حدیبیہ اور بیعت رضوان
’’حدیبیہ‘‘جہاں صلح حدیبیہ اور بیعت رضوان کے علاوہ پیارے کریم آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات کا ظہور بھی ہوا۔۵؍ہجری ’’غزوہ خندق‘‘ یعنی ’’احزاب‘‘کے ایک سال بعد ۶؍ ہجری میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرہ کرنے کے ارادہ سے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کے ہمراہ مکۃ المکرمہ کا سفر فرمایا اس سفر میں صحابہ کرام کی تعداد چودہ سو تھی۔ راستہ میں مکۃ المکرمہ کے قریب ’’عسفان‘‘ کے مقام پر قیام کیا اور یہیں اطلاع ملی کہ قریش کو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مکۃ المکرمہ تشریف آوری کی اطلاع ہوگئی ہے اور انہوں نے خالد بن ولید کو دو سو شہسواروں کے دستہ کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ راستہ ہی میں لڑائی کرکے مسلمانوں کو اُلجھا دیا جائے۔ لیکن رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے لڑا ئی کو پسند نہیں فرمایا، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم عام گزرگاہ سے ہٹ کر دشوار گذار راستوں سے ہوتے ہوئے ’’حدیبیہ‘‘پہنچے۔ قریش مکہ کو یہ اندیشے اور وسوسے لاحق تھے کہ عمرہ کرنا تو محض ایک بہانا ہے دراصل مسلمان مکہ پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔ آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وسلم جب سنگلاخ اور دشوار راستہ طے کرتے ہوئے ہموار میدان راستوں پر آئے تو سب نے سکھ کا سانس لیا، تاجدار ختم نبوت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : سب کو یہ کہنا چاہئے ’’نَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ وَنَتُوْبُ اِلَیْہِ‘‘ ہم اللہ سے مغفرت طلب کرتے ہیں اور اس کی طرف رجوع کرتے ہیں‘‘۔ سب نے یہ جُملے دہرائے۔ رسول العالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے سب کو بشارت دی۔’’کُلُّکُمْ مَغْفُوْرٌ لَّہٗ اِلاَّ صَاحِبُ الْجَمَلِ الْاَحْمَرِ‘‘ (تم سب کو اللہ تعالیٰ نے بخش دیا ہے سوائے سرخ اونٹ والے کے ) حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نے اسے کہا کہ بارگاہ رسالت میں حاضر ہوجاؤ اور اپنی مغفرت کے لیے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے عرض کرو۔ وہ بدبخت بولا ! میں تو اپنے اونٹ تلاش کرنے میں مصروف ہوں، مجھے میرا اونٹ مل جائے،مجھے یہ اس سے زیادہ محبوب ہے کہ آپ میرے لیے مغفرت کی دعا کریں۔ وہ گمشدہ اونٹ کی تلاش میں مارا مارا پھررہا تھا۔ ایک پتھر سے اس کا پاؤں پھسلا، وہ لڑھکتا ہوا نیچے جاگرا اور مرگیا، جنگلی درندے اس کی لاش پر ٹوٹ پڑے۔ (العیاذ باللہ) اللہ تعالیٰ سچا عشق رسول عطا فرمائے (آمین) رسول پاک صاحب لولاک صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں ادنیٰ سے ادنیٰ گستاخی سے ہمیں بچائے۔(آمین)
’’حدیبیہ‘‘ مکۃ المکرمہ سے اٹھارہ یا بیس کلومیٹر کے فاصلہ پر ہے۔ اس حدیبیہ مقام پر سیّدنا رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی ناقہ شریف ’’قصویٰ‘‘ بیٹھ گئی۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے خیال کیا کہ شاید تھکاوٹ کے باعث اونٹنی بیٹھ گئی ہے، لیکن پیارے آقا کریم علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا: ’’میری اونٹنی کو اس ذات نے آگے بڑھنے سے روک دیا ہے جس نے ہاتھیوں کو مکہ جانے سے روکا تھا۔‘‘حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم فرمایا :’’یہاں قیام کرو‘‘۔لوگوں نے عرض کیا :’’یہاں پانی کی ایک بوند بھی نہیں ہے، سارے کنویں خشک پڑے ہیں۔‘‘ امام الانبیاء حبیب کبریا صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دست مبارک سے ایک تیر کسی صحابی کو عطا کرکے فرمایا کہ ’’کسی کنویں میں نیچے اتر کر خشک کنویں کی زمین میں تیر گاڑ دیا جائے ‘‘۔ تعمیل ارشاد کے بعد یہ ہوا کہ تیر گاڑنے کی دیر تھی جس کنویں کی زیریں سطح قطعی خشک ہوگئی تھی اس میں فوراً اس قدر پانی جمع ہوگیا کہ جوش مارتا ہوا کنویں سے باہر آکر اُبلنے لگا۔
ایک روایت یہ بھی ہے کہ حضور سیّد المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی نہ ہونے پر اپنے پاس دستیاب پانی کے برتن پر دونوں دست مبارک رکھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک انگلیوں سے پریشر کے ساتھ پانی جاری ہوگیا، چودہ سو اصحاب اور سواری وقربانی کے ہزاروں جانور سیراب ہوگئے۔ اسی واقعہ کو اعلیٰ حضرت نے یوں بیان فرمایا ہے۔
انگلیاں ہیں فیض پر ٹوٹے ہیں پیاسے جھوم کر
ندیاں پنجاب رحمت کی ہیں جاری واہ واہ
قریش یہ چاہتے تھے کہ مسلمان بہر صورت واپس جائیں انہیں عمرہ کے لیے بھی مکۃ المکرمہ نہ آنے دیا جائے۔ قریش کی طرف سے عروہ بن مسعود ثقفی کو سفیر بنایا گیا، تاکہ مسلمانوں سے بات کرکے انہیں واپس مدینہ المنورہ بھیج دیا جائے۔ قریش بڑے مخمصے میں پڑے ہوئے تھے، وہ یہی چاہتے تھے کہ مسلمان بغیر عمرہ واپس جائیں یا پھر مشتعل ہوکر ہم سے لڑجائیں تاکہ ہم پر یہ الزام بھی نہ آئے کہ ’’قریش کعبہ کے مالک ہیں اللہ کے گھر کی زیارت سے روکتے ہیں بلکہ پورے عرب میں یہی تاثر رہے کہ قریش خادم کعبہ ہیں۔ متعدد مرتبہ قریش کے چند افراد نے اچانک مسلمانوں پر شب خون کے انداز حملہ کیا اور ان کے پچاس افراد ایک مرتبہ اور اسّی افراد دوسری مرتبہ گرفتار کرلیے گئے لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے گرفتار حملہ آور قریش کے ساتھ عفو درگزر کا معاملہ اختیار فرمایا اور تمام گرفتار شدگان کو رہاکردیا، اس طرح جنگ کی ہر سازش کو ناکام بنادیا۔
سفیر قریش عروہ بن مسعود ثقفی (یہ فتح مکہ کے موقع پر مسلمان ہوگئے تھے ) نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے تبادلۂ خیال کیا، حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے فرمانے سے اسے یقین ہوگیا کہ حضور کا مقصد نہ اہل مکہ سے جنگ کرنا ہے اور نہ مکہ پر قبضہ کرنا ہے بلکہ حضور اپنے مخلص ساتھیوں کے ساتھ بیت اللہ شریف کا عمرہ کرنے کے لیے یہاں آئے ہیں۔ چنانچہ اسلامی کیمپ میں کچھ وقت گزارنے کے بعد جب وہ واپس گیا تو اس نے اہل مکہ کو اپنے مشاہدات کے نتائج سے آگاہ کرنے کے بعد مشورہ دیا کہ وہ مسلمانوں کو عمرہ کرنے دیں اور آئندہ بھی ان کے سامنے مزاحمت کا کوئی ارادہ نہ رکھیں۔ عروہ بن مسعود ثقفی نے قریش کو یقین دلایا کہ ’’تم لوگوں کی بد گمانی مسلمانوں سے متعلق ٹھیک نہیں۔ تم یقین رکھو کہ ایک دن تمام عرب میں ’’محمد‘‘ ( صلی اللہ علیہ وسلم) غالب آجائیں گے تو اے قریش ! تمہاری ہی عزت میں اضافہ ہوگا کہ وہ تم ہی میں سے ہیں۔ تم جانتے ہو میں اکثر سفیر بن کر قیصروکسریٰ اور دیگر بادشاہوں کے دربار میں گیا ہوں لیکن ’’محمد‘‘( صلی اللہ علیہ وسلم) دنیا کے بادشاہوں کی طرح نہیں، بادشاہوں سے رعایا ڈرتی ہے اور احترام کرتی ہے لیکن ’’محمد ‘‘ ( صلی اللہ علیہ وسلم) سے ان کے اصحاب ڈرتے نہیں بلکہ محبت کرتے ہیں اور جان نثاری اور عقیدت کے بے مثل جذباتی مظاہر جو میں نے دیکھے ہیں اگر تم دیکھ لو تو حیران ہوجاؤ۔(وہ (محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) اگر تھوکتے ہیں تو لعاب دھن کو تبرک سمجھ کر ہاتھوں پر لیتے ہیں اور وضو کے دوان ان کے جسم سے مس ہونے والے پانی کے ایک ایک قطرہ اور ہر ہر بوند کو زمین پر نہیں گرنے دیتے بلکہ اپنے ہاتھوں پر لیکر اپنے چہروں اپنے جسموں اور سینوں پر مل لیتے ہیں۔
سفارتکاری کے عمل کو مزید بڑھانے کے لیے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو حدیبیہ سے مکۃ المکرمہ بھیجا، کیونکہ اکثر سرداران قریش بنو امیہ سے تعلق رکھتے تھے اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ سے رشتہ داری بھی رکھتے تھے۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے مکۃ المکرمہ پہنچ کر قریش کے سرداروں سے ملاقات کی، تاکہ انہیں باور کرائیں کہ حضور اقدس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری فقط عمرہ کی ادائیگی ہے۔ قریش کے سرداروں نے کہا کہ ہم تمہارے رسول اور ان کے اصحاب کو یہاں آنے اور عمرہ کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے، البتہ اے عثمان! ’’تم مکہ آہی گئے ہو اور احرام کی حالت میں بھی ہو، لہٰذا تم عمرہ کرکے احرام سے فارغ ہو جاؤ، پھر مزید گفت و شنید جاری رہے گی۔‘‘ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ایسے مقام پر موجود تھے جہاں سے ’’کعبہ معظمہ‘‘ بالکل نگاہوں کے سامنے تھا، قریش کے سرداروں کی پیشکش کو ٹھکراتے ہوئے فرمایا: ’’ میں اپنے آقا کریم علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بغیر عمرہ کرنا تو کُجا، کعبہ معظمہ کو بھی اپنے محبوب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بغیر دیکھنا پسند نہیں کرتا۔ یہ کہہ کر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے کعبۂ مشرفہ کو پشت کرلی۔‘‘ دوسری جانب حدیبیہ میں صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے حضرت عثمان کی قسمت پر رشک کیا، کہ عثمان تو عمرہ کر بھی لیں گے۔ رسول معظم صلی اللہ علیہ وسلم نے سنا تو فرمایا: ’’وہ میرا عثمان ہے، میرے بغیر عمرہ نہیں کرے گا۔‘‘ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی مکۃ المکرمہ سے واپسی میں تاخیر کے باعث یہ افواہ گرم ہوئی کہ حضرت عثمان شہید کر دیے گئے ہیں، صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم نے بھی بدلہ لینے کے لیے مکۃ المکرمہ جانے کا ارادہ ظاہر کیا۔ اسی سبب سے حضور علیہ الصلوٰہ والسلام نے اپنے اصحاب سے ’’بیعت‘‘ لی۔ جسے ’’بیعت رضوان‘‘ کہا جاتا ہے۔
سب سے پہلے جس کو بیعت کا شرف حاصل ہوا، وہ سنان بن ابی سنان بن وہب بن محصن تھے۔ بیعت کرتے ہوئے اس جان نثار غلام نے عرض کی: ’’جو آپ کے جی میں ہے، میں اسی پر بیعت کرتا ہوں۔‘‘ حضور علیہ السلام نے سب کو سنان کی شرط پر بیعت کیا اور سب نے اس شرط پر بیعت کی۔ خود سپردگی کا کیا عالم تھا کہ جس سے سارے غلامان حبیب کبریاء علیہ افضل التحیۃ واجمل الثناسرشار تھے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ سرور عالم کا دست مبارک پکڑے ہوئے تھے اور لوگ ذوق وشوق سے بیعت سے مشرف ہورہے تھے۔ سب نے یہ سعادت عظمیٰ حاصل کی۔
حضرت سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ نے تین بار بیعت کی، ابتداء میں بھی، درمیان میں بھی اور آخر میں بھی۔ آپ فرماتے ہیں :’’ہم نے اس شرط پر بیعت کی کہ ہم فرار نہیں ہوں گے یا فتح حاصل کریں گے یا شہادت کا تاج پہنیں گے۔‘‘
جب سب صحابہ کرام بیعت کرچکے تو آخر میں سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دایاں ہاتھ اپنے بائیں ہاتھ پر رکھا اور بارگاہِ الٰہی میں عرض کی :
اَللّٰھُمَّ ھٰذِہٖ عَنْ عُثْمَانَ فَاِنَّـہٗ فِیْ حَاجَتِکَ وَحَاجَۃِ رَسُوْلِکَ
’’اے اللہ ! یہ ہاتھ عثمان کی طرف سے ہے کیونکہ وہ تیرے اور تیرے رسول کی تعمیل میں گیا ہوا ہے۔‘‘
اس کے بعد علامہ احمد بن زینی دحلان تحریر فرماتے ہیں :
وَمَا ذٰلِکَ اِلاَّ لِاَنَّـہٗ عَلِمَ بِعَدْمِ صِحَۃِ الْقَوْلِ بِقَتْلِہٖ
’’حضرت عثمان کی طرف سے یہ بیعت حضور نے اس لیے فرمائی کہ حضور کو علم تھا کہ آپ کے قتل کی خبر صحیح نہیں ہے۔‘‘
حضرت عثمان کی خوش بختی کا کون اندازہ لگاسکتا ہے کہ باقی تمام صحابہ کرام نے اپنے اپنے ہاتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دستِ مبارک پر رکھ کر بیعت کی۔ لیکن حضرت عثمان کی بیعت کی جب باری آئی تو ان کے ہاتھ کے بجائے نبی کریم نے اپنا دست مبارک اپنے دوسرے دست مبارک پر رکھ کر ان کی طرف سے بیعت کی۔ سبحان اللہ ! یہ مرتبہ بلند ملا جس کو مل گیا۔
سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم ایک درخت کے نیچے جلوہ افروز ہیں۔ صحابہ کرام پروانوں کی طرح شوق شہادت سے سرشار بیعت کررہے ہیں۔ انہیں یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ وہ اپنے مرکز سے تقریباً اڑھائی سو میل دور ہیں ان کی تعداد صرف چودہ، پندرہ سو ہے جنگ کے لیے جس قسم کے اسلحہ اور ساز وسامان کی ضرورت ہوتی ہے، اس کا فقدان ہے۔ باد یہ نشین قبائل میں سے کوئی بھی ان کی مدد کرنے کے لیے تیار نہیں۔ دشمن اپنے علاقہ میں ہے اور وہ مکہ کے سارے جنگجوؤں کو میدان میں لاسکتا ہے۔ نیز ضرورت کے وقت دوست قبائل بھی ان کی مدد کو پہنچ سکتے ہیں۔ ان حالات کو سمجھتے ہوئے بھی وہ عشق اور ایمان کے تقاضوں سے باخبر ہیں اور ان کو عمدگی سے پورا کرنے کی جرأت بھی رکھتے ہیں۔ نتائج سے بے نیاز ہو کر وہ اپنے ہادی ومرشد کے دست مبارک پر سر کٹانے اور جان دینے کی بیعت کررہے ہیں۔ سرفروشی اور جان نثاری کا یہ روح پرور منظر چشم فلک نے کب دیکھا ہوگا۔ ان پاکباز اور نیک نہاد عشاق کے جذبہ ایثار پر عالم بالا کے مکینوں کو بھی وجد آگیا ہوگا۔ اسی حالت میں جبرائیل امین آئے اور شمع جمال مصطفوی کے پروانوں کو خداوند کریم کی طرف سے یہ مژدہ جانفزا سنایا :
لَقَدْ رَضِیَ اللّٰہُ عَنِ الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ یُبَایِعُوْنَکَ تَحْتَ الشَّجَرَۃِ.
(سورۃ الفتح آیت 17)
’’آپ کے دست حق پرست پر سر دھڑ کی بازی لگانے کی بیعت کررہے تھے۔ ‘‘
یہ بیعت، تاریخ اسلام میں بیعت رضوان کے نام سے مشہور ہے۔ آج بھی اس کے تذکرہ سے ایمان کو جلا اور عشق کو نئی توانائیاں نصیب ہوتی ہیں۔ مکۃ المکرمہ سے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ حدیبیہ تشریف لے آئے۔ پھر ازاں بعد سہیل بن عمرو قریش کی طرف سے صلح کے لیے آیا۔ دوران صُلح اُس نے کہا کہ آپ کا نام محمد الرسول اللہ نہ لکھا جائے کیونکہ اسی پر جھگڑا ہے بلکہ ’’محمد بن عبداللہ ‘‘ لکھا جائے۔ حضور علیہ الصلوٰہ والسلام نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ ’’علی اسے کاٹ دو ‘‘ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ علی کی انگلیاں تو کٹ سکتی ہیں لیکن ’’محمد الرسول اللہ ‘‘ کو قلم زد نہیں کرسکتا۔ پھر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے خود اپنے نام کو مشرکین کے مطالبہ کے مطابق تحریر فرمایا اور درج ذیل معاہدہ ضبط تحریر میں لایا گیا۔
’’اے اللہ تیرے نام سے۔ یہ وہ معاہدہ ہے جس پر محمد بن عبداللہ اور سہیل بن عمرو نے صلح کی ہے۔ انہوں نے اس بات پر صلح کی ہے کہ دس سال تک فریقین میں جنگ نہیں ہوگی۔ لوگ امن سے رہیں گے اور کوئی کسی دوسرے پر دست درازی نہیں کرے گا۔ کوئی چوری اور خیانت کا ارتکاب نہیں کرے گا۔ ہم ایک دوسرے کے راز افشا نہیں کریں گے۔ اور جس قبیلہ کی مرضی ہو وہ محمد (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) کے ساتھ معاہدہ کرے اور جس کی مرضی ہو وہ قریش کے ساتھ معاہدہ کرلے۔ مکہ والوں میں سے جو شخص اپنے ولی کے اذن کے بغیر محمد (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) کے پاس آئے گا تو آپ اسے واپس کردیں گے اور اگر حضور کے اصحاب سے کوئی آدمی قریش کے پاس آئے گا تو وہ واپس نہیں کریں گے اورمحمد (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) اس سال اپنے صحابہ سمیت واپس چلے جائیں گے اور آئندہ سال اپنے صحابہ سمیت عمرہ ادا کرنے کے لیے آئیں گے اور مکہ میں تین روز قیام کریں گے اور تلوار کے بغیر ان کے پاس اور کوئی ہتھیار نہ ہوگا اور تلواریں بھی نیاموں میں بند ہوں گی۔‘‘
اس معاہدہ پر حضور سرور عالم کی طرف سے سیّدنا ابوبکر صدیق، سیّدنا عمر بن خطاب، عبدالرحمن بن عوف، سعد بن ابی وقاص، عثمان بن عفان، ابوعبیدہ بن جراح اور محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہم نے اور مشرکین مکہ کی طرف سے حویطب بن عبدالعزٰی، مکرز بن حفص نے دستخط کیے جبکہ صلح نامہ لکھنے کا شرف سیّدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم کو حاصل ہوا۔
اس معاہدہ کا اصل سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس رہا اور اس کی ایک نقل سہیل کو دے دی گئی۔ جب عرب قبائل نے معاہدہ کی یہ شق سنی کہ ہر قبیلہ آزاد ہے جس فریق کے ساتھ چاہے اپنی دوستی کا معاہدہ کرلے تو بنی خزاعہ نے اس وقت اعلان کردیا۔ ’’ہم محمد (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) کے ساتھ معاہدہ کرتے ہیں‘‘۔ بنو بکر نے کہا کہ ہم قریش کے ساتھ معاہدہ کرتے ہیں۔
مسلمانوں نے معاہدہ کی جب یہ شرط سنیں تو ان پر رنج واندوہ کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔ ان کی غیرت ایمانی یہ کب گوارا کرسکتی تھی کہ حق وصداقت کے علمبردار ہوتے ہوئے وہ باطل سے دب کر صلح کریں۔ راہ حق میں جان دے دینا اور سرکٹا دینا انہیں ہرگز گراں نہ تھا لیکن یہ بات ان کے لیے ناقابل برداشت تھی کہ کفار من مانی شرائط پر ان سے صلح کرلیں۔ ہرشخص رنجیدہ خاطر تھا۔ ہر دل میں بے چینی اور بے قراری تھی حتیٰ کہ حضرت فاروق اعظم جیسا بالغ نظر بھی مضطربانہ حالت میں اپنے قلبی اضطراب کا اظہار کرنے پر مجبور ہوگیا۔ ایک اللہ تعالیٰ کا نبی تھا جس کی نگاہ نبوت ان خوش آئندہ نتائج اور عواقب کو دیکھ رہی تھیں جو مستقبل قریب پر اس معاہدے کے مرتب ہونے والے تھے اور ایک یار غار صدیق اکبر کی شخصیت تھی جس کے دل میں اطمینان اور سکون تھا۔ اسے یقین تھا کہ اللہ تعالیٰ کا رسول جو کرتا ہے، اپنے رب کے حکم سے کرتا ہے اور اپنے رب کے حکم کی تعمیل میں بندوں کی بھلائی اور سرفرازی ہے۔
مدینہ منورہ واپسی کے موقع پر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب صحنان کے مقام پر پہنچے جومکہ سے پچیس میل یا ۴۳ کلو میٹر کے فاصلہ پر ہے یا بقول بعض کراع الغمیم کے مقام پر پہنچے تو یہ سورہ مبارکہ نازل ہوئی جس کی پہلی آیت ’’إِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحاً مُّبِیْناً‘‘(الفتح)نے اس حقیقت کو آشکارا کردیا کہ جس صلح سے تم کبیدہ خاطر ہو اور جن شرائط کے باعث تمہارے دل غمزدہ ہوگئے ہیں، یہ حقیقت میں فتح مبین ہے۔ چنانچہ چند سال میں ہی جب اس معاہدہ میں مضمر برکات کا ظہور ہوا تو ہر ایک کو یہ اعتراف کرنا پڑا کہ واقعی یہ صلح اسلام اور ہادی اسلام کے مشن کی تکمیل کے لیے اور امت مسلمہ کے لیے ایک عظیم الشان فتح تھی۔ کفار نے ان شرائط کو مان کر مسلمانوں کی آزاد حیثیت کو گویا تسلیم کرلیا تھا۔ وہ اب اپنی قوم سے بہکے ہوئے چند افراد کی ٹولی نہیں تھے بلکہ ایک آزاد قوم تھے جن کی آزاد مملکت تھی جس کے اپنے مساویانہ حقوق تھے اور وہ لوگ جو اس کی اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہ تھے، انہوں نے بھی آج اس حقیقت کو تسلیم کرلیا تھا۔نیز صلح ہوجانے کے بعد مکہ اور مدینہ کے درمیان حالت جنگ کی کیفیت اختتام پذیر ہوگئی اور آنے جانے پر پابندیاں اٹھ گئی تھیں۔ چنانچہ تبلیغ اسلام کا کام اس زور وشور سے ہوا اور ایسی کامیابیاں حاصل ہوئیں کہ گزشتہ انیس سال کی جدوجہد ایک طرف اور صلح کے بعد دوسال کی جدوجہد ایک طرف۔ قبائل کے قبائل، فوج در فوج، مدینہ طیبہ کا رخ کررہے تھے اور حضور کے دست حق پرست پر اسلام قبول کررہے تھے۔ اس سفر میں حضور کے ہمراہیوں کی تعداد چودہ سو کے قریب تھی اور دو سال بعد جب فتح مکہ کے لیے حضور روانہ ہوئے تو دس ہزار کا لشکر جرار ہمراہ تھا۔ نیز امن قائم ہوجانے کے بعد حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو یہ موقع مل گیا کہ جو علاقے اسلام کے زیر نگین ہوچکے تھے، ان میں اسلامی حکومت کو مستحکم بنیادوں پر قائم کردیا جائے اور اسلامی قانون کے نفاذ سے مسلم معاشرہ کو ایک نئی اور پاکیزہ تہذیب اور تمدن کے سانچے میں ڈھال دیا جائے۔
اس صلح کا یہ فائدہ بھی کچھ کم اہم نہیں کہ قریش کی جانب سے جب اطمینان ہوا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے شمالی عرب اور وسط عرب کی مخالف طاقتوں کو مسخر کرنے کی طرف توجہ مبذول فرمائی۔ صلح حدیبیہ کے تین ماہ بعد یہودیوں کے اہم مراکز خیبر، فداک، وادی القری، تیمہ اور تبوک پر اسلام کا پر چم لہرانے لگا اور وسط عرب میں پھیلے ہوئے بادیہ نشین قبائل جو پہلے قریش کے حلیف تھے، ایک ایک کرکے حلقہ اسلام میں داخل ہوگئے یا انہوں نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت قبول کرلی۔