں ’’مسجد نمرہ‘‘ اُسی مقام پر واقع ہے جہاں اللہ تعالیٰ کے پیارے محبوب اور ہمارے مطلوب صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز ظہر اور عصر جمع کرکے ادا فرمائیں تھیں اور خطبہ بھی ارشاد فرمایا تھا۔
’’جبل رحمت‘‘ کے مقام پر آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وسلم نے وقوف فرمایا تھا، لیکن وقوف سے قبل ایک عظیم الشان خطبہ ارشاد فرمایا تھا، جس میں انسانیت کی بھلائی یعنی انسان کی جان ومال اور عزت وآبرو کی حفاظت کے لیے ضابطے ارشاد فرمائے، اس خطبہ میں معاشرتی اونچ نیچ یعنی طبقاتی کشمکش کو سوسائٹی کی تباہی کا ذریعہ قرار دیا۔ سودی نظام کی برائیوں اور ذات پات کے مکروہات کو بیان فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، ’’کسی عربی کو عجمی پر اور کسی عجمی کو عربی پر یا کسی گورے کو کالے پر اور کسی کالے کو گورے پر کوئی فضیلت نہیں سوائے اس کے کہ تم میں کون زیادہ اللہ سے ڈرنے والا ہے اور متقی وپرہیزگار ہے ‘‘۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ عظیم خطبۂ ہیومن رائٹس کا بنیادی چارٹر ہے، کلمات کے اعتبار سے مختصر مگر سارے عالم کی بات جامعیت سے بیان کردی گئی ہے۔