غزوہ طائف۸ ہجری

غزوہ طائف ماہ شوال ۸ھ میں ظہور پذیر ہوا غزوہ طائف اصل میں غزوہ حنین کے سلسلے کی ہی ایک کڑی تھی۔ طائف ایک سر سبز و شاداب بڑا شہر ہے جو مکہ مکرمہ سے دو تین منزلوں پر واقع ہے اس مقام تک عرفات کے راستے سے ہوتے ہوئے وادی نعمان میں ایک رات بسر کرنے کے بعد پہنچتے تھے ۔ طائف سطح سمندر سے ۱۷۰۰ میڑبلند اور مکہ مکرمہ سے فاصلہ ۶۵ کلو میٹر ہے ۔ طائف کے نواح میں ہی شحمہ کی پہاڑی بستی واقع ہے جہاں رسالت مآب صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے اپنا بچپن گزارا تھا اور جہا ں حلیمہ سعدیہ رہتی تھیں ۔ طائف اپنے پھولوں کی پیداوار کے لئے بہت مشہور ہے۔ یہاں کے انگور اورانار وغیرہ اپنی مثال آپ ہیں۔یہاں کی آب و ہوا اور پھل بہت مشہور ہیں ،یاد رہے طائف کا نام حجاز مقدس نہیں یہ تو حجاز مقدس کا ایک شہر ہے۔ بعض روایات میں آتا ہے کہ جو باغ اصحاب صریم کے قبضہ میں تھا جس کا ذکر قرآن کریم کی سورۃ نو21ن و القلم میں ہے۔ اس سر زمین سے حضرت جبریل علیہ السلام اکھاڑ کر مکہ مکرمہ لے آئے تھے اور خانہ کعبہ کا طواف کرا نے کے بعد اس کو اسی جگہ پر واپس رکھ دیا تھا۔ اس لئے یہ علاقہ طائف کے نام سے موسم کیا گیا۔ اس سے پہلے وہ باغ صنعا کے علاقہ میں تھااور جو جگہ اب طائف کہلاتی ہے اس جگہ کو پہلے دج کہا جاتا تھا جو کہ قوم عمالیق کے ایک شخص کے نام پر ہے کیونکہ اس مقام پر سب سے پہلے وہی دج ہے اس جگہ کو پہلے دج کہا جاتا تھا جو کہ قوم عما لیق کے ایک شخص کے نام پر ہے کیونکہ اس مقام پر سب سے پہلے وہی نام شخص آکر مقیم ہوا تھا۔ (واللہ اعلم)

ایک قول ہے کہ اس شہر کو طائف کہنےکی وجہ یہ ہے کہ در اصل یہ شہر ملک شام میں تھا جہا ں ہر طرف سبز ہ زار ہیں پھر حضر ت ابراہیم علیہ السلام نےاللہ تعالیٰ سے دعا فرمائی کہ اسے سر زمین عرب کی اس اجاڑاور بے برگ و گیا ہ وادی میں منتقل فرما دے چناچہ اللہ تعالیٰ کے حکم پر حضرت جبریل علیہ السلام اس شہر کو اٹھا کر یہاں لائے تو انہوں نے اس کے گرد طواف کیا تھا یعنی اس کے چاروں طرف گھومے تھے ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے یہ دعا فرمائی تھی کہ مکّے والوں کے پھلوں کی دولت عطافرما دے جس کو قبول فرماتے ہوئے اللہ جل شانہ نے اس شاداب اور پھلوں سے بھرپور شہر کو یہاں منتقل فرمادیا۔

غزوہ حنین کے بیشترخوردہ افراد جن میں ان کا امیر لشکر مالک بن عوف نصری بھی شامل تھا بھاگ کر طائف کے قلعہ میں پناہ گزین ہوئے ۔ ان شکست خوردہ لوگوں نے پہلے سے ہی قلعہ طائف کی مکمل مرمت کرنے کے بعد اس قدر اسلحہ اور سامان ض‏خور دونوش وہاں جمع کرلیا جو ان کے لئے ایک سا ل تک کافی تھا۔ ان لوگوں نے قلعہ کے تمام دروازے بند کر لئے اور مسلمانوں کے ساتھ مقابلہ کے لئے پوری طرح تیار ہوگئے ۔

سر کار دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو ان لوگوں کے بھاگ کرقلعہ بند ہونے کی خبر ملی تو آپ نے حنین سے حاصل شدہ تمام مال غنیمت اور قیدیوں کے جعرانہ کےمقام پر جمع فرما کر حکم دیا کہ ہم طائف کی طرف روانہ ہوئے تاکہ اس علاقہ کو فتح کرنے کے بعد دشمن کو قرار واقعی سزا دی جاسکے ۔ روانگی کے وقت طفیل بن عمر دوسی کوحکم دیا کہ تم چند موحدین کو ہمرا ہ لے کر ذی الکفلین کے بت خانہ کو مسمار کرنے کے لئے روانہ ہوجاؤ۔ ذی الکفلین ایک لکڑی کا بت تھا جس کی لوگ پوجا کرتے تھے۔ حضرت طفیل بن عمرودوسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سرکار دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے حکم مبارک کے مطابق اسلامی لشکر کی روانگی سے پہلے ہی ذی الکفلین کو تباہ کرنےکے لئے روانہ ہوگئے انہوں نے اپنی قوم کو مدد کے لئے ساتھ لیا اور جا کر اس لکڑی کے بت کو جلا کر تبا ہ کر دیا ادھر سرکار دوعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اسلامی لشکر کو ہمراہ لے کر طائف پہنچ گئے اور قلعہ کا محاصرہ کے چار روز بعد حضرت طفیل بن عمر ودوسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ (بن طریف بن العاص بن ثعلبہ بن سلیم بن فہم بن غنم بن دوس ۔ یمن کے ایک گوشہ میں آباد طاقتور قبیلہ) بھی اپنے ساتھیوں کے ساتھ طائف پہنچ کر لشکر اسلام میں شامل ہوگئے ۔ واپسی پر وہ اپنے ساتھ ایک دبابہ یعنی پتھر پھینکنے والی منجنیق بھی لائے۔

زر قانی جلد ۳ صفحہ ۲۸

عیون الاثر جلد ۲ صفحہ ۲۰۰

طبقات ابن سعدجلد ۱ صفحہ ۴۴۸

مدارج النبوت جلد ۲ صفحہ ۵۰۸

مقام حنین سے طائف کی طرف روانگی سے قبل سر کار دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زیر قیادت ایک ہزار مجاہدین کا لشکر دے کر بطور مقدمہ (ہر اول دستہ) اپنے آگے طائف کی طرف روانہ کیا۔ اسکے بعد سرکار دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم خود لشکر اسلام کو ہمراہ لے کر طائف کی طرف روانہ ہوئے۔

غزوہ حنین میں اور طائف کے محاصرے میں عروہ ابن مسعود اور غبون ابن سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم شریک ہوئے تھے یہ دونوں یمن کی ایک وادی جُرش میں دبابہ۔ منجنیق اور ضبر یعنی ڈھالیں جوڑ کر حفاظتی دیوار بن جاتے ہیں۔

یہاں اس بات کا ذکر کر دینا نہایت ضروری ہے کہ طائف کی طرف روانگی سے قبل جن جن شعراء نے اشعارکہے اور ان اشعار کا مجاہدین پر کس قدر خوشگوار اثر ہوااس زمانے کے رواج کے مطابق جنگ سے پہلے جوشیلے اور پر مغز اشعار کہنا لشکرکے حق میں ہمیشہ فائدہ مند صابت ہوتا تھا۔ اس موقعہ پر کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن مالک ( بن ابی کعبہ سے ہیں) نے جو اشعار کہے وہ ترجمہ کے ساتھ تحریر کئے جا رہے ہیں۔

کعب بن مالک کے اشعار

قضینا من تھا مۃ کل ریب

وخیبر ثم اجمعنا السیوفا

نخیر ھا ملو نطقت لقالت

توا طعھن دوسا اوثقیفا

فلست لحاضن ان لم تر وھا

بساحۃ دار کم منا الو فا

ترجمہ: ’‏’ مقام خیبر اور تہامہ سے ہم لوگوں نے ہر قسم کے شک و شبہ کو دور کر کے تلواریں جمع کیں۔ (یعنی اہل تلوار آرام کرنے کے لئے کہا ) ان لوگو ں کو یہ بھی اختیار دے دیا کہ اگر چاہیں تو مقابلہ کریں اور اگر چاہیں تو آرام کریں یہ ان کی مرضی ہے۔اگر ان تلواروں کو بولنے کا رخ کر وا گر تم انہیں اپنے یار کے درمیان ہزاروں کے تعداد میں نہیں دیکھا تو میں چھپانے والا نہیں ہوں‘‘۔

و تنزع العروش ببطن دج

وتصبح دور کم منکم خلوفا

ویا تیکم لناسر عان خیل

یعادر خلفہ جمعا کثیفا

اذا نزلو الساحتکم سمعتم

لھا مما انا خ بھار جیفا

با یدیھم قو اضب مرھفات

یزدن المصطلین بھا الحتوفا

کامثال العقائق اخلصتھا

قیون الھند لم تضرب کتیفا

تخال جدیۃالابطال فیھا

غداۃ الزحف جا دیا مدوفا

اجد ھم الیس لھم نصیح’‘‏

من القوام کان بنا عریفا

یخبر ھم بانا قد جمعنا

عتاق الخیل و النجب الطروفا

وانا قد اتیناھم بز حف

یحیط بسور حصنھم صفو فا

ترجمہ: ’’ہم دج کے بطن سے مکانوں کی چھتیں اکھاڑ کر پھینک رہے تھے اوریوں یہ گھر بھی تمہارے خلاف ہوگئے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ تم لوگ ان کو خالی کر کے بھاگ گئے تھے‘‘۔

’’اور ہم سے آگے آنیوالے سوار اپنے پیچھے ایک کثیر جماعت کو چھو‏ڑ کر تمہارے پاس پہنچ گئے تھے‘‘۔

’’ ہمارے یہ سوار جب تم لوگوں کے پاس پہنچ گئے تو تم لوگوں نے اونٹوں کا شور سنا ہوگا جو وہا ں بٹھا ئے گئے تھے‘‘۔

’’ان کےہاتھوں میں وہ تیز تلواریں تھیں جن کی گرمی سے لوگو ں کو موت سے ہم کنار کیا جا رہا ہے‘‘۔

’’ یہ تلواریں بجلی کی شعاعوں کی مانند تھیں ۔ جن کو ہندوستان کے آہن گروں نے خالص لوہے سے تیار کیا تھا۔ یہ تلواریں دروازے کی چوکھٹ کی مانند بھدی اور موٹی بنی ہوئی نہیں تھیں‘‘۔

’’ جنگ کے روز بڑے بڑے بہادروں کے خون ان تلواروں کی دھار وں کے ساتھ لگے ہوئے تھے جن سے تم لوگوں کوگمان ہوا ہوگا کہ ان میں زعفران شامل کیا گیا ہے۔ (یعنی یہ تلواریں زعفرا ن سے مخلوط کر دی گئی ہیں)‘‘۔

’’ کیاان لوگوں کی طرف کشش ہو رہی ہےکیا ان جماعتوں میں کوئی ایسا نہیں ہے جو ان کونصیحت کرےاور ہمارے بارے میں ان کو آگاہ کرے‘‘۔

’’ جو انہیں یہ خبر دے کہ ہم نے پرانے شریف النسل اور کریم الاصل گھوڑے جمع کئے ہیں‘‘۔

’’ کوئی ایسا نہیں جو انہیں خبر دے کہ ہم ان پر ایک عظیم الشان لشکر لائے ہیں جو ان کے قلعے کی چاردیواری کو چاروں طرف سے صف بہ صف ہو کر گھیرے گا‘‘۔

رئیسھم النبی و کان صلبا

تقی القلب مصطبرا عزوفا

رشید الامر ذو حکم وعلم

وحلم لم یکن نزقا خفیفا

نطیع نبینا ونطیع ربا

ھوالرحمن کان بنا رؤفا

فان تلقو الینا السلم نقبل

ونجعلکم لنا عضداوریفا

وان تابو نجاھد کم و نصبر

ولا یک امرنا رعشا ضعیفا

نجالد ما بقینا او تنیبو

الی الاسلام اذعانا مفیفا

نجاھد لا نبالی من لقینا

ااھلکنا اتلاد ام الطریفا

وکم من معشر البوا علینا

صمیم الجذم منھم والحلیفا

اتونا لا یرون لھم کفاء

فجد عنا المسامع والالوفا

ترجمہ: ’’اس لشکر کے سردار اعلیٰ فخر کا ئنات سرکار دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ذات گرامی ہے جو کہ ریڑھ کی ہڈی ہیں جو کہ پاکیزہ دل نہایت ہی صبر فرمانےوالے اور نہایت ہی زاہد انہ زندگی بسر کرنے والے ہیں‘‘۔

’’ سرکار دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سیدھے سادھے معاملہ فرمانے والے قوت فیصلہ رکھنے والے صاحب علم اور بردبار ہیں۔ آپ ہلکی طبیعت رکھنے والے یا جلد غصہ میں آنے والے نہیں ہیں‘‘۔

’’ ہم لوگ اپنے نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا حکم ماننے والے ہیں ہم رب کائنات کا حکم ماننے والے ہیں جو کہ بڑا مہربان اور ہم لوگوں پر بڑی عنایت کرنے والا ہے‘‘۔

’’پس اگر تم صلح کے سلسلہ میں پیش رفت کروگے تو ہم اسے قبول کر لیں گے اور تم لوگوں کو پنے لئے بازو اور شاداب مقام بنائیں گے‘‘۔

’’ اور اگر تم صلح کر نے سے انکار کرتے ہو تو ہم تم سے جہاد کریں گے اور اس بات کو ہر اعتبار سے برداشت کریں گے اور یوں ہمارا معاملہ متزلزل نہیں ہوگا‘‘۔

’’اور ہم جب تک زندہ ہیں تم لوگوں کے ساتھ تلوار سے جنگ کرتے رہیں گے یہ سلسلہ یہاں تک جاری رہے گاکہ جب تک تم توبہ کرنے کے بعد نہایت خشوع و خضوع ، عجزوانکساری سے اسلام کے دامن میں آکر پناہ نہ لے لو‘‘۔

’’ہم تم سے جہاد کرتے رہیں گے ہم اسکی پرواہ نہیں کریں گے کہ کس کےساتھ لڑ رہے ہیں ۔ ہم نے اپنا پرانا مال تباہ کردیا ہےیا نیا اس کی پرواہ نہیں کریں گے‘‘۔

’’ بےشمار گروہ ایسے ہیں جن میں خالص حلیف ہمارے پاس جمع ہو چکے ہیں‘‘

’’ اگر وہ اگروہ ہمارے پاس یہ خیال کرتے ہوئے آئے ہیں کہ ہم ان برابری نہیں کرسکتے تو ہم ان لوگوں کی ناک کان کاٹ لیں گے‘‘۔

بکل مھند لین صقیل

نسو قھم بھا سوقا عنیفا

لامر اللہ والا سلام حتی

یقوم الدین معتد لا حنیفا

وتنسی اللات والعزد وود’‘

ونسلبھا القلائد والشنوفا

فامسواقد اقرواوا طما نوا

ومن لا یمتع یقبل خسوفا

ترجمہ: ’’ ہر ہندی نرم لچکدار اور صیقل شدہ تلوار سے جو ان لوگوں کے ان کے ناک اور کان کی رسی کے ساتھ اللہ اور اسلام کی طرف ہانک کر لائےگی۔ یہ اس لئے کہ دین حنیف اعتدال کے ساتھ سیدھا سیدھا قائم ہوجائے‘‘۔

’’ اورلات و عزی اور و دکو بھلا دیا جائے اور اہم ان بتوں کے ہار اور بندے وغیرہ چھین لیں۔ اسکے بعد ان کو قرار وا طمانیت حاصل ہوجائے پھر جو لوگ باز نہ آئیں ان کو ذلت و خواری کا سامنا کر نا پڑے ‘‘۔

کنانہ کے اشعار

کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن مالک کے اشعار کے جواب میں کنانہ ابن عبد یالیل بن عمرو نے بھی اشعار کہے جو کہ اور ترجمہ کے ساتھ ہیاں تحریر کئے جارے ہیں۔

من کان یبغینا یرید قتالنا

فانا بدار معلم لا نریمھا

وجد نا بھا الابآ ء من قبل ماتری

وکانت لنا اطوھا و کرومھا

وقد جر بتنا قبل عمر و ابن عامر

فاخبر ھاذورایھا و حلیمھا

وقد علمت ان قالت الحق اننا

اذا ماابت صحر الخدود نقیمھا

نقومھا حتی یلین شر لیسھا

ویعرف للحق المبین ظلومھا

علینا دلاص’‘ من تراث محرق

کلون السماء زینتھا نجومھا

نرفعھا عنا بیض صوارم

اذا جردت فی غمرۃ لا نشیمھا

ترجمہ: ’’جو شخص ہم سے بغاوت کرتا ہے پھر وہ ہم سے لڑنے کا منصوبہ تیار کرلیتا ہے تو ہم اپنے نشان زدہ دیار سے کسی طرح ٹلنے والے نہیں ہیں‘‘۔

’’ تمہیں دیکھنے سے پہلے اسی جگہ ہمنے اپنے باپ دادا کو دیکھا ہے کہ یہ کنوئیں اور انگوروں کے باغ وغیرہ سب ہمارے ہیں‘‘۔

’’ اور اس سے قبل قبیلہ عمر وابن عامر ہمارا تجربہ اچھی طرح کر چکا ہے اس قبیلے کے صاحب الرائے اور عاقل لوگوں نے ہمیں خوداس امر کی اطلاع دی ہے‘‘۔

’’اگر یہ سچی حق بات کہیں توٹھیک کیونکہ انہیں علم ہے کہ ہم نے تکبرانہ انکار کرنیوالے لوگوں کے چہرے سیدھے کر دیئےہیں‘‘

’’ ہم لوگ ٹیڑھےمنہ رکھنے والے لوگوں کو ٹھیک کر دیتے ہیں۔ یہاں تک کہ انکا یہ ٹیڑ‏ھا پن بالکل نرم پڑجاتا ہے۔ اور پھر یہاں تک کہ ان کے وہ لوگ جو ٹیڑھا پن رکھتے ہیں حق کو جان لیتے ہیں‘‘۔

’’ہماری یہ زرہیں وہ ہیں جن کو ہم نے محرق سے وراثت میں حاصل کیا ہے۔ (محرق ابن عامر کو کہتے ہیں یہ وہ شخص ہے جس نے سب سے پہلے عرب کو آگ سے جلایا تھا) ہماری یہ زرہیں آسمان کے رنگ کی ہیں جن کو ستاروں نے سجا رکھا ہے‘‘۔

’’ہم ان زرہوں کو ان چمکنے والی تیز کاٹ کی تلواروں کے ساتھ اپنے سے اٹھا کر رکھ دیتے ہیں۔ یہ وہ ہیں جو اگرگھمسان کی جنگ میں ایک دفعہ ننگی ہوجائیں تو پھر ہم انہیں نیام میں واپس نہیں رکھتے‘‘۔

شداد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اشعار

ابن اسحاق رحمتہ اللہ علیہ رقمطراز ہیں کہ جب سرکار دوعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم طائف کی طرف روانہ ہوئے تو اس موقعہ پر شداد رضی اللہ تعالیٰ عنہ ابن عارض حبشمی نے یہ اشعار کہے۔ اشعار اردو ترجمہ کے ساتھ تحریر کئے جارہے ہیں۔

لاتنصرو اللات ان اللہ مھلکھا

وکیف ینصرمن ھو لیس ینتصر

ان لتی حرقت بالسد فاشتعلت

ولم یقاتل لدی احجار ھا ھدر

ان الرسول متی ینزل بلا دکم

یظعن ولیس بھا من اھلھابشر

ترجمہ: ’’اے لوگوں! لات کی مدد مت کرو۔ اللہ اسکو ہلاک و تباہ کرنیوالا ہے اور پھر جو اپنی مدد آپ نہیں کر سکتا وہ دوسروں کی کس طرح مدد کر سکتا ہے‘‘۔

’’یہ وہ لات ہے جس کو وادی میں جلایا گیا اور پھر اسکی آگ خوب دہکتی رہی اس بات کے پتھروں کے پاس لا کر اسکے خون کا بدلہ لینے کے لئے کس قسم کا کوئی قتل نہیں کیا گیا‘‘۔

’’سرکار دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم جب تمہارے شہر میں تشریف لائے ہیں تو تم لوگ سب کچھ چھوڑ کر کوچ کر جاتے ہو اوریوں یہاں کے باشندوں میں کوئی انسان ہی نظر نہیں آتا‘‘۔

طائف کا راستہ

سرکار دو عالمصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم جعرانہ سے طائف کی طرف روانہ ہوئے ۔ راستے میں نخلہ ، یمانیہ پھر قرن اور اسکے بعد ملیح سے ہوتے ہوئے لیۃ کے مقام پر بحرۃ الرغاء پہنچے ۔ مقام لیۃ پر مالک بن عوف نصری کا ایک قلعہ تھا۔ سرکار دو عالمصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس قلعہ کو مہندم کروادیا پھر یہاں ایک مسجد تعمیر کروائی اور وہاں نمازیں بھی ادا فرمائیں۔

ابن اسحٰق کا بیان کہے کہ مجھے عمر وابن شعیب نےبتایا کہ جب فخر دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم بحرۃ الرغا میں جلوہ افروز ہوئے تو آپ نے اس مقام پر خون بہا کے قصاص میں ایک شخص کے قاتل کرنے کا حکم صادر فرمایا اور یوں یہ سب سے پہلا قصاص تھا جو کہ اسلام میں لیا گیا۔ اس قتل کا پس منظر یہ تھا کہ بنولیث کے ایک آدمی نے بنو ہذیل کے ایک آدمی کو قتل کر دیا تھا جرم ثابت ہونے پر اس مقتول کے بدلے میں قاتل کو قتل کرنے کی سزادی گئی ۔ یہاں سے اس راستے روانگی اختیار کی جسے ضیقہ کہا جاتا تھا۔ فخر دو عالم نور مجسم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے راستے کا نام دریافت فرمایا تو لوگوں عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس راستے کا نام ضیقہ ہے۔ عربی زبان ضیقہ کے معنی (تنگ)کے ہیں نام سن کرارشاد فرمایا ’’بل ھی الیسری‘‘ (یعنی یہ راستہ تنگ نہیں بلکہ آسان ہے‘‘) اس راستے کو عبور کرنے کے بعد نخب کی جانب روانہ ہوئے ۔راستے میں ایک درخت کے نیچے تشریف فرماہوئے۔اس درخت کو صادرہ کہا جاتا تھا۔ یہ درخت بنو ثقیف کے ایک آدمی کی ملکیتی زمین کے قریب واقع تھا۔ سرکار دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس شخص کو پیغام بھیجا کہ ’’ تواپنے باغ میں سے نکل جاورنہ ہم تیرے باغ کو خراب کردیں گے‘‘۔ اس شخص نے باغ کو چھوڑ کر نکل جانے سے انکا کر دیا جس کے نتیجہ میں آپ نے باغ کو برباد کر دینے کا حکم فرمایا۔

طائف کےتمام راستوں کو طے کرنے کے بعد سرکار دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم لشکر سمیت قلعہ طائف کے نیچے خیمہ زن ہوئے ۔ مالک بن عوف نصری جو کہ ہوازن کا سپہ سالار تھا۔ اپنی فوج کے ہمراہ اس قلعہ میں پہلے سے ہی قلعہ بند ہوچکا تھا اس نے کئی سالوں کا سامان خوردونوش پہلے ہی اس قلعہ میں اکٹھا کر لیا تھا ۔ قلعہ دفاعی اعتبار سے بہت محفوظ تھا۔ مسلمانوں نے بڑی کوشش کی کہ قلعہ میں کسی نہ کسی طریقے سےداخل ہوجائیں مگر کامیابی نہ ہوسکی قلعہ کی فصیل سے دشمن کے تیراندازوں نے اسقدر سخت تیر اندازی کی کہ مسلمانوں کے بہت سے سپاہی شیدید زخمی ہو گئے چند رفقا ء نے جام شہادت بھی نوش کیا جنکی تعداد بارہ تھی۔

حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دشمن کو دست بدست مقابلہ کے لیے للکارا مگر دشمن نے جواب دیا کہ ہم قلعہ سے باہر آکر نہیں لڑیں گے۔ ہمارے پاس کئی سالوں کا راشن اور سامان حر ب موجود ہے۔ مگر جب یہ ختم ہو جائے گا تو ہم تلواریں سونت کر قلعہ سے باہر آکر لڑیں گے۔ یہ صورتحال دیکھتے ہوئے سرکار دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو قلعہ کی فصیل سے دور ہٹا کر اس نئی تعمیر شدہ مسجد کے قریب خیمہ زن ہونے کا حکم دیا ۔ یہ مسجد آج بھی طائف میں موجود ہے۔

صحیح مسلم شریف حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت ہے کہ محاصرہ اس قدر طویل ہوگیا کہ ہم چالیس روز تک محاصرے کی کیفیت میں رہے ۔ بعض اہل سیرمدت محاصرہ بیس روز جبکہ چند پندرہ روز اور کچھ اٹھارہ روز تحریر کرتے ہیں۔(وللہ اعلم)

طبقات ابن سعد جلد ۱ صفحہ ۴۴۹

سیرۃ ابن ہشام جلد ۲ صفحہ ۵۸۴

مدارج النبوۃ جلد ۲ صفحہ ۵۱۰

فتح الباری جلد۱ صفحہ ۴۲۰

تاریخ طبری جلد ۶۱۸

البدایہ والنہایہ جلد ۵ صفحہ۶۱۸

اس سفر میں امہات المومنین میں سے سیدہ زینب اور سیدہ ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہن ہمراہ تھیں۔ امہات المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہن کے لئے الگ خیمو ں کا بندو بست تھا ۔ سرکار دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ان دونوں خیموں کے درمیان نماز ادا فرماتے تھے۔ اس کے بعد ثقیف اسلام لائے تو رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کےنماز پڑھنے کی جگہ عمر و ابن امیہ ابن وہب ابن متعب بن مالک نے ایک مسجد تعمیر کرائی اس مسجد میں ایک ستو ن تھا بعض لوگوں کا بیا ن ہے کہ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا تھا کہ اس سے آواز سنائی نہ دیتی ہو۔ زخمی ہونے والوں میں حضرت عبداللہ بن ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی شامل تھے۔ بعض صاحب سیر کے قول کے مطابق حضرت عبداللہ بن ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر ابو محجن ثقی نے تیر بر سا یا تھا جس سے وہ زخمی ہوگئے گو ان کا یہ زخم مندمل ہو گیا تھا مگر اسرکار دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے وصال شریف کے بعد عہد صدیقی میں یہی زضم پھر سے کھل گیا اور آپ نے جام شہادت نوش فرمایا۔ ان بارہ شہداء میں سید ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بھائی حضرت عبداللہ بن امیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی شامل تھے۔ اور اس طرح شہدائے غزوہ طائف میں چار انصاری۔ سات قریشی اور ایک کا تعلق قبیلہ لیث سے تھا۔

سرکار دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے مجاہد ین کو حکم کو فرمایا کہ’’اہل طائف کے جو پھل داردرخت ہیں ان سب کو کاٹ کر باغات ویران کردئیے جائیں‘‘۔ مجاہدین نے ان درختوں کو کاٹنا شروع کر دیا تاکہ مشرکین اس نقصان سے ذلیل و رسوا ہو سکیں ۔ باغات کے مشرکین مالکوں کو جب علم ہوا تو انہوں نے سرکار دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو اللہ کی قرابت کا واسطہ دے کر زاری کے ساتھ گزارش کی کہ آپ ہمارے درخت نہ کاٹین رحمت عالم نور مجسم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔

انی ادعھا للہ وللرحم

ترجمہ: ’’میں اللہ تعالیٰ کے واسطے اور رحم و کرم قرابت داری کے واسطے ان درختوں کو کاٹنے سے روکتا ہوں‘‘۔

اسلامی لشکر کے ایک دستہ نے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے حکم مبارک سے پہلی دفعہ دبابہ میں بیٹھ کر (دبابہ لکڑی کی ایک اونچی مچان کو کہتے ہیں جس کے نیچے پہیے لگے ہوتے ہیں اور اس مچان کے اند بیٹھ کر اسے دھکیل کر قلعہ کی فصیل کے پاس چلے گئے ۔ مشرکین ثقیف نے ان مجاہدین پر فصیل سے لوہے کی گرم سلاخیں برسانا شروع کردیں جس کے نتیجہ میں دبابہ کو آگ لگ گئی اور یوں مسلمانوں کو مجبوراً فصیل سے دور ہٹنا پڑا ۔

غزوہ طائف میں منجنیق کا استعمال

سرکار دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے حکم مبارک سے پہلی دوفعہ قلعہ پر منجنیق استعمال کی تھی جو حضرت طفیل بن عمر و دوسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے ہمراہ لائے تھے۔ رسول اللہصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم عرب میں وہ پہلے ذات مقدسہ تھی جنہوں نے طائف کے قلعہ بند مشرک دشمن پر پتھروں کی بارش کرنے کا حکم فرمایا۔

سنگ باری کے نتیجہ میں اہل قلعہ میں سے کچھ لوگ باہر نکل کر مسلمانوں کے ساتھ نبرد آزما ہوئے مگر جانی نقصان اٹھانے کے بعد دوبارہ قلعہ قلعہ بند ہوگئے۔ لڑائی کے دوران حضرت ابو سفیان صحر بن حرث (حارث) کی ایک آنکھ ضائع ہوگئی۔ وہ سرکار دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے انہوں نے اپنی ضائع شدہ آنکھ کو اپنی ہتھیلی پر رکھا ہوا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے یہ دیکھ کر ارشاد فرمایا ’’ اے ابو سفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ تم کون سی آنکھ کو پسند کرتے ہو وہ جو تمہیں جنت میں عطا کی جائے یا وہ جو تمہیں دنیا ہی میں عطا فرمادے‘‘۔یہ فرمان سن کر عرض کیا میرے نزدیک وہ آنکھ محبوب ترین ہے جو جنت میں عطا کی جائے یہ عرض کرنے کے بعد اپنا نکلا ہوا ڈیلا زمین پر پھینک دیا۔ اہل سیر کا بیان ہے کہ دوسر ی آنکھ سے بھی وہ جنگ یرموک میں حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں نا بینا ہو گئے تھے۔ ابو سفیان ابن حرث رسول کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے چچا (تایا) حرث(حارث) کے بیٹے تھے اور رسول کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے رضاعی بھائی بھی تھے ۔ کیونکہ انہوں نے دایہ حلیمہ سعدیہ کا دودھ پیا تھا۔ ان کے والد حرث (حارث) حضر ت عبدالمطلب کے سب سے بڑے بیٹے تھے۔ زخمیوں میں ابو سفیان ابن حرب بھی شامل تھے جو ہندہ بنت عتبہ کے شوہر تھے اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے والد تھے۔

مواہب لدنیہ روایت از: حافظ بدرالدین عراقی شرح شریف

مدارج النبوۃ جلد۲ صفحہ ۵۱۱ و تاریخ ابن سعدوغیرہ

طائف کے غلاموں کی آزادی کا اعلان

سر کار دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنے نقیبوں کو حکم فرمایا کہ قلعہ فصیل کے قریب جا کر اعلان کر دو کہ جو غلام قلعہ سے نکل کر ہمارے پاس ہماری پناہ میں آجائے گا وہ آزاد ہوگا۔ اس اعلان ِ رحمت کے بعد قلعہ سے دس بارہ اور ایک دوسری روایت کے مطابق ۲۳ غلام باہر نکل کر حاضر خدمت ہوئے ۔ ان میں ابو بکرہ بھی تھے۔ (جماعت کے باپ ) ان کی نسبت سے باہر نکلنے والے غلاموں کو ابو بکرہ کہا گیا۔ ابو بکرہ کا اصل نام نفیع بن الحارث تھا یہ اخیار صحابہ میں سے ہوئے ہیں۔ ان سب غلاموں کو آزاد کر دیا گیا اور یوں ان کی آزادی حق تعالیٰ کی طرف منسوبب کردی گئی ۔ ان آزاد غلاموں کی آزادی بڑی ہی شاق تھی چنانچہ بعد میں جب طائف کے لوگ مسلمان ہوئے تو انہوں نے ان غلاموں کو واپس لینے کے لئے خدمت اقدس میں گزارش کی۔ سرکار دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’ وہ اب تمہارے غلام نہیں رہے بلکہ وہ اللہ کریم کے آزاد کردہ ہیں‘‘۔

ایک وضاحت

یہاں اس بات کی مزید وضاحت کردینا بھی ضروری ہے کہ حضرت نفیع بن الحارث رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی کنیت ابو بکرہ کیوں رکھی گئی۔ اوپر اسکی ایک وجہ پہلے ہی تحریر کر چکے ہیں دوسری وجہ یہ تھی کہ حضرت نفیع بن الحارث رضی اللہ تعالیٰ عنہ فصیل سے ایک گراری یا چرخی کی مدد سے (جس کو رہٹ یا کنویں سے پانی کھینچنے کے لئے سر کار دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کی کنیت ہی بکرہ رکھ دی۔

( از: بخاری شریف جلد ۲ صفحہ ۲۶۰)

(البدیۃ والنہایۃ جلد ۴ صفحہ ۷۵۴)

(سیرۃابن ہشام جلد ۲ صفحہ ۵۸۴)

(طبقات ابن سعدجلد ۱ صفحہ ۴۴۸)

(مدارج النبوت جلد ۲ صفحہ ۵۱۰ ) وغیرہ

ابی رغال کی قبر سے گزر

سر کار دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم جب اپنے لشکر کے ہمراہ طائف کی طرف تشریف لے جارہے تھے تو راستہ میں ایک قبر پر سے گزرہوا ۔ ابن اسحق متعدد دوسرے حوالوں کے علاوہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زبانی روایت بیان کرتے ہیں کہ جب ہم اس قبر کے قریب پہنچے تو رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ’ ’ یہ قبر بنو ثقیف کے ایک شخص ابی رغال کی ہے جو پہلے قوم شمود کے ہمراہ رہتا تھا۔ جب قوم ثمود پر عذاب الٰہی نازل ہوا تو یہ شخص وہا ں سے بھاگ کر اس جگہ آگیا۔ اپنے لئے قیام گاہ تعمیر کرلی‘‘۔

’’موت سے قبل اس شخص نے وصیت کی کہ میرے جسم کے ہمراہ میرا جمع شدہ سارا سرمایہ بھی دفن کر دیا جائے اس کے لواحقین نے اس وصیت پر عمل کرتے ہوئے ساری دولت بھی قبر میں کردی‘‘ پھر ہم نے سرکار دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے حکم مبارک کے مطابق جب اس شخص کی قبر کو کھودا تو اس میں مدفون خزانہ بر آمد ہوا۔ اس خزانے کے لئے یہ بات بھی مشہور تھی کہ اگر کسی نے اس خزانے کو استعمال کیا تو وہ شدید مصیبت میں گرفتار ہو جائے گا مگر سرکار دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ’’ یہ بات گزشتہ لوگوں کی تو ہم پرستی ہی ہے خزانے کو استعمال کرنے سے کسی قسم کی کوئی مصیبت یا آفت پیش نہیں آسکتی‘‘ (از: البدیۃ النہایۃ جلد۴ صفحہ ۷۵۵)

یہ روایت ابو داؤد نے بھی یحییٰ بن معین ، وہب ابن جریر بن خادم اور ان کے والد نے ابن ِ اسحٰق کے حوالہ سے پیش کی ہے۔ امام بیہقی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے بھی اس روایت کو یزید بن زریع انہوں نے روح بن قاسم اوراسمٰعیل بن امیہ کے حوالے سے بیان کیا ہے۔

بنو ثقیف سے گفتگو

طائف کے محاصرہ کے دوران ابو سفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن حرب اور مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اہل ثقیف کے ساتھ گفتگو ہوئی۔ بنو ثقیف کے چند سر کردہ لوگ قلعہ سے باہر نکل کر ان سے گفتگو کے لئے آئے۔ ابو سفیان اور مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے کہا کہ ہمارے ساتھ گفتگو کرنے کے لئے قریش اور بنو کنانہ کی چند عورتوں کو بھی آنا چاہئے تھا مگر بنو ثقیف کو یہ اندیشہ تھا کہ اگر ہماری یہ عورتیں باہر نکلیں تو ان کو گرفتار کر لیا جائے گا دوسرا ان عورتوں نے بھی باہر آنے سے انکار کردیا ۔ ان عورتوں میں آمنہ بنت ابو سفیان یا بعض روایات کے مطابق میمونہ بنت ابو سفیان بھی شامل تھیں جو کہ عروہ ابن مسعود کی بیوی اور داؤد بن ابو امرہ کی والدہ تھیں۔ اسی طرح جن عورتوں نے باہر آنےسے انکار کیا تھا ان میں فراسیہ بنت سوید بن عمر و بن ثعبلہ بھی شامل تھیں جن کے بیٹے کانام عبدالرحمٰن بن اقارب تھا۔

ابن اسود بن مسعود نے ابو سفیان و مغیرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے کہا تم لوگ جس مقصد کے لئے یہاں آئے ہو کیا میں تمہیں اس سے بہتر چیز نہ بتادوں پھر کہا تم لوگو ں کو اسود بن مسعود کے بیٹوں کی ملکیتی جگہ کا اچھی طرح علم ہے اس پورے علاقہ طائف میں کوئی بھی جائیداد اسود بن مسعود کے بیٹوں کی جائیداد کے مقابلہ میں قیمتی اور پھل دینے والی نہیں ہے۔ اگر محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس جگہ کے درختوں کو کاٹ دیا تو پھر کبھی بھی وہ سر سبز و آباد نہیں ہوں گے۔ آپ دونوں ان سے بات کریں کہ اگر وہ اس جگہ کو اپنے لئے لینا چاہیں تو لے لیں او ر اگر اللہ اور اپنے رشتہ داروں کے لئے چھوڑنا چاہیں چھوڑدیں کیونکہ ہمارے اور محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے درمیان جو قرابتداری ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ، سرکار عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو جب اسود بن کی درخواست پہنچی تو آپ اس مذکورہ جائیداد کو اسود بن مسعود کے بیٹوں کے لئے چھوڑدیا۔

(از: سیرۃ ابن ہشام جلد۲ صفحہ ۵۸۶)

(البدایۃ والنہایۃ جلد ۴صفحہ۷۵۴)

سرکار دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا خواب

سرکار دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے محاصرہ طائف کے دوران ایک رات خواب دیکھا کہ آپعلیہ السلام کے سامنے دودھ سے بھرا ہوا ایک پیالہ پیش کیا گیا کچھ روایات میں آتا ہے کہ مکھن سے بھرا ہوا پیالہ پیش کیا گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے نوش فرمانے سے پہلے ایک مرغ نے اپنی چونچ ڈال کر اس پیالے کو انڈیل دیااور یوں سارا دودھ یا مکھن بہہ گیا۔

سرکار دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے سیدنا حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو کہ خواب کی تعبیر بتانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔ اس خواب کی تعبیر دریافت فرمائی انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اللہ کی طرف سے اس سال قلعہ فتح کرنے کی اجازت نہیں ہے حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’میرے نزدیک بھی اس خواب کی یہی تعبیر ہے‘‘۔

(از : سیرۃ ابن ہشام جلد ۲ صفحہ ۵۸۷)

(البدایۃ والنہایۃ جلد ۴ صفحہ ۷۵۴)

(مدارج النبوۃ جلد ۲ صفحہ ۵۱۳)وغیرہ

حضرت نوفل رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن معاویہ سے مشورہ

کتب سیر میں آتا ہے کہ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت نوفل بن معاویہ دیلمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مشورہ طلب فرمایا انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اہل ثقیف کی مثال ایسی لومڑی کی مانند ہے جس کو اگر پکڑنے کی کشش کریں تو وہ پکڑی نہیں جاتی بلکہ اپنی بلوں میں گھس کر چھپ جاتی ہے اور اکر اس کو چھوڑ دیا جائے تو کسی قسم کا نقصان نہیں پہنچاتی ۔ اگر آپ علیہ السلام اس لومڑی کے بل پر کھڑے رہیں تو یہ پکڑی جائے گی اور اگر آپ علیہ السلام اس لومڑی کو آزاد چھوڑ دیں تو یہ کوئی ضرر بھی نہیں پہنچاسکتی پھر سید نا حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ حاضر خدمت ہوئے اور عر ض کی۔

یا رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم میرے علم میں آیا ہے کہ خداوند تعالیٰ نے آپ علیہ السلام کو طائف فتح کرن کی ابھی اجازت عطا نہیں کی اس لئے اگر آپ حکم فرمائیں تو لشکر کو یہاں سے واپسی کا اعلان کردوں ۔ سرکار دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’میری طرف سے لشکر کو کوچ کا حکم سنا دو‘‘۔حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لشکر کو واپسی کا حکم سنایا تو لوگوں نے کچھ لیت و لعل کا مظاہرہ کیا اور کہنے لگے کہ ہم واپس کس طرح جا سکتے ہیں جبکہ ابھی طائف فتح نہیں ہوا۔ یہ سن کر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا ’’صبح کے وقت لڑا ئی پر جاؤ ‘‘ چنانچہ مجاہدین صبح کو جنگ پر گئے تو زخمی ہو کر واپس آئے اس پر رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا’’ انا قافلون غدا انشااللہ تعالیٰ‘‘ ’’انشاء اللہ ہم کل واپس ہوں گے‘‘یہ سن کر اہل لشکر خوش ہوگئے اور واپسی کے لئے کوچ کیا سرکار دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ان کو دیکھ کر تبسم فرمارہے تھے۔

جب کوچ کا وقت آیا تو سرکار دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اے مسلمانو! اس طرح پڑھو:۔

’’لا الہ الا اللہ وحدہ صدق وعدہ و نصر عبدہ و ھزم الا حزاب وحدہ‘‘

ترجمہ: ’’ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔ اس کا وعدہ سچا ہے۔ اس نے اپنے بندے کی مدد فرمائی اس اس اکیلے نے احزابی لشکر کو شکست دی‘‘۔

پھر جب اہل لشکر نے اپناساما ن اٹھا کر کوچ کیا تو فخر دو عالم نورِ مجسم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اے مجاہدین اسلام اب یوں پڑھو:

’’اٰئبون تائبون ط عابدون لربنا حامدون‘‘

ترجمہ: ’’ہم پلٹنے والے ، توبہ کرنے والے ، عبادت گزار ہیں اور اپنے رب کی حمد (تعریفیں) کرتے ہیں‘‘۔

اس موقعہ پر حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ خدمت اقدس میں عرض کی یارسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اہل طائف کے لئے بد دعا کیجئے جواب میں آپ علیہ السلام نے ارشاد فرمایا:

’’اے اللہ ثقیف کو ہدایت فرما اور انہیں مسلمان کی حیثیت سے ہمارے پاس بھیج دے‘‘۔

اہم نکتہ

اس جگہ قابل غور امریہ ہے کہ جب سرکار دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے دشمنوں کے خلاف جہاد پر نکلتے سامان حرب یعنی گھوڑے ، ہتھیار اور دوسروے آلات جہاد وغیرہ تیار فرما لیتے تمام صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین کو تیاری کا حکم دیتے سامان خوردنوش اور آلات حرب کسی صحابی کے حوالے مرما کر خود خالی ہاتھ ہوتے اپنے تمام کام اللہ کے سپرد کر دیتے اور یہ دعا پڑھا کرتے۔

’’اٰئبون تائبون عابدون لربنا حامدون صدق اللہ وعدہ و نصر عبدہ و ھزم الاحزاب وحدہ‘‘

اس دعا میں دیگر تمام اسباب کی نفی ہو جاتی تھی اور پھر یہ حقیقت بھی ہے کیوں کہ انسان اپنے تمام جملہ افعال کے ساتھ کریم کا ہی پیدا کردہ ہے۔ پس یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کا ہے وہ جس کو چاہتا ہے اختیار ات عطا فرما دیتا ہے پس یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ ہی کرنے والا ہے اور سب کچھ اسی کی طرف رجوع ہوتا ہے اگر وہ چاہے تو کفار کو قتا ل کے بغیر ہی ہلاک فرما دے قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے: سورۃ محمد آیت ۴

فَإِذَا لَقِيتُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا فَضَرْبَ الرِّقَابِ حَتَّىٰ إِذَا أَثْخَنْتُمُوهُمْ فَشُدُّوا الْوَثَاقَ فَإِمَّا مَنًّا بَعْدُ وَإِمَّا فِدَاءً حَتَّىٰ تَضَعَ الْحَرْبُ أَوْزَارَهَا ۚ ذَٰلِكَ وَلَوْ يَشَاءُ اللَّهُ لَانْتَصَرَ مِنْهُمْ وَلَٰكِنْ لِيَبْلُوَ بَعْضَكُمْ بِبَعْضٍ ۗ وَالَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَلَنْ يُضِلَّ أَعْمَالَهُمْ

ترجمہ: ’’تو جب کافروں سے تمہارا سامنا ہوتو گردنیں مارنا ہے یہاں تک کہ جب انہیں خوب قتل کر لو تو مضبوط باندھو پھر اس کے بعد چاہے احسان کر کے چھوڑدو چاہے فدیہ لے لو یہاں تک کہ لڑائی اپنا بوچھ رکھ دے۔ بات یہ ہے اور اللہ چاہتا تو آپ ہی ان سے بدلہ لیتا مگر اس لئے کہ تم میں ایک کو دوسرے سے جانچے اور جو اللہ کی راہ میں مارے گئے اللہ ہر گزان کے عمل ضائع نہ فرمائے گا‘‘۔

مکلف پر ہر دو حالتوں میں امتثال (حکم کی تعمیل ) واجب ہے یعنی اسباب فراہم کرنے میں بھی جیسا کہ سرکار دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی عادت مبارکہ تھی آپصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سب سے پہلے اسباب مہیا فرما تے تھے تاکہ امت کو ایسا کرنے کی علمی تشریح دکھا ئی جاسکے اس کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع فرماتے تھے۔ اور یوں اسرا معاملہ خداوند قدوس کے سپرد فرما دیتے تھے۔ پھر اللہ جو کچھ بھی چاہتا رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے ہاتھ پر ظاہر فرما دیتا اللہ کریم ہی اصل حقیقت کا جاننے والا ہے۔

(از: طبقات ابن سعد جلد ۱ صفحہ۴۴۹)

(سیرۃ ابن ہشام جلد۱ صفحہ ۴۳۳)؏

(البدایۃ والنہاریۃ جلد ۴ صفحہ ۷۵۸)

(تاریخ طبری جلد ۱ صفحہ ۴۳۳ ، مدارج النبوت جلد ۲ صفحہ ۵۱۴) وغیرہ

عیینہ بن حصن اور اس کا خفیہ ارادہ

سر کار دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے حکم مبارک پر جب لشکر اسلام کوچ کے لئے تیار ہو رہا تھا مجاہدین اپنا سامان باندھ چکےتھے۔ اس موقعہ پر سعید بن عبید بن عمر و ابن علاج نے صدا بلند کی کہ آیا کوئی خاندان ایسا ہے جو یہاں رکنا چاہتا ہو اس صدا کے جواب میں عیینہ بن حصن نے کہا ہاں خدا کی قسم یہ لوگ یعنی (اہل طائف) بڑے صاحب اثر اور شرف والے ہیں۔

عیینہ بن حصن کا یہ جواب سن کر ایک مسلمان نے کہا اے عیینہ ، خدا تجھے غارت کرے تو سرکار دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی بجائے ان لوگوں کی تعریف و مدح کر رہا ہے جبکہ روانگی سے قبل یہاں صرف رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی مدد و نصرت کا عہد کر کے آیا تھا اس پر عیینہ بن حصن نے جواب دیا خدا کی قسم میں یہاں ہر گز اس ارادے سے نہیں آیا تھا کہ لشکر اسلام کے ساتھ مل کر بنو ثقیف سے جنگ کروں میرا منشا تو صرف یہ تھا کہ محمد (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) طائف کو فتح کر لیں گے تو میں بنو ثقیف سے اپنی باندی واپس حاصل کر لوں گا اور شاید اس کے بطن سے میرا کوئی بیٹا بھی ہو۔ ثقیف ،ذہانت و فطانت کے اعتبار سے عجیب و غریب قوم ہے۔

ابی بن مالک قشیر ی

محاصرہ طائف کےدوران ثقیف والوں نے مروان رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن قیس دوسی کے کچھ لوگوں کو گرفتار کر لیا ۔ اس گرفتاری کی وجہ یہ تھی کہ مروان رضی اللہ بن قیس مسلمانوں ہوچکے تھے اور انہوں نے ثقیف کے خلاف سرکار دوعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی بھر پور حمایت کی تھی۔ اہل ثقیف بیان کرتے ہیں کہ غزوہ طائف کےموقعہ پر رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے مروان رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن قیس دوسی سے ارشاد فرمایا:’’ تم اپنے آدمیوں کے بدلے میں ثقیف کا جو شخص پہلے نظر آئے اس کو پکڑ لو‘‘چنانچہ ابی بن مالک قیشر ی مروان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ملے تو مروان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کو پکڑ لیا اسکے نتیجہ میں ثقیف نے مروان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے آدمی چھوڑ دیئے اور یوں مروان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ابی بن مالک قشیری کو آزاد کر دیا ۔ اس واقعہ کے راوی ابن اسحٰق رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ ہیں۔

اس واقعہ کے بعد ضحاک بن سفیان نے ابی ابن مالک کے ساتھ اپنی خلش کی وجہ سے اشعار بھی کہے جو کہ اردو ترجمہ کے ساتھ تحریر کئے جا رہے ہیں۔

اتنسی بلائی یا ابی ابن مالک

غداۃ الرسول معرض ’‘ عنک اشوس

یقود ک مروان ابن قیس بحبلہ

ذلیلا کما قیدالذلول المخیس

فعادت علیک من ثقیف عصا بۃ’‘

متی یا تھم مستقبس الشر یقبسوا

فکانوا ھم المولی فعادت حلومھم

علیک و قد کاوت بک النفس تیاس

ترجمہ: ’’اے ابی ابن مالک کیا تو میرے اس وقت کے احسان کو بھول گیا ہے جب رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم تجھ سے اعراض فرما رہے تھے اور مروان ابن قیس تجھے اپنی رسی سے بندھے نہایت ذلت کے ساتھ لئے جا رہا تھا ۔ وہ تجھے اس طرح لئے جا رہا تھا جسے کسی نہایت ہی ذلیل اور حقیر آدمی کے لے جا یا جاتا ہے‘‘۔

’’پھر جب ثقیف کی وہ جماعت تیرے پاس آئی جس کے پاس جب بھی کوئی شرکی چنگاری سلگا نے آتا ہے تو یہ اسکے لئے انتظام کر دیتے ہیں‘‘۔

’’ وہ یعنی ثقیف تیرے آقا بن گئے مگر جب تیرے بارے میں ان کی سمجھ میں کچھ آگیا تو نہوں نے اسی وقت تجھے رِہا کر دیا حالانکہ اس وقت تیری روح مایوس ہو چکی تھی‘‘۔

(از: سیرۃ ابن ہشام جلد ۲ صفحہ ۵۸۸)

مہاج شہدا ء کے اسماء گرامی

غزوۂ طائف میں سرکار دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے لشکر میں سے جو مہاجر صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین شہیدا ور زخمی ہوئے ان کے اسماء گرامی کی تفصیل یہ ہے:۔

۱) قبیلہ قریش کی مشہور شاخ خاندان بنو امیہ ابن شمس میں سے حضرت سعید بن عاص بن امیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور اس خاندان کے حلیف بنوا سد بن غوث کے حضرت عرفط بن حباب رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔

۲) قبیلہ بنو تیم بن مرہ لوگوں میں سے سید نا حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فرزند ارجمند حضرت عبداللہ بن ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہما۔ گو اس غزوہ میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ثقیف کی طرف سے چلائے جانے والے تیرسے زخمی ہوئے۔ تیر کا یہ زخم گو منہدم ہوگیا مکر بعد میں عہد صدیقی میں دو بارہ کھل گیا اور اسکی وجہ سے آپ نے جام شہادت نوش کیا۔

۳) حضرت عبداللہ بن امیہ بن مغیرہ رضی اللہ تعالی عنہ جن کا تعلق قبیلہ بنو مخزوم سے تھا اس غزوہ میں تیر لگنے کی وجہ سے شہید ہوئے۔

۴) حضرت عبداللہ بن عامر بن ربیعہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو کہ قبیلہ بنو عدی بن کعب میں سے تھے اوراس قبیلہ کے حلیف تھے اس غزوہ میں شہادت کے عظیم منصب پر فائز ہوئے۔

۵) قبیلہ بنو سہم بن عمر و میں سے حضرت عبداللہ بن حارث رضی اللہ تعالیٰ عنہ شہید ہوئے ان کا تعلق قبیلہ بنو سہم بن عمرو سے تھا۔

۶) قبیلہ بنو سہم بن عمرو میں سے حضرت عبداللہ بن حارث رضی اللہ تعالیٰ عنہ شہید ہوئے یہ حضرت سائب بن حارث رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حقیقی بھائی تھے۔

۷) حضرت جلیحہ بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی غزوۂ طائف میں جام شہادت نوش فرمایا ان کا تعلق قبیلہ بنو سعد بن لیث سے تھا۔

شھداء انصار کے أسماء گرامی

غزوہ طائف میں سر کار دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے لشکر میں انصار صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین شہید ہوئے ان کے اسماء گرامی یہ ہیں:۔

۱) حضرت ثابت بن جذع رضی اللہ تعالیٰ عنہ شہید ہوئے ان کا تعلق انصار مدینہ کے قبیلے بنو سلمہ سے تھا۔

۲) حضرت حارث بن سہل بن ابوصعصعہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جام ِ شہادت نوش فرمایا ان کا تعلق انصار مدینہ کے قبیلے بنو مازن بن نجار سے تھا۔

۳) منذر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جن کا تعلق قبیلہ بنو ساعدہ سے تھا۔

۴) حضرت رقیم بن ثابت بن ثعبلہ بن زید بن لو ذان بن معاویہ بھی اس غزوہ میں شہید ہوئے ۔ ان کا تعلق انصار مدینہ کے قبیلہ اوس سے تھا۔

غزوہ طائف میں لشکر اسلام کی طرف سے شہید ہونے والے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین میں سے سات کا تعلق مہاجرین قریش سے چار کا تعلق انصار مدینہ سے تھا جبکہ ایک صحابی بنو لیث سے تھے۔

(از: سیرۃ ابن ہشام جلد ۲ صفحہ ۵۸۹)

(تاریخ طبری جلد ۱ صفحہ ۴۲۴) وغیرہ


متعلقہ

تجویزوآراء