غزوۂ حنین (۸ ہجری)

سرکار دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے جب مکہ فتح فرمالیا اور یوں اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے ساتھ کیا ہوا وعدہ سچا فرمایا، تو فتح کے بعد قبائلِ عرب جو کہ کافی عرصہ سے اسی انتظار میں تھے کہ مسلمانوں اور مشرکین میں سے کون اپنے مقصد میں کامیاب ہوتا ہے تاکہ کامیاب ہونے والے گروہ کے ساتھ مستقبل کی وابستگی اختیار کرسکیں۔ جزیرۃ العرب کے قبائل کا اس بات پر یقین تھا کہ جو جماعت(پارٹی) بیت اللہ شریف کو اپنے قبضہ میں لینے پر قادر ہوجائے گی وہی حق پر ہوگی چنانچہ اللہ کریم کی طرف سے مسلمانوں کو اس مقصد میں کامیابی ہوئی اور یوں قبائل عرب حلقہ بگوشِ اسلام ہونے لگے ۔ تقریباً سب قبائل دائرۂ اسلام میں داخل ہوچکے تھے مگر قبیلہ ہوازن اور قبیلہ ثقیف نے اسلام قبول نہ کیا۔ یہ دونوں قبائل نہایت جری ، بہادر ، گردن کش اور مالدار تھے۔

قبیلہ ہوازن اور قبیلہ بنو ثقیف دونوں مسلمانوں کی اس فتح عظیم کو برداشت نہ کرسکے اور بدستور حسد ، بغض اور کینہ اور اسلام دشمنی پر نہ صرف قائم رہے بلکہ ان لوگوں نے مل کر مسلمانوں کے خلاف جنگ کرنے کا فیصلہ کیا دونوں قبیلوں کے سردار آپس میں ملے اور کہا کہ محمد رسول اللہ (صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم) مشرکین مکہ پر مکمل غلبہ حاصل کرچکے ہیں اور یوں اطرافِ مکہ میں بت پرستی کا خاتمہ ہوچکا ہے اس لیے بہتر یہ ہے کہ ہم اپنے اپنے اہلِ قبیلہ کو اعتماد میں لےکر ان کو ساری صورتحال سے آگاہ کریں تاکہ مسلمانوں کے ساتھ ایک فیصلہ کن معرکہ لڑا جاسکے۔ حنین ایک چشمہ اور وادی کا نام ہے جو طائف کے قریب واقع ہے۔

چنانچہ مالک بن عوف نصری جو کہ قبیلہ ہوازن کا رئیسِ اعظم تھا۔ اس نے لوگوں کو اکٹھا کیا اور ان سے یوں خطاب کیا:

’’اے لوگو! تم جانتے ہو کہ محمد (صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم ) اہل مکہ اور گردو نواح کے قبائل پر قبضہ حاصل کرچکے ہیں اورتم یہ بھی اچھی طرح جانتے ہو کہ اہلِ مکہ جن کا پیشہ تجارت ہے ، جنگ و حرب کے ماہر نہ تھے اس وجہ سے محمد (صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم)نے ان پر جلد ہی غلبہ حاصل کرلیا ۔ اگر یہ لوگ ہمارے ساتھ میدانِ جنگ میں نبرد آزما ہوتے تو ان کو پتہ چل جاتا کہ جنگ کیا ہوتی ہے۔ مکہ کے ارد گرد بسنے والے قبائل فتحِ مکہ سے اس قدر حیران و پریشان تھے کہ ان میں مسلمانوں کے خلاف لڑنے کی سکت ہی نہیں تھی۔ اب عین ممکن ہے کہ مسلمانوں ہماری طرف متوجہ ہوں اس لیے بہتر یہ ہے کہ وہ ہم پر حملہ آور ہوں ہم پہلے ہی ان پر حملہ کردیں۔‘‘

لشکرِ کفّار کا اجتماع

اس طرح مالک بن عوف نصری رئیس اعظم بنو ہوازن کی آواز پر لوگ اس کے ارد گرد اکٹھا ہونا شروع ہوگئے اور یوں بنو ثقیف ، قبیلہ جُشم کا تو ایک ایک فرد اس کے جھنڈے تلے جمع ہوگیا۔ جبکہ قبیلہ بنو نصر، قبیلہ سعد بن بکر اور قبیلہ بنو ہلال کے کچھ لوگوں نے بھی جمعیت میں اضافہ کردیا مگر ان آخر الذکر دو قبائل کی تعداد کچھ اتنی زیادہ نہ تھی۔ دوسری طرف ہوازن کی اہم ترین شاخوں میں سے قبیلہ کعب اور قبیلہ کلاب کے لوگ غائب ہی ہوگئے اس طرح ان شاخوں کا ایک آدمی بھی شریک نہ ہوا۔ قبیلہ بنو جُشم کاسربراہ جو کہ نہایت ہی تجربہ کار اور ماہر جنگ تھا مگر عُمر کے اس حصہ میں پہنچ چکا تھا کہ چلنے پھرنے سے بھی قاصر تھا اسکی عُمر کے بارے میں کتب سیر میں آتا ہے کہ سوسال اور بعض کے نزدیک ایک سو پچیس سال سے بھی زیادہ تھی اس بوڑھے شخص کو محض جنگی امور میں مشورہ کے لیے لشکر میں شامل کیا گیا تھا۔ یہاں اس بات کو بھی ذہن نشین رکھنے کی ضروت ہے کہ اس تجربہ کار عمر رسیدہ شخص جس کا نام دریدہ بن صمّہ تھا اس کے علاوہ لشکرِ کفار میں کوئی اور دوسری بوڑھا شخص موجود نہ تھا۔ اس طرح مشرکین کے اس متحدہ لشکر میں بنو ثقیف کی کمان اس قبیلے کے سرداروں کے پاس ہی تھی جن کا سالار اعلیٰ کنانہ بن عبد یالیل ثقفی تھا۔ احلاف کا سردار قارب بن اسود بن مسعود کو بنایا گیا۔ بنو مالک اور اس کا بھائی احمر بن حارث بھی سردار تھے جبکہ پورے لشکر کا سالارِ اعظم بنو ہوازن کے رئیسِ اعظم مالک بن عوف نصری کو مقرر کیا گیا تھا۔

دشمن کے لشکر کی روانگی

بنو ہوازن اور بنو ثقیف کے کہنے پر جب ارد گرد کے کچھ قبائل جن میں قبیلہ نصر ،قبیلہ جُشم ،قبیلہ سعد بن بکر اور قبیلہ بنو ہلال وغیرہ مسلمانوں کے خلاف جنگ کے لیے ایک جگہ اکٹھے ہوچکے تو انہوں نے بنو ہوازن کے سردار مالک بن عوف نصری کو اپنے متفقہ سپہ سالار اعظم منتخب کرلیا جس کا بیان پہلے گزر چکا ہے مالک بن عوف نصری نے اس لشکر کو ہر قسم کےآلاتِ جنگ سے ہی لیس نہیں کیا تھا بلکہ اہلِ لشکر کو یہ حکم بھی دیا کہ ہر ایک اپنا مال اور اپنی بیوی بچے بھی ہمراہ لیکر جائے گا تاکہ میدانِ جنگ میں ان کے دل و دماغ میں یہ بات اجاگر رہے کہ اگر ہم نے دشمن کے ساتھ لڑنے میں بزدلی کا ثبوت دیا اور میدانِ جنگ چھوڑ کر بھاگ گئے تو ہمارے بیوی بچے اور مال اسباب دشمن کے رحم و کرم پر ہوگا۔ اس طرح میرا ہر فوجی ہرگز ہرگز بزدلی کا مظاہرہ نہیں کرے گا بلکہ اپنی جان کے ساتھ بال بچوں کی حفاظت کے لیے سر دھڑ کی بازی لگادے گا۔ اس طرح کفار کا یہ ٹڈی دل لشکر مالک بن عوف نصری کی زیر کمان اہلِ حق کے ساتھ نبرد آزما ہونے کے لیے مکہ مکرمہ کی طرف چل پڑا۔

اوطاس میں پڑاؤ

کفار کا یہ لشکر مسلمانوں کےساتھ مقابلے کے لیے روانہ ہوا اور یوں اس لشکر نے وادی اوطاس میں پڑاؤ کیا۔ وادیٔ اوطاس حنین کے قریب بنو ہوازن کے ہی علاقے کی ہم وادی ہے مگر یہ اوطاس وادیٔ حنین سے الگ ہے۔ کیونکہ وادیٔ حنین ذی المجاز کے بازو میں واقع ہے جہاں سے میدانِ عرفات کا راستہ اختیار کیا جائے تو مکہ مکرمہ دس میل کی دوری پر رہ جاتا ہے ۔ جبکہ وادیٔ حنین مکہ مکرمہ سے تیس(30) میل کے فاصلے پر واقع ہے۔ بہرحال کفار کا یہ لشکر پورے ساز و سامان اموال و مویشی اور عورتوں بچوں سمیت وادی اوطاس میں خیمہ زن ہوا۔ اس جگہ بھی باغی قبائل کے لوگ اس لشکر میں آکر شامل ہوتے رہے اس طرح اس لشکر کی تعداد میں کافی اضافہ ہوگیا۔

بوڑھا ماہرِ جنگ دُرید بن صمّہ

کفّار کا یہ لشکر جب وادیٔ اوطاس میں خیمہ زن ہوا تو لشکری اپنے اپنے کمانڈروں(سالاروں) کے پاس جمع ہوئے۔ ان میں درید بن صمّہ جو کہ بہت زیادہ عُمر کا ضعیف و لاغر تھا قبیلہ جُشم کا بوڑھا سردار اس قدر جنگجو اور تجربہ کار رہ چکا تھا۔ چلنا پھرنا تو درکنار اچھی طرح بیٹھ بھی نہیں سکتا تھا۔ اہل قبیلہ اسے اونٹ کے کجاوے میں لادکر اپنے ہمراہ لائے محض اس لیے کہ بوقتِ ضرورت اس کے تجربہ سے فائدہ اٹھایا جاسکے۔

اہل لشکر جب پڑاؤ کرنے کے بعد اس کے گرد جمع ہوئے تو اس نے پوچھا ہم لوگ کس وادی میں ہیں؟لوگوں نے جواب دیا کہ ہم لوگ وادیٔ اوطاس میں ٹھہرے ہوئے ہیں۔ درید بن صمّہ نے یہ سن کر کہا بے شک یہ وادی بہترین جولان گاہ ہے کیونکہ اس کی زمین نہ تو پتھریلی ہے اور نہ ہی کھالی دار بھر بھری نشیبی جس میں سواروں اور سواریوں کے پاؤں دھنس جائیں۔ اس کے بعد بوڑھے سردار نےکہا میں یہاں نہ جَرس کی آوازیں سن رہا ہوں اور نہ ہی دھونسوں کی دھاں دھاں۔ مجھے تو یہاں صرف اونٹوں کے بلبلانے گدھوں کی ڈھینچوں ڈھینچوں بکریوں کی منمناہٹ اور بچوں کے رونے کی آوازیں آرہی ہیں یہ کیا قصہ ہے؟ درید بن صمّہ کے پوچھنے پر لوگوں نے بتایا کہ مالک بن عوف اس لشکر کے ہمراہ مال مویشی بچے اور عورتوں کو بھی لایا ہے؟

لوگوں کا یہ جواب سُن کر اس ایک سو بیس سالہ بوڑھے اور بعض روایات کے مطابق ایک سوساٹھ سالہ بوڑھے تجربہ کار جنگجو نے مالک بن عوف کو اپنے پاس طلب کیا اور پوچھا کہ تم لشکر کے ہمراہ مال مویشی عورتیں اور بچوں کو کیوں لائے ہو؟ مالک بن عوف نے جواب دیا کہ میں نے ایسا بہت سوچ سمجھ کر کیا ہے میری حکمتِ عملی یہ تھی کہ ہر لشکر کے پیچھے یا اس کے ساتھ اہل و عیال و مویشیوں کا خیال لگادوں تاکہ میدانِ جنگ میں وہ سپاہی خوب جوش و جذبے سے لڑے اور میدان چھوڑ کر بھاگ جانے کا خیال بھی اس کے دل میں آئے۔مالک بن عوف کا یہ جواب سن کر بوڑھا درید بن صمّہ غصے سے بولا واللہ تم صرف بھیڑوں کے چرواہے ہو۔ اے نادان! کیا ایسا شخص جس کو شکست ہوجائے وہ درید بن صمّہ غصے سے بولا واللہ تم صرف بھیڑوں کے چرواہے ہو۔ اے نادان کیا ایسا شخص جس کو شکست ہوجائے وہ بھی کوئی چیز میدانِ جنگ سے واپس لے جاسکتا ہے ۔ اگر جنگ موافق رہتی ہے تو تمہیں یا سپاہی کو نیزہ یا تلوار کے علاوہ کوئی چیز نفع نہیں پہنچا سکتی اور اگر جنگ تمہارے خلاف ہوجائے تو پھر تمہیں اہل و عیال اور مال اور متاع کے لیے بھی ذلیل و رسوا ہونا پڑے گا۔

اس کے بعد بوڑھے دُریدنے پوچھا قبیلہ کعب اور کلاب کا کیا رویہ ہے ؟ لوگوں نے جواب دیا کہ ان میں سے ایک آدمی بھی ہمارے ساتھ شامل نہیں ہے۔ اس پر وہ بولا صد افسوس کہ بہادری اور سرگرمی تو غائب ہوگئی۔ اگر عزّت و وقار کا موقعہ ہوتا تو یہ لوگ اس طرح غائب نہ ہوتے۔ پھر اس نے پوچھا اچھا بتاؤ کون کون سے قبائل تمہارے شریک ہیں؟ لوگوں نے جواب دیا عمرو بن عامر اور عوف بن عامر ۔ درید بن صمّہ نے کہا یہ دونوں قبیلے عامر کے دو کمسن بچوں کی طرح ہیں جو نفع پہنچا سکتے ہیں اور نہ نقصان۔ پھر سپہ سالار مالک بن عوف سے کہنے لگا دیکھو تم ہوازن کی جماعت کو گھوڑے کے سامنے ہرگز نہ کرنا بلکہ ان کو اپنے وطن اور قوم کی حفاظت کےلیے پیچھے بھیج دو۔ پھر گھوڑوں پر سوار ہوکر مسلمانوں کا مقابلہ کرنا اگر جنگ تمہارے حق میں رہی تو پیچھے چھوڑے ہوئےلوگ تمہارے ساتھ آکر مل جائیں گے اور اگر جنگ کا نقشہ تمہارے خلاف ہوا تو پیچھے رہنے والے تمہارے مال و متاع عورتوں اور بچوں کی تو حفاظت کرسکیں گے۔

قبیلہ جُشم کے سردار درید بن صمّہ کی یہ گفتگو سن کر سپہ سالارِ کفار مالک بن عوف بولا خدا کی قسم میں وہ کام ہرگز نہیں کروں گا، جس کو کرنے کا مشورہ یہ بوڑھا سردار درید بن صمّہ دے رہا ہے۔ عمر زیادہ ہوجانے کی وجہ سے اس کی عقل بھی بوڑھی ہوچکی ہے۔ اس کے بعد مالک بن عوف نے کہا اے بنو ہوازن میں تمہارا سردار ہوں خدا کی قسم یا تو تم لوگ میری اطاعت کروگے یا پھر میں اپنی تلوار سینے پر رکھ کر اس جھول جاؤں گا یہ کہا اور اپنی تلوار نیام سے باہر نکالی۔ بنو ہوازن نے کہا یہ شخص تیس سال کا جوان زور آور ہے مگر جاہل بھی ہے، اگر ہم نے اس کی بات نہ مانی تو یہ شخص اپنی جاہلیت کی وجہ سے خود کو ہلاک کرے گا، دوسری طرف درید بن صمّہ اس قدر بوڑھا ہوچکا ہے کہ لشکر کی کمان سنبھالنے کے قابل ہی نہیں پھر ہمارے پاس کوئی تیسرا قابلِ اعتماد اور قابل آدمی بھی نہیں ہے۔ جس کو سپہ سالار بنایا جاسکے۔ ا س لئے بنو ہوازن نے مالک بن عوف کی بات کو تسلیم کرلیا۔ اور سب اس کی اطاعت کے لیے تیار ہوگئے۔ یہ حالات دیکھ کر درید بن صمّہ نے کہا یہ وہ جنگ ہے جس میں نہ تو میں شریک ہوں اور نہ ہی اس سے بچ سکتا ہوں۔

درید بن صمّہ کے اشعار

پھر چند اشعار کہے جو ترجمہ کے ساتھ تحریر کیے جاتے ہیں:

یَا لَیْتَنِیْ فِیْھَا جَذَعُ
اَقُوْدُ وَطْفَاءَ الزَّمَعْ

اَخُبُّ فِیْھَا وَاَضَّحُ
کَاَنَّھَا شَاۃٌ صَدَعُ

ترجمہ: ‘‘کاش میں اس جنگ میں نوجوان ہوتا۔ بھاگتا دوڑتا پھرتا اور پہاڑی بکری کے بالوں کی مانند لمبے لمبے بالوں والے گھوڑے پر بیٹھ کر مقابلہ کرتا’’۔

(تاریخ طبری جلد 2 صفحہ 415)

(البدایۃ والنہایۃ جلد 4 صفحہ 742)

(سیرۃ ابن ہشام جلد 2 صفحہ 524)

(مدارج النبوۃ جلد 2 صفحہ 499)

(طبقاتِ ابن سعد جلد1 صفحہ 421 وغیرہ)

سپہ سالارِ ہوازن کے جاسوس

ابنِ اسحاق رحمۃ اللہ علیہ کا بیان ہے کہ اُن سے امیہ بن عبد اللہ بن عمرو بن عثمان نے بیان کیا ہم لوگوں کو بعد میں معلوم ہوا کہ مالک بن عوف نے اپنے چند جاسوس مسلمانوں کی طرف روانہ کئے تاکہ اہلِ حق کی تیاری اور لشکر کی تعداد وغیرہ معلوم کریں اور اس کو فوراً خبردار کرسکیں۔ مالک بن عوف کے جاسوس لشکرِ اسلام کے چند لوگوں کو دیکھتے ہی سر پر پاؤں رکھ کر بھاگ اٹھے اور ہانپتے ہانپتے واپس مالک بن عوف کے پاس پہنچے مالک نے ان لوگوں کی حالت دیکھ کر کہا تمہارا بُرا ہو کم بختو تم لوگوں کو آخر کیا ہوا کہ یوں ہانپتے کانپتے واپس آئے ہو کیا جنگجو لوگوں کی یہی شان ہوتی ہے تم لوگوں کی جوانمردی کدھر گئی۔

مالک بن عوف جب اپنے جاسوسوں کو کافی ڈانٹ چکا اور اس کا غصہ کچھ حد تک کم ہوا تو جاسوسوں نے یک زبان ہوکر کہا اے سردار جب ہم لوگ یہاں کچھ ہی دور گئے تو دیکھا کہ انڈوں کی طرح سفید سر کے کچھ لوگ ابلق گھوڑوں پر سوار ہاتھوں میں تیز دھار چمکتی تلواریں لیے ہماری طرف بڑھ رہے ہیں۔ ان لوگوں کو دیکھتے ہی ہم پر اس قدر خوف طاری ہوا کہ ہم اپنی جانیں بچا کر وہاں سے بھاگے اگر ہم ایسا نہ کرتے تو یقیناً وہ لوگ اپنی تلواروں سے ہمارے ٹکڑے کردیتے۔ سچ تو یہ ہے کہ وہ ابلق گھوڑوں کے سوار ہمیں انسان معلوم ہی نہیں ہوتے تھے۔

مالک بن عوف جو کہ جوانی اور طاقت کے نشہ میں چور ہونے کے ساتھ ساتھ اسلام دشمنی میں پیش پیش تھا۔اس واقعہ سے بھی کچھ مرعوب نہ ہوا اور بدستور اپنے ارادے پر قائم رہتے ہوئے مسلمانوں کے ساتھ ٹکرا جانے کے لیے تیار رہا گویا یہ چیز بھی اس کو واپس نہ لوٹا سکی۔

عبد اللہ بن ابی حدرد اسلمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روانگی

ابنِ اسحاق رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ جب سرکار دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کو بنو ہوازن کے اجتماع اور لشکر کی روانگی کے بارے میں خبریں ملیں تو آپ علیہ السلام نے صورتحال کا مکمل جائزہ اورپوری معلومات حاصل کرنے کے لیے حضرت عبد اللہ بن ابی حدرد اسلمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حکم فرمایا کہ ’’وہ بنو ہوازن کے لوگوں میں جاکر ان کے لشکری کے روپ میں چند روز قیام کریں اور جب دشمن کے تمام حالات کا پورا علم حاصل کرلیں تو واپس آکر مجھے آ گاہ کریں تاکہ دشمن کی تیاری کو مد نظر رکھ کر اس کے مقابلے کےلیے نکلا جائے‘‘۔

حسب حکم مبارک حضرت عبداللہ بن ابی حدرداسلمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ مکہ سے روانہ ہوئے اور بنو ہوازن لے لشکری کی حیثیت سے اس وقت تک وہاں مقیم رہے جب تک کہ دشمن کے بارے میں مکمل معلومات اکھٹی نہ کر لیں ان معلومات کے ساتھ واپس مکہ آئے اور سر کار دوعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا ۔

یار سول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم میں بنو ہوازن کے درمیان چند روز بسر کرنے کے بعد ذاتی مشاہدے کے ساتھ معلومات حاصل کر سکا ہوں وہ یہ ہیں پھر تفصیلاً ایک ایک بات اقدس میں عرض کی۔

رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو طلب فرمایا اور حاصل شدہ معلومات سے ان کو آگاہ کیا حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا ہمیں دشمن کی ہر چال کو ناکام بناکر اسکے ساتھ سختی سے مقابلہ کرنا ہوگا۔(واللہ اعلم)

(تاریخ طبری جلد ۱ صفحہ۴۱۱)

(البدیۃ والنہایۃ جلد۴ صفحہ ۷۴۱)

(سیرۃ ابن ہشام جلد ۲ صفحہ ۵۴۵)

(طبقات ابن سعد جلد ۱ صفحہ ۴۴۰)

صفوان بن امیہ اور سامان حرب

حضرت عبداللہ بن ابی حدرداسلمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب دشمن کی تیاری اور اس کے ارادوں کو تفصیل کے ساتھ سرکار دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے گوش گزار کر دیا تو مجبوراً آپ علیہ السلام نے بھی جنگ کی تیاریا ں کرنے کا قصدفرمایا۔

سامانِ حرب کے لئے قرض کی ضرورت پیش آئی عبداللہ بن ربیعہ جو کہ ابو جہل کے بیمات (سوتیلے ) بھائی تھے اور نہایت ہی خوش حال دولتمند تھے۔ ان سے تیس ہزار درہم قرض لئے اسکے بعد مکہ کے رئیس اعظم جو کہ اپنی مہمان نوازی میں بھی ہر سوشہرت رکھتا تھا۔ یعنی صفوان بن امیہ اسکے پاس بہت ساسامان حرب جس میں کافی زر ہیں اور ہتھیار موجود تھے سر کار دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں اس سامان حرب کے بارے میں عرض کیاگیا ۔ اس وقت مسلمانوں کو جنگ کے لئے ہتھیاروں کی سخت ضرورت تھی یہ خبر ملتے ہی سرکار دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے صفوان بن امیہ کو طلب فرمایا اور حکم فرمایا کہ’’ اے صفوان بن امیہ ہمیں معلوم ہوا ہے تمہارے پاس کافی اسلحہ موجود ہے ہمیں اس وقت جنگ کی غرض سے اسلحہ کی ضرورت ہے اسلئے ہمیں اسلحہ مستعاردے دو‘‘(صفوان بن امیہ جو کہ بھی تک مسلمان نہیں ہواتھا بلکہ اس نے فتح مکہ کے وقت قبول اسلام کے لئے کچھ مہلت طلب کی تھی جو رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے اسکو عطافرمادی تھی۔ یہ واقعہ اس مہلت کے دوران کا ہے اس سلسلے میں ہم گزشتہ اوراق میں تفصیلاً تحریر کر چکے ہیں)۔

صفوان بن امیہ نے عرض کیا اے محمد (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم) کیا آپ (علیہ السلام)یہ اسلحہ اسلئے لینا چاہتے ہیں کہ اسکو غصب کر لیا جائے ۔ پھر بولا کیا آپ (علیہ السلام )یہ ہتھیار جبراً مجھ سے لینا چاہتے ہیں۔ اگر ایسی صورتحال ہے تو میں یہ ہتھیار ہر گز نہیں دوں گا ۔ صفوان کی یہ بات سن کر سرکار دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

‘‘اے صفوان بن امیہ میں یہ اسلحہ جبراً حاصل نہیں کرنا چاہتا بلکہ یہ اسلحہ عاریۃ ً لینا چاہتا ہوں جس کی واپسی کا میں ضامن ہوں یہ سن کر صفوان بن امیہ نے عر ض کیا پھر مجھے اسلحہ دینے میں کوئی اعتراض نہیں۔ اسکے بعد صفوان نے ایک سوزرہیں او ر اتنا ہی دوسرا اسلحہ خدمت اقدس میں پیش کر دیا’’۔

کتب سیر میں آتا ہے کہ جس قدر اسلحہ سر کار دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے صفوان بب امیہ سے طلب فرمایا اس نے خدمت اقدس میں حاضر کر دیا۔ غزوہ حنین کے بعد جب رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے وہ اسلحہ صفوان کو واپس کیا تو اسمیں سے کچھ اسلحہ میدان جنگ میں ضائع ہوچکا تھا۔ آپ علیہ السلام نے اس ضائع شدہ اسلحہ کا معاوضہ صفوان بن امیہ کو دینا چا ہا ۔ اس وقت تک صفوان حضرت صفوان بن امیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن چکے تھے، خد مت اقدس میں حاضر ہوئے اور عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم خداوند کریم نے آپ علیہ السلام کی ذات اقدس کے صدقے سے اسلام کی نعمت سے مجھے سر فراز کیا ہے اب تو میں اللہ اور آ پ علیہ السلا م کے نام نامی اسم ِ گرامی پر اپنی جان بھی قربان کرنے کو تیارہوں۔ اسلحہ کا معاوضہ کیسے لے سکتا ہوں۔ صفوان بن امیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کایہ جواب سن کر سر کار دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم خوش ہوئے اور انہیں دعائے خیر دی۔

نوفل سے مستعار نیز ے

رسول کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے چچازاد بھائی نفل ابن حارث عبدالطیف سے بھی تین ہزار نیزے عارضی طور پر لئے ساتھ ہی آپ علیہ السلام نے نوفل سے فرمایا:۔

’’گویا میں دیکھ رہا ہوں کہ تمہارے یہ نیزے مشرکوں کی کمر توڑ رہے ہیں‘‘۔

نو فل غزوہ بدر میں مسلمانو ں کے ہاتھوں گرفتار ہوگیا تھا۔ نوفل نے اپنے فدیہ میں خود ایک ہزار نیزے دیئے اور ہائی حاصل کی تھی۔

اس واقعہ کو سامنے رکھتے ہوئے حضرت ابو جعفر محمد بن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ عاریتاً کی واپسی کی ضمانت سنت بنوی دینا سنت نبوی ہے اور ایسا کرنا جائز ہے ۔

(تاریخ طبری جلد ۱ صفحہ ۴۱۲)

(طبقات ابن سعد جلد ۱ صفحہ ۴۳۱)

(سیرۃ ابن ہشام جلد ۲ صفحہ ۵۲۶)

(البدایۃ اولنہایۃ جلد۴ صفحہ ۷۴۴)

(مدارج النبوت جلد ۲ صفحہ ۵۰۱) وغیرہ

لشکرِ اسلام کی تعداد

ابن اسحاق رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ جب سرکار دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو دشمن کی تعداد اور روانگی کے بارے میں مکمل حالات معلوم ہوچکے تو آپ علیہ السلام لشکر اسلام کو جسکی تعداد بارہ ہزار تھی ہمراہ لے کر حنین کی طرف روانہ ہوئے ۔ اس لشکر حق میں دس ہزار مجاہدین وہ تھے جو رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ مدینہ منورہ سے تشریف لائے تھے اور آپ علیہ السلام کے صدقے مشرکین کو ہمیشہ ہمیشہ لے لئے ختم کر کے مکہ شریف کو فتح کرنے کی سعادت حاصل کر چکے تھے۔ باقی دو ہزار مسلمان وہ تھے جو مکے مکرمہ فتح ہوجانے کے بعد دائرہ اسلام میں داخل ہوئے تھے۔

ابنِ اسحاق کی اسی روایت میں آتا ہے کہ مشرکین نے زمانہ جاہلیت میں ایک بہت بڑا سبز رنگ کا درخت بنا رکھا تھا جس کو ان لوگوں نے پہیے لگا رکھے تھے۔ مشرکین اس درخت کی شاخوں پر اسلحہ لٹکا دیتے اور جنگ کے وقت اس درخت کو ہمراہ رکھتے تھے اسے ذات انواط کہا جاتا تھا۔ اس غزوہ کے موقعہ پر مجاہدین نے اس درخت کو ہمراہ لے جانے کی اجازت طلب کی ۔ مگر سرکار دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’ یہ زمانہ جاہلیت کی رسم ہے جس میں ظاہری شان و شوکت کا مظاہرہ ہوتا ہے اسلئے میں اس درخت کو ہمراہ لے جانے کی اجازت نہیں دیتا‘‘ اور یوں لوگوں کی اس خواہش کو رد فرما دیا۔

(البدیۃ والنہایۃ جلد۴ صفحہ ۷۴۵)

(تاریخ طبری جلد ۱ صفحہ ۴۱۲)

(طبقات ابن سعد جلد ۱ صفحہ ۴۴۱)

لشکر اسلام کی روانگی

لشکر اسلام سرکار دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی قیادت عظیم کے تحت جب روانگی کے لئے تیار ہو گیا تو اس لشکر کی شان و شوکت ، اسلحہ اور تعداد کو دیکھتے ہوئے بعض صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین کی زبانوں سے بے اختیار یہ الفاظ نکل گئے کہ آج ہم پر کون غالب آسکتا ہے۔ مجاہدین اسلام صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین کے یہ الفاظ سرکار دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی طبیعت مبارکہ پر بڑے گراں گزرے کیونکہ ان الفاظ سے تکبر ، غرور اور عجب طاقت کے مظاہرے کا اندازہ ہوتا ہے۔

سیرت نگار تحریرکرتے ہیں کہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین کے ان الفاظ کی وجہ سے ہی جو اللہ و رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو پسند نہیں آئے تھے۔ مسلمانوں کے کچھ ہز یمت اٹھا نی پڑی ۔ مالک ِ ارض و سماء نے اس ہزیمت کے ذریعے مسلمانوں کے بتادیا کہ نصرت و کامیابی کا دارو مدار تیاری یا کثرت افواج سے نہیں بلکہ یہ تو خاص اللہ تعالیٰ کی طف سے ہوتا ہے۔

غزوہ حنین کے اس موقعہ پر سورۃ توبہ نازل ہوئی ۔ جس کا مفصل ذکر ہم آگےچل کر تحریر کریں گے۔ بارہ ہزار کا یہ لشکر دشمن کا یہ لشکر دشمن کی سرکوبی کے لئے مکہ مکرمہ سے روانہ ہوا۔ سرکار دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم دنے حضرت عتاب بن اسید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مکہ مکرمہ کا عامل (گورنر) مقرر فرمایا تاکہ وہ شہر کا پورا نظم و نسق سنبھال کر لوگوں کا ہر طرح سے خیال رکھ سکیں ۔ لشکر اسلام بڑی شان و شوکت سے سرکار دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی زیر کمان حنین کی طرف چل پڑا۔

ابو داؤد کا کا بیان ہے مجھ سے معاویہ بن زید نے بیان کیا او ر انکو زید بن سلام نے اپنے والد ابوسلام کی زبانی سنا ہوا یہ واقعہ سنایا جو کہ ابو سلام نے بھی سلولی سے سنا تھا۔ پھر سلولی کو سہل بن خظلیہ نے بیان کیا کہ جس روز سرکار دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم مکہ مکر مہ سے لشکر اسلام کو ہمراہ لے کر قبیلہ ہوازن اور دیگر قبائل کی بغاوت ختم کرنے کے لئے روانہ ہوئے تو میں یعنی (حضرت سہل بن خظلیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ) بھی اس لشکر میں شامل تھا۔

’’بیان کرتے ہیں: ایک روز جب صحابہ جو لشکر میں موجودتھے سرکار دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے نماز ظہر کے لئے صف بستہ تھے تو ایک گھوڑسوار اپنا گھوڑا سر پٹ دوڑاتا ہوا نہایت ہی عجلت میں خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم میں آپ علیہ السلام کے حکم سے ہوازن اور اسکے حلیف قبائل کے لشکر کے آثار تلاش کرتا ہوا دور نکل گیا اور وہاں جا کر مجھے معلوم کہ میں ہوازن کے ہاں ہی پہنچ گیا ہوں۔ میں نے وہاں خود کو چھپالیا اور دیکھا کہ ہوازن کا لشکر اپنے ساتھیوں سمیت حنین کی طرف جا رہا ہے۔ اس لشکر میں اسلحہ ، خوراک کے ذخائر اور دوسرا سازو سامان کثرت کے ساتھ تھا۔ مذکورہ معلومات حاصل کرنے کے بعد بڑی کوشش سے بچتا ہوا آپ علیہ السلام کی خدمت ِ اقدس میں حاضرہوا ہوں تاکہ دشمن کی تیاری کے سلسلے میں آپ علیہ السلام کو مکمل معلومات فراہم کر سکوں ۔

سر کارِ دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے یہ خبر سن کر تبسم فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’’ انشاء اللہ دشمن کا سارا سازو سامان کل تک ہمارے لشکر کا مال غنیمت بن جائے گا‘‘۔ اسکے بعد ارشاد فرمایا ’’ آج رات دشمن کی طرف سے اچانک حملے کی صورت میں لشکر اسلام کو باخبر رکھنے کے لئے رات ہو پہرے داری کے فرائض کون سرانجام دے گا‘‘۔ حضرتانس بن ابی مرثد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم یہ خدمت میں سر انجام دوں گا آپ علیہ السلام نے ارشاد فرمایا’’ اے انس اس خدمت کو سر انجام دینے کے لئے اب فوراً گھوڑے پر سوار ہو جاؤ‘‘۔ حضرت انس رضی اللہ تعالی ٰ عنہ سرکار دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا حکم مبارک سن کر اسی وقت گھوڑے پر سوار ہو لر فرض کو داد کرنے کی غرض سے روانہ ہونے لگے تو آپ علیہ السلام نے ارشاد فرمایا ’’ اے انس ( رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) رات بھر سامنے کی پہاڑی اور گھاٹی کا اوپر تک خاص طور سے خیال رکھنا کہ کوئی شخص یا گروہ تو ادھر نہیں آیا اگر ایسا دیکھو تو مجھے فوراً اطلاع دینا ’’ اس کے بعد حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے فریضہ کی ادائیگی کے لئے روانہ ہوگئے۔

سہیل بن خظیہ مزید ارشاد فرماتے ہیں کہ جب صبح ہوئی تو فجر کی دو رکعت ادا فرما کر آپ علیہ السلام نے حاضرین سے دریافت فرمایا کہ ’’ لشکر کے سواروں کو مستعدر رہنے کا حکم دے دیا گیا ہے یا نہیں ‘‘۔ خدمت اقدس میں عرض کیا گیا یا رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم سواروں کو مستعدرہنے کا حکم دے دیا گیا ہے یا نہیں‘‘۔ خدمت اقدس میں ذکر الٰہی میں مشغول ہوگئے۔ کچھ ہی دیر بعد ایک سوار سامنے والی پہاڑی کی طرف سے لشکر اسلام کی طرف آتا دکھائی دیا قریب آیا تو وہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے، خدمت اقدس میں حاضر ہو کر سلام عرض کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے دریافت فرمایا ’’ اے ان کیا خبر لائے ہو ‘‘عرض کیا ساری رات جاگ کر وہاں پہرا دیاہے وہاں کوئی ذی رُوح نظر نہیں آیا ۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا ’’ تم کسی وقت بھی اس پہاڑی اور گھاٹی سے ہٹے تو نہیں تھے‘‘۔عرض کیا سوائے نماز اور رفع حاجت کے میں اس جگہ سے ایک لمحہ کے لئے بھی نہ غافل ہوا اور نہ ہی کہیں ہٹا۔ پھر حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم میں وہاں ایک عجیب و غریب و غریب بات دیکھی کہ پہلے وہ پہاڑی گھاٹی صرف ایک ہی نظر آرہی تھی پھر کچھ ہی دیر کے بعد دو نظر آنے لگیں لیکن جب صبح ہوئی تو وہ دونوں گھاٹیاں ہی غائب ہوگئیں ۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی یہ بات سن کر سر کارِ دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا’’ خیر تم نے اپنا فرض ادا کردیا ہے‘‘ ۔ سر کار دوعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی ترتیب کی طرف متوجہ ہوئے۔

لشکر اسلام میں علم ۔ ایویہ ۔ اور لواء کی تقسیم

سر کار دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ہمیشہ غزوات یا سرایا پرر وانہ ہونے والے لشکر ودستہ کے ساتھ لواء یا جھنڈا ہر حال میں روانہ فرماتے تھے۔ جس شخص کو جھنڈا وغیرہ عطا کیا جا تا اسکی دین محمدی سے گہری قلبی وابستگی اور شجاعت انفرادی مسلم ہوتی تھی ۔ جھنڈا میدان ِ جنگ میں مجاہدین کے حوصلے بلند رکھتا اور پھر جھنڈا تھامنے والا اس قدر شجاعت سے دشمن پر جھپٹتا کہ دیکھنے والے ششدررہ جاتے اور اس شیرِ حق کے حملوں کی سختی دیکھ کر دشمنوں کے حوصلے پست ہوجاتے تھے۔

اس روایت کوبر قرار رکھتے ہوئے غزوہ حنین کے موقعہ پر بھی سر کار دو عالم تاجدارِ عرب و عجم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے مجاہدین میں علم ۔ ایویہ اور لواء تقسیم فرمائے۔

رسول ِ اکریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے جبکہ سپیدہ سحر نمودار ہو چکا تھا ۔ مجاہدین کو صفیں بنانے کا حکم دیا جب صفیں بن چکیں تو آپ علیہ السلام نے ایویہ ( اس چھوٹے سے جھنڈی نما جھنڈے کو کہا جاتا ہے جو کسی لشکر میں شامل مختلف قبائل کی نشانی کے لئے اسکے امیر کو دیا جاتا یا دی جا تی ہے) رایات (اس بڑے جھنڈے نماجھنڈی کو کہا جاتا ہے جو چند قبائل کو اکھٹا کرنے کے بعد اسکے مقرر کردہ امیر کے ہاتھ میں ہوتا ہے) ان لوگوں کے حوالے کئے جن کو اس منصب پر فائز کیا گیا تھا۔ مہاجرین کی طرف سے لواء سیدنا حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سپرد فر مایا۔ اس لشکر میں ایک لواء بھی تھا جس کو حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حوالے کیا گیا ۔ اور آخرمیں سب سے بڑا جھنڈا سیدنا حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سپرد فرمایا ۔ اہل خزرج کا لواء حباب بن المند رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حوالے ہوا۔

اسی طرح ایک اور روایت میں آتا ہے کہ بنو خزرج کا ایک دوسرا سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سپرد کیا گیا تھا۔ قبیلہ اوس کا لواء سید بن حضیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہمراہ تھا۔اس برح جو جو قبائل بھی اس لشکرمیں شریک تھے ہر ایک کو لواء و رویا سپرد کئے گئے۔

سر کار دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو لشکر اسلام کے مقدمہ پر عامل مقرر کیا اور یہاں تک کہ وہ الجعرانہ میں مقدمہ کے ساتھ ہی اترے ۔ میدانِ جنگ میں الگ الگ جھنڈے دیکھ کر مغلوب ہوجائے ۔ بہت سے ایسے واقعات تاریخ اسلام اور تاریخ عالم میں ملتے ہیں کہ دشمن صرف اسی وجہ سے ہی میدان جنگ چھوڑ کر بھاگ گیا کہ مد ِ مقابل کا لشکر توکئی اییک قبائل کی متحدہ فوج ہے۔ پھر غزوہ موتہ میں سرکار دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا میدانِ جنگ میں پیش آنیوالے واقعات کے بارے میں قبل ازوقت باخبر کرتے ہوئے فر مانا کہ’’ جب پہلا جھنڈا اٹھانے والا شہید ہوجائے تو دوسرا جھنڈا تھاملے اسکے بعد تیسرا اور پھر یہ فرمانا کہ تیسرے کے بعد جو چاہے جھنڈا اٹھا لے‘‘۔ علم کی اہمیت کو عیا ں کرنے کے لئے بہت کافی ہے۔

بہر حال لشکر اسلام صبح کا ذب کے وقت دشمن پر کاری ضرب لگانے کے لئے بالکل تیار اور کوچ کے حکم کا منتظر تھا۔

(سنن ابو داؤد باب جہاد )

(تاریخ طبری جلد ۱ صفحہ ۴۱۲)

(طبقات ابن سعد جلد ۱ صفحہ ۴۴۱)

(مواہب لدنیہ جلد ۱ صفحہ ۵۴۶)

(سیر ۃ ابن ہشام جلد ۲ صفحہ ۵۲۷)

(زرقانی جلد ۱ صفحہ ۴۱۰)

(البدایۃ و النہایۃ جلد ۴ صفحہ ۷۴۶)

(مدارج النبوت جلد ۲ صفحہ ۵۰۰) وغیرہ

لشکر اسلام پر اچانک حملہ

لشکر اسلام منگل اور بدھ کے درمیانی شب مورخہ ۱۰ شوال ۸ھ کو مقام حنین پہنچ گیا۔ صبح کا ذب کے وقت اسلامی لشکر نے دیکھا کہ ہوازن کی متحدہ فوج کا سپہ سالار مالک بن عوف اپنے لشکر کے ہمراہ میدان حنین کی طرف جارہا ہے ۔ اس امر کی خبر ملتے ہی سر کار دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے اسلا می لشکر کو اس تعاقب کا حکم دیا۔ مالک بن عوف نے جب دیکھا کہ اسلامی لشکر اسکے تعاقب میں آرہا ہے تو وہ اپنے لشکریوں سمیت بھاگ کر پہاڑوں پر دائیں بائیں چڑھ ایسے غائب ہوئے کہ پوری وادی میں ان کا نام و نشان تک نہ ملا۔اصل میں مالک بن عوف کی یہ ایک جنگی چال تھی تاکہ مسلمان یہ سمجھیں کہ دشمن ان سے ڈر کر بھاگ گیا ہے اور بے دھڑک اپنی پیش قدمی جاری رکھیں ۔ مالک بن عوف اپنی اس چال کسی حد تک کامیاب بھی رہا ۔ حقیقت یہ تھی کہ ہوازن کے لوگوں کو اس نے پہلے سے طے شدہ جنگی حکمت عملی کے مطابق پہاڑ کی گھاٹیوں میں چھپا دیا تھا۔ یہاں وادی حنین کی تنگ اور دشوار گزار گھاٹیاں تھیں ۔ راستہ اس قدر تنگ تھا کہ اس پر سے لشکر کے جوانوں کا اکھٹا گزرنا مشکل تھا۔ وادی کی زمین میں چھوٹے بڑے بے شمار گڑھے تھے جو گزرنے والے کے لئے قدرتی رکاوٹ ثابت ہوتے تھے۔ کسی بھی لشکر کے لئے اس وادی سے تھوڑے تھوڑے آدمیوں پر مشتمل گروں کی صورت کے علاوہ گزرنا ممکن نہیں تھا یہی وجہ ہے کہ ہوازن کے لشکر کے سپہ سالار مالک بن عوف ن اسلامی لشکر کے گزرنے سے پہلے ہی ارد گرد کے پہاڑوں پر جو کہ گھاٹی کے اطراف میں تھے ۔اپنے جوان چھپا کر تعینات کر دئے تھے کہ جیسے ہی اسلامی لشکر اس گھاٹی سے چھوٹے چھوٹے گروہوں کی شکل میں گزرنے لگے اچانک تیروں سے ان پر حملہ کر دیا جائے ۔ جنگی نقطۂ نظر سے مالک بن عوف کی یہ ایک کامیاب جنگی چال تھی۔

سر کار دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم سفید خچر پر سوار ہوئے ۔ دوزرہیں زیب تن فرمائیں سر پر خود پہنا اور وادی حنین میں لشکر اسلام کے ہمراہ آپ علیہ السلام نے جو دو زرہیں پہنی ہوئی تھیں ان میں سے ایک کا نام ذات الفضول تھا اور دوسری کا نام سغدیہ تھا یہ سغدیہ نامی زرہ حضرت داؤد علیہ السلام کی تھی جو انہوں نے اس وقت پہن رکھی تھی جب جالوت کو قتل کیا تھا۔ مختصر کہ یہ جیسے ہی اسلامی لشکر کے جوان اس تنگ ود شوار گزار گھاٹی میں گروہ کی شکل میں داخل ہوئے۔ ہوازن کے تیراندازوں نے اپنی کمین گاہوں سے اچانک شدید تیراندازی شروع کردی۔ ہوازن کے یہ لوگ جو پہلے سے ہی چھپے بیٹھے تھے بڑے ماہر تیر انداز تھے۔ تیر وں کی اچانک بارش نے مسلمانوں کی شدید مشکلات میں ڈال دیا۔ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور بنی سلیم جو کہ مقدمہ پر تھے اور غیر مسلح بھی تھے اس اچانک تیر اندازی کے حملے سے اس قدر گھبراگئے کہ ان لوگوں نے پیچھے مڑکر دوڑ لگادی۔ ان کے پیچھے کفار قریش تھے اور ان کے ہمراہ کچھ نو مسلم اور اعتقاد لوگ بھی یہ سب مڑ کر پیچھے کو بھاگ کھڑے ہوئے۔

حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہمراہ بنی سلیم اور مکہ کے کچھ (تقریباً ۸۰ افراد )ایسے لوگ تھے۔ جو مسلمانوں کی کثیر فوج کو دیکھ کر مال غنیمت کے لالچ میں لشکر کے ہمراہ چل دیئے تھے ان لوگوں کو مسلمانوں کی کامیابی کا اس قدر پختہ یقین تھا کہ وہ اپنے ہمراہ کوئی ہتھیاربھی نہیں لائے تھے۔ بہر حال ہوازن کے ٹڈی دل لشکر نے جب اچانک مقدمہ اور دوسرے لشکریوں پر تیروں کی زبردست بارش کر دی تو اہل لشکر اس ناگہانی آفت سے اس قدر خوفزدہ ہوئے کہ ان کو تن بدن کا بھی ہوش نہ رہا جس کا جدھر منہ ادھر ہی بھاگ کھڑا ہوا۔ یہاں ایک بات یقینی طور پر ذہن نشین رکھنی چاہئے کہ ہوازن کے لوگ پورے عرب میں تیراندازی کے میدان میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے میدانِ جنگ میں ان کا چلایا ہوا تیر کبھی خطا نہیں نہیں جاتا۔

ابو سفیان بن حرب نے یہ منظر دیکھ کر کہا اب مسلمانوں کی یہ بھگدڑ سمندر سے پہلے نہیں رکے گی۔ یاد رہے ابو سفیان بن حرب گو مسلمان ہوگیا تھا مگر سرداری کا نشہ اور مسلمانوں کے خلاف پرا نی عداوت اس کے دل سے پوری طرح ختم نہیں ہوئی تھی۔ اسی طرح لشکر ِ اسلام کی اس کیفیت کو دیکھتے ہوئے کلال بن خلیل جو صفوان بن امیہ کا ماموں تھانے چیخ کر کہا دیکھو آج جادو باطل ہوجائے گا۔ سحر کا خاتمہ ہوجائے گا۔

حضرت براء رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان

حضرت براء بن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ( بن حارث بن عدی بن جشم بن مجدعہ بن حارثہ بن حارث بن خزرج بن عمر و بن مالک بن اوس المتوفی کو فہ ۷۲ھ۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ۳۰۵ احادیث مروی ہیں) نے غزوۂ حنین کے بارے میں جو بیان فرمایا گیاوہ ابن اسحاق کے بیان سے مختلف ہے۔ چنانچہ بخاری شریف میں جو بیان کیا گیا ہے اس میں آتا ہے کہ ہوازن تیر انداز تھے جب ہم نے ان پر سخت حملہ کیا تو وہ لوگ بھاگ کھڑے ہوئے اہل اسلام مال غنیمت کی طرف متوجہ ہوئے تو اہل ہوازن نے سخت ترین تیر اندازی سے ہمارا استقبال کیا۔

حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان

حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ (بن نضر بن ضمضم بن زید بن حرام بن جنب بن عامر بن غنم بن عدی بن نجار۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ۹۳ ھ میں بصرہ میں وفات پائی ۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ۲۲۸۶ احادیث مروی ہیں) غزوہ حنین کے بارے میں میں ارشاد فرماتے ہیں ان کا یہ بیان صحیح مسلم شریف کی حدیث میں آتا ہے ۔ فرمایا کہ ہم نے مکہ فتح کیا۔ پھر حنین پر چڑھائی کردی ۔ دشمن نے اس قدر عمدہ طریقے سے صفیں باندھی ہوئی تھیں جو میں نے اس سے پہلے کبھی کسی جنگ میں نہیں دیکھیں تھیں۔ ان کی تر تیب یہ تھی پہلے سواروں کی صف پھر پیادہ ان کے پیچھے عورتیں کی صف اور آخر میں مویشیوں کی صف تھی ۔ ہم لوگ اس غزوہ میں کثیر تعداد میں تھے۔ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے سواروں کے ساتھ میمنہ پر تعینات تھے۔ مگر اچانک ہمارے سوار دشمن کی سخت تیر اندازی کی وجہ سے ہماری پیٹھ پیچھے پناہ گزیں ہونے لگے اور تھوڑی ہی دیر میں ہمارے سوار بھاگ کھڑے ہوئے ان بھاگ نے والوں میں وہ لوگ بھی شامل تھے جنہیں تم جانتے ہو اور اعراب بھی۔

ابو سفیان بن حرب اور کلال بن خلیل کے فقرے سن کر صفوان بن امیہ جو کہ اس وقت مشرک تھے ۔ بولے خاموش رہو، اللہ تمہارے منہ بند کرے میرےنزدیک یہ بات زیادہ عزیز ہے کہ قریش کا کوئی آدمی میرا ولی یا مُربّی ہو اس بات سے کہ ہوازن کا کوئی شخص میری تربیت کرے یا مربی وولی ہو۔ شیبہ عثمان بن ابی طلحہ نے کہا آج محمد (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم) سے اپنے باپ کے قتل کا بدلہ لینے کا اس سے اچھا موقع پھر نہیں ملے گا۔ اس کا باپ غزوۂ احد میں مجاہدین کے ہاتھوں مارا گیا تھا۔ اس خیال سے شیبہ بن عثمان بن ابی طلحہ جب سرکار دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی طرف بڑھا تو فوراً غش کھا کر زمین پر گر گیا اور یوں اپنے اس بدارادےکی تکمیل کے لئے سرکار دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم تک پہنچ ہی نہ سکا ۔ ہوش آیا تو سمجھ گیا کہ مجھے اللہ کی طرف سے محمد (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم) تک پہنچنے سے روک دیا گیا ہے غزوہ حنین کے بعد یہ آپ علیہ السلام کے دستِ حق پرست پر بعیت کرنے کے بعد دائرہ اسلام میں داخل ہو ئے۔

ہوازن کی تیر اندازی کے نتیجہ میں اسلامی لشکر اس طرح منتشر ہوا کہ صرف چندجاں نثار ہی آپ علیہ السلا م کے سامنے رہ گئے۔

(صحیح بخاری بات یوم حنین الخ)

(فتح الباری جلد ۸ صفحہ ۳۰،۲۹)

(تاریخ طبری جلد ۱ صفحہ ۴۱۳)

(مواہب لدنیہ جلد ۱ صفحہ ۵۴۳)

(سیرۃ ابن ہشام جلد۲ صفحہ ۵۲۷)

(طبقات ابن سعد جلد۱ صفحہ ۴۴۱)

(البدایہ والنہاریۃ جلد۴ صفحہ۷۴۷)

(مدارج النبوت جلد۲ صفحہ ۵۰۱)

(شرح بخاری غزوہ حنین شارح امام نو وی رحمہ اللہ ) وغیرہ

ثابت قدم جاں نثار ان اسلام

غزوہ حنین کے موقعہ پر جو جاں نثار صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین اہل بیت انصار اور مہاجرین میں سے سرکار دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے پاس رہ گئے ان کے اسماء گرامی یہ ہیں۔ سیدنا حضرت ابو بکرصدیق حضرت عمر ، فاروق ، حضرت علی مرتضی ٰ، حضرت عباس اور ان کے صاحبزادے حضرت قثم اور حضرت فضل حضرت عباس کے بھتیجے ابو سفیان ابن حارث ، حضرت اسامہ بن زید ، حضرت ام ایمن کے بھائی ، ابن ام ایمن ربیعہ ابن الحارث ، متعب ابن ابو لہب ، حضرت عبداللہ بن زبیر بن زبیر بن عبدالمطلب ، حضرت عقیل بن ابی طالب ، حضرت ابن مسعود ۔ بعض صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین سرکار دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے آگے آگے تھے۔ کچھ بائیں اور کچھ دائیں ہاتھ تھے۔ حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سواری کی رکاب سعادت پکڑی ہوئی تھی۔ جہاں تک ان صحابہ کرام کا تعلق ہے جو ان نازک وقت میں رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ثا بت قدم رہے تو ان کی تعداد کے متعلق مختلف روایات ہیں ایک روایت یہ ہے کہ ان کی تعداد سو (۱۰۰) تھی ایک دوسری روایت کے مطابق (۸۰) تھی جبکہ ایک اور روایت کے مطابق تین سو (۳۰۰) تھی جبکہ ایک روایت کے مطابق بارہ (۱۲) تھی۔

ابو سفیان بن الحارث نے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے آگے آگے سواری کی لگام تھامی ہوئی تھی تاکہ خچر جس پر آپ علیہ السلام سوار تھے دشمن کی طرف زور کر کے نہ چلی جائے ۔ جبکہ سرکار دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم خچر کو دشمنوں کی طرف بڑھاتے تاکہ ان کی سر کوبی فرماسکیں مگر جاں نثار پہلے خود نور مجسم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم پر قربان ہونا چاہتے تھے اسلئے سواری کو میدان جنگ کی طرف جانے سے روک رہے تھے۔

سیرت نگار حضرات اجماعی طور پر اس جگہ بیان کرتے ہیں کہ غزوہ حنین جیسے مقام پر خچر کی سواری سر کار دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے کمال ِ شجاعت ۔ قوت قلب اور اللہ عز وجل پر توکل اور اعتماد میں زیادتی کے باعث تھا۔ کیونکہ ایسا کرنا یقیناً خصائص نبوت میں سے ہے جبکہ عام طور پر خچر کی سواری سیر و سیاحت کے لئے استعمال کی جاتی ہے۔ میدان جنگ میں خچر کی سواری نہ کسی نے کی اور نہ ہی لڑائی کے لئے یہ سواری موزوں ہے۔ میدانِ جنگ میں ایسا جانور درکار ہوتا ہے جو نہایت ہی چست اور طاقتور ہو اور قدرت نے گھوڑے کو شاید خاص طور پر اسی مقصد کے لئے پیدا فرمایا ہے ۔ غور سے دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ گھوڑے کو پیدا ئش شے ہی پھرتی چستی اور کر فر حاصل ہے ۔ پھر اس غزوہ میں جو فرشتے اللہ کریم نے اتارے وہ بھی ابلق گھوڑوں پر سوار تھے۔ سرکار دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا خچر کی سواری فرمانا اصل میں دنیا والوں کو یہ بتانے کے لئے تھاکہ جنگ ہو یا امن قوت قلب ، شجاعت نفس اور اللہ تعالیٰ پر توکل و اعتماد میرے لئے ان دونوں صورتوں میں برابر ہے۔

حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ اس وقت میں رسول کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی خچر کا لگام تھامے ہوئے تھا اس خچر کا نام شہباز تھا اور یہ خچر فردہ ابن عمرو جذامی نے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو ہدیہ کی تھی جو بلقاء کاوالی تھا اور فلسطین میں رومی شہنشاہ قیصر کی طرف سے مقرر تھا۔ اس خچر کو’’فضہ‘‘ کہا جاتا تھا۔ ایک دوسری روایت ہے کہ اس کو ’’دلدل‘‘ کہا جاتا تھا جو مقوقس شاہِ مصر نے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو ہدیہ کی تھی۔

حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مسلمانوں کو پکارنا

ان نازک ترین لمحات میں سرکار دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی بے نظیر شجاعت ، ثابت قدمی اور بردباری کا وہ ظہور ہوا جسے چشم عالم نے پہلے نہیں دیکھا تھا۔ آپ علیہ السلام کا رخ انور دشمن کی طرف تھا اور آپ فرمارہے تھے۔

اناالنبی لا کذب ۰ انابن عبدالمطلب

’’میں سچا نبی ہوں اللہ کریم نے مجھ سے جو نصرت و فتح کا وعدہ فرمایا ہے وہ بالکل سچ ہے حق ہے اس میں کذب کا امکان ہی نہیں ۔ اور میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں‘‘۔

اس ارشاد کے بعد آپ علیہ السلام نے حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا ’’ اے عباس (رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) آپ کی آواز بہت بلند ہے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین کو پکارو‘‘۔ سید نا حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ میں حسب حکم بلند آواز سے لوگوں یعنی صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین کو پکارا۔

یا معشر الا نصار ۰ یا صحاب الشجرۃ

اے گروہ ِ انصار۔ اے وہ لوگو جنہوں نے درخت کے نیچے بعیت کی تھی یعنی اصحاب الشجرۃ (بعیت رضوان والو)۔

کچھ صاحب سیر کہتے ہیں کہ حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ بھی فرمایا تھا۔

’’یا اصحاب سورۃالبقرۃ‘‘

اس سے تعظیم مقصود تھی کیونکہ وہ لوگ اسی سورۃ پر ایمان لائے ہوئے ہیں ۔ جس کو سورۃ بقرۃ بھی کہتے ہیں اور یہ قرآن کریم کی یہ سب سے بڑی سورۃ ہے ۔ یہاں خصوصیات سے سورۃ بقر کا ذکر کرنے ی وجہ یہ بھی تھی کہ یہ پہلی سورۃ ہے جو مدینہ منورہ میں نازل ہوئی تھی اور اس لئے کہ اس میں یہ آیت بھی ہے:

سورۃ البقرہ آیت ۲۴۹۔

کم من فئۃ قلیلۃ

غلبت فئۃ کثیرۃ باذن اللہ طواللہ مع الصبرین

ترجمہ: ’’کہ بارہا کم جماعت غالب آئی ہے زیادہ گروہ پر اللہ کے حکم سے اور اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے‘‘۔

ومن الناس من یشری نفسہ ابتغآء مرضات اللہط

واللہ رء وف بالعباد

ترجمہ: اور کوئی آدمی ایسا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رضاجوئی میں اہنی جان تک صرف کر ڈالتا ہے اور اللہ ایسے بندوں کے ال پر نہایت مہربان ہے‘‘۔

حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ارشاد فرماتے ہیں صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین میری اس پکار کو سن کر یک زبان بولے۔

یا لبیک یا لبیک (ہاں ہاں آئے آئے)

اور پھر یوں اکھٹے ہونے لگے جیسے شہید کی مکھیاں اپنی ملکہ مکھی کے گرد جمع ہوتی ہیں جس کا نام یعسوب ہے یا ان کے پلٹنے کی کیفیت یہ تھی جیسے کہ اونٹ یا گائے اپنے بچے کی تلاش کے بعد اس کو پاکر خوش ہوتی ہے اور اس کے گرد آجاتی ہے۔

صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین کی حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی آواز سن کر یہ کیفیت تھی کہ جن جن صحابہ کرام کی سواریوں کو پلٹنے میں دیر ہو رہی تھی یا وہ سست تھیں لوگوں نے اپنی زرہیں اتار کر زمین پر پھینک دیں اور صرف تلوار ااور ڈھال لے کر سواریوں سے نیچے کود کر سر کار دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی طرف دوڑتے ہوئے آئے ۔تھوڑی ہی دیر میں ایک سو صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین سر کار دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے گرد اکھٹے ہوگئے۔ یوں سب نے مل کر دشمن پر حملہ کر دیا اور لڑائی کا بازار گرم ہوگیا۔

(صحیح بخاری ، مسلم جلد ۲ صفحہ ۱۰۰)

(تاریخ طبری جلد ۱ صفحہ ۴۱۴)

(سیرت ابن ہشام جلد ۲ صفحہ ۵۲۶)

(طبقات ابن سعد جلد ۱ صفحہ ۴۴۳)

(البدایۃ والنہایۃ جلد ۴ صفحہ ۷۴۶)

(مدارج النبوت جلد۲ صفحہ ۵۰۲)

دشمن کی شکست فاش

حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی پکار پر جب سو (۱۰۰) کے قریب صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین سر کار دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے گرد جمع ہوگئے تو انصار نے بکار شروع کی۔ اور اے انصاریو اے انصاریو۔پھر یہ پکار بنو حارث بن خزرج کے اندر محدود ہوگئی ۔ ادھر مسلمان ہوازن کی تیراندازی سے جس طرح بھاگے تھے اور میدان ِجنگ چھوڑ دیا تھا اس سے بھی زیادہ تیز رفتاری سےپلٹ کر ایک کے پیچھے ایک میدا ن جنگ میں آنا شروع ہوگئے اور یوں میدان جنگ میں زور دار لڑائی شروع ہوگئی ۔ سرکار دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے میدان جنگ کی طرف دیکھتے ہوئے فرمایا ’’ اب چولہا گرم ہوگیا ہے ‘‘پھر زمین سے مٹھی مٹی لے کر دشمن کی طرف پھینکتے ہوئے ارشاد فرمایا۔

ارشاد: شاھت الوجوہ: ’’یعنی چہرے بگڑ جائیں‘‘

’’انھز مو ا و ر ب محمد‘‘ ’’محمد(صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم) کے رب کی قسم کا فرفرار ہوئے‘‘۔

سرکار دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ مبارک سے پھینکی ہوئی مٹھی بھر مٹی دشمنوں پر اس طرح پھیلی کہ کوئی ایسا باقی نا بچا جسکی آنکھوں میں یہ مٹی نہ پڑی ہو۔ اسی وقت حضرت جبریل علیہ السلام حاضر خدمت ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلماللہ تعالیٰ نے آپ علیہ السلام کووہی کلمات تلقین فرمائے ہیں جو موسیٰ علیہ السلام کو تلقین فرمائے تھے۔ جبکہ موسیٰ علیہ السلام کی دعا ہر بنی اسرائیل کے لئے دریا میں راستے بنائے گئے تھے۔ چنانچہ آپ علیہ السلام نے وہی دیا حنین کے دن فرمائی جس کے الفاظ یہ تھے۔

ترجمہ دعا

تو ہے اور رہے گا تو زندہ ہے اور کبھی نہیں مر سکتا جب کہ آنکھیں نیند میں غافل محو خواب ہوئی ہیں اور ستارے بکھرے ہوئے ہوتے ہیں تو تو اس وقت بھی زندہ اور ہر چیز کا نگہبان رہتا ہے تجھے نہ اونگھ آتی ہے اور نہ نیند آتی ہے اے خدائے زندہ و پاسبان عالم۔

اس جگہ پر یہ قرآنی آیت نازل ہوئی ۔(سورۃ النفال آیت ۱۷)

فَلَمْ تَقْتُلُوهُمْ وَلَٰكِنَّ اللَّهَ قَتَلَهُمْ ۚ وَمَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَٰكِنَّ اللَّهَ رَمَىٰ ۚ وَلِيُبْلِيَ الْمُؤْمِنِينَ مِنْهُ بَلَاءً حَسَنًا ۚ إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ

ترجمہ: ’’اور تم نے انہیں قتل نہ کیا بلکہ اللہ نے انہیں قتل کیا اور اے محبوب جو خاک تم نے پھینکی بلکہ اللہ نے پھینکی تاکہ مومنوں کو اچھا انعام عطا فرمائے۔ اللہ تعالیٰ بے شک سننے والا ہے‘‘۔

اللہ تعالیٰ کے فرشتے مسلمانوں کی مدد فرما رہے تھے۔ سیدنا حضرت جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایات ہے کہ غزوہ حنین کے موقع پر سر کار دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے سنگریزے مشرکین پر پھینکے ان میں سے یوں آواز آرہی تھی۔ جیسے ان کو آسمان سے ایک طشت میں پھینکا ہے جو مشرکین اور اہل ہوازن اس غزوہ میں شریک تھے ان کے بیٹے اپنے باپوں سے جو جنگ میں شریک تھے سے نقل کرتے ہیں کہ جب ہم پر سنگریزے پھینکے گئے تو کوئی آنکھ ایسی نہ جس میں وہ سنگریزے نہ پڑے ہوں ۔ ہمارے دل تڑپنے لگے اور ایساضطراب پیدا ہوا جو بیان نہیں کر سکتے ۔ ہمیں اس طرح کی آوازیں سنائی دیں جیسے کوئی طشت پر ہتھوڑا مار رہا ہو جس وقت ہم پر سنگریزے برس رہے تھے عین اسی وقت سارے میدان جنگ پر سیاہ بادل چھا گیا جس نے ہماری ساری قوم کو اپنے اندر چھپا لیا۔ ہم لوگوں نے جب غور سے دیکھا تو سارا میدا ن جنگ اور وادی سیا ہ چیونٹیوں سے بھری پڑی تھی۔ مزید بیان کرتے ہیں کہ ہم میں سے ہر ایک کو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ہر پتھر اور ہر درخت پر زمین و آسمان کے درمیا ن سفید لباس پہنے ہوئے ابلق گھوڑوں پر سوار دکھائی دے رہے تھے۔ ان کی ہیبت و جلال کی یہ کیفیت تھی کہ ہم میں سے کوئی یہ طاقت نہیں رکھتا تھا کہ ان سواروں کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی دیکھ سکے۔ اسی طرح حضرت سعید بن جبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ غزوہ حنین کے دن اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صاحب لولاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی پانچ ہزار فرشتوں سے مدد فرمائی ۔ جب مشرکین کو شکست فاش ہوچکی تو اہل ہوازن جو زندہ بچ گئے تھے لوگوں سے پوچھتے پھرتے تھے کہ وہ سفید لباس والے لوگ جو ابلق گھوڑوں پر سوار تھے کہا ں ہیں ۔ ہم لوگ ان ہی کے ہاتھوں ہلاک و رسوا ہوئے ۔

جبیر بن مطعم رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں۔ جس کے الفاظ مذکورہ روایت سے کچھ مختلف ہیں مگر مفہوم تقریباً وہی ہے۔

فرماتے ہیں کہ ہوازن کی شکست و پسپائی سے کچھ ہی دیر پہلے میں نے آسمان سےایک سیاہ چادر اتر تی دیکھی جو کہ ہمارے اور دشمن کے درمیان آکر گری ۔ اچانک اس چادر میں سے سیاہ چیونٹیاں نکلیں اور تمام وادی میں پھیل گئیں ۔ مجھے ان کے فرشتے ہونے میں کچھ شک نہ تھا ان کی آمد کے کچھ ہی دیر بعد دشمنوں کو شکست فاش ہوگئی۔

اسی بنا پر حق تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا (سورۃ التوبہ آیت ۲۶)

ثُمَّ أَنَزلَ اللّهُ سَكِينَتَهُ عَلَى رَسُولِهِ وَعَلَى الْمُؤْمِنِينَ وَأَنزَلَ جُنُودًا لَّمْ تَرَوْهَا

ترجمہ : ’’پھر اللہ نےاپنی تسکین اتاری اپنے رسول (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم) پر اور مسلمانوں پر اور وہ لشکر اتارے جو تم نے نہ دیکھے‘‘۔

مذکورہ روایات سے پتہ چلتا ہے کہ غزوہ حنین میں بھی غزوہ بدر کی طرح اللہ کریم نے فرشتوں کی مدد سے مسلمانوں کی مدد کی اور فرشتوں نے دشمن کی فوج کا خوب قتا ل کیا اور یوں سرکار دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان بابت فتح و نصرت حق ثابت ہوا اور پھر کیوں نہ ہوتا ۔ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم اپنی طرف سے تو کچھ کہتے ہی نہیں جو فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہی فرماتے ہیں۔

ایک روایت یہ بھی ہے کہ ’’ فرشتےجنہیں کفار نے ابلق گھوڑوں پر سفید لباس پہنے اور عمامے باندھے دیکھا یہ فرشتے مسلمانوں کی شان و شوکت بڑھانے کے لئے آئے تھے۔ اس جنگ میں انہوں نے قتال نہیں کیا ۔قتا ل غزوہ بدر میں کیا تھا‘‘۔

حضرت شیبہ عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں یہاں ایک بات کی وضاحت کرنا ضروری خیال کرتا ہوں ۔ شیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ قول ہم گزشتہ صفحات میں نقل کر چکے ہیں اسی قول کو دوبارہ نقل کرنے کی گو حاجت محسوس نہیں ہوتی لیکن اس قول کا حاصل مقصد گو پہلے والے قول کے عین مطابق ہے مگر اس دوسرے قول میں کیونکہ مزید وضاحت اور کچھ اضافہ ہے اسلئے دلچسپی کے لئے اس کو درج کیا جا رہا ہے۔ یعنی حضرت شیبہ بن عثمان حجی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول ہے کہ جب قریش کی ایک جماعت سرکار دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ حنین میں آئی تو میں بھی اس جماعت میں شامل ہوگیا ۔ میں نے اپنے دل میں مصمم ارادہ کرلیا تھا کہ موقعہ ملتے ہی محمد (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم) کو شہید کر دو ں گا۔ کیونکہ میرا والد غزوۂ احد میں مسلمانوں کے ہاتھوں مارا گیا تھا جس کی وجہ سے میرے دل میں مسلمانوں کے لئے سخت نفرت اور کینہ تھا۔ میں اپنے دل میں پکا ارادہ کر چکا تھا کہ اگر سب لوگ محمد (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم) کے مطیع ہوجائیں تب بھی ان پر ایمان نہیں لاؤ ں گا۔

یہ شیبہ بن عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ دربان حرم تھے اور ان کی اولاد بنو شیبہ کہلاتی ہے جن میں حرم کی دربانی اور کنجی برداری کا سلسلہ چلتا رہا۔ عربی کعبۃ اللہ کی کنجیاں رکھنے والے شخص یا خاندان کو ’’ حجبی ‘‘ کہا جاتا ہے ۔

اسلامی لشکر پڑاؤڈالے ہوئے تھے ایک روز موقع ملنے پر میں رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے سے آکر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم پر تلوار کا وار کرنا چاہتا تھا۔ جیسے ہی میں بدارادے سے آگے بڑھا کہ اچانک بجلی کی طرح آگ کا شعلہ نمودار ہو کر مجھ پر لپکا۔ اور قریب تھا کہ مجھے جلا کر خاکستر بنادے کہ عین اسی وقت سرکار دو عالم نے مجھے آواز دے کر اپنے پاس بلایا اور فرمایا ’’اے شیبہ میرے اور قریب آؤ‘‘۔

حکم مبارک سن کر میں سرکار دوعالم نور مجسم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے قریب گیا۔ آپ علیہ السلام نے میرے سینہ پر ہاتھ مبارک مارا ور فرمایا ’’اے اللہ ! اسکو شیطان کے شر سے محفوظ فرما‘‘۔ اتنا فرمانا تھا کہ حق تعالیٰ نے فوراً میرے سینے میں کینہ وغیرہ دفع کردیا۔ اللہ کی قسم جس قبضۂ قدرت میں میر ی جان ہے آپ علیہ السلام اسی حکم اسی وقت میری آنکھ اور کان سے بھی زیادہ محبوب ہوگئے ۔ اس کے بعد سر کار دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے حکم فرمایا’’ جاؤ اور دشمن سے جنگ کرو‘‘۔ میں آپ علیہ السلام کے آگے آگے چل کر دشمن سے جنگ کرنے لگا۔ خدا کی قسم رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا عشق اس حد تک میرے سینے میں موجزن ہوچکا تھا کہ اگر اس وقت میرا باپ بھی کفار کی صف میں ہوتے ہوئے مقابلہ پر آتا تو میں اس کو بھی قتل کر دیتا۔

جنگ میں مسلمان اللہ تعالیٰ و رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے صدقے کامیاب ہوئے اور دشمن کو عبرتناک شکست کا سامنا کرنا پڑا ۔ جنگ کے خاتمہ پر سرکار دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم اپنے خیمہ مبارک میں تشریف لے آئے ۔ میں بھی زیارت آفتا ب کے لئے خیمہ میں حاضر ہوا مجھے دیکھ کر ارشاد فرمایا’’ اے شیبہ ! اللہ تعالیٰ نےجو کچھ تیرے لئے چنا ہے وہ اس سے بہتر ہے جو تمہارے دل کی خواہش تھی‘‘۔ پھر نور مجسم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے کچھ بتایا جو میرے دل میں تھا اور جو میری خواہش بھی تھی۔ آپ کی گفتگو مبارکہ سن کر میں نے فوراً پڑھا۔

’’اشھد ان لا الہ الا اللہ واشھد انک رسول اللہ‘‘

پھر میں نے عرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم میرے حق میں فرئیں ۔

آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمائے۔

مذکورہ حدیث پر اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ جب سرکار صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے شیبہ کے سینے پر ہاتھ مبارک مارا تو اسی وقت شیبہ کے دل میں نور ایمان راسخ ہوگیا اور حبیب کبیریا صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم محبت جاگزیں ہو گئی جسکی وجہ سے شیبہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) نے اسی وقت اسی وقت ‘اسی آن ‘ گھڑی دشمنوں کے ساتھ جہاد شروع کردیا اور اس وقت تک دشمنو ں سے لڑتے رہے ۔ جب تک مسلمانوں نے فتح حاصل نہ کرلی۔ غور طلب بات ہے کہ اس وقت تک شیبہ نے کلمہ شہادت نہیں پڑھا تھا اس سعادت دارین سے تو وہ جنگ کے بعد مشرف ہوئے ۔ اس حدیث سے پتہ چلا کہ تصدیق قلبی ہی ایمان کی اصل و حقیقت ہے۔ اور زبان کا اقرار تو ایمان کے احکام کے اجرا کے لئے زائد ہے۔ جس کے حاصل ہوجانے کے بعد ایمان کی اصل و حقیقت ہے۔ اور زبان کا اقرار تو ایمان کے احکام کے اجرا کے لئے زائد ہے۔ جس کے حاصل ہوجانے کے بعد ایمان اصل معنی میں مکمل ہوجاتا ہے۔

اس طرح حدیث میں آتا ہے کہ لوگوں نے حضرت براء بن غازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے دریافت کیا کہ آپ غزوہ حنین کے موقعہ پر میدان سے فرار ہوگئے تھے۔ انہوں نے جواب دیا ہاں مگر سرکار دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم میدان جنگ میں بدستور تشریف فرما رہے آپ علیہ السلام کے استحکام ، صبر و شجاعت کو دیکھتے ہوئے ہم ہوازن پر اس قدر جش سے حملہ آور ہوئے کہ دشمن کے میدان ِ جنگ میں اپنا سب کچھ چھوڑ کر فرار ہوتے ہی ہم غنا ئم کی جانب متوجہ ہوئے تو دشمن نے اچانک ہم پر تیروں کی سخت بارش شروع کردی بعد میں معلوم ہوا کہ میدان جنگ سے پہلے ہی حملے میں دشمن کا فرار ہو جانا اصل میں اس کی پہلے سے ہی تیار کردہ چال تھی جس پر عمل کرتے ہوئے وقتی طور پر دشمن کامیاب ہوگیا لیکن بعد میں اسکو عبر تناک شکست سے دوچار ہونا پڑا۔

ایک شرعی مسئلے کی وضاحت

غزوہ حنین میں پیش آنے والے واقعات اور صحابہ کراب رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین کے بیانات خاص طور پر حضرت براء رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت سے یہ حقیقت کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ وہ اپنے بیان میں یہ بتانا چاہتے ہیں کہ اس غزوہ میں لوگوں پر فرار ہونے اور پریشان ہونےکی نوبت صرف اور صرف ہماری اپنی ٖغلطی کی وجہ سے آئی ۔ کیونکہ دشمن پہلے ہی حملے میں بھاگ اٹھا تھااور ہم لوگ دینوی مال کی طرف متوجہ ہوئے اور دشمن کی چال کامیاب رہی ایسا ہی واقعہ غزوۂاحد میں بھی پیش آیا تھا۔

سرکار دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم بدستور میدان ِ جنگ میں تشریف فرما رہے۔ یاد رہے رسول کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے لئے کسی بھی موقعہ پر فرار کا تصور ہی ممکن نہیں بلکہ ایسا کسی حال میں ہونا ممکنات میں سے ہی نہیں۔اسکی وجہ یہ ہے کہ آقائے نامدار علیہ السلام شجاعت اعلیٰ ترین عہدے پر فائز تھے اور آپ علیہ السلام کو حق پر کامل اعتماد بھی ایسا جو کسی حال میں کسی بھی صورت میں متزلزل ہو ہی نہیں سکتا تھا کیونکہ جس عظیم ہستی کا حق پر یقین ہو اسکے لئے متزلز ل ہونا یا فرار ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اسی بات پر اجماع امت ہے۔ سرکار دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی بابت فرار کا عقید ہ رکھنا ہزیمت کا خیال دل میں آنا نا جائز اور سخت حرام ہے۔

قا ضی عیاض مالکی رحمہ اللہ تعالیٰ اپنی کتا ب ’الشفا‘ میں مرابط مالکی سے نقل کرتے ہیں کہ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ سر کاردو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے میدان جنگ سے فرار کا راستہ اختیار یا تو ایسے شخص سے توبہ کرائیں ۔ اگر تو ایسا شخص کرے تو بہتر ہے اس کا ایمان و جان دونوں بچ جائیں گے اور اگر اس شخص نے توبہ کرنے سے انکار کیا تو اسے قتل کردیا جائے گا۔

عظمت رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا ہر حال میں خیال رہے کیونکہ اگر ایسا نہ کیا گیا تو ایمان بر باد ہوجائے گا۔

سر کارِ دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے جب اپنے ہاتھ مبارک سے دشمن کی طرف مٹی پھینکی تو اسکے تھوڑی دیر بعد ہی اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے دشمن کو ایسی شکست فاش ہوئی کہ وہ میدان ِ جنگ سے صرف اپنی جانیں بچا کر ہی بھاگ سکا باقی سارا مال غنیمت میں میسر آئے۔ اسی غزوہ کے بارے میں اللہ تعالیٰ اپنی پاک کلام میں یوں ارشاد فرمایا : سورۃ التوبہ آیات ۲۵،۲۶۔

لَقَدْ نَصَرَكُمُ اللَّهُ فِي مَوَاطِنَ كَثِيرَةٍ ۙ وَيَوْمَ حُنَيْنٍ ۙ إِذْ أَعْجَبَتْكُمْ كَثْرَتُكُمْ فَلَمْ تُغْنِ عَنكُمْ شَيْئًا وَضَاقَتْ عَلَيْكُمُ الْأَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ ثُمَّ وَلَّيْتُم مُّدْبِرِينَ (۲۵) ثُمَّ أَنزَلَ اللَّهُ سَكِينَتَهُ عَلَىٰ رَسُولِهِ وَعَلَى الْمُؤْمِنِينَ وَأَنزَلَ جُنُودًا لَّمْ تَرَوْهَا وَعَذَّبَ الَّذِينَ كَفَرُوا ۚ وَذَٰلِكَ جَزَاءُ الْكَافِرِينَ(۲۶)

ترجمہ: ’’ بے شک اللہ نے بہت جگہ تمہاری مدد کی اور حنین کے دن جبکہ تمہاری کثرت نے تم کو خود پسندی میں ڈال دیا پس وہ کثرت تمہارے کچھ کام نہ آئی اور زمین وسیع ہونے کے با وجود تم پر تنگ ہوگئی پھر تم پیٹھ دے کر پھر گئے۔ اسکےبعد اللہ تعالیٰ نے اپنی خاص تسکین اپنے رسول (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ) پر اتاری اور اہل ایمان کے قلوب پر اور ایسے لشکر اتارے جن کو تم نے نہیں دیکھا اور کافروں کو سزادی اور یہی سزا ہے کافروں کی‘‘۔

(مواہب لدنیہ جلد ۱ صفحہ ۲۹۳)

(سیرۃ ابن ہشام جلد ۲ صفحہ ۵۲۳)

(طبقات ابن سعد جلد ۱ صفحہ ۴۴۳)

(فتح الباری جلد۸ صفحہ ۳۴)

(البدایۃ والنہایۃ جلد ۴ صفحہ ۷۲۸)

(تاریخ طبری جلد ۱ صفحہ ۴۱۵)

(مدارج النبوت جلد ۲ صفحہ ۵۰۷) وغیرہ


متعلقہ

تجویزوآراء