مزارات سے یقیناً فیض ملتا ہے مگر کس کو
مزارات سے یقیناً فیض ملتا ہے مگر کس کو؟
مشائخ کبار قدس اللہ تعالیٰ ارواحہم کے مزارات سے زیارت کرنے والا اسی قدر فیض لے سکتا ہے جس قدر اس نے اس بزرگ صفت کو پہچانا ہے اور اس صفت کی طرف متوجہ اور اس میں مستغرق ہوا ہے۔ اگرچہ مزارات مقدسہ کی زیارت میں ظاہری قرب کا بہت اثر ہے۔ لیکن حقیقت ارواح مقدسہ کی طرف توجہ کے لیے ظاہری دوری مانع نہیں ہے۔ حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں جو وارد ہے۔ صلوا علی حیثما کنتم (تم مجھ پر درود بھیجو جہاں کہیں تم ہو) یہ اس امر کا بیان اور دلیل قاطع ہے۔ اور اس زیارت میں اہل قبور کی صفت کو پہچاننے کے مقابلہ میں ان اہل قبور کی مثالی صورتوں کا مشاہدہ چنداں وقعت نہیں رکھتا۔ بایں ہمہ حضرت خواجہ بزرگ قدس سرہ فرماتے تھے۔ کہ خالق سبحانہ کا مجاور ہونا مخلوق کی مجاورت سے احق و اولیٰ ہے۔ اور آپ اکثر یہ بیت پڑھا کرتے تھے۔ ؎
تو تا کے گور مرداں را پرستی |
بگرد کار مرداں گرد و رستی |
اکابر دین رضوان اللہ علیہم اجمعین کے مزارات کی زیارت سے مقصود یہ ہونا چاہیے کہ تو حق سبحانہ کی طرف ہو اور اس برگزیدہ حق کی روح کو خدا کی طرف کمال توجہ پیدا کرنے کا وسیلہ بنائے۔ مخلوق کے ساتھ تواضع کی حالت میں چاہیے کہ اگرچہ ظاہر میں تواضع مخلوق کے ساتھ ہو مگر حقیقت میں خالق عزوجل کے ساتھ ہو۔ کیونکہ مخلوق کے ساتھ تواضع اس وقت پسندیدہ ہے کہ خالص خدائے عزوجل کے لیے ہو۔ بدیں معنی کہ مخلوق کو خالق کی قدر و حکمت کے آثار کا مظہر سمجھے ورنہ یہ تصنع ہے نہ کہ تواضع۔