ملفوظات حضرت خواجہ حسن بصری

ملفوظات حضرت خواجہ حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ

  1. آپ مناجات فرمایا کرتے تھے کہ ’’الٰہی تو نے مجھے نعمت دی میں اس کا شکر بجا نہ لایا، اور تو نے بَلا بھیجی میں نے اُس پر صبر نہ کیا، پس تو نے اِس سبب سے کہ میں نے شکر نہ کیا، اپنی دی ہوئی نعمت مجھ سے واپس نہ لی، اور اس سبب سے کہ میں نے صبر نہ کیا تو نے بَلا کو ہمیشہ کے لیے مجھ پر مسلط نہیں رکھا، الٰہی تجھ سے سوائے فضل و کرم کے اور کچھ ظاہر نہیں ہوتا۔
  2. فرمایا۔ کُل صحیفے ایک سو چار (104) کی تعداد میں مختلف انبیاء علیہم السّلام پر نازل ہوئے ان کا خلاصہ تورٰت، زبور، انجیل میں ہے، اور ان تینوں کا خلاصہ قرآن مجید میں ہے، اور اس کا خلاصہ سورۂ فاتحہ میں ہے، اور اس کا خلاصہ بسم اللہ الرّحمٰن الرّحیم میں ہے۔ فرمایا۔ جو لوگ تم سے پہلے تھے انہوں نے اس کتاب کی قدر جانی جو اللہ تعالیٰ سے ان کو پہنچی تھی، رات کو اُس پر غور کرتے، اور دن کو اُسے عمل میں لاتے، تم نے اس کو درست کیا مگر اس پر عمل کرنا چھوڑ دیا، اور باوجود یکہ اس کے اعراب اور حروف درست کر چکے ہو پھر دنیا کی کتاب کی درستگی میں مشغول ہو۔
  3. فرمایا جو نماز کے حضور دل سے نہ ہو وہ نزدیک تر عقوبت کے ہے۔
  4. لوگوں نے پوچھا کہ خشوع کیا ہے؟ فرمایا خوفِ خدا جو ہر دم دل سے لگا رہے۔
  5. ایک شخص نے پوچھا کہ تہجد گذار شخصوں کے چہرے اچھے کیوں ہوتےہیں؟ فرمایا وہ خدا تعالیٰ کے ساتھ تنہائی میں ہوتے ہیں، اللہ تعالیٰ ان کو اپنے نور سے نور پہناتا ہے۔
  6. فرمایا حلم علم کا وزیر ہے اور نرمی اس کا باپ ہے اور تواضع اس کا لباس۔
  7. فرمایا مرد کو چاہیے علم نافع، اور عمل کامل ساتھ اخلاص کے، اور قناعت پوری ساتھ صبر کے، جب یہ تینوں باتیں حاصل ہوجائیں پھر میں نہیں جانتا کہ اس کے ساتھ کیا معاملہ کریں۔
  8. فرمایا فقیہ وہ ہے جو دنیا میں زاہد اور آخرت کا راغب اور اپنے دین میں عقل رکھنے والا، اور اپنے رب کو عبادت پر مداومت کرنے والا، اور اپنے نفس کو مسلمانوں کی اغراض سے بچانے والا، اور اُن کے مالوں کی طرف رُخ نہ کرنے والا، اور اہلِ اسلام کی جماعتوں کا خیر خواہ ہو۔
  9. لوگوں نے پوچھا کہ مسلمان کون ہے اور  مسلمانی کیا ہے؟ فرمایا۔ مسلماناں درگور و مسلمانی در کتاب۔
  10. فرمایا کوئی مومن ایسا نہیں ہوا ہے اور نہ ہوگا جو اس خوف سے کانپتا نہ ہو کہ مبادا منافق ہو۔ فرمایا جو شخص کہے کہ میں مومن ہوں حقا وہ بیقین مومن ہے۔ فرمایا مومن وہ ہے کہ ہر حال میں یکسان ہو، ایسا نہیں کہ جب کوئی نہ ہوجو چاہے کرے اور جو زبان پر آوے بکے۔
  11. فرمایا۔ کُتّے میں دس خصلتیں ایسی ہیں جو ہر مومن کے بیچ ہوئی چاہئیں پہلی یہ کہ وہ بھوکھا رہتا ہے، یہ آداب صالحین سے ہے، دوسری یہ کہ اُس کا کوئی مکان ذاتی نہیں ہوتا، یہ علامت متوکلین کی ہے، تیسری یہ کہ وہ رات کو کم سوتا ہے، یہ صفت محبین کی ہے، چوتھی یہ کہ وہ مرجاتا ہے اور کوئی میراث نہیں چھوڑتا، یہ صفت زاہدین کی ہے، پانچویں یہ کہ وہ اپنے مالک کو نہیں چھوڑتا گو وہ خفا ہو یا اس کو مارے، یہ علامت مریدین صادقین کی ہے، چھٹی یہ کہ وہ ادنے جگہ بیٹھتا ہے، یہ نشانی متواضعین کی ہے، ساتویں یہ کہ جب کوئی اس کی جگہ چھین لیتا ہے تو وہ دوسری جگہ جا بیٹھتا ہے یہ علامت راضئین کی ہے، آٹھویں یہ کہ اس کو ماریں یا دُھتکاریں پھر ٹکڑا ڈال دیں اور بلائیں تو دوڑا ہوا چلا آتا ہے، پہلی مار  وغیرہ کا کچھ خیال نہیں کرتا، یہ  علامت خاشعین کی ہے، نویں یہ کہ جب کھانا رکھا جاتا ہے تو وہ دور بیٹھا ہوا دیکھا کرتا ہے، یہ علامت مساکین کی ہے، دسویں یہ کہ جب کسی جگہ سے چلا جاتا ہے تو پھر اس کی طرف التفات نہیں کرتا، یہ علامت مجردین کی ہے۔
  12. دنیا میں پانچ قسم کے لوگ ہیں۔ ۱۔ علما۔ یہ انبیاء علیہ السّلام کے وارث ہیں، ۲۔ زُھّاد۔ یہ خدا کی راہ بتانے والے ہیں، ۳۔ غازی۔ یہ خدا کی تلوار ہیں، ۴۔ تجار۔ یہ خدا کے امین ہیں، ۵۔ بادشاہ۔ یہ خلق کے چرواہے ہیں جب علما طمع کر کے مالِ دنیا جمع کریں تو اقتدا کس کی کی جائے، جب زہاد راغبِ دنیا ہوں تو راہ کون  بتائے اور کس سے راستہ پوچھا جائے، جب غازی ریا کار ہو تو ریا کار کے واسطے کوئی عمل نہیں دشمنوں پر فتح کیسے ہو، جب تاجر خائن ہو تو امین کون کہا جائے، جب بادشاہ گرگ خونخوار ہوجائے تو خلق کی حفاظت کون کرے، قسم ہے خدائے پاک کی ہلاک کیا لوگوں کو طامِع عالموں، راغب زاہدوں، ریا کار غازیوں، خائن تاجروں، ظالم بادشاہوں نے۔
  13. فرمایا غریب آدم زاد ایسی سرا پر راضی ہوئے جس کے حلال کا حساب اور حرام کا عذاب ہے، آدمی کسی حال میں ہو دنیا سے مفارقت نہیں کرتا مگر تین حسرتوں کے ساتھ، ایک یہ کہ جمع کرنے سے سیر نہیں ہوا، دوسرے یہ کہ ساری امیدیں پوری نہ ہوئیں، تیسرے یہ کہ پورا سامان سفر آخرت کا مہیّا نہیں کیا۔
  14. فرمایا۔ میرے نزدیک عقلمند وہ ہے جو دنیا کو خراب کرلے، اور اُس کی خرابی میں آخرت کو بناوے نہ یہ کہ آخرت کو خراب کرے، اور اس کی خرابی میں دنیا کو بناوے، جس نے خدا کو پہچانا وہ اُس کو دوست رکھتا ہے، اور جس نے دنیا کو پہچانا وہ اس کو دشمن رکھتا ہے۔
  15. فرمایا۔ دنیا میں کوئی سرکش گھوڑا تیرے نفس سے زیادہ سخت لگام دینے کے لائق نہیں۔
  16. فرمایا۔ اگر تو دیکھنا چاہتا ہے کہ بعد تیرے دنیا کس طرح ہوگی، تو دیکھ لے کہ بعد موت دوسروں کے کِس طرح ہے۔
  17. فرمایا۔ قسم ہے خدائے پاک کی نہیں پوجا لوگوں نے بتوں کو مگر دنیا کی دوستی میں۔
  18. حضرت مالک بن دینار رحمۃ اللہ علیہ نے پوچھا کہ لوگوں کی خرابی کِس بات میں ہے؟ فرمایا۔ دل کے مرنے میں، کہا دل کا مرنا کیا ہے؟ فرمایا دنیا کی محبت۔ فرمایا۔ بخدائے پاک سونے چاندی کو کوئی شخص عزیز نہیں رکھتا کہ اللہ تعالیٰ اس کو ذلیل و خوار نہیں کرتا۔
  19. فرمایا ہم نشینی بدوں کی بدگمان کرتی ہے مرد کو نیکیوں سے، شراب پینے کو جانا میں زیادہ بہتر سمجھتا ہوں دنیا کی طلب سے۔
  20. فرمایا فِکر ایک آئینہ ہے کہ حسنات و سیئات تیرے تجھ کو دکھلاوے، جو بات کہ سر حکمت سے نہیں وہ عین آفت ہے، اور جو خاموشی کہ سرِ فکرت سے نہیں وہ تمام تر شہوت و غفلت ہے، اور جو نظر کہ سر عبرت سے نہیں وہ بالکل لہو و ذلّت ہے۔
  21. کسی نے پوچھا اصل دین کیا ہے؟ فرمایا ورع و پرہیز گاری، پوچھا وہ کون چیز ہے جو ورع کو تباہ کر دیتی ہے فرمایا طمع، پوچھا بہشت عدن کیا ہے؟ فرمایا ایک قصرِ زرّیں ہے، اس میں سوائے پیغمبر و صدّیق و شہید و سلطان عادل کے کوئی نہ جائے گا۔ فرمایا۔ ورع کے تین درجے ہیں، ایک یہ کہ جب بولے حق بولے خواہ غصہ میں ہو خواہ خوشی میں، دوسرے یہ کہ جس چیز میں خدا کا غصہ ہو اس سے اپنے تمام اعضا کو نگاہ رکھے، تیسرے یہ کہ قصد اس کا ایسی چیز کی طرف ہو جس میں اللہ تعالیٰ نے اپنی رضا و خوشنودی ظاہر فرمائی ہو۔ فرمایا۔ ذرہ بھر ورع  و پرہیز گاری ہزار سال کی نماز اور روزے سے بہتر ہے۔ فرمایا۔ افضل ترین اعمال فکر و ورع ہے۔
  22. لوگوں نے کہا بعضے کہتے ہیں کہ دعوت الی اللہ اُس وقت کرنی چاہیے جب خود عیبوں سے پاک ہو، فرمایا شیطان اسی آرزو میں ہے کہ دروازہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا ایسے ہی حیلہ سے بند کرے۔ کسی نے پوچھا جو طبیب بیمار ہو وہ دوسروں کا معالجہ کس طرح کرے، فرمایا پہلے وہ اپنا علاج کرے پھر دوسروں کا۔ فرمایا۔ میرا کلام سنو کیونکہ میرا علم تم کو فائدہ دے گا، اور میری بے عملی تم کو نقصان نہ پہنچا سکے گی۔ لوگوں نے کہا ہمارے دل سوئے ہوئے ہیں کہ نصیحت آپ کی اثر نہیں کرتی فرمایا تمہارے دل مردے ہیں سویا ہوا ہلانے سے بیدار ہوتا ہے، مردہ ہوشیار نہیں ہوسکتا، لوگوں نے کہا کہ بعض بزرگ اپنی باتوں سے ایسا ڈراتے ہیں کہ دل مارے خوف کے پارہ پارہ ہوجاتا ہے، فرمایا بہتر ہے کہ تم آج ڈرانے والوں کی باتیں سنو اور ان کے ہم صحبت رہو تاکہ کل رحمت کی امید ہو۔
  23. فرمایا معرفت یہ ہے کہ تو ذرّہ بھر اپنے خصومت اور نفسانیت نہ پاوے۔
  24. ایک بار آپ نے حضرت سعید بن جبیر رحمۃ اللہ علیہ کو نصیحت کی کہ کہ تین کام ہر گز مت کرنا ایک تو یہ کہ بادشاہوں کی بساط پر قدم نہ دھرنا، اگرچہ وہ تمام تر شفقت ہو، دوسرے یہ کہ کسی عورت کے ساتھ خلوت میں نہ بیٹھنا اگرچہ وہ رابعۂ وقت ہو، اور تو اسے کتاب اللہ کی تعلیم دیتا ہو، تیسرے یہ کہ مزامیر پر کان نہ دھرنا، اگرچہ تو درجہ مردان مرد کار رکھتا ہو کیونکہ یہ آفت سے خالی نہیں، آخر الامر اپنا زخم لگادیں گے۔
  25. فرمایا بہشت جاودانی بے پایان اس عمل چند روزہ سے نہیں بلکہ نیک نیّت سے ہے، جس اہل بہشت بہشت کو دیکھیں گے سات لاکھ سال بے خود ہوں گے، کیونکہ اللہ تعالیٰ اُن پر تجلّٰی کرے گا، اور اگر اس کے جلال کو دیکھیں گے تو مست ہیبت ہوں گے، اور اگر اس کے جمال کو دیکھیں گے تو غرقِ وحدت ہوں گے۔
  26. فرمایا اہلِ عقل کو خاموشی اختیار کرنی چاہیے، اس وقت تک کہ دل ان کے گویا ہوجائیں، اور اس کا اثر زبان پر سرایت کرے۔
  27. ایک بار حضرت عمر بن عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کولکھا کہ مجھے کوئی ایسی نصیحت کیجیے جس کو میں یاد رکھوں، اور اپنا دستور العمل بناؤں، آپ نے جواب میں لکھا، جب اللہ تعالیٰ تیرے ساتھ ہےتو تو خوف کس سے رکھتا ہے، اور اگر اللہ تعالیٰ تیرے ساتھ نہیں تو تو امید کس سے رکھتا ہے۔
  28. ایک اعرابی نے پوچھا صبر کس کو کہتے ہیں؟ فرمایا صبر دو طرح  پر ہے، ایک بلا و مصیبت پر، دوسرے اُس چیز پر جس سے اللہ تعالیٰ نے نہی فرمائی ہے، اور جیسا کہ حق صبر کا تھا بیان کیا، اعرابی نے کہا میں نے زاہد تر آپ سے کسی کو نہیں دیکھا، اور صابر تر آپ سے کسی کو نہیں سنا، آپ نے فرمایا اے اعرابی! زہد میرا بوجہ رغبت کے، اور صبر میرا بوجہ بے صبری کے ہے، اعرابی نے کہا میں نے نہیں سمجھا، آپ اس کو صاف فرما دیں، فرمایا زہد میرا دنیا میں بوجہ رغبت آخرت کے ہے اور یہ عین حصّہ طلبی ہے، اور صبر میرا بلا یا طاعت میں بوجہ خوف آتش دوزخ کے ہے اور یہ عین بے صبری ہے، زہد و صبر اس شخص کا قوی ہے جو صرف اللہ تعالیٰ کے واسطے ہو، اور خیال اپنے نفع و ضرر کا نہ ہو، اور یہ علامت اخلاص کی ہے۔
  29. فرمایا جس احمق نے لوگوں کو اپنا پیرو دیکھا اور خیال کیا کہ میں پیشوائے قوم ہوں، اُس کا دل بجا نہ رہا۔ فرمایا جو بات تو کسی  کو کہنا چاہے چاہیے کہ پہلے خود اس پر عمل کرے۔ فرمایا جو شخص دوسروں کی بات تیرے پاس لاوے وہ تیری بات بھی دوسروں کو پہنچاویگا۔
  30. فرمایا حیرت و تعجب ہے آدمی پر کہ تکبر کرتا ہے، حالانکہ دن میں کئی بار اپنے ہاتھ سے پاخانہ دھوتا ہے۔
  31. فرمایا ظاہر و باطن کا ایک دوسرے کے خلاف ہونا از جملہ نفاق ہے۔
  32. فرمایا تین (۳) شخصوں کی غیبت روا ہے اہل ہوا، فاسق، ظالم، غیبت کا کفارہ استغفار ہے اگر تو چھٹکارا چاہتا ہے۔
  33. فرمایا۔ بھیڑ آدمی سے زیادہ آگاہی رکھتی ہے، اس لیے کہ چرواہے کی آواز اس کو چرنے سے باز رکھتی ہے، اور آدمی کو حکمِ خدا اس کی مراد سے باز نہیں رکھتا۔
  34. فرمایا۔ اہل ہوا سے نہ جدل کرو، اور نہ ان کے پاس بیٹھو، اور نہ ان کا قول سنو۔
  35. فرمایا میرے نزدیک برادران دینی بیوی اور بچوں سے زیادہ عزیز ہیں، اس لیے کہ وہ دین کے یار ہیں، اور بیوی بچے دنیا کے یار اور دین کے دشمن، آدمی جو کچھ کہ اپنی ذات اور اپنے ماں باپ کے کھانے کپڑے میں خرچ کرتا ہے اُس کا حساب دینا ہوگا، مگر مہمان اور دوستوں کے کھانے کا حساب نہ ہوگا۔


متعلقہ

تجویزوآراء