ملفوظات حضرت خواجہ فرید الدین مسعود گنج شکر

ملفوظات حضرت خواجہ فرید الدین مسعود گنج شکر

  1. فرمایا۔ اے درویش! اگر آپ کو خرقہ پہننے کا شوق ہے۔ تو خدا وند کریم جل و علا کی رضا ے لئے پہنیں۔ مخلوق خدا کو دکھانے کے لیے نہیں کہ وہ آپ کی عزت کریں۔ ایسا نہ ہو کہ قیامت کے دن آپ مصیبت میں گرفتار ہو جائیں۔
  2. فرمایا فقراء اہل عشق ہیں اور علماء اہل عقل ہیں۔ اسی لئے ان میں تضاد ہے۔ اس لئے ایسے گردہ سے وابستگی پیدا کر جس میں عشق و عقل ہر دو موجود ہوں۔ یہ گروہ انبیاء کا ہے۔ راہ سلوک میں عشق فقراء عقل علماء پر غالب ہے۔
  3. فرمایا جو شخص محبت و عشق کا دعویٰ کرتا، اس وقت تک در محبوب پر دستک دیتا رہتا ہے جب تک اس کے بدن میں جان باقی رہتی ہے۔ شاید کبھی کھل جائے اور وہ منزل مقصود پر پہنچ جائے۔
  4. فرمایا۔ اے درویش! صاحب اسرار کے پاس ایک قوت ذاتی ہونی چاہئے تاکہ جو اسرار حضرت حق سے نازل ہوں ان کی حفاظت کر سکے۔
  5. فرمایا۔ اے درویش! عشق کی آگ ایسی ہے جو سوائے درویش کے دل کے اور کہیں قرار گزیں نہیں ہوتی۔ ایسا نہ ہو کہ کوئی صاحب درد غلبہ شوق سے ایک آواز اپنے سینے سے نکال دے کہ تمام جہان مشرق سے لے کر مغرب تک اور جو کچھ اس کے اندر ہے۔ سب جل کر خاکستر ہو جائے۔
  6. فرمایا۔ اے درویش! فقیروں کا وجود اور جو کچھ اس کے اندر ہے سب کا سب نور الٰہی کے تانے بانے سے بنا گیا ہے۔ تو وہ کیسے جل سکتا ہے۔۔۔۔ معلوم ہوا کہ درویشوں کا خمیر خاک عشق و انوار تجلی سے اٹھایا گیا۔
  7. فرمایا۔ مومنو کے دل پاکیزہ زمین کی مانند ہیں۔ اگر اس میں محبت کا بیج بو دیا جائے۔ تو اس بیج سے ہر قسم کی نعمتیں پیدا ہوتی ہیں۔ اس نعمت الٰہیہ سے درویش ہر کسی کو بہرہ ور کر سکتا ہے اور خود بھی حظ وافر لے سکتا ہے۔
  8. فرمایا۔ اے درویش! اپنے وجود سے ہر گز باہر نہ آنا۔ کیونکہ ہمیں خالی دعویٰ محبت حق درست نہیں معلوم ہوتا۔ کامل حال درویش وہی ہیں کہ جو دوسروں کے احتیاج سے بے نیاز ہوں۔ بلکہ اس نعمت عظمیٰ سے جو انوار اسرار سے ان کے اپنے وجود کے اندر موجود ہے۔ ہر آنے جانے والے کو عطا فرمائیں اور لوگوں کی غرض پوری کریں۔
  9. فرمایا۔ ہزار سال بھی اگر روزی کے پیچھے مارے مارے پھرو۔ ہر گز زیادہ نہیں ہو گی۔ پس لوگوں کو چاہئے کہ ہر حال میں صادق الیقین رہیں۔
  10. فرمایا۔ اے درویش! جو خدائے کریم کے راستے سے ذرا برابر تجاوز نہیں کرتے وہ لوگ روزی کی خاطر فکر مند اور پریشان کیسے ہو سکتے ہیں۔
  11. فرمایا! اے درویش! جس نے بھی سعادت حاصل کی خدمت ہی سے حاصل کی۔ کیوں کہ دین و دنیا کی نعمتیں پیران و مشائخ عظام کی خدمت ہی سے میسر آتی ہیں۔ جو شخص سات دن پیران و مشائخ کی خدمت بجا لاتا ہے۔ حق تعالیٰ سات سو سال کی عبادت اس کے نامہ اعمال میں لکھ دیتا ہے۔ خدمت شیخ میں جو قدم اٹھاتا اور رکھتا ہے اسے حج و عمرہ کا ثواب دیا جاتا ہے۔
  12. فرمایا۔ اس لئے اے درویش! جہاں تک ہو سکے کوئی بات اپنی طرف سے نہ سمجھے ،اور لوگوں کے ظاہر وباطن حرکات وسکنات سے جو وقوع پزیر ہو، سب خدا وند تعالیٰ عزوجل کی طرف سے جاننا چاہئے کہ یہ سب کچھ اسی کی رضا سے ہے۔
  13. فرمایا۔ کلام اللہ شریف کے پڑھنے کے وقت کئی قسم کے لوگ بخش دئیے جاتے ہیں۔ اول: قرآن پاک پڑھانے والے جو قرآن حکیم کی تعلیم کرتے ہیں۔ دوم: قرآن پاک کے پڑھنے والے۔ سوم: سننے والے، چہارم: ہمسائے جو کہ آواز تلاوت کو دل و جان سے سنتے ہیں۔
  14. فرمایا۔ اے درویش! امیر المؤ منین حضرت علی کرم اللہ وجہ، کا معمول یہ تھا کہ جب تلاوت کلام پاک میں مشغول ہوتے۔ تو درخت کے پتے کی طرح آپ پر لرزہ طاری ہو جاتا۔ ہر آیت پر یوں کھڑے ہو جاتے جیسا کوئی شخص کسی کے انتظار میں ہو۔ پھر بیٹھ جاتے۔ اسی طرح سات دن رات گزر جاتے۔
  15. فرمایا۔ کہ جس طرح اس دنیا میں قاری تنہا تلاوت سے ذوق وحظ اٹھاتا ہے۔ قیامت کے دن بھی اسی طرح تنہا تجلیات محبوب حقیقی سے محفوظ ہوگا۔
  16. فرمایا۔ اے درویش! تلاوت قرآن پاک و ختم سورۂ فاتحہ کا ثواب حضرت رسالت پناہﷺ اور امامان دین کی ارواح پاک کو نذر کرنے کے لئے ہر شخص کو مشغول رہنا چاہئے تاکہ کلام اللہ شریف کی برکت اور ان ارواح طیبات کے وسیلہ سے انسان کے دین و دنیا میں ترقی درجات ہو۔ مقام عزت پر فائز ہو اور صاحب قرب و تجلی بن جائے۔
  17. فرمایا۔ اے درویش! عاقل تلاوت قرآن سے غافل نہیں رہ سکتا۔ کیوں کہ اس قرآن کریم کا ایک ایک حروف اپنے اندر اسرار و انوار کے خزانے رکھتا ہے۔ جب کسی چیز سے نعمت الٰہیہ کا ظہور ہو تو انسان کیسے اپنے آپ کو اس سے محروم رکھ سکتا ہے۔
  18. فرمایا۔ سورۂ اخلاص تمام وحدانیت خدا پر مشتمل ہے۔ قل ھو اللہ احد خداوند کریم کی صفت عالیہ ہے۔ جو شخص یقین کامل کے ساتھ اس سورۂ مبارکہ کی تلاوت کرے گا۔ صفات خداوندی سے متصف ہو جائے گا اگر چہ وہ ذات پاک کسی صفت میں سما نہیں سکتی۔
  19. فرمایا کہ رسول کریمﷺ سے روایت ہے کہ جو ختم قرآن پاک کا ثواب حاصل کرنا چاہے، اسے چاہئے کہ رات کو پچیس مرتبہ سورۂ اخلاص پڑھ لے۔ گویا اس نے پورا قرآن پاک ختم کر لیا۔
  20. فرمایا۔ایک دفعہ میں ذکر و شغل میں مشغول تھا۔ جب میں سورہ اخلاص پر پہنچا تو مجھ پر انوار تجلی نازل ہونے شروع ہوئے۔ میں دریائے عشق و محبت حق میں سات شبانہ روز محو رہا اور پھر عالم ہوش میں آیا۔
  21. فرمایا۔ صوفی وہ شخص ہوتا ہے کہ بشریت کی کوئی میل یعنی دنیا کی کوئی آلودگی اس میں نہ ہو۔
  22. فرمایا۔ گلیم و صوف انبیائے کرام علیہم السلام کا لباس ہے۔ اس لئے اے درویش! یہ لباس اسی کو زیبا ہے جس کا ظاہر و باطن صاف و مصفٰی ہو۔ اس لئے گلیم و صوف پہننا پیغمبروں کی سنت ہے۔ جب کبھی انبیائے کرام و اولیائے عظام میں سے کسی کو کوئی حاجت آپڑتی یا امر مہم میں مصروف ہوتے ،فوراً گلیم کو کندھوں پر ڈالتے اور صوف کو سامنے رکھتے اور اس بے نیاز خدائے واحد کی درگاہ میں مناجات کرتے اور اسی گلیم و صوف کا واسطہ دیتے۔ اللہ تعالیٰ جل شانہ، ان کی حاجت کو پورا کر دیتے۔
  23. فرمایا۔ خرقہ وہ پہنے جو مخلوق خدا کی عیب بینی سے آنکھوں کو سی لے۔ کیوں کہ خرقہ کا اگر اعتبار ہوتا تو تمام دنیا خرقہ پوش ہو جاتی۔ خرقہ کا اعتبار تو اس انسان سے ہے جس نے اسے اوڑھ لیا۔
  24. مذہب تصوف و راہ طریقت کی اصل خاموش عالم حیرت میں محو رہنا ہے۔ تصوف کے معنی علوم و رسوم نہیں بلکہ اخلاق ہے۔
  25. فرمایا۔ تصوف کی اصل یہ ہے کہ تیری اپنی کوئی چیز نہ ہو اور نہ تو کسی چیز میں محو ہو۔ سوائے ذات حق کے اس وقت تو گلیم و صوف پہننے کا حق دار ہوگا۔ تصوف صفاء سے ہے جو دوستی مولا کا نام ہے۔ اہل صفا سوائے دوستی مولا کے دنیا و آخرت کی کسی شے کو در خور توجہ نہیں گر دانتے۔
  26. فرمایا۔ اے درویش! ایک بزرگ سے پوچھا گیا کہ اہل عشق و تصوف کے ہاں کمال کہاں حاصل ہوتا ہے۔ جواب دیا۔ جب یہ لوگ ہر روز اپنے آپ کو بلائے عرش پاتے ہیں اوروہاں نماز پنج گانہ ادا کرتے ہیں۔ کمالیت کا مقام یہ ہوتا ہے۔
  27. فرمایا۔ صوفی وہ ہوتا ہے کہ جس کے دل کی صفائی یوں ہو گئی ہوکہ دنیا کی کوئی شے اس سے پوشیدہ نہ رہے (دل جام جہان نما بن گیا ہو) اہل صفا کے ستر مقام ہیں۔ یہ دنیا اور اس کے مضمرات تو ان میں سے ایک مقام ہے۔
  28. عاشق کے لئے معشوق کا ہر حکم واجب التعمیل ہوتا ہے۔ خواہ اسے اپنی گلی میں داخلے ہی سے روک دے۔ یہ کمال اطاعت کمال اشتیاق ہی کی وجہ سے ہے۔
  29. فرمایا۔ اے درویش! کامل عاشق حق وہ ہے کہ ابتدائے مشاہدۂ محبوب میں کیف و جذب و مستی میں بے خود ہو جائے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ جب وہ جمال یار میں محو ہو جاتا ہے تو لازماً بے خود ہو جاتاہے۔
  30. فرمایا۔محبت حق میں صادق و مخلص وہی ہے جو ہر وقت یاد دوست میں مشغول رہے۔ ایک لحظہ ذکر حق سے غافل نہ رہے۔
  31. فرمایا اہل سلوک کے ہاں معروف ہے۔ کہ لوگ جس سے محبت کرتے ہیں اس کا ذکر کثرت سے کرتے ہیں۔ اس لئے محبت خدا کا دعا کرنے والوں کو لازم ہے کہ ایک لمحہ کے لئے بھی یاد خدا سے غافل نہ ہوں۔
  32. فرمایا۔ اے درویش! اگر دنیا کا تمام مال و اسباب طالبان حق کو حلال و طیب صورت میں بے حساب کتاب عطا فرمایا جائے تو وہ اس کے لینے میں عار محسوس کریں گے۔ جیسے کہ عام لوگ مردار و حرام کے لینے میں کرتے ہیں۔
  33. فرمایا۔ اہل محبت کی وفا کا تقاضا یہ ہے کہ خدائے قدوس کی سلطنت عظیمہ کا سب کچھ اپنی پوری زیب و زینت کے ساتھ ان کے سامنے پیش کیا جائے تو وہ منظور نہ کریں۔ سوائے دیدار حق کے ان کی نظر میں کائنات و مافیھانہ جچے بلکہ اسے آنکھ اٹھا کر نہ دیکھیں۔
  34. اس کے بعد فرمایا۔ اے درویش! خدائے کریم کی محبت ایسی بادشاہی ہے کہ جسے یہ نصیب ہو جائے تو وہ اس بات پر راضی نہیں ہوتا کہ اس کے علاوہ بھی اس کے پاس کچھ رہے۔
  35. فرمایا۔ عشاق الہی کا دل ایسا چراغ ہے۔ جسے قندیل انوار میں آویزاں کیا گیا ہے اور اس کی روشنی سے سارا عالم ملکوت جگمگاتا ہے۔ پس ان کو اندھیروں سے کیاخوف؟ اپنی ذات کو بھول جانا یاد حق کی دلیل ہے۔ جسے یاد حق کی نعمت میسر ہو گئی اس کا دل کبھی نہیں مرتا۔
  36. فرمایا۔ میں نے ایک بزرگ سے سنا کہ درویش وہ ہے جو دل کے خزانے کے اندر غوطہ زن ہو جائے پس وہ موتی کا نام محبت ہے اگر حاصل کر لے تو درویش کامل ہو جائے گا۔
  37. فرمایا۔ محبت میں درجہ کمال تب حاصل ہوتا ہے۔ جب انسان عشق میں عیب جو نہیں رہتا اور ماسوےٰ سے ترک محبت کر لیتا ہے، اللہ تعالیٰ اسے مقام قرب پر فائز کرتا ہے۔
  38. فرمایا۔ جو شخص محبت کی خواہش سے اپنی منزل کا آغاز کرتا ہے جلد ہی خدا تعالیٰ تک پہنچ جاتا ہے اور جو دنیا کی خواہش لے کر چلتا ہے۔ دوزخ کے قریب ہی پہنچتا ہے۔ صرف دعویٰ کر لینے سے مملکت محبت تک رسائی ناممکن ہے۔
  39. فرمایا۔ دریشو! خوف بے ادب بندوں کے لئے تازیانہ عبرت ہے تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کے ڈر سے نافرمانیوں سے باز آجائیں اور راہ راست پر پختہ گام ہو جائیں۔
  40. فرمایا۔ عزیزو! عقلمند انسان وہ ہے کہ تمام کامو ں میں اس کا توکل خداوند تعالیٰ پر ہی ہو، اور کسی سے اس کے سوا کچھ توقع نہ رکھے۔
  41. پھر فرمایا۔ اے درویش! دنیا میں اگر کسی انسان کی ہم نشینی باعث سعادت و فلاح دارین ہے تو انہی بوریہ نشین حضرات ہی کی ہے کیونکہ جس دن عارف سہرورد خواجہ شہاب کی خانقاہ معلیٰ میں کوئی درویش وارد نہ ہوتا۔ فرماتے۔ آج ہمیں نعمت عظمیٰ سے محروم رکھا گیا کیونکہ کوئی درویش آج ہمارے یہاں مہمان نہیں ہوا۔

 


متعلقہ

تجویزوآراء