غزوۂ بدر
۱۷ رمضان المبارک
معرکہ بدر تاریخ اسلام میں پہلا فیصلہ کن معرکہ ہونے کے لحاط سے خونریز مقابلہ کا پہلا مرحلہ ہے جس میں اسلام نے کفرو شرک کے خلاف فرضیت جہاد پر عمل کیا اور علی الاطلاق یہ پہلا معرکہ ہے جس میں فریقین نے ایک دوسرے کا سامنا کیا اور جب سے دعوتِ اسلام کاآغاز ہوا ہے اور اس کے اور کفر کے درمیان جنگ کی ٹھنی ہے ۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَلَقَدْ نَصَرَ کُمُ اللّٰہُ بِبَدْرٍوَّ اَنْتُمْ اَذِلَّۃٌ ج فَاتَّقُوا اللّٰہَ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ O اِذْ تَقُوْلُ لِلْمُؤْ مِنِیْنَ اَلَنْ یَّکْفِیَکُمْ اَنْ یُّمِدَّ کُمْ رَبُّکُمْ بِثَلٰثَۃٍ اٰلٰفٍ مِّنْ الْمَلٰٓئِکَۃِ مُنْزَلِیْنO بَلٰٓی لا اِنْ تَصْبِرُوْ ا وَتَتَّقُوْ ا وَیَاْ تُوْکُمْ مِّنْ فَوْرِھِمْ ھٰذَا یُمْدِدْ کُمْ رَبُّکُمْ بِخَمْسَۃِ اٰلٰفٍ مِّنْ الْمَلٰٓئِکَۃِ مُسَوِّمِیْنَO
(پارہ ۴: آل عمران: ۱۲۳تا ۱۲۵)
(ترجمہ) اور بے شک اللہ نے بدر میں تمہاری مدد کی جب تم بالکل بے سروسامان تھے۔ تو اللہ سے ڈرو تاکہ تم شکر گزار ہو۔ جب اے محبوب! تم مسلمانوں سے فرماتے تھے کیا تمہیں یہ کافی نہیں ہے کہ تمہارا رب تمہاری مدد کرے تین ہزار فرشتہ اتار کر ہاں کیوں نہیں اگر تم صبر و تقویٰ کرو اور کافر اسی دم تم پر آپڑیں تو تمہارا رب تمہاری مدد کو پانچ ہزار فرشتے نشان والے بھیجے گا۔
(کنز الایمان)
معرکۂ بدر سے قبل عسکری سرگرمی:
ہجرت رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم سے معرکہ بدر تک کا زمانہ تقریباً ۱۹ ماہ کا بنتا ہے اس دوران میں مکہ اور مدینہ کے درمیان کوئی خونی معرکہ نہیں ہوا، صرف اس سریہ میں کچھ خونریزی ہوئی تھی جس کی کمان عبداللہ بن جحش رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کر رہے تھے جس کے فوراً بعد بدر کا معرکہ ہوا۔(طبقات ابن سعد ، ۱:۳۱۰)
معرکہ بدر سے قبل مسلمانوں کی گشتی پارٹیاں:
بقیہ عسکری کاروئیاں، جاسوسی پارٹیوں سے زیادہ مشابہ تھیں، جنہیں مسلمانوں نے مدینہ کا گھیراؤ کرنے والے راستوں اور مکہ پہنچانے والے راستوں کے حالات معلوم کرنے اور قبائل کی طاقت کا جائزہ لینے کیلئے تیار کیا تھا جو علاقہ کو گھیرے ہوئے تھے اور کم از کم ان کا مقصد بعض قبائل سے مصالحانہ اور حلیفانہ تعلقات پیدا کرنا تھا، نیز یہ مقصد بھی تھا کہ مشرکین اور یہود کو بتادیا جائے کہ مسلمان ہر پیش آمدہ زیادتی کو روکنے کی قوت رکھتے ہیں، جن گشتی پارٹیوں اور سرایا کو مسلمانوں نے معرکہ بدر سے قبل تیار کیا ان کا خلاصہ درجِ ذیل ہے۔
۱.....گشتی جنگی پارٹی:
یہ پارٹی حضرت سیدنا حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کی کمان میں تیار کی گئی اس میں تیس مہاجرین شامل تھے۔ یہ گشتی پارٹی قریش کے تجارتی قافلے سے ملی، جس کی حفاظت قریش کے تین سو جانباز ابو جہل بن ہشام کی کمان میں کر رہے تھے یہ واقعہ ساحلِ سمندر کے پاس عیص (سمندر کی جانب منیع اور مروہ کے درمیان کی جگہ) کی جانب ماہ رمضان میں ہجرت کے پہلے سال پیش آیا اور فریقین کے درمیان مجدی بن عمرو جہنی کی مداخلت کی وجہ سے جنگ نہ ہوئی۔ اس شخص نے سلامتی کی کبوتری کا کردار ادا کیا اور ان دونوں کے درمیان رکاوٹ بن گیا۔(طبقات : ۱:۳۰۷)
۲.....جنگی گشتی پارٹی:
یہ ساٹھ افراد پر مشتمل تھی،جسے حضرت عبید بن حارث رضی اللہ تعالیٰ عنہ وادیٔ رابغ تک لے گئے، یہ واقعہ ہجرت کے پہلے سال ماہ شوال میں ہوا۔ اس گشتی پارٹی کا مقصد قریش کی تجارت کو تہدید (یعنی خوف میں مبتلا )کرنا تھا، اس پارٹی نے قریش کے دو سو سے بھی زیادہ جانبازوں کے ساتھ ملاقات کی ، جن کی قیادت ابو سفیان کر رہا تھا مگر فریقین میں کوئی جنگ نہ ہوئی۔ اس غزوہ میں مکی فوج کے دو آدمی حضرت عبید بن حارث کی گشتی پارٹی میں شامل ہو گئے۔ یہ دو آدمی مقداد بن عمرو الجعرانی اور عتبہ بن غزوان تھے۔ یہ دونوں مسلمان تھے جو مکی فوج میں آگئے تھے۔(غزوئہ بدر :۱۲۹)
۳.....جاسوس گشتی پارٹی:
اس پارٹی میں آٹھ مہاجرین شامل تھے، جن کی کمان حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کر رہے تھے، یہ پارٹی مکہ اور شام کے درمیان قریش کے تجارتی راستے کی تہدید کے لئے الغراء تک پہنچ گئی۔ لیکن یہ گشتی پارٹی دشمن کے ساتھ جنگ میں نہیں الجھی، یہ واقعہ ہجرت کے پہلے سال ذوالقعدہ کا ہے۔(غزوئہ بدر :۱۲۹)
۴.....غزوۂ ودان:
یہ ایک جنگی گشتی پارٹی تھی جس میں دو سو جانباز شامل تھے۔ جن کی کمان خود رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے ہجرت کے دوسرے سال صفر کے مہینے میں ودان کے علاقے تک کی اور آپ بغیر کسی جنگ کے واپس آگئے ، ہاں آپ نے حمزہ بن بکر بن کنانہ کے قبائل سے عدم جارحیت کا معاہدہ کیا۔(المرجع سابق)
۵.....غزوۂ بواط:
یہ ایک جنگی گشتی پارٹی تھی جس کی کمان خود رسول اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے علاقہ بواط تک اس راستے پر کی جو شام سے مکہ پہنچتا ہے۔ یہ ربیع الاول ۲ھ کا واقعہ ہے۔ اس گشتی پارٹی کا مقصد قریش کے قافلہ پر حملہ کرنا تھا لیکن قافلہ بچ گیااور آنحضرت ا بغیر جنگ کیے واپس آگئے۔ اس گشتی پارٹی میں دو سو سوار شامل تھے۔(المرجع سابق)
۶.....غزوۂ العشیرہ:
یہ ایک جنگی گشتی پارٹی تھی جس میں دو سو جانباز شامل تھے ۔ اس کی کمان خود رسول کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے قریش کی تجارت کی تہدید کیلئے العشیرہ مقام تک کی جو منیع کے علاقہ میں واقع ہے اور رسول کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم بغیر کسی جنگ کے واپس آگئے کیونکہ قریش کا قافلہ اس علاقے سے گزر کر بچ گیا تھا، ہاں آپ نے (اس غزوہ کے دوران) بنی مدلج اور ان کے حلیفوں بنی حمزہ سے عدم جارحیت کا معاہدہ کیا۔ یہ جمادی الاولیٰ یکم ہجری کا واقعہ ہے۔
(طبقات ابن سعد، اول :۳۱۰)
۷: غزوۂ بدر الاولیٰ:
یہ ایک گشتی پارٹی تھی جو دو سو جانبازوں پر مشتمل تھی، اس کی کمان خود رسول کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے کی۔ یہ واقعہ جمادی الآخر۲ھ کا ہے۔ آپ نے اس کے ذریعے مشرکین کی معمولی فوجوں کو بھگادیا، جنہوں نے مدینہ کی چراگاہوں پر حملہ کرکے بعض مویشی لوٹ لیے تھے، آنحضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم ان کے تعاقب میں وادی سنوان تک پہنچ گئے جو بدر کے قریب ہے لیکن آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کو غارتگری کرنے والی فوجیں نہ ملیں اور آپ بغیر کسی جنگ کے واپس آگئے۔(غزوۂ بدر:۱۳۰)
معرکہ بدر کے اسباب:
ماہِ رمضان کے شروع میں آنحضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کو یہ خبر پہنچی کہ اہلِ قریش کا تجارتی مال و اسباب سے بھرا ہوا قافلہ شام سے مکہ آرہا ہے اس کے ساتھ تیس یا چالیس آدمی خاص اہلِ قریش کے ہیں جن کا سردار ابو سفیان ہے اور اس کے ہمراہیوں میں عمرو بن العاصی و محزمۃ بن نوفل ہیں۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے مسلمانانِ مہاجرین و انصار رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو جمع کرکے اس قافلے کی طرف پیش قدمی کرنے کا حکم صادر فرمایا۔ (ابن خلدون /اول/۷۱)
آقائے دوجہاں صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کا اپنے اصحاب رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے مشورہ:
آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے مہاجرین و انصار کوجمع کرکے مشورہ کیا ۔ پہلے مہاجرین نے نہایت خوبصورتی اور بسرو چشم ہر حکم بجالانے کا اقرار کیا اور اس کے بعد آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے انصار کی طرف رخ کیا ان میں سے حضرت سعد بن معاذ نے نکل کر عرض کیا ’’اے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم! ہم نے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے دست مبارک پر بیعت کی ہے۔ اگر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم دریا میں کودنے کوفرمائیں گے تو ہم اس میں بھی غوطہ لگا دیں گے۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم اللہ کے نام پر ہمارے ساتھ چلئے، ہم ساتھ چھوڑنے والوں میں سے نہیں ہیں۔‘‘ آنحضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم یہ سن کر خوش ہوگئے اور یہ ارشاد فرمایا: ’’ کہ تم لوگوں کو بشارت ہو ،کہ اللہ جل شانہٗ نے مجھ سے فتح و نصرت کا وعدہ فرمایا ہے۔‘‘(طبقات ابن سعد، ۱:۳۱۵)
اکثر اصحابِ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کا گمان یہی تھا کہ حضور قافلہ پر حملہ آور ہونے کو جارہے ہیں وہ دل ہی میں خوش تھے کہ قافلہ ہی سے مڈبھیڑ ہو کیونکہ مسلمان بلحاظ جنگی سازو سامان کے مکمل نہ تھے ۔لیکن اللہ تعالیٰ نے تو نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کو مدینہ ہی میں مطلع فرما دیا تھا کہ حملہ آور دشمن سے جنگ کیلئے جانا ہے۔
جنگ ناگزیر تھی کہ امر الٰہی تھا:
قافلۂ قریش تو چلا گیا تھا ، مسلمان چاہتے تو جنگ نہ ہوتی لیکن امر الٰہی مقدر تھا ۔ قرآن مجید میں ہے کہ:
وَلَوْتَوَا عَدْتُّمْ لَا خْتَلَفْتُمْ فِی الْمِیْعَادِ لا وَلٰکِنْ لِّیَقْضِیَ اللّٰہُ اَمْرًا کَانَ مَفْعُوْلًا لا ۵ لِّیَھْلِکَ مَنْ ھَلَکَ عَنْ مبَیِّنَۃٍ وَّ یَحْیٰ مَنْ حَیَّ عَنْ م بَیِّنَۃٍ ط وَ اِنَّ اللّٰہَ لَسَمِیْعٌ عَلِیْمٌO لا (پارہ ۱۰، سورۃ الانفال، آیت ۴۲)
( ترجمہ) اور اگر تم آپس میں کوئی وعدہ کرتے تو ضرور وقت پر برابر نہ پہنچتے لیکن یہ اس لئے کہ اللہ پورا کرے جو کام ہونا ہے۔ کہ جو ہلاک ہو دلیل سے ہلاک ہو اور جو جئے دلیل سے جئے۔ اور بے شک اللہ ضرور سنتا جانتا ہے۔ (کنز الایمان )
غزوۂ بدر کو اللہ تعالیٰ نے یوم الفرقان بھی قرار دیا۔ چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ:
یَوْ مَ الْفُرْقَانِ یَوْ مَ الْتَقَی الْجَمْعٰنِ (پارہ : ۱۰، الانفال : ۴۱ )
( ترجمہ) فیصلے کے دن جس دن دونوں فوجیں ملی تھیں۔
مجاہدین کی روانگی اور بحیثیت کمانڈر انچیف
رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کا ایثار:
آٹھ رمضان کے بعد جناب رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم مدینہ سے روانہ ہوئے حضرت سیدنا عمرو ابن ام مکتوم رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کواپنے بجائے نماز پڑھانے کیلئے چھوڑ گئے پھر مقام رجاء میں پہنچ کر ابو لبابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کو مدینہ کا حاکم مقرر کرکے واپس کیا اس لشکر میں تین علم تھے ایک حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کے دوسرا حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کے تیسرا کسی انصاری کے ہاتھ میں تھا ان آخری دو کی کی نسبت بیان کیا جاتا ہے کہ سیاہ رنگ کے تھے۔
(تاریخ ابن خلدون ، ۱:۷۱)
صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم کے ساتھ اس معرکہ میں صرف ستر(۷۰) اونٹ تھے جس پر باری باری سوار ہوتے تھے۔ رسول اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم اور مرثد بن ابی مرثد اور علی بن ابی طالب باری باری اونٹ پر سوار ہوتے۔ حضور نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے اپنے دونوں ساتھیوں ابن ابی طالب اور ابن ابی مرثد سے اپیل کی کہ وہ اپنے اپنی حصے کے مطابق اونٹ پر سواری کریں ان دونوں نے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم سے عرض کیا ہم آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی طرف سے بھی پیدل چلیں گے، آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: ’’تم دونوں مجھ سے زیادہ طاقتور نہیں ہو اور نہ ہی میں تمہاری طرح اجر سے بے نیاز ہوں۔‘‘ اورآپ نے انکار کرتے ہوئے فرمایاکہ میرا حصہ بھی تم میں سے ہر ایک کے مطابق ہوگا۔(غزوۂ بدر:۱۳۹۔۱۴۰)
نبوی انٹیلی جینس:
رسول اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے اونٹوں کی گردنوں سے گھنٹیاں اتارنے کا حکم دیا ، معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے یہ کام فوج کی حرکت کو مخفی رکھنے کیلئے کیا۔ کیونکہ اونٹوں کے چلنے سے گھنٹیوں سے بلند آواز نکلتی ہے جس سے دشمن کو فوج کی جگہ معلوم کرنے میں آسانی ہوجاتی ہے اس وجہ سے رسول کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے گھنٹیوں کو اونٹوں کی گردنوں سے اتارنے کا حکم دیا۔ جنگی حالات کا عام دستور ہے اور ان حالات کا تقاضا ہوتا ہے کہ احتیاطی تدبیر اختیار کی جائے۔ رسول کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے دشمن کے حالات معلوم کرنے کیلئے اپنے جاسوس بھیجے۔
موجودہ دور میں انہیں انٹیلی جینس یا حالات معلوم کرنے کے آلات کہا جاتا ہے۔ انٹیلی جینس کے آدمی فوج کے آگے ادھر اُدھر پھیل جاتے ہیں، ان میں سے ایک حضرت بسبس بن عمرو جہنی اور دوسرے حضرت عدی بن ابی الزّغباء تھے یہ دونوں پہلے اشخاص ہیں جنہیں رسول کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے بدر کی جانب ابو سفیان کے حالات معلوم کرنے کیلئے بھیجا ۔ اور وہ بدر سے یہ خبر سن کر آئے کہ قافلہ کل یا پرسوں بدر میں پہنچے گا ۔(طبقات ، ۱:۳۱۳)
بدر کا راستہ:
رسول کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم مدینہ سے بدرکی طرف مدینہ کے درّے کے راستے چلے پھر "عقیق"، پھر "ذوالحلیفہ"، پھر" اولات الجیش"، پھر "تربان"، پھر" ملل"، پھر" غمیس الحمام"، پھر" صخیرات الیمامہ"، پھر" سیالہ"، پھر" فج الروحاء"، پھر" شوکہ" (شنوکہ)گئے۔ "بیرالروحاء" سے آگے مقام " منصرف" کو چھوڑتے وقت آپ نے مکہ کے راستے کو بائیں جانب چھوڑ دیا۔ پھر آپ دائیں جانب "نازیہ" کی طرف بدر جانے کیلئے مڑگئے۔ جب آپ "نازیہ" اور "مضیق الصفراء" کے درمیان "وادی وحقان" (یا رحقان)میں چلے تو اس سے سیدھے ہوگئے۔ پھر آپ نے "وادی اصفراء" کو بائیں جانب چھوڑدیا اور دائیں جانب "وادی ذفران" میں چلنے لگے۔ اس وادی سے نکلتے وقت آپ کو مکی فوج کے خروج کی اطلاع ملی کہ وہ بدر کی طرف آرہی ہے۔ "وادی ذفران" سے نکلنے کے بعد آپ "ثنایا" پر چلے، جسے "اصافر" کہتے ہیں پھر آپ وہاں سے بدر کے قریب ایک شہر کی طرف چلے گئے۔ جسے "الدبۃ" کہتے ہیں اور آپ نے "الحنان" کو دائیں جانب چھوڑدیا پھر بدر کے قریب اتر گئے۔
(غزوۂ بدر صفحہ ۱۴۰و ضیاء النبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم ، ۳:۳۰۶)
ابو سفیان کا مکہ سے مدد طلب کرنا:
اتفاق سے یہ خبر رفتہ رفتہ ابو سفیان تک پہنچ گئی اس نے مسلمانوں سے ڈر کر ضمضم بن عمرو غفاری کو اجرت دے کر مکہ کی طرف روانہ کیا اور یہ کہلا بھیجا کہ تمہارا قافلہ محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم اور انکے تابعین کی وجہ سے معرض زوال میں ہے، دوڑو اوراپنے قافلے کو بچاؤ۔ چنانچہ اہلِ مکہ یہ سنتے ہی سب کے سب نکل کھڑے ہوئے سوائے چند افراد کے جن میں ابو لہب بھی تھا۔ ابو سفیان اپنے قافلے کو ساحل کے ساتھ ساتھ لے کر مکہ کی جانب چلا تو راستے میں اہلِ مکہ بھی مل گئے اس نے خوش ہو کر کہا چلو واپس چلو ہمارا قافلہ صحیح و سالم بچ آیا مگر ابو جہل نے ابو سفیان کے مشورے کو رد کر دیا اور فوج کو بدر تک جانے پر اصرار کیا۔ اس نے بڑے تکبر اور غضب سے کہا ، خدا کی قسم! ہم واپس نہیں جائیں گے ہم بدر تک جائیں گے اور تین دن وہاں ٹھہریں گے اور اونٹ ذبح کریں گے اور کھائیں گے کھلائیں گے اور شراب نوشی کریں گے اور گلوکارائیں ہمارے لیے گانے گائیں گی اور عرب ہمارے متعلق اور ہماری پیش قدمی سے متعلق سنیں گے تو ہمیشہ ہم سے ڈرتے رہیں گے۔
(سبل الہدی و الرشاد، ۴:۲۹)
آغازِ جنگ:
۱۷ رمضان المبارک جمعہ کا دن نمازِ فجر حضور سالارِ اعظم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے لشکر اسلام کو پڑھائی اور فرمانِ الٰہی کے مطابق ایک مختصر مگر بلیغ خطبہ ارشاد فرمایا۔
’’جب تک کفار کی جانب سے پیشقدمی نہ ہو مسلمان ہر گز حملہ نہ کریں ، اگر کفار مسلمانوں کی جانب بڑھنے لگیں تو ان کو روکنے کیلئے پہلے تیر برسائیں، اگر وہ نہ رکیں اور آگے بڑھتے رہیں تو مسلمان جم کر لڑیں ، خبردار کوئی گھبرائے نہ، کوئی پیٹھ نہ پھیرے، اللہ سبحانہٗ تعالیٰ تمہیں ہدایت فرماتا ہے:
یٰٓاَ یُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْ آ اِذَا لَقِیْتُمُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْ ازَحْفًا فَلَا تُوَ لُّوْ ھُمُ الْاَدْبَارَO وَمَنْ یُّوَ لِّھِمْ یَوْ مَئِذٍ دُبُرَہٗ اِلَّا مُتَحَرِّ فًا لِّقِتَالٍ اَوْمُتَحَیِّزًا اِلٰی فِئَۃٍ فَقَدْ بَآءَ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰہِ وَمَاْ وٰہٗ جَہَنَّمُ ط وَبِئْسَ الْمَصِیْرُO
(پارہ :۱۰،الانفال: ۱۵۔۱۶)
(ترجمہ) اے ایمان والو! جب کافروں کے لام (بڑے لشکر)سے تمہارا مقابلہ ہو تو انہیں پیٹھ نہ دو اور جو اُس دن انہیں
پیٹھ دے گا مگر لڑائی کا ہنر کرنے یا اپنی جماعت میں جاملنے کو تو وہ اللہ کے غضب میں پلٹا اور اس کا ٹھکانا دوزخ ہے
اور کیا بری جگہ ہے پلٹنے کی۔(کنز الایمان)
اور رسول کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے دوسرا حکم الٰہی بھی سنایا:
یٰٓاَ یُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِذَا لَقِیْتُمْ فِئَۃً فَاثْبُتُوْا وَاذْکُرُ اللّٰہَ کَثِیْرًا لَّعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَO
(پارہ ۱۰،الانفال: ۴۵)
(ترجمہ) اے ایمان والو! جب کسی فوج سے تمہارا مقابلہ ہو تو ثابت قدم رہو اور اللہ کی یاد بہت کرو کہ تم مراد کو پہنچو۔
(کنز الایمان)
اشراق کے بعد کفار کی فوج اپنے دلدلی حصہ زمین سے اسلامی فوج کی طرف بڑھی اور بدر کی بے شجر وادی میں دونوں فوجیں آمنے سامنے ہوئیں، ایک جانب لوہے میں ڈھکے ہوئے سرتا پا مسلح فنِ جنگ کے خوب ماہر قہر مجسم ایک ہزار قریشی سرداروں، پہلوانوں اور نامور بہادروں کی پیش قدمی ہے تو دوسری جانب ۳۱۳ اسلامی لشکر کے افراد کہ جن کے پاس مکمل جنگی سازو سامان بھی نہیں ہے اکثر کے لباس بھی پھٹے پرانے ہیں۔ تمام ظاہری آثار بتاتے ہیں کہ قریشی لشکر اسلامی لشکر کا صفایا چند لمحوں میں بڑی آسانی سے کردے گا۔
سب سے پہلے مغرور سردارعتبہ بن ربیعہ اپنے بھائی شیبہ اور بیٹے ولیدکے ساتھ آگے بڑھا اور بڑے زعم سے مبارزت طلب کی ، انصار اصحاب میں سے حضرات عوف ، معاذ اور عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم مقابلہ کیلئے آگے بڑھے تو عتبہ نے کہا کہ ہم انصار مدینہ سے مقابلہ نہیں چاہتے تم ہمارے جوڑ کے نہیں مہاجرین میں سے کسی کو جرأت ہو تو آ گے آئے، تب چیلنج دینے والے اس مغرور کے سردار کے ایک فرزند (جو مسلمان ہو چکے تھے) حضرت ابو حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے چاہا کہ اپنے کافر باپ کا مقابلہ کریں مگر حضور رحمۃ اللعالمین صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے آپ کو روک دیااور آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے اپنے محترم چچا اسد اللہ و اسد الرسول حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ اور حضرت عبیدہ ابن حارث رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کو آگے بھیجا ۔ حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے شیبہ بن ربیعہ کو ایک ہی وار میں واصل جہنم کردیا۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے اسی آنِ واحد میں ولید بن عتبہ کا خاتمہ کیا اور عتبہ بن ربیعہ اور حضرت عبیدہ کے باہم مقابلے میں حضرت عبیدہ کے پاؤں کٹ گئے تو حضرت حمزہ اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے عتبہ کو بھی موت کے گھاٹ اتار دیا۔
(تاریخ طبری ، ۱:۱۷۹)
تین ممتاز و معزز و نامور سردارانِ قریش کے اس طرح مارے جانے پر کفار کی فوج میں صف ماتم بچھ گئی اور عجیب ہیبت کی دھاک بیٹھ گئی۔ اسلامی لشکر میں فرطِ فرحت و تشکر سے احد…احد …اور اللہ اکبر…اللہ اکبر … اللہ اکبر.... کے فلک بوس نعرے گونجنے لگے جو کفار کے حق میں جگر شگاف تھے ۔ بعد ازاں کفار نے اپنے مقام سے تیر برسائے جن سے حضرت مہجع بن صالح اور حضرت حارثہ بن سراقہ شہید ہو گئے۔ اور پھر گھمسان کی لڑائی شروع ہوگئی۔لشکر اسلام کے علم بردار حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے اپنے حقیقی بھائی جو مشرک تھا عبداللہ بن عمیر کو قتل کیا اور حضرت سیدنا فارقِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے اپنے حقیقی ماموں عاص بن ہشام بن مغیرہ کو قتل کیا۔
تین تین چار چار سوارو پیادہ آہن پوشوں کا اکیلے مہاجرین یا تن تنہا انصار پر ٹوٹ پڑنا، تیغ و تبر کی چقاچق، برچھیوں اور نیزوں کی جھنجھناہٹ، تیروں کی فشافش، کفار کے گھوڑوں کے ٹاپوئوں کی ٹھپا ٹھپ، ہوا کی سنسناہٹ کفارکے جنگی نقاروں کی ہیبت ناک گرج، لات و منات ، ہبل و عزّیٰ کی امداد کیلئے کفار کی شورو پکار ، مجاہدین اسلام کی اَحد…اَحد کی صدائیں اور ہر ضرب پر اللہ اکبر …اللہ اکبر کے پُرجوش و فلک بوس نعروں سے میدانِ کارزار ایسا ہولناک منظر ہوا کہ گویا زمین پر زلزلہ تھا، پہاڑ لرز رہے تھے، اور آسمان پھٹ رہا تھا، حضور انور و اقدس ا سپہ سالارِ لشکر اسلام علیہ افضل التحیاۃ والصلوٰۃ والسلام متاثر ہو کر داخل عریش ہوئے اور دونوں مبارک ہاتھوں کو پھیلا کر حق تعالیٰ جلِ جلالہٗ عم نوالہٗ سے نہایت خلوص و عجز سے عرض کرنے لگے ’’یا الٰہ العالمین، یا ذوالجلال والاکرام اگر آج اس میدان میں یہ نہتے مسلمان کٹ جائیں اور مٹ جائیں توپھر تیری عبادت کرنے والے بندے دنیا میں کوئی باقی نہ رہیں گے، یا الٰہی تیری عبادت کرنے والے ان نہتے مسلمانوں کو آج فتح سے نواز، اے مولیٰ تیرا وہ وعدہ کہ مسلمانوں کو فتح سے سرخرو فرمائے گا اب پورا فرما…الخ۔ (سیرت ابن ہشام، ۲:۶۲۷ و مسلم ۲:۹۳)
آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے بارگاہِ الٰہی میں دعا کرتے وقت آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے ساتھ عریش میں کوئی نہ تھا۔ سوا ئے قدیم یارِ غار سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کے جو حضور انور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی حفاطت کیلئے تلوار لیے ہوئے آپ کی پشت پر داخل ہوئے تھے، عاجزانہ دعا کی حالت میں آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے مقدس ہاتھ جو ہلتے تھے تو آپ کی مبارک چادر آپ کے پاک کندھوں سے باربار گر جاتی اور سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ اس کو پھر آپ کے کندھوں پر ڈالتے رہتے۔ اس دعا کی طوالت نے سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کو متاثر کیاتو آپ نے عرض کیا …’’یا رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم ! میرے ماں باپ آپ پر قربان، دعا بس فرمایئے…بس فرمایئے، اللہ تعالیٰ نے جو وعدہ فرمایا ہے وہ ضرور پورا فرمانے والا ہے۔‘‘(مسلم ،۲:۹۳)
یہ گذارش گویا الہام غیبی تھی کہ اسی وقت سیدنا جبرائیل علیہ السلام اللہ تعالیٰ سے بشارت کا پیغام لے آئے اور سنایا:
(ترجمہ)جب تم اپنے رب سے فریاد کرتے تھے تو اس نے تمہاری سن لی کہ میں تمہیں مدد دینے والا ہوں ہزار فرشتوں کی قطار سے۔ (پارہ ۱۰،الانفال: ۹)
اس پیاری وحی سے آپ کی تسلی میں مزید اضافہ ہوا اور آپ نے یہ نوید پہنچا کر لشکرِ اسلام کی مزیدخوب ہمت افزائی فرمائی۔
امدادِ ملائکہ:
معاً سفید عمامہ پوش ابلق گھوڑوں پر سوار فرشتوں کی فوج کا نزول ہوا، فرشتوں کو بارگاہِ الٰہی سے حکم ملا :
(ترجمہ) اے (فرشتو)! میں تمہارے ساتھ ہوں ، تم مسلمانوں کی کو ثابت قدم رکھو، عنقریب میں کافروں کے دلوں میں ہیبت ڈالوں گا، پس کافروں کی گردنوں سے اوپر مارو اور ان کے ایک ایک پور پر ضرب لگاؤ (پارہ ۱۰،الانفال :۱۳)
ابلیس لعین جو سراقہ سردار بنو کنانہ کی شکل میں مع ایک لشکر وارد تھا نزول ملائکہ دیکھتے ہی ہیبت زدہ ہو کر میدان سے یہ کہتے ہوئے فرار ہوا ’’میں تم سے الگ ہوں، میں وہ دیکھ رہا ہوں جو تمہیں نظر نہیں آتا۔ میں اللہ سے ڈرتا ہوں اور اللہ کا عذاب سخت ہے۔ (پارہ ۱۰،الانفال ۴۸)
پہلے ہزار فرشتے آئے پھر تین ہزار ہو گئے ۔ بعد ازاں بصورت صبر و تقویٰ پانچ ہزار ہوگئے۔ حضور اقد صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے ایک کنکریوں کی مٹھی لے کر شاہت الوجوہ (یعنی ذلیل ہوں چہرے) فرماتے ہوئے لشکر کفار کی جانب پھینکی۔ دفعتاً ایک ایسی تیز آندھی چلی کہ کفار میں ہر ایک کے منہ اور ناک ریت سے بھر گئے، سانس لینا دشوار ہوگیا، دم گھٹنے لگے وہ مبہوت ہو کر حیران و پریشان بھاگنے ، مرنے اور اپنے ہتھیار پھینک کر قید ہونے لگے۔ اس معجزہ کا ذکر ذوالجلال والاکرام نے بڑے لطف و پیارے الفاظ میں یوں فرمایا ہے۔
(ترجمہ) تو تم نے انہیں قتل نہ کیا بلکہ اللہ نے انہیں قتل کیا اور اے محبوب (ا ) وہ خاک جو تم نے پھینکی تم نے نہ پھینکی تھی بلکہ اللہ نے پھینکی اور اس لیے کہ مسلمانوں کو اس سے اچھا انعام عطا فرمائے۔ بیشک اللہ سنتا جانتا ہے۔
(پارہ :۹، الانفال :۱۷)
حضرت جبرائیل علیہ السلام فرشتوں کی قیادت کرتے ہوئے حضرات مہاجرین و انصار کی اس طرح مدد کر رہے تھے کہ حضرت ربیع بن انس انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ اپنا مشاہدہ روایت کرتے ہیں کہ ہم جنگ بدر میں کشتگانِ ملائکہ کو پہچانتے تھے۔ کسی کا سر گردن سے اڑا دیا ہے ، کسی کے پوروں پر ضرب پہنچائی ہے ، گویا کہ وہ آ گ سے جلا ہوا ہے اور داغ ہو گیا ہے۔
(رواہ بیہقی ، سبل الھدیٰ ۴:۴)
حضرت سہیل بن حنیف انصاری اور حضرت ابو داؤد عمیر بن عامر انصاری رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ معرکہ بدر میں ہم سے کوئی تلوار اٹھاتا تو اس کی تلوار مشرک تک پہنچنے سے قبل ہی مشرک کا سر جسم سے جدا ہو کر گر جاتا تھا ۔
(رواہ البیہقی دلائل النبوۃ)
رسول اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے ایک چچا عباس بن عبدالمطلب ابھی مسلمان نہ ہوئے تھے اور مشرکوں کے ساتھ فوج میں تھے طویل قامت اور قوی جسم والے تھے انہیں ایک دبلے پتلے پستہ قد انصاری صحابی حضرت ابو الیسر خزرجی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے گرفتار کر کے حضور سید الانبیا والمرسلین صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا ۔ رسول اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا ، اے ابوالیسر! تم نے عباس کو کیسے گرفتار کیا، ایسے مرد نے میری مدد کی جسے میں نے پہلے یا بعد نہیں دیکھا وہ ایسا ایسا تھا، حضور علیہ الصلوٰۃ السلام نے فرمایا کہ تمہاری مدد (ملک کریم) یعنی حضرت جبریل علیہ السلام نے فرمائی۔ (سبل الہدیٰ، ۴:۴۱)
ظہورِ معجزات:
معرکہ بدر میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے کئی معجزات ظاہر ہوئے ، میدانِ جنگ میں اپنی صفوں کو لے کر نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم میدان کے وسط میں تشریف لائے اور جنگ سے ایک روز قبل آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے اپنے عصائے مبارکہ سے مختلف لکیریں میدان میں کھینچتے ہوئے فرمایا: ’’ کل یہاں عتبہ بن ربیعہ کی موت ہوگی، اور یہاں اس دور کے فرعون ابو جہل کی موت واقع ہوگی، الغرض مشرکین کی موت اور ان کے مقتل کی جیسی نشاندہی فرمائی گئی تھی اس سے ہٹ کر وقوع نہ ہوا ۔ ‘‘ (مسلم شریف ، ۲:۱۰۲)
حضرت عکاشہ کے پاس ایک زنگ آلود پُرانی تلوار تھی جو ٹوٹ گئی تو رسول اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے میدان سے ایک سوکھی جنگلی جلانے والی لکڑی اپنے دست مبارک سے اٹھا کر انہیں دے دی اور ارشاد فرمایا : ’’جاؤ اس سے لڑو‘‘ وہ لکڑی حضرت عکاشہ کے ہاتھ میں ایک سفید چمکدار فولادی تیز تلوار بن گئی اور عرصۂ دراز تک (۱۱ہجری) ان کے پاس رہی ۔ اسی طرح حضرت سلمہ بن اسلم انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کو بھی حضور ا نے کھجور کی سوکھی شاخ دی جو کہ فوراً ایک تیز دھار تلوار بن گئی ۔ حضرت رفاعہ بن رافع بن مالک خزرجی انصاری و حضرت قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی زخمی آنکھوں کو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے لعابِ دہن سے تندرست کر دیا ۔ (ابن کثیر،۲:۴۴۶۔۴۴۷)
حیرت انگیز واقعات:
مرتدین کا عبرتناک انجام:
یہ معرکہ ٔ بدر امر الٰہی کے نتیجے میں اسلئے بھی پیش آیا تھا کہ مکہ مکرمہ میں مشرکین کے ساتھ پانچ افراد ایسے بھی تھے کہ جو ایمان لانے کے بعد حضور انور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے حکم سے ہجرت کر کے مدینہ نہیں آئے ، اللہ کے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی نافرمانی کی اور ان کے اعزا و اقرباء نے انہیں سمجھا بجھا کر اسلام چھوڑنے پر راضی کرلیا اور اس طرح یہ مرتد ہو گئے۔ ان میں (۱)بنو اسد بن عبدالعزیٰ بن قصی سے حرث بن زمعہ (۲) بنو مخزوم سے ابو قیس ابن الفاکہہ بن مغیرہ (۳) ابو قیس بن الولید بن مغیرہ (۴) بنو جمح سے علی بن امیہ بن خلف(۵) بنو سہم سے عاصی بن منبہ، یہ قریش کے لشکر میں شامل ہوکر بدر تک آئے تھے اور واصل جہنم ہوئے۔ اس سے معلوم ہو ا کہ اللہ تعالیٰ مرتدین کو جلد از جلد کیفرِ کردار تک پہنچا دیتا ہے۔
(ابن خلدون/اول/۷۶)
حضرت عبداللہ بن سہیل کی ثابت قدمی:
رسول اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے ایک صحابی حضرت عبداللہ بن سہیل مہاجر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ مکہ مکرمہ میں اپنا اسلام ظاہر کیے بغیر قیام فرما تھے مگر پیکر استقامت تھے۔لشکر کفار میں داخل ہو کر میدانِ بدر میں وارد ہوئے اور مشرکین کے لشکر کو چھوڑ کر حضور انور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی قدم بوسی کا شرف حاصل کیا اور مسلمانوں کے ساتھ مل کر کافروں سے خوب مقابلہ کیا۔ (کوکبۂ غزوۂ بدر:۱۵)
حضرت سواد رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کی والہانہ عقیدت:
جب سرورِ کائنات صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم اپنے جاں نثاروں کی صفیں درست فرما رہے تھے تو ایک صحابی حضرت سواد بن غزیہ کو صف سے باہر ملاحظہ فرما کر اپنے عصا سے ان کے جسم کو مس کیا اور فرمایا: ’’سواد سیدھے کھڑے ہو جاؤ۔‘‘ جس پر حضرت سواد نے احتجاجاً عرض کیا : ’’یا رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم! آپ نے مجھے تکلیف پہنچائی میں اس کا بدلہ چاہتا ہوں۔‘‘ تو نبی کریم ا نے اپنا کرتا اٹھا لیا اور اپنا عصا انہیں دے کر فرمایا :’’ لو اپنا بدلہ لے لو۔‘‘ جس پر حضرت سواد نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے برہنہ سینہ اور پیٹ کو بوسے دیے اور فرطِ عقیدت سے چومنے لگے اور انہوں نے عرض کیا کہ میں نے بدلہ لینے کی گستاخی کا جملہ اس لیے کہا تھا کہ آج پتہ نہیں میں زندہ رہوں یا نہیں کم از کم موت سے پہلے آپ کے جسم اقدس کا لمس حاصل کرلوں۔حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ان کی بھلائی کیلئے دعا فرمائی۔(سیرت ابن ہشام ) (الاصابہ، جلد ۴:۱۹۵)
نتیجۂ جنگ:
٭ سید الشہدا حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے سات مشرکین کو قتل کیا۔
٭ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے ۱۲ مشرکین کو قتل کیا
٭ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے اپنے حقیقی ماموں کو قتل کیا۔
٭ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے ۲ مشرکین کو قتل کیا۔
٭ حضرت زبیر بن العوام رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے ۳ مشرکین کو قتل کیا۔
٭ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے ۲ مشرکین کو قتل کیا۔
٭ حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے ۲ مشرکین کو قتل کیا۔
٭ حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے ایک مشرک کو قتل کیا۔
اور دیگر مہاجر و انصار صحابہ نے مجموعی طور پر ۷۰ مشرکین قتل کیے۔ اور ستر کے قریب مشرکین اسیر ہوئے۔جب کہ صرف ۱۴ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم شہید ہوئے۔
شہداء و شرکائے بدر کی فضیلت:
رفاعہ بن رافع الزرقی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ سے روایت ہے ،
’’جبرائیل علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور پوچھا آپ اہلِ بدر کو مسلمانوں میں کیسا سمجھتے ہیں؟ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے فرمایا ! سب مسلمانوں سے افضل سمجھتا ہوں ۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے عرض کیا کہ فرشتوں میں سے جو فرشتے بدر میں حاضر تھے ان کا درجہ بھی ملائکہ میں ایسا ہی سمجھاجاتا ہے۔ ‘‘ (بخاری: کتاب المغازی، باب شھود الملٓئکۃ بدرا، فتح الباری، ۷:۳۶۲)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے روایت کیا کہ،
’’ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے اہلِ بدر کو فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں بخش دیا ہے اب تم جو چاہو سو کرو۔‘‘(ابو داؤدشریف، ۲:۲۹۱۔۲۹۲، مطبوعہ امدادیہ ملتان)
اندلس کے مشہور سیاح محمد بن جبیر (متوفی ۲۷ شعبان ۶۱۴ھ ) نے بدر کے حال میں یوں لکھا ہے۔
’’اس موضع میں کھجور کے بہت باغات ہیں۔ اور آبِ رواں کاایک چشمہ ہے۔موضع کا قلعہ بلند ٹیلے پر ہے۔ اور قلعہ کاراستہ پہاڑوں کے بیچ میں ہے۔ وہ قطعہ زمین نشیب میں ہے جہاں اسلامی لڑائی ہوئی تھی اور اللہ تعالیٰ نے اسلام کو عزت اور اہلِ شرک کو ذلت دی۔ آج کل اس زمین میں کھجور کا باغ ہے اور اس کے بیچ میں گنج شہیداں ہے۔ اس آبادی میں داخل ہوتے وقت بائیں طرف جبل الرحمۃ ہے ۔ لڑائی کے دن اس پہاڑ پر فرشتے اترے تھے۔ اس پہاڑ کے ساتھ جبل الطبول ہے ۔ اس کی قطع ریت کے ٹیلے کی سی ہے۔ کہتے ہیں ہر شب جمعہ کواس پہاڑ سے نقارے کی صدا آتی ہے۔ اس لیے اس کا نام جبل الطبول رکھا ہے۔ ہنوز نصرت نبوی ا کا یہ بھی ایک معجزہ باقی ہے۔ اس بستی کے ایک عرب باشندے نے بیان کیا کہ میں نے اپنے کانوں سے نقاروں کی آواز سنی ہے اور یہ آوا زہر جمعرات اور دو شنبے کو آیا کرتی ہے اس پہاڑ کی سطح کے قریب حضور انور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے تشریف رکھنے کی جگہ ہے اور اس کے سامنے میدانِ جنگ ہے ۔‘‘ (سیرت رسول عربی:۱۳۷ و رحلۃ ابن جبیر : ۱۹۲)
اسمائے مبارکہ شہدائے بدر ث ،مختصر حالات:
بعض مؤرخین نے شہدائِ بدر کی تعداد سترہ اور بائیس بھی بیان کی ہے، لیکن چودہ شہیدوں پر امام زرقانی اور امام ابن عبدالبرّ متفق ہیں (زرقانی علی المواہب/اول/۴۲۲)
اسی طرح شرکاءِ بدر کی تعداد اکثر مؤرخین ۳۱۳ تین سو تیرہ بیان کرتے ہیں اور بعض تین سو سترہ (۳۱۷) بیان کرتے ہیں۔ علامہ محمد احمد باشمیل لکھتے ہیں، ’’ معرکۂ بدر میں تین سو سترہ مسلمان شامل ہوئے ، جن میں سے چھیاسی(۸۶) مہاجرین اور دوسو اکتیس(۲۳۱) انصار تھے، جن میں سے ایک سو ستر(۱۷۰) بنو خزرج سے اور اکسٹھ(۶۱) بنو اوس سے تعلق رکھتے تھے۔‘‘
(غزوۂ بدر، صفحہ ۲۰۴)
موصوف نے اپنی تالیف میں ان شرکاء کے ناموں کی فہرست بھی دی ہے۔ علامہ ابن سعد لکھتے ہیں کہ راوی محمد بن اسحاق کے شمار میں تین سو چودہ(۳۱۴) اور موسیٰ بن عقبہ کے شمار میں تین سو سولہ(۳۱۶) نیز شہداء بدر میں مہاجرین کی طرف سے ایک نام حضرت صفوان بن بیضاء رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ بھی درج کیا ہے۔ اور بعض نے حضرت سعد بن خولّی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ اور حضرت عبداللہ بن سعید بن عاصی اُموی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کو شہدائِ بدر میں شمار کیا ہے۔ طبقات میں ہے کہ صفوان بن بیضاء کی وفات رمضان ۳۸ھ میں ہوئی۔
شہدائِ بدر کے ناموں کا وردحصولِ برکت اور دفع مصائب کا ذریعہ ہے:
اکثر علماء ، صلحاء، اصفیاء، عرفاء، نقباء، نجباء، اتقیاء اور اولیاء فرماتے ہیں کہ شہداءِ بدر کے ناموں کو پڑھ کر ان کے وسیلے سے دعا کریں تو حاجت روائی ہوتی ہے اور یہ نام لکھ کر گھر میں لگائیں تو اس کی برکت سے گھر کے مکینوں کے ایمان، جان اور مال و آبرو کی حفاظت ہوگی۔ (کوکبۂ غزوئہ بدر:۲۵۸، مؤلف مولانا بخشی مصطفی علی خان میسوری مدنی علیہ الرحمہ)
حضرت مھجع بن صالح رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ
مھجع بن صالح رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ قوم عک سے تھے، سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کے آزاد کردہ غلام تھے۔ غزوۂ بدر میں سب سے پہلے یہی شہید ہوئے ہیں۔ رسول اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا:یَوْمَئِذٍ مَھْجَعُ سَیَّدُ الشُّہْدَآءِ …(اس دن (یعنی آخرت) مھجع شہیدوں کا سردار ہوگا۔)۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مھجع سے متعلق یہ آیت نازل فرمائی:
وَلَا تَطْرُدِ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّھُمْ بِالْغَدَاۃِ وَالْعَشِیِّ۔(پارہ:۷، الانعام:۵۲)
آپ اسلام میں سابقون الاوّلون میں شمار ہوتے ہیں۔( اصحابِ بدر/۶۰)
حضرت عبیدہ بن حارث بن مطلب بن عبد مناف بن قصیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ:
ان کی کنیت ابو الحارث یا ابو معاویہ تھی، ان کی والدہ سخیلہ بنت خزاعی تھیں۔ قرشی و مطلبی نسب ہے۔ قریش کیے شہسواروں اور بہادروں میں سے تھے۔ مکہ میں پیدا ہوئے، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے پر داد حضرت ہاشم بن عبد مناف اور حضرت عبیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کے دادا مطلب بن عبد مناف آپس میں حقیقی بھائی تھے اس نسبت سے حضرت عبیدہ بن حارث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے رشتہ میں چچا ہوتے ہیں، آپ بالکل ابتداء میں اسلام لائے تھے۔ سب سے اولین سریہ اسلامی کے دو سرداروں میں اول حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ اور دوم یہی حضرت عبیدہ تھے جن کے لئے نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اسلام میں جھنڈا باندھا یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے آپ کو ہجرت کے پہلے سال ساٹھ ۶۰ یا اسّی ۸۰ سواروں کے جاسوس گشتی دستہ کے ساتھ بھیجا یہ وہ دستہ ہے جو ابو سفیان کو "ثنیہ المرۃ" میں ملا تھا اور ابو سفیان کے ساتھ دو سو سے زائد سوار تھے۔ غزوۂ بدر میں مبارزت کے دوران عتبہ بن ربیعہ بن عبدشمس بن عبد مناف (جو رشتہ میں کزن یعنی چچا زاد تھا) نے حضرت عبیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کی ٹانگ کاٹ دی تھی اسلامی فوج نے زخمی حالت میں آپ کو اٹھالیا تھا واپس مدینہ آتے ہوئے پہلی منزل وادی صفراء میں آپ شہید ہو گئے۔ جب انصار نے غزوہ بدر میں اول مرحلہ میں پیشقدمی کی تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے انصار صحابہ کو روک دیااور فرمایا کہ میرے خاندان کے افراد پہلے جائیں گے پھر آپ کے حکم سے حضرت حمزہ ، حضرت علی اور حضرت عبیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم مبارزت کیلئے نکلے تھے بوقتِ شہادت حضرت عبیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کی عمر شریف ۶۳ برس تھی۔ اہل بدر میں سب سے زیادہ عمر رسیدہ یہی تھے۔ یہی غزوۂ بدر کے غازی بھی ہیں اور شہید بھی۔ ایک مرتبہ حضور انور شفیع روزِ محشر صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اس راہ سے گزرے۔ ہمراہیوں نے عرض کیا کہ ادھر سے کستوری کی خوشبو آرہی ہے۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا! ’’ہاں ، کیوں نہ ہو؟یہاں ابو معاویہ کی قبر بھی تو ہے۔‘‘ سبحان اللہ آپ نہایت خوش اندام اور خوبرو تھے۔ ہجرت مدینہ اور غزوۂ بدر کے وقت طفیل اور حصین ان کے دونوں بھائی بھی رفیق سفر تھے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہمیشہ ان کا اکرام فرماتے اور بہت قدر و منزلت فرمایا کرتے تھے۔
(طبقات /سوم/ ۲۱۵۔۲۱۴)
حضرت عمیر بن ابی وقاص (مالک) بن اُہیب بن عبد مناف رضی اللہ تعالیٰ عنہ:
آپ قرشی الزہری ہیں، آپ فاتح قادسیہ (ایران) اور عشرۂ مبشرہ میں شامل حضرت سعد بن ابی وقاص کے برادرِ اصغر ہیں۔ رسول اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے جب اپنی فوج کا معائنہ فرمایاتو جن لوگوں کو صغر سنی (کم عمری) کے باعث واپس کردیا تھا انہی میں یہ حضرت عمیر بن ابی وقاص بھی تھے، تو عمیر رو پڑے اور اصرار کیا کہ آقائے دو جہاں صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم اگر توجہ فرمائیں تو مجھے اسلامی فوج میں شامل فرمالیں، چنانچہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کو فوج میں شامل کر لیا گیا۔ آپ بڑے حوصلہ کے ساتھ لڑے اور پھر شہید ہوگئے۔ آپ کو شہید کرنے والے شقی کافر عمرو بن عبدو دعامری کو غزوۂ خندق (احزاب) میں حضرت علی کرم اللہ وجہہٗ الکریم نے واصل جہنم کیا۔
حضرت عاقل بن بکیر بن عبد یالیل رضی اللہ تعالیٰ عنہ :
آپ قبیلہ بنی سعد بن لیث بن عبد مناۃ بن کنانہ بن خزیمہ بن مدرکہ سے تھے۔ ان کے ایک بھائی خالد غزوۂ رجیع میں شہید ہوئے تھے۔ عاقل نے مصائب کے دور مکہ مکرمہ دارِ ارقم میں سب سے پہلے حاضر ہو کر رسول اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے دست اقدس پر جاں نثاری کی بیعت کی تھی، اور اس بیعت کی تکمیل کے نتیجے میں منصب شہادت سے سرفراز کیے گئے۔ سابقون الاولون میں سے ہیں آپ کا نام غافل تھا مگر اللہ کے حبیب صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے آپ کا نام عاقل تجویز فرمایا ۔ غزوۂ بدر میں ان کے بھائی عامر، ایاس اور خالد رضی اللہ تعالی عنہم بھی حاضر تھے۔
حضرت عمیر یا (عمرو) عبد عمیر بن نضلہ الخزاعی رضی اللہ تعالیٰ عنہ:
سلسلہ نسب یوں ہے، عمیر بن عمرو بن نضلہ بن عمر بن غیسان بن سلیم بن اقصی بن حارثہ بن عمرو بن عمر۔ آپ کا لقب ذوالشمالین اور ذوالیدین ہے (یہ سیدھے ہاتھ کی طرح، بائیں ہاتھ سے بھی ویسا ہی کام کرتے تھے، اس لیے ذوالیدین مشہور ہوئے۔) قبیلہ خزاعہ سے تعلق تھا۔ کنیت ابو محمد ہے۔ بنو زہرہ بن کلاب کے حلیف تھے ۔ مواخات میں ان کے انصاری بھائی یزید بن حارث بن قیس جو بنو خزرج سے تھے وہ بھی بدر میں شہید ہوئے۔ بوقت شہادت حضرت عمیر ذوالشمالین کی عمر شریف تیس سال سے کچھ زائد تھی۔ (طبقات /سوم/۲۷۹)
حضرت عوف یا عوذ بن عفراء رضی اللہ تعالیٰ عنہ:
عوف یا عوذ بن (عفرأ) حارث بن رفاعہ بن سواد رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ انصاری نجّاری ہیں، عفرأ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ان کی والدہ کا نام ہے والد کا نام حارث ہے۔ انہیں ان چھ آدمیوں میں شمار کیا جاتا ہے جو انصار میں سب سے پہلے مکہ میں حاضر ہوکر اسلام لائے۔ بیت عقبہ اولیٰ ، ثانیہ و اخریٰ میں موجود تھے۔ ان کے ایک بھائی معوذ بھی شہید ہوئے۔ ان کے چار بھائی (۱) رفاعہ (۲) معوذ (۳) معاذ (۴) معن بدر میں حاضر تھے۔ نہایت نیک اور بلند ہمت خاتون صحابیہ حضرت عفراء رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے سات بیٹے تھے۔
عبدا لرحمن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کہتے ہیں کہ جب بدر میں صف بندی ہوئی تو میں نے دیکھا کہ میرے دائیں و بائیں انصار کے دو جوان لڑکے کھڑے ہیں میں نے دل میں کہا کہ میرے برابر اگر پورے جوان کھڑے ہوتے تو زیادہ اچھا ہوتا۔ ان نوجوانوں میں سے ایک بولا اے چچا! کیا آپ ابو جہل کو پہنچانتے ہیں؟ میں نے کہا: ہاں، تم کیا چاہتے ہو؟ کہنے لگے! کہ وہ (ابو جہل) رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی شان میں نا زیبا کلمات بکتا ہے اگر ہم دیکھ لیں تو اسے قتل ہی کرکے چھوڑیں۔ اسی اثناء میں ابو جہل مجھے نظر آیا تو میں نے دونوں سے کہا کہ تمہارا مطلوب شکار وہ ہے وہ دونوں شہباز کی طرح جھپٹ پڑے۔ اور ابو جہل کو نیچے گرالیا جبکہ ابو جہل کی اطراف مشرکین کا ایک محافظ کمانڈو دستہ اس کی حفاظت کیلئے موجود تھا۔ ابو جہل کاسر حضرت عبداللہ بن مسعود نے کاٹا تھا۔(کوکبۃٔ غزوۂ بدر :۲۰۷)
حضرت معوذ بن عفراء حارث الانصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ:
یہ قبیلہ بنو مالک بن النجار سے ہیں۔ عفراء ان کی والدہ کا نام ہے ان کے چھ بھائی بدر میں حاضر تھے جن میں سے دو بدر ہی میں شہید ہوئے تھے ۔ ان کے ایک بھائی معاذ بن عفراء رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ ایسے صاحبِ فضیلت ہیں کہ انصار صحابہ میں سے ایمان لانے میں ان اولین میں سے ہیں جن پر کسی انصاری کو تقدم حاصل نہیں ۔ ابو جہل کی پنڈلی پر حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے تلوار ماری تھی اور اسے نیچے گرادیا تھا، ابو جہل کے بیٹے نے ان کے شانہ پر تلوار کی ایسی ضرب لگائی کہ بازو کٹ کر لٹک گیا مگر یہ اسی طرح لڑتے رہے جب مجروح ہاتھ سعی جہاد میں مانع و مخل ہوا تو اپنے کٹے اور لٹکتے ہوئے بازو کو پاؤں کے نیچے رکھ کر اسے ایک جھٹکے سے علیحدہ کر دیا۔پھر ایک ہی بازو کیساتھ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کے زمانۂ خلافت تک زندہ رہے۔ حضرت معوذ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ اپنے بھائی حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ سے چھوٹے تھے۔ (طبقات/۴/۶۵)
حضرت حارث (یارحارثہ) بن سراقہ بن حارث رضی اللہ تعالیٰ عنہ :
انصاری صحابی ہیں، انکی والدہ ربیع بنت نضر بن ضمضم بن زید نجاری حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کی پھوپھی ہوتی ہیں۔ ان کے حلق پر مشرکین کا تیر لگا، جس سے وہ جام شہادت نوش فرماگئے۔ ان کی والدہ نے حضور اکرم نبی محتشم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم سے عرض کیا کہ آپ جانتے ہیں کہ ’’حارثہ کی منزلت میرے دل میں کیا تھی؟ اگر وہ جنت میں گیا ہے تو میں صبر کروں گی اور اگر نہیں تو پھر سرکار صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم خود ہی ملاحظہ فرمالیں گے کہ میں کیا کچھ کرتی ہوں۔‘‘ حضور نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے فرمایا :’’جنت صرف ایک تو نہیں بہت ہیں اور حارثہ جنت الفردوس میں ہے۔ ‘‘بدر کے دن انصار میں یہی سب سے پہلے شہید ہوئے ۔ ان کا عقد مواخات حضرت السائب بن عثمان ابن مظعون سے قائم ہوا تھا۔
(طبقات/۴/۷۸)
حضرت یزید بن حارث ( یا حرث) بن قیس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ :
انہی کو یزید بن فُسحم بھی کہتے ہیں ان کی والدہ کا نام فُسْحَمْ تھا جو بنو قضاعہ سے تعلق رکھتی تھیں سلسلۂ نسب یوں بیان کیاہے، یزید بن حارث بن قیس بن مالک بن احمر بن حارثہ بن بن ثعلبہ بن کعب بن الحارث بن الخزرج۔ مواخات میں عمیر یا عمرو بن عبد عمیر المعروف ذوالشمالین مہاجر کو ان کا بھائی بنایا گیا تھا، دونوں زندگی میں ساتھ رہے اور جنت الفردوس میں بھی ہاتھ میں ڈالے ہاتھ رونق افروز خلد ہونگے۔ (طبقات/۴/۹۳)
حضرت رافع بن معلیٰ بن لواذان :
سلسلۂ نسب یوں بیان کیا جاتا ہے ۔ رافع بن معلیٰ ابن حارثہ بن زید بن ثعلبہ بن عدی بن مالک بن زید مناۃ ابن حبیب بن عبدحارثہ۔ یہ بنی حبیب سے تعلق رکھتے تھے جو خاندانِ بنو خزرج کا ایک بطن ہے۔ ان کی والدہ اوام بنت عوف بن مبذول بن عمرو ابن مازن ابن نجار تھیں۔ ان کے ایک بھائی ہلال بن المعلیٰ بھی بدر میں حاضر تھے۔ حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے حضرت رافع کا صفوان بن بیضاء سے عقد مواخات کیا۔ (طبقات/۴/۱۴۱)
حضرت عمیر بن حمام بن جموح بن زید بن حرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ :
حضرت عمیر بن حمام بن الجموح بن زید بن حارم خزرجی الانصاری اسلمی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ مواخات میں طبقہ مہاجرین میں حضرت عبیدہ بن حارث بن مطلب رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کے دینی بھائی قرار پائے اور دونوں ہی جام شہادت نوش کر گئے۔ یہ میدان بدر میں انگور کھا رہے تھے۔جب رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے یہ خطبہ ارشاد فرمایا!
’’وَالَّذِی نفسُ محمّد بیدہ لا یقا تلھم الیوم رجلٌ صابرًا محتسباً مقبلاً غیر مدبرٍ الّا دخلہ اللّٰہ الجنّۃ‘‘
حضرت عمیر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ بولے! خوب خوب …بس جنت میں جانے کی صرف اتنی ہی دیر ہے کہ کفار میں سے مجھ کو کوئی قتل کردے ۔ یہ کہہ کر انگور پھینک دیے اور مشرکین کی صفوں میں گھس کر ان سے جنگ کی اور پھر شہید ہو گئے۔
(اصحابِ بدر: ۱۶۰)
حضرت عمار بن زیاد بن سکن بن رافع الانصاری الاشہلی رضی اللہ تعالیٰ عنہ :
عمار بن زیاد بن سکن بن رافع الانصاری الاشہلی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کے بھائی عمارہ بن زیاد اور ان کے چچا زید بن سکن عزوۂ احد میں شہید ہوئے تھے۔(کوکبۂ غزوئہ بدر : ۲۰۲)
سعد بن خثیمہ الانصاری الاوسی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ :
آپ کی کنیت ابو عبداللہ تھی، آپ کے بیٹے عبداللہ بھی بدر میں حاضر تھے آپ کے والد نے کہا تھا کہ میں جاؤں گا تم گھر پر ٹھہرو۔ سعد بولے! بابا جان: جنت کا معاملہ ہے اس لئے مجھے ہی جانے دیجئے کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ اس جنگ میں مجھے شہادت ضرور نصیب ہو جائیگی آخر قرعہ اندازی ہوئی تو قرعہ میں بھی حضرت سعد کا نام نکل آیا خوشی خوشی گئے اور شہادت پا کر خوشی خوشی عازم جنت ہوئے۔ جبکہ ان کے والد آئندہ سال غزوۂ احدمیں شہید ہوئے۔ حضرت سعد بیعت عقبہ میں بھی حاضر تھے۔ آپ کا لقب سعد الخیر تھا۔ بیعت عقبہ کے بارہ نقیبوں میں سے ایک ہیں، نقیب محمدی یا مصطفائی سے بھی مشہور ہیں۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے سعد بن خثیمہ اور ابی سلمہ بن الاسد کے درمیان عقد مواخات قائم کیا تھا۔
(کوکبۂ بدر : ۱۴۶، غزوئہ بدر:۱۸۸)
حضرت مبشر بن عبدالمنذر بن زبیر بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ :
ان کا نسب یہ ہے مبشر بن عبدالمنذر بن زنیر بن زید بن امیہ بن زید بن مالک بن عوف بن عمرو بن عوف بن مالک بن اوس۔ انکے بھائی حضرت ابولبابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ جن کے نام سے مسجد نبوی شریف ریاض الجنّہ میں ایک ستون ابی لبابہ یا ستون توبہ آج بھی موجود ہے۔ حضرت ابو لبابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کو حضور اقدس ا نے بدر جاتے ہوئے راستے میں منزل الروحاء سے واپس کردیا تھا اور اپنی نیابت کی ذمہ داری عطا فرما کر مدینہ منورہ میں قائم مقام امیر مقرر فرمایا تھا۔ ان کے دوسرے بھائی رفاعہ بن عبدالمنذربدر میں حاضر تھے۔ ان کا عقد مواخات عاقل بن ابی البکیر سے قائم ہوا تھا اور وہ بھی بدرمیں شہید ہوئے۔
(طبقات/۴/۴۱)
فہرستِ شرکائے بدر(مہاجرین):
یہ فہرست نہایت عرق ریزی اور تحقیق کے ساتھ ساتھ کمال احتیاط سے کتب احادیث کے علاوہ حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی کتاب مغازی "رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم" ، " طبقات ابن سعد"، " الاصابہ فی تمییز الصحابہ" ، " اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ" ، " الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب"، " حیاۃ الصحابہ" ، " عیون الاثر" ، " سبل الہدیٰ و الرشاد"، " زرقانی علی المواھب" ، " صفۃ الصفوۃ لابن جوزی" ، " غزوۂ بدر" ، " حلیۃ الاولیائ" ، " بدر الکبریٰ" ، " کوکبۂ غزوئہ بدر" اور" اصحاب بدر" سے مستفاد ہے۔ مجاہدین بدر کی کل تعداد 313 تا 363 روایت کی گئی ہے ۔ غزوۂ میں عملاً شریک نہ ہونے والے چند اصحاب کو بھی رسول اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اعزازاً شریک اصحاب میں شمار فرمایا ہے۔ زندگی نے وفا کی اور وقت میں برکت رہی تو انشاء اللہ عزوجل و انشاء الرسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ، فقیر " اصحاب بدر"کے عنوان سے تفصیلی کتاب تحریر کرنا چاہتا ہے ۔
۱۔ امام الانبیاء والمرسلین سیدنا و مولانا محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم (ہاشمی)
۲۔ حضرت سیدنا امیر المؤمنین سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (بنی تیم بن مرہ)
۳۔ حضرت سیدنا امیر المؤمنین سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (بنو عدی بن کعب)
۴۔ حضرت سیدنا امیر المؤمنین سیدنا عثمان ذوالنّورین ص (بنی عبد شمس بن عبد مناف)(اگرچہ آپ جسمانی طورپر مدینہ منورہ میں اپنی اہلیہ اور بنتِ رسول سیدہ رقیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی تیمار داری کیلئے مقیم تھے، لیکن رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے مالِ غنیمت میں سے آپ کا حصہ لگایا تھا۔)
۵۔ حضرت سیدنا امیر المؤمنین سیدنا علی مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (ہاشمی)
۶۔ حضرت سیدنا ارقم بن ابی الارقم رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (بنی مخزوم)
۷۔ حضرت سیدنا ایاس بن البکیر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (بنو عدی بن کعب)
۸۔ حضرت بلال حبشی بن رباح رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (غلام حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ )
۹۔ حضرت سیدنا حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (بنی اسد بن عبد العزیٰ)
۱۰۔ حضرت سیدنا امیر المؤمنین سید الشہداء حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (ہاشمی)
۱۱۔ حضرت سیدنا خریم بن فاتک مہاجر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (شامی)
۱۲۔ حضرت سیدنا خالد بن بکیر ابن عبد یا لیل رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (بنو عدی)
۱۳۔ حضرت سیدنا خنیس بن حذافہ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (بنی عدی السھمی)
۱۴۔ حضرت سیدنا ربیعہ بن اکثم بن سنجرۃ الاسدی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (حلیف بنی امیہ بن عبد شمس بن عبد مناف)
۱۵۔ حضرت سیدنا زاہر بن حرام الاشجعی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (حجازی بادیہ نشین)
۱۶۔ حضرت سیدنا زبیر بن العوام رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (بنی اسد بن عبد العزیٰ)(حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے پھوپھی زاد)
۱۷۔ حضرت سیدنا زید بن خطاب القرشی العدوی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (بنی عدی بن کعب برادر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ )
۱۸۔ حضرت سیدنا زید بن حارثہ بن شرجیل کلبی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (غلام حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم)
۱۹۔ حضرت سیدنا زیاد بن کعب بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (بنی کلیب جہنی)
۲۰۔ حضرت سیدنا سالم بن معقل رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (قاری قرآن) (حلیف بنی امیہ بن عبد شمس)
۲۱۔ حضرت سیدنا سائب بن العوام القرشی الاسدی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (بنو عبد العزیٰ)(برادر حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ )
۲۲۔ حضرت سیدنا سائب بن عثمان بن مظعون القرشی الجمحی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (بنی جمح بن عمرو بن مصیص بن کعب)
۲۳۔ حضرت سیدنا سبرہ بن فاتک الاسدی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (شامی)
۲۴۔ حضرت سیدنا سعد بن ابی وقاص قرشی الزہری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (بنی زہرہ بن کلاب)(حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے ماموں)
۲۵۔ حضرت سیدنا سعد بن خولی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (بنی عامر بن لوئی)
۲۶۔ حضرت سیدنا سعید بن زید بن نفیل قرشی العدوی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (اعزازی)(بنو عدی بن کعب)
۲۷۔ حضرت سیدنا سلیط بن عمرو القرشی العامری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (بنی عامر بن لوئی)
۲۸۔ حضرت سیدنا ابو مخشی سوید بن مخشی الطائی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (حلیف بنی امیہ بن عبد شمس بن عبد مناف)
۲۹۔ حضرت سیدنا سویبط بن سعد القرشی العبدری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (بنی عبد الدار بن قصیٰ)
۳۰۔ حضرت سیدنا سْہیل بن بیضاء بن وھب بن ربیعہ القرشی الفہری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (بنی حارث بن فہر)
۳۱۔ حضرت سیدنا شجاع بن ابی وہب الاسدی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (بنی اسد بن خزیمہ)
۳۲۔ حضرت سیدنا شقران (صالح)حبشی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (رسول اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے آزاد کردہ غلام)
۳۳۔ حضرت سیدنا شماس بن عثمان بن الشریدالقرشی المخزومی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (بنی مخزوم)
۳۴۔ حضرت سیدنا صفوان بن بیضاء القرشی الفہری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (بنی حارث بن فہر)
۳۵۔ حضرت سیدنا صہیب بن سنان الرومی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (اول عرب پھر رومی)
۳۶۔ حضرت سیدنا طفیل بن حارث القرشی المطلبی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (بن مطلب بن عبد مناف)
۳۷۔ حضرت سیدنا طلحہ بن عبید اللہ القرشی التیمی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (اعزازی)(بنی تیم بن مرہ)
۳۸۔ حضرت سیدنا طلیب بن عمیر؍عمرو بن وہب القرشی العبدری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (بنی عبد بن قصیٰ)حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے پھوپھی زاد)
۳۹۔ حضرت سیدنا عاقل بن بکیر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (بنو کنانہ، حلیف بنو عدی)
۴۰۔ حضرت سیدنا عامر بن بکیر بن عبدیالیل رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (بنی سعد لیثی حلیف بنی عدی)
۴۱۔ حضرت سیدنا عامر بن حارث الفہری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (بنی حارث بن فہر)
۴۲۔ حضرت سیدنا عامر بن ربیعہ العنزری العدوی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (بنی نزار بن معد بن عدنان، متبنّیٰ خطاب بن نفیل)
۴۳۔ حضرت سیدنا ابو عبیدہ عامر بن عبداللہ بن جراح القرشی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (بنی حارث بن فہر)
۴۴۔ حضرت سیدنا عامر بن فہیرہ ازدی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (غلام حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ )
۴۵۔ حضرت سیدنا عبداللہ بن جحش بن ریاب الاسدی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (بنی کنانہ بن خزیمہ، حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے پھوپھی زاد)
۴۶۔ حضرت سیدنا عبداللہ بن سراقہ القرشی العدوی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (بنی عدی بن کعب)
۴۷۔ حضرت سیدنا عبداللہ بن سعید القرشی الاموی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (بنی امیہ بن عبد شمس بن عبد مناف)
۴۸۔ حضرت سیدنا عبداللہ بن سھل بن عمرو القرشی العامری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (بنی عامر بن لوئی)
۴۹۔ حضرت سیدنا عبداللہ بن عبدالاسد بن ہلال القرشی المخزومی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (بنی مخزوم بن مُرّہ)(حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے پھوپھی زاد)
۵۰۔ حضرت سیدنا عبداللہ بن مخرمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (بنی عامر بن لوئی)
۵۱۔ حضرت سیدنا عبداللہ بن مسعود الھذلی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (امام الفقہائ، بنی ہزیل بن خزیمہ، حلیف بنی زہرہ)
۵۲۔ حضرت سیدنا عبداللہ بن مظعون قرشی جمحی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (بنی جُمح بن عمرو بن مصیص بن کعب)
۵۳۔ حضرت سیدنا عبیدہ بن حارث بن مطلب بن عبد مناف قرشی المطلبی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (بنی مطلب بن عبد مناف)
۵۴۔ حضرت سیدناعبدالرحمن بن عوف القرشی الزھری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (بنی زہرہ بن کلاب)
۵۵۔ حضرت سیدنا عمرو بن الحارث بن زہیربن ابی شدّاد القرشی الفہری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (بنی حارث بن فہر)
۵۶۔ حضرت سیدنا عمر وبن سراقہ القرشی العدوی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (بنی عدی بن کعب)
۵۷۔ حضرت سیدنا عمرو بن ابی عمرو بن شداد القرشی الفہری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (بنی حارث بن فہر)
۵۸۔ حضرت سیدنا عمرو بن ابی سرح ربیعۃ القرشی الفہری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (بنی حارث بن فہر)
۵۹۔ حضرت سیدنا عثمان بن مظعون القرشی جمحی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (بنی جمح بن عمرو بن مصیص بن کعب)
۶۰۔ حضرت سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (قحطانی مذحجی الاصل، حلیف بنی مخزوم)
۶۱۔ حضرت سیدنا عمیر بن ابی وقاص القرشی الزہری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (بنی زھر بن کلاب)(حضور ا کے ماموں)
۶۲۔ حضرت سیدنا عمیر بن عبد عمرو بن نضلہ الخزاعی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (ذوالیدین، ذو الشمالین، بنو زھرہ)
۶۳۔ حضرت سیدنا عمیر بن عوف مولیٰ سہیل بن عمر العامری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (بنی عامر بن لوئی)
۶۴۔ حضرت سیدنا عقبہ بن وہب رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (بنی اسد بن خزیمہ،حلیف بنو عبد شمس)
۶۵۔ حضرت سیدنا (مسطح )عوف بن اثاثہ بن عباد المطلبی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (بنی مطلب بن عبد مناف)
۶۶۔ حضرت سیدنا عیاض بن زہیر بن ابو شدّاد القرشی الفہری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (بنی حارث بن فہر)
۶۷۔ حضرت سیدنا قدامہ بن مظعون القرشی جمحی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (بنی جمح بن عمرو بن مصیص بن کعب)
۶۸۔ حضرت سیدنا کثیر بن عمرو السلمی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (حلیف بنی عبد شمس)
۶۹۔ حضرت سیدنا کناز بن حصین ابو مرثد الغنوی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (بنی مضر، حلیف بنو ہاشم)
۷۰۔ حضرت سیدنا مالک بن امیہ بن عمرو السلمی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (حلیف بنو اسد بن خزیمہ)
۷۱۔ حضرت سیدنا مالک بن ابو خولی الجعفی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (حلیف بنو عدی بن کعب)
۷۲۔ حضرت سیدنا مالک بن عمرو السلمی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (حلیف بنی عبد شمس)
۷۳۔ حضرت سیدنا مالک بن عُمیلہ بن السّیّاق ص (بنی عبد الدار بن قُصیٰ)
۷۴۔ حضرت سیدنا مُحرز بن نَضلہ الاسدی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (بنی اسد بن خزیمہ)
۷۵۔ حضرت سیدنا مُدلج بن عمرو السلمی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (حلیف بنی عبد شمس)
۷۶۔ حضرت سیدنا مَرثد بن ابو مرثد الغنوی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (بنی مضر، حلیف بنی ہاشم)
۷۷۔ حضرت سیدنا مسعود بن الریبع القاری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (بنو قارہ، قبیلہ خزیمہ بن مدرکہ)
۷۸۔ حضرت سیدنا مصعب بن عمیر القرشی العبدری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (بنی عبد الدار بن قُصَیّ)
۷۹۔ حضرت سیدنا مُعتب بن عوف بن عامر حمراء الخزاعی السلولی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (حلیف بنی مخزوم)
۸۰۔ حضرت سیدنا مَعمَر بن ابی سرح بن ابی ربیعہ القرشی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (بنی حارث بن فہر)
۸۱۔ حضرت سیدنا مہجع بن صالح المہاجر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (قوم عک، یمنی، غلام حضرت عمر فاروق ص)
۸۲۔ حضرت سیدنا واقد بن عبداللہ تمیمی الیربوعی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (حلیف بنی عدی)
۸۳۔ حضرت سیدنا وہب بن مُحْصِن الاسدی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (بنی خزیمہ، حلیف عبد شمس)
۸۴۔ حضرت سیدنا وہَب بن ابی سرح القرشی الفہری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (بنی حارث بن فہر)
۸۵۔ حضرت سیدنا وہَب بن سعد بن ابی سرح القرشی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (بنی عامر بن لوئی)
۸۶۔ حضرت سیدنا ہلال بن ابی خولی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (جعفی، حلیف خطاب بن نفیل یعنی بنی عدی)
۸۷۔ حضرت سیدنا یزید بن رُقیس رُقیش رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (بنی اسد بن خزیمہ)
۸۸۔ حضرت سیدنا ابو حذیفہ بن عتبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (بنی امیہ بن عبد شمس)
۸۹۔ حضرت سیدنا ابو سبرہ قرشی العامری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (بنی عامر بن لوئی )(حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے پھوپھی زاد)
۹۰۔ حضرت سیدنا ابو کبشہ سلیم رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ مولی رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم (فارسی النسل، غلام)
۹۱۔ حضرت سیدنا ابو واقد حارث اللّیثی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (بنی لیث بن بکر بن عبد مناۃ)
الانصار
۱۔ حضرت سیدنا اُبی بن ثابت الانصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (برادر حضرت حسان رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ )
۲۔ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (سید القرائ)(خزرجی)
۳۔ حضرت سیدنا اسعد بن یزید بن فاکہہ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (خزرجی)
۴۔ حضرت سیدنا اُسَید بن حُضیر بن سماک رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (اوسی)
۵۔ حضرت سیدنا اُسیرہ بن عمرو الانصاری النجاری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (خزرجی)
۶۔ حضرت سیدنا انس بن مالک بن نضر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (نجاری، خزرجی)
۷۔ حضرت سیدنا انس بن معاذ بن انس بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (خزرجی)
۸۔ حضرت سیدنا انیس بن قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (اوسی)
۹۔ حضرت سیدنا ابو مسروح انسہ (مولیٰ رسول اللہ ا )
۱۰۔ حضرت سیدنا اَوس بن ثابت الانصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (برادر حضرت حسان ص)
۱۱۔ حضرت سیدنا اَوس بن خولّی بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (خزرجی)
۱۲۔ حضرت سیدنا اَوس بن صامت الانصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (خزرجی)
۱۳۔ حضرت سیدنا اِیاس بن اَوس بن عَتیک رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (اوسی)
۱۴۔ حضرت سیدنا بَشر بن بَراء بن مَعْرور الانصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (خزرجی)
۱۵۔ حضرت سیدنا بَشیر بن سَعد بن ثَعلبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (خزرجی)
۱۶۔ حضرت سیدنا ثابت بن اَقرم (اقوم) بن ثعلبہ العجلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (حلیف اوسی)
۱۷۔ حضرت سیدنا ثابت بن جِزْع (ثَعلبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ)(خزرجی)
۱۸۔ حضرت سیدنا ثابت بن خالد بن نعمان بن خنساء الانصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (خزرجی)
۱۹۔ حضرت سیدنا ثابت بن عامر بن زید الانصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (خرزجی)
۲۰۔ حضرت سیدنا ثابت بن عبیدہ الانصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (قبیلہ نامعلوم)
۲۱۔ حضرت سیدنا ثابت بن عمرو بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (خزرجی)
۲۲۔ حضرت سیدنا ثابت بن ہزّال بن عمرو الانصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (خزرجی)
۲۳۔ حضرت سیدنا ثعلبہ بن حاطب بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (اوسی)
۲۴۔ حضرت سیدنا ثعلبہ بن عمرو بن عامرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (خزرجی، نجاری)
۲۵۔ حضرت سیدنا ثعلبہبن عَنَمہ بن عدی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (خزرجی)
۲۶۔ حضرت سیدنا جابر بن عبداللہ بن رباب رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (خزرجی)
۲۷۔ حضرت سیدنا جابر بن عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (حدیث نور کے راوی، خزرجی)
۲۸۔ حضرت سیدنا جبیر بن ایاس بن خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (خزرجی)
۲۹۔ حضرت سیدنا جابر بن سہیل بن عبد الاشہل رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (خزرجی)
۳۰۔ حضرت جابر (جَبر)بن عتیک الانصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (اوسی)
۳۱۔ حضرت حارثہ بن سراقہ حارث رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (خزرجی)
۳۲۔ حضرت سیدنا حارث بن انس بن رافع رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (اوسی، بنی عبد لاشہل)
۳۳۔ حضرت سیدنا حارث بن اوس بن معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (سید الاوس)(حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کے بھتیجے)
۳۴۔ حضرت سیدنا حارث بن حاطب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (اوسی، اعزازی)
۳۵۔ حضرت سیدنا حارث بن خزمہ بن عدی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (اوسی، بنی عبد الاشہل)
۳۶۔ حضرت سیدناحارث بن نعمان بن امیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (اوسی، بنی ثعلبہ)
۳۷۔ حضرت سیدنا حارث بن صِمّہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (خزرجی، اعزازی)
۳۸۔ حضرت سیدنا حارث (ابو الاعور) بن ظالم بن عبس رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (خزرجی)
۳۹۔ حضرت سیدنا حارث بن عرفجہ بن حارث رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (اوسی)
۴۰۔ حضرت سیدنا حارث بن قیس بن خلدہ ، ابو خالد انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (خزرجی)
۴۱۔ حضرت سیدنا حباب بن منذر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (فاتح قلعہ صعب، خزرجی)
۴۲۔ حضرت سیدنا حبیب بن اسود (اسلم) بن سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (خزرجی)
۴۳۔ حضرت سیدنا حرام بن ملحان بن خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (خزرجی، حضرت انس ص کے ماموں)
۴۴۔ حضرت سیدنا حُریث بن زید بن ثعلبہ بن عبد ربّہ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (خزرجی)
۴۵۔ حضرت سیدنا حمزہ (خارجہ یا حارثہ) بن حمیر الاشجعی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (خزرجی)
۴۶۔ حضرت سیدنا خارجہ بن زید بن ابی زہیر بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (خزرجی)(حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کے خسر)
۴۷۔ حضرت سینا (ابو ایوب انصاری)خالد بن زید بن کلیب بن ثعلبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (نجاری، خزرجی)
۴۸۔ حضرت سیدنا خالد بن قیس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (خزرجی)
۴۹۔ حضرت سیدنا خبیب بن اساف بن عتبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (خزرجی)
۵۰۔ حضرت سیدنا خداش بن قتادہ بن ربیعہ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (اوسی)
۵۱۔ حضرت سیدنا خراش بن صِمَّہ بن عمرو بن جموح رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (خزرجی)
۵۲۔ حضرت سیدنا خلیفہ بن عدی بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (خزرجی)
۵۳۔ حضرت سیدنا خلاد بن عمرو بن جموح رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (خزرجی)
۵۴۔ حضرت سیدنا خلاد بن سوید بن ثعلبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (خزرجی)
۵۵۔ حضرت سیدنا خزیمہ بن ثابت بن فاکہہ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (اوسی)
۵۶۔ حضرت سیدنا خلید بن قیس بن نعمان رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (خزرجی)
۵۷۔ حضرت سیدنا خواّت بن جبیر بن نعمان رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (اوسی، بنی ثعلبہ)
۵۸۔ حضرت سیدنا خبیببن عدی بن مالک بن عامرالانصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (اوسی)
۵۹۔ حضرت سیدنا خلادبن رافع بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (خزرجی)
۶۰۔ حضرت سیدنا ربیع بن ایاس بن عمرو بن عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (خزرجی)
۶۱۔ حضرت سیدنا رفاعہ بن حارث بن رفاعہ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (خزرجی)
۶۲۔ حضرت سیدنا رِفاعہ بن رافع بن مالک بن العجلان رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (خزرجی)
۶۳۔ حضرت سیدنا ابو لبابہ رفاعہ بن عبدالمنذِرالانصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (امیر مدینہ)(اوسی)
۶۴۔ حضرت سیدنا رفاعہ بن عمرو بن زید بن ثعلبہ الانصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (خزرجی)
۶۵۔ حضرت سیدنا رفاعہ بن عمرو الجہُنّی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (حلیف خزرج)
۶۶۔ حضرت سیدنا زید بن اَسلم بن ثَعلَبہ بن عدّی العجلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (حلیف الاوس)
۶۷۔ حضرت سیدنا زید بن دثنہ الانصاری البیاضی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (خزرجی)
۶۸۔ حضرت سیدنا ابو طلحہ زید بن سہل الانصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (خزرجی)
۶۹۔ حضرت سیدنا زید بن عاصم بن عمرو نجّاری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (خزرجی)
۷۰۔ حضرت سیدنا زید بن المزین بن قیس الانصاری البیاضی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (خزرجی)
۷۱۔ حضرت سیدنا زید بن ودیعہ بن عمرو بن قیس الانصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (خزرجی)
۷۲۔ حضرت سیدنا زیاد بن السکن بن رافع رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (اوسی)
۷۳۔ حضرت سیدنا زیاد بن کعب بن عمرو الجھنّی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (حلیف خزرج)
۷۴۔ حضرت سیدنا زیاد بن عمرو ص (خزرجی ، برادر حضرت بسبس و حضرت ضمرہ رضی اللہ عنہما)
۷۵۔ حضرت سیدنا زیاد بن لَبِید بن ثعلبہ انصاری البیاضی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (خزرجی)
۷۶۔ حضرت سیدنا سالم بن عمیر بن ثابت بن نعمان الانصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (اوسی)
۷۷۔ حضرت سیدنا سُبیع بن قیس بن عائشہ بن امیہ الانصاری الخزرجی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (خزرجی)
۷۸۔ حضرت سیدنا سراقہ بن عمرو بن عطیۃ الانصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (خزرجی)
۷۹۔ حضرت سیدنا سفیان بن بشر بن حارث الانصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (خزرجی)
۸۰۔ حضرت سیدنا سراقہ بن کعب بن عمرو بن عبد العُزی الانصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (خزرجی)
۸۱۔ حضرت سیدنا سعد بن خولی الانصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (مذحجی، مولیٰ حاطب)
۸۲۔ حضرت سیدنا سعد بن خَثیمہ بن الحارث بن مالک الانصاری الاوسی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (اوسی)
۸۳۔ حضرت سیدنا سعد بن ربیع بن عمرو الانصاری الخزرجی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (خزرجی)
۸۴۔ حضرت سیدنا سعد بن زید زرقی الانصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (خزرجی)
۸۵۔ حضرت سیدنا سعد بن سہیل بن عبد الاشہل رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (خزرجی)(برادر جابر بن سہیل)
۸۶۔ حضرت سیدنا سعد بن عبید ابن النعمان الانصاری الاوسی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (اوسی)
۸۷۔ حضرت سیدنا سعد مولیٰ عتبہ بن غزوان رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (آزاد کردہ غلام)
۸۸۔ حضرت سیدنا سعد بن عثمان بن مخلّد الانصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (خزرجی)
۸۹۔ حضرت سیدنا سعد بن معاذ بن النعمان الانصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (سردار اوس)
۹۰۔ حضرت سیدنا سعید بن سہیل الانصاری الاشہلی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (اوسی)
۹۱۔ حضرت سیدنا سلمہ بن اسلم بن حریس الانصاری الحارثی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (اوسی)
۹۲۔ حضرت سیدنا سلمہ بن ثابت بن وَقش الانصاری الاشہلی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (اوسی)
۹۳۔ حضرت سیدنا سلمہ بن حاطب الانصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ
۹۴۔ حضرت سیدنا سلمہ بن سلامۃ بن وَقش رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (اوسی)
۹۵۔ حضرت سیدنا سلیط بن قیس الانصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (خزرجی)
۹۶۔ حضرت سیدنا سُلَیم بن حارث بن ثعلبہ الانصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (خزرجی)
۹۷۔ حضرت سیدنا سُلَیم بن قیس بن قہد الانصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (خزرجی)
۹۸۔ حضرت سیدنا سُلَیم بن عمرو الانصاری السلمی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (خزرجی)
۹۹۔ حضرت سیدناسُلَیم بن ملحان الانصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (خزرجی)
۱۰۰۔ حضرت سیدناابو دجانہ سِمَاک بن خَرشَۃ الانصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (خزرجی)
۱۰۱۔ حضرت سیدناسماک بن سعد بن ثعلبہ الانصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (خزرجی)
۱۰۲۔ حضرت سیدناسِنان بن ابی سِنان وہب بن مِحْصَن الاسدی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (حضرت عکاشہ رضی اللہ عنہ کے بھتیجے)
۱۰۳۔ حضرت سیدناسنان بن صیفی بن حجر الانصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (خزرجی)
۱۰۴۔ حضرت سیدناسہل بن حُنَیف بن واھب الانصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (اوسی)
۱۰۵۔ حضرت سیدنا سہل بن عتیک الانصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (خزرجی)
۱۰۶۔ حضرت سیدنا سہل بن قیس الانصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (خزرجی)
۱۰۷۔ حضرت سیدنا سہیل بن رافع الانصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (خزرجی)
۱۰۸۔ حضرت سیدنا سواد بن غزّیۃ الانصاری البلویّ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (حلیف خزرج)
۱۰۹۔ حضرت سیدنا سواد بن رزین زریق الانصاری السلمی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (خزرجی)
۱۱۰۔ حضرت سیدنا الضّحّاک بن حارثہ بن زید بن ثعلبہ الانصاری السلمی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (خزرجی)
۱۱۱۔ حضرت سیدنا الضّحّاک بن عبد عمرو الانصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (خزرجی)
۱۱۲۔ حضرت سیدنا طفیل بن مالک بن خنساء الانصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (خزرجی)
۱۱۳۔ حضرت سیدنا عاصم بن العکیر المزنی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (حلیف خزرج)
۱۱۴۔ حضرت سیدنا عاصم بن ثابت بن ابی الاقلح الانصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (اوسی)
۱۱۵۔ حضرت سیدنا غافل بن قیس بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (اوسی)
۱۱۶۔ حضرت سیدنا عامر بن اُمیہ بن زید بن الحسحاس رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (خزرجی)
۱۱۷۔ حضرت سیدنا عامر بن ثابت بن ابی الاقلح الانصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (اوسی)(برادر عاصم)
۱۱۸۔ حضرت سیدنا عامر بن سَلَمہ بن عامر البلویّ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (حلیف خزرج)
۱۱۹۔ حضرت سیدنا عامر بن عبد عمرو الانصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (اوسی)
۱۲۰۔ حضرت سیدنا عامر بن مخلّد بن الحارث الانصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (خزرجی)
۱۲۱۔ حضرت سیدنا عائذ ابن ماعِص ابن قیس الانصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (خزرجی)
۱۲۲۔ حضرت سیدنا عبداللہ بن ثعلبہ الانصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (خزرجی)
۱۲۳۔ حضرت سیدنا عبداللہ بن جبیر بن النعمان الانصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (اوسی) (برادر خوّات بن جبیر)
۱۲۴۔ حضرت سیدنا عبداللہ بن انجد رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (خزرجی)
۱۲۵۔ حضرت سیدنا عبداللہ بن الحُمّیر الاشجعی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (حلیف خزرج)
۱۲۶۔ حضرت سیدنا عبداللہ بن ربیع بن قیس الانصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (خزرجی)
۱۲۷۔ حضرت سیدنا عبداللہ بن رواحہ بن ثعلبہ الانصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (خزرجی)
۱۲۸۔ حضرت سیدنا عبداللہ بن زید بن ثعلبہ بن عبداللہ الانصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (خزرجی)
۱۲۹۔ حضرت سیدنا عبداللہ بن سعد بن خثیمہ الانصاری الاوسی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (اوسی)
۱۳۰۔ حضرت سیدنا عبداللہ بن سَلِمۃ العجلانی البلویّ الانصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (اوسی)
۱۳۱۔ حضرت سیدنا عبداللہ بن سہل الانصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (غسانی الاصل)
۱۳۲۔ حضرت سیدنا عبداللہ بن سہل الانصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (اوسی)
۱۳۳۔ حضرت سیدنا عبداللہ بن طارق بن عمرو بن مالک البلویّ الانصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (اوسی)(حلیف بنی ظفر)
۱۳۴۔ حضرت سیدنا عبداللہ بن عامر البلویّ الانصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (حلیف خزرج)
۱۳۵۔ حضرت سیدنا عبداللہ بن عبد مناف بن النعمان الانصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (خزرجی)
۱۳۶۔ حضرت سیدنا عبداللہ بن عبس (عُبَیْس)الانصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (خزرجی)
۱۳۷۔ حضرت سیدنا عبداللہ بن عبدللہ بن اُبی ابن سلول الانصاری الخزرجی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (رئیس المنافقین کے فرزند)
۱۳۸۔ حضرت سیدنا عبداللہ بن عرفجہ الانصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (اوسی)
۱۳۹۔ حضرت سیدنا عبداللہ بن عمرو بن حرام الانصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (خزرجی)
۱۴۰۔ حضرت سیدنا عبداللہ بن عمیر بن حارثہ عدی الانصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (خزرجی)
۱۴۱۔ حضرت سیدنا عبداللہ بن قیس بن خالد الانصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (خزرجی)
۱۴۲۔ حضرت سیدنا عبداللہ بن قیس بن صخر الانصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (خزرجی)
۱۴۳۔ حضرت سیدنا عبداللہ بن کعب بن عمر و الانصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (خزرجی)(ابو یحییٰ ابو حارث)
۱۴۴۔ حضرت سیدنا عبداللہ بن نعمان بن بَلذَمہ الانصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (خزرجی)
۱۴۵۔ حضرت سیدنا عبدالرحمن بن جبر ابن عمرو بن زید الانصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (اوسی)
۱۴۶۔ حضرت سیدنا عبدالرحمن بن عبداللہ البلویّ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (بنو عوف بطن اوس)
۱۴۷۔ حضرت سیدنا ابو لیلیٰ عبدالرحمن بن کعب المازنی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (خزرجی)
۱۴۸۔ حضرت سیدنا عبدربّہ بن حق بن اوس الساعدی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (خزرجی)
۱۴۹۔ حضرت سیدنا عُباد بن بشر وقش الانصاری الاشہلی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (اوس)
۱۵۰۔ حضرت سیدنا عُباد ابن الخشخاص ابن عمرو البلویّ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (حلیف خزرج)
۱۵۱۔ حضرت سیدنا عُباد بن عُبید بن التّیھان رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (اوسی)
۱۵۲۔ حضرت سیدنا عُباد بن قیس بن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (خزرجی)
۱۵۳۔ حضرت سیدنا عُباد بن قیس بن عَبَسہ الانصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (خزرجی)
۱۵۴۔ حضرت سیدنا عُبادہ بن الصامت الانصاری السالمی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (خزرجی)
۱۵۵۔ حضرت سیدنا عُبادہ بن قیس بن زید بن اُمیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (بنی حارث الخزرج)
۱۵۶۔ حضرت سیدنا عبیدبن ابو عبید الانصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (اوسی)
۱۵۷۔ حضرت سیدنا عبید بن اوس الانصاری الظّفریّ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (اوسی)
۱۵۸۔ حضرت سیدنا عبید بن تیھّان الانصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (اوسی)
۱۵۹۔ حضرت سیدنا عبید بن زید بن عامرالانصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (خزرجی)
۱۶۰۔ حضرت سیدنا عبس بن عامر بن عدی الانصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (خزرجی)
۱۶۱۔ حضرت سیدنا عتبہ بن ربیعہ بن خالد بن معاویہ البہرانی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (حلیف بنو اوس)
۱۶۲۔ حضرت سیدنا عتبہ بن عبد اللہ بن صخر بن خنساء رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (خزرجی)
۱۶۳۔ حضرت سیدنا عتبہ بن غَزَوان بن جابر المازنی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (حلیف قریش)
۱۶۴۔ حضرت سیدنا عِتبان بن مالک الانصاری السلمی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (خزرجی)
۱۶۵۔ حضرت سیدنا عدیّ بن سنان ابی الزّ غباء الجہنّی الانصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (حلیف بنو خزرج)
۱۶۶۔ حضرت سیدنا عصمت الاسدی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (بنی اسد بن خزیمہ حلیف خزرج)
۱۶۷۔ حضرت سیدنا عصمۃ بن الحصین الانصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (خزرج)
۱۶۸۔ حضرت سیدنا عصیمۃ الاسدی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (حلیف بنی مازن خزرجی)
۱۶۹۔ حضرت سیدنا عُصَیمۃ الاشجعی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (حلیف بنی نجّار خزرجی)
۱۷۰۔ حضرت سیدنا عطیہ بن نویرہ بن عامر الانصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (خزرجی)
۱۷۱۔ حضرت سیدنا عقبہ بن عامر بن نابی الانصاری السلمی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (خزرجی)
۱۷۲۔ حضرت سیدنا عقبہ بن ربیعہ الانصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (حلیف بنی عوف)(خزرجی)
۱۷۳۔ حضرت سیدنا عقبہ بن عثمان بن خلدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (خزرجی)
۱۷۴۔ حضرت سیدنا عقبہ بن عمرو بن ثعلبہ ابو مسعود الانصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (خزرجی)
۱۷۵۔ حضرت سیدنا عقبہ بن وہب بن کلدۃ الغطفانی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (حلیف بنی سالم)
۱۷۶۔ حضرت سیدنا علیفہ بن عدی بن عمرو الانصاری البیاضی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ
۱۷۷۔ حضرت سیدنا عمرو بن ایاس بن تزید الیمنی الانصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ
۱۷۸۔ حضرت سیدنا عمرو بن ثعلبہ بن وہب الانصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (خزرجی)
۱۷۹۔ حضرت سیدنا عمرو بن الجموح الانصاری السلمی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (خزرجی)
۱۸۰۔ حضرت سیدنا عمرو بن غنمہ بن عدی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (خزرجی)
۱۸۱۔ حضرت سیدنا عمرو بن عوف الانصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (حلیف بنی عامر بن لوئی)
۱۸۲۔ حضرت سیدنا عمرو بن غزیہ بن عمرو الانصاری المازنی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (خزرجی)
۱۸۳۔ حضرت سیدنا عمرو بن قیس بن زید الانصاری النجاری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (خزرجی)
۱۸۴۔ حضرت سیدنا عمرو بن معاذ بن النعمان الانصاری الاشہلی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (اوسی، برادر سردار اوس)
۱۸۵۔ حضرت سیدنا عمارہ بن حزم بن زید الانصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (خزرجی)
۱۸۶۔ حضرت سیدنا عمرو بن معید بن ازعر بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (اوسی)
۱۸۷۔ حضرت سیدنا عمیر بن عامر بن مالک بن خنساء المازنی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (خزرجی)
۱۸۸۔ حضرت سیدنا عمیر بن حارث بن ثعلبہ الانصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (خزرجی)
۱۸۹۔ حضرت سیدنا عمیر بن حرام بن عمرو بن الجموح الانصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (خزرجی)
۱۹۰۔ حضرت سیدنا عمیر بن الحمام بن الجموح الانصاری السلمی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (خزرجی)
۱۹۱۔ حضرت سیدنا عمیر بن معبد بن ازعربن زید بن عطاف رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (اوسی)
۱۹۲۔ حضرت سیدنا عمیر بن نیار الانصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (قبیلہ نامعلوم)
۱۹۳۔ حضرت سیدنا عمار بن زیاد بن سکن الانصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (اوسی)
۱۹۴۔ حضرت سیدنا عنترۃ بن عمروالسلمی ثم ذکوانی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (مولیٰ سلیم بن حدیدۃ)
۱۹۵۔ حضرت سیدنا عوف بن الحارث بن عفراء الانصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (خزرجی)
۱۹۶۔ حضرت سیدنا عویم بن ساعدہ بن عایش رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (اوسی)
۱۹۷۔ حضرت سیدنا عویمر بن اشقر بن عدی الانصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ
۱۹۸۔ حضرت سیدنا غنام ابن اوس الانصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (خزرجی)
۱۹۹۔ حضرت سیدنا فردہ بن عمرو بن ودقۃالانصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (خزرجی)
۲۰۰۔ حضرت سیدنا فاکہہ بن بشر الانصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (خزرجی)
۲۰۱۔ حضرت سیدنا قتادہ بن نعمان بن زید الانصاری الظفری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (اوسی)
۲۰۲۔ حضرت سیدنا قطبہ بن عامر بن حدیدۃ الانصاری الخزرجی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (خزرجی)
۲۰۳۔ حضرت سیدنا قیس بن السکن بن عوف الانصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (خزرجی)
۲۰۴۔ حضرت سیدنا قیس بن عمرو بن سہل الانصاری المدنی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (قبیلہ نامعلوم)
۲۰۵۔ حضرت سیدنا قیس بن محصِن بن خالد بن مخلد الانصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (خزرجی)
۲۰۶۔ حضرت سیدنا قیس بن مخلد الانصاری المازنی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (خزرجی)
۲۰۷۔ حضرت سیدنا قیس بن ابی صعصہ الانصاری المازنی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (خزرجی)
۲۰۸۔ حضرت سیدنا کعب بن جماز بن ثعلبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (الجھنی)(حلیف خزرج)
۲۰۹۔ حضرت سیدنا کعب بن زید بن قیس الانصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (خزرجی)
۲۱۰۔ حضرت سیدنا ابو الیسر کعب بن عمرو بن عباد الانصاری السلمی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (خزرجی)
۲۱۱۔ حضرت سیدنا ابو الہیشم مالک بن تیہان رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (اوسی)
۲۱۲۔ حضرت سیدنا مالک بن الدخشم الانصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (خزرجی)
۲۱۳۔ حضرت سیدنا مالک بن رافع بن مالک الانصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (الزرقی)
۲۱۴۔ حضرت سیدنا مالک بن ربیعہ الانصاری الساعدی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (خزرجی)
۲۱۵۔ حضرت سیدنا مالک بن قدامہ الانصاری الاوسی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (اوسی)
۲۱۶۔ حضرت سیدنا مالک بن مسعود بن البدن الانصاری الساعدی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ
۲۱۷۔ حضرت سیدنا مالک بن نُمیلہ مزنی الانصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (اوسی)
۲۱۸۔ حضرت سیدنا مبشر بن عبد المنذر الانصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (اوسی)
۲۱۹۔ حضرت سیدنا المجذربن زیاد البلویّ الانصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (اوسی)
۲۲۰۔ حضرت سیدنا مُحْرِز بن عامر بن مالک الانصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (خزرجی)
۲۲۱۔ حضرت سیدنا محمد بن مسلمہ الانصاری الحارثی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (اوسی)
۲۲۲۔ حضرت سیدنا مرارہ بن ربیع العمری الانصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (اوسی)
۲۲۳۔ حضرت سیدنا مسعود بن اوس بن احرم بن زید الانصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (خزرجی)
۲۲۴۔ حضرت سیدنا مسعود بن سعد بن عامر بن عدی جُشَم الانصاری الزرقی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (اوسی)
۲۲۵۔ حضرت سیدنا مسعود بن ربیع بن عمرو بن سعدالقاری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (حلیف بنو زھرہ و خزرج)
۲۲۶۔ حضرت سیدنا مسعود بن سعدبن قیس بن خلدۃ عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (خزرجی)
۲۲۷۔ حضرت سیدنا مسعود بن عبد سعد؍مسعود بن عدی بن جشم رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (اوسی)
۲۲۸۔ حضرت سیدنا امام العلمائمُعاذ بن جبل الانصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (خزرجی)
۲۲۹۔ حضرت سیدنا مُعاذ بن عفراء الانصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (خزرجی)
۲۳۰۔ حضرت سیدنا مُعاذ بن عمرو بن الجموح الانصاری الالسلمی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (خزرجی)
۲۳۱۔ حضرت سیدنا مُعاذ بن ماعص؍ناعص بن قیس بن خلدہ الزرقی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (خزرجی)
۲۳۲۔ حضرت سیدنا معبد بن عباد الانصاری السلمی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (خزرجی)
۲۳۳۔ حضرت سیدنا معبد بن قیس بن صخرا الانصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (خزرجی)
۲۳۴۔ حضرت سیدنا معبد بن وہب العبدی بن عبد القیس رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (العصری)
۲۳۵۔ حضرت سیدنا مُعتب بن قُشیر الانصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (اوسی)
۲۳۶۔ حضرت سیدنا معتب بن عبید بن ایاس البلوی الانصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (حلیف بنو ظفر)
۲۳۷۔ حضرت سیدنا مَعْقل بن منذر بن سرح الانصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (خزرجی)
۲۳۸۔ حضرت سیدنا مَعْمر بن حارث القرشی الجحمی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (برادر حاطب)
۲۳۹۔ حضرت سیدنا معن بن عدی بن جد بن عجلان بن ضیعۃ البلوی الانصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (حلیف اوس)
۲۴۰۔ حضرت سیدنا معن بن یزید بن اخنس بن خباب السلمی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (خزرجی)
۲۴۱۔ حضرت سیدنا معن بن عفرا ء الانصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (خزرجی)
۲۴۲۔ حضرت معوذ بن عفراء الانصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (خزرجی)
۲۴۳۔ حضرت سیدنا ملیلبن وبرہ بن خالد بن عجلان الانصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (خزرجی)
۲۴۴۔ حضرت سیدنا منذر بن قدامہ بن عرفجہ الانصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (اوسی)
۲۴۵۔ حضرت سیدنا منذر بن عمرو بن خنیس الانصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (اوسی)
۲۴۶۔ حضرت سیدنا منذر بن محمد بن عقبہ الانصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (اوسی)
۲۴۷۔ حضرت سیدنا نحاث بن ثعلبہ بن حزمہ البلوی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (خزرجی)
۲۴۸۔ حضرت سیدنا نضر بن حارث بن عبید بن رزاح بن کعب الانصاری الظفری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (اوسی)
۲۴۹۔ حضرت سیدنا نعمان بن ابی خزیمہ الانصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (اوسی)
۲۵۰۔ حضرت سیدنا نعمان بن سنان الانصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (خزرجی)
۲۵۱۔ حضرت سیدنا نعمان بن عبد عمرو بن مسعود نجاریّ الانصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (خزرجی)
۲۵۲۔ حضرت سیدنا نعمان بن عصربن الربیع البلویّ الانصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (حلیف اوس)
۲۵۳۔ حضرت سیدنا نعمان بن عمرو بن رفاعہ نجاریّ الانصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (خزرجی)
۲۵۴۔ حضرت سیدنا نعمان بن مالک بن ثعلبہ نجاریّ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (خزرجی)
۲۵۵۔ حضرت سیدنا نعمان بن الاعرج بن مالک بن ثعلبہ الانصاری نجاری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (خزرجی)
۲۵۶۔ حضرت سیدنا نعیمان بن عمرو بن رفاعہ نجاری الانصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (خزرجی)
۲۵۷۔ حضرت سیدنا نوفل بن ثعلبہ بن عبد اللہ الانصاری السلمی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (خزرجی)
۲۵۸۔ حضرت سیدنا ابو بردہ ہانی بن نیار بن عمرو البلوی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (حلیف الانصار)
۲۵۹۔ حضرت سیدنا ہُبَیل بن حصین بن وبرہ الانصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (خزرجی)
۲۶۰۔ حضرت سیدنا ہلال بن امیّہ بن عامر بن قیس بن عبد الاعلم الواقفی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (کلثوم بن ہدم کے بھانجے)
۲۶۱۔ حضرت سیدنا ہلال بن معلی بن لوذان بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (خزرجی)
۲۶۲۔ حضرت سیدنا ہمام بن حارث بن ضمرہ (حمزہ) رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (قبیلہ نامعلوم)
۲۶۳۔ حضرت سیدنا ودقہ (ورقہ) بن ایاس بن عمرو الانصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (خزرجی)
۲۶۴۔ حضرت سیدنا وَدیعہ بن عمرو بن جراد بن یربوع الجہنی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (حلیف خزرج)
۲۶۵۔ حضرت سیدنا یزید بن اخنس بن حبیب بن جرہ السلمی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (خزرجی)
۲۶۶۔ حضرت سیدنا یزید بن ثابت بن الضحّاک بن زید بن لوزان رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (خزرجی)
۲۶۷۔ حضرت سیدنا یزید بن ثعلبہ بن خزمہ بن اصرم رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (خزرجی)
۲۶۸۔ حضرت سیدنا یزید بن حارث بن قیس الانصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (خزرجی)
۲۶۹۔ حضرت سیدنا یزید بن عامر بن حُدَیدۃ الانصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (خزرجی)
۲۷۰۔ حضرت سیدنا یزید بن منذر بن سرح الانصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (خزرجی)
۲۷۱۔ حضرت سیدنا ابو صِرْمہ الانصاری المزنی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (خزرجی)
۲۷۲۔ حضرت سیدنا ابو ضیاح (نعمان یا عمیربن ثابت) الانصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (اوسی)
۲۷۳۔ حضرت سیدنا ابو عیسیٰ الحارثی الانصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (قبیلہ نامعلوم)
۲۷۴۔ حضرت سیدنا ابو فضالہ الانصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (قبیلہ نامعلوم)
۲۷۵۔ حضرت سیدنا ابو قتادہ الانصاری الاسلمی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (خزرجی)
۲۷۶۔ حضرت سیدنا ابو مُلیل ابن الازعر بن زید الانصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (اوسی)
مندرجہ بالا اسماء گرامی (تاریخ طبری، طبقات، اسد الغابہ، اصحاب بدر، کوکبۂ بدر اور غزوئہ بدر سے ماخوذ ہیں۔