حضرت شاہ رکن عالم ملتانی کے اقوال
اقوال:
قیامت کےدن ہرشخص کواس صورت میں اٹھائیں گےجواس کی صفت کےمطابق ہو۔ بلعم بن باعورکواتنی عبادت کےباوجودکتےکی صورت میں اٹھائیں گےظلم وتعدی کرنےوالا شخص اپنےآپ کوبھیڑئیےکی شکل میں دیکھےگااورصاحب کبرچیتےکی صورت میں ظاہرہوگااوربخل و حریص خنزیرکی شکل میں۔
جب تک کوئی شخص اوصاف ذمیمہ سےپاک نہیں ہوتااس کاشمارجانوروں اوردرندوں میں سے ہے۔
تزکیہ نفس اس وقت تک حاصل نہیں ہوسکتا۔جب تک بندہ حضرت عزت کی بارگاہ میں التجاء واستعانت نہ کرے۔
جب تک اللہ کافضل ورحمت دست گیری نہ کرے،تزکیہ نفس حاصل نہیں ہوتا۔
فضل ورحمت کےظہورکی علامت یہ ہے کہ بندےکی چشم بینامیں اس کےعیوب ظاہرہوجاتے ہیں اورعظمت الٰہی کےانوارکےپرتوسےکہ جس کےسامنےتمام اسرامعدوم ہوجاتے ہیں،اس کاباطن منورہوجاتاہے۔یہاں تک کہ تمام دنیااوراس کی شان وشوکت اس کی نظرمیں خاک میں معلوم ہوتی ہےاوراہل دنیاکی اس کےدل میں کوئی قدرنہیں رہتی۔ جب اس کےباطن پریہ کیفیت مستوی ہوجاتی ہےتوناچاراس کوارباب دنیاکے حیوانی اوصاف سے نفرت آتی ہےاوروہ چاہتاہےکہ یہ اوصاف فرشتوں میں تبدیل ہوجائیں۔
چنانچہ اس میں ظلم کےبجائے عفو،غضب کےبجائےحلم،کبرکےبجائےتواضع،بخل کےبجائے سخاوت اورحرص کےبجائےایثارکی خوبیاں پیداہوجاتی ہیں۔
مگریہ معاملہ عقبیٰ کےطلب کرنے والوں کےلئےہے،طالبان حق کاکام اس سےبالاترہے۔
جوشخص کہ طالب حق نہیں ہے،حقیقت میں وہ با طل ہے۔
۔ ایک دوسرے موقع پر اپنے ایک مرید کو تحریر فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ ،نے ارشاد فرمایا کہ میں نے آج تک کسی کے ساتھ نہ نیکی کی اور نہ بدی ،حاضرین نے استعجاب سے پوچھا کہ امیر المومنین بدی تو خیر آپ سے نہیں ہو سکتی مگر نیکی کے متعلق آپ کیا فرماتے ہیں ارشاد فرمایا کہ حق جل وعلا ء کا قول ہے کہ جس نے اچھے کام کیے اپنی نفس کے لیے کیے ۔ اور برے کام کیے وہ بھی اور وہ بھی اپنے نفس کے لیے کیے ،پس جو کچھ نیکی یا بدی مجھ سے صادر ہوئی وہ در حقیقت میرے لیے تھی نہ کے دوسروں کے لیے۔
۔ فرماتے ہیں کہ اعضا و جوارح کو شرعی ممنوعات سے قولاً و عملاً باز رکھنا چاہیے لا یعنی مجلس سے بھی پر ہیز لازم ہے اس سے مراد یسی مجلس ہے جو حق تعالےٰ سے بر گشتہ کر کے دنیا کی طرف مائل کرتی ہے ۔باطلوں سے بھی احتراز ضروری ہے باطل وہ لوگ ہیں جو طالب حق نہیں ۔
ایک خط میں لکھتے ہیں عزیز! خوب یاد رکھنا چاہیے کہ انسان دو چیزوں کے مجموعہ کا نام ہے ایک صورت اور دوسری صفت، اور قابل تعریف صرف صفت ہے، صورت کی کوئی قیمت نہیں، اللہ تعالیٰ تمہاری صورتوں کو نہیں دیکھتا بلکہ تمہارے اعمال اور دلوں کو دیکھتا ہے، صفت کا ظہور حقیقی طور پر صرف آخرت ہی میں ہوگا، وہاں ہر صفت ایک ظاہری صورت میں نظر آئے گی کیونکہ آخرت ہی وہ انعام ہے جہاں ہر چیز کی حقیقت ظاہر لباس میں ملبوس کردی جائے گی اور یہ صورتیں متلاشی نظر آئیں گی اور جس کی جو صورت ہوگی اسی صورت میں اس کو اٹھایا جائے گا، جیسا کہ بلعم باعور کو اتنی عبادت اور زہد کے باوجود کتے کی شکل و صورت میں اٹھایا جائے گا یعنی اس کی صورت کتے جیسی بنادی جائے گی، اسی طرح قیامت کے دن ظالم و سرکش اپنے آپ کو بھیڑیے کی شکل و صورت میں دیکھے گا، متکبر و مغرور کی صورت چیتے کی مانند اور لالچی و کنجوس کی شکل خنزیر جیسی ہوگی اور اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد
ترجمہ: (آج کا دن وہ دن ہے کہ ہم نے تمہاری آنکھوں سے پردہ ہٹالیا)
آپ جب تک اپنے قلوب سے اوصاف رذیلہ کو دور نہ کریں گے اس وقت تک جانوروں اور درندوں میں شمار کیے جائیں گے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہےکہ
ترجمہ: (یہ جانوروں کی مثل ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گم کردہ راہ ہیں)