اعتکاف کے مسائل
اعتکاف کے مسائل (برائے حضرات)
مسئلہ ۱:
مسجد میں اﷲ (عزوجل) کے لیے نیّت کے ساتھ ٹھہرنا اعتکاف ہے اور اس کے لیے مسلمان، عاقل اور جنابت و حیض و نفاس سے پاک ہونا شرط ہے۔ بلوغ شرط نہیں بلکہ نابالغ جو تمیز رکھتا ہے اگر بہ نیّت اعتکاف مسجد میں ٹھہرے تو یہ اعتکاف صحیح ہے، آزاد ہونا بھی شرط نہیں لہٰذا غلام بھی اعتکاف کر سکتا ہے، مگر اسے مولیٰ سے اجازت لینی ہوگی اور مولیٰ کو بہرحال منع کرنے کا حق حاصل ہے۔
(""الدرالمختار"" و ""ردالمحتار""، کتاب الصوم، باب الاعتکاف، ج۳، ص۴۹۲ ۔ ۴۹۴
و ""الفتاوی الھندیۃ""، کتاب الصوم، الباب السابع في الاعتکاف، ج۱، ص۲۱۱)
مسئلہ ۲:
مسجد جامع ہونا اعتکاف کے لیے شرط نہیں بلکہ مسجد جماعت میں بھی ہوسکتا ہے۔ مسجد جماعت وہ ہے جس میں امام و مؤذن مقرر ہوں، اگرچہ اس میں پنجگانہ جماعت نہ ہوتی ہو اور آسانی اس میں ہے کہ مطلقاً ہر مسجد میں اعتکاف صحیح ہے اگرچہ وہ مسجد جماعت نہ ہو، خصوصاً اس زمانہ میں کہ بہتیری مسجدیں ایسی ہیں جن میں نہ امام ہیں نہ مؤذن۔
(""ردالمحتار""، کتاب الصوم، باب الاعتکاف، ج۳، ص۴۹۳)
مسئلہ ۳:
سب سے افضل مسجد حرم شریف میں اعتکاف ہے پھر مسجد نبوی میں علی صاحبہا الصلاۃ والتسلیم پھر مسجد اقصیٰ (بیت المقدّس) میں پھر اُس میں جہاں بڑی جماعت ہوتی ہو۔
(""الجوھرۃ النیرۃ""، کتاب الصوم، باب الاعتکاف، ص۱۸۸)
مسئلہ ۴:
اعتکاف تین قسم ہے۔
(۱) واجب، کہ اعتکاف کی منّت مانی یعنی زبان سے کہا، محض دل میں ارادہ سے واجب نہ ہوگا۔
(۲) سنت مؤکدہ، کہ رمضان کے پورے عشرہ اخیرہ یعنی آخر کے دس دن میں اعتکاف کیا جائے یعنی بیسویں رمضان کو سورج ڈوبتے وقت بہ نیّت اعتکاف مسجد میں ہو اور تیسویں کے غروب کے بعد یا انتیس کو چاند ہونے کے بعد نکلے۔ اگر بیسویں تاریخ کو بعد نماز مغرب نیّت اعتکاف کی تو سنت مؤکدہ ادا نہ ہوئی اور یہ اعتکاف سنت کفایہ ہے کہ اگر سب ترک کریں تو سب سے مطالبہ ہوگا اور شہر میں ایک نے کر لیا تو سب بری الذمہ۔
(۳) ان دو ۲ کے علاوہ اور جو اعتکاف کیا جائے وہ مستحب و سنت غیر مؤکدہ ہے۔
(المرجع السابق، ص۴۹۵، و ""الفتاوی الھندیۃ""، کتاب الصوم، الباب السابع في الاعتکاف، ج۱، ص۲۱۱)
مسئلہ ۵:
اعتکافِ مستحب کے لیے نہ روزہ شرط ہے، نہ اس کے لیے کوئی خاص وقت مقرر، بلکہ جب مسجد میں اعتکاف کی نیّت کی، جب تک مسجد میں ہے معتکف ہے، چلا آیا اعتکاف ختم ہوگیا۔
(""الفتاوی الھندیۃ""، کتاب الصوم، الباب السابع في الاعتکاف، ج۱، ص۲۱۱، وغیرہ)
یہ بغیر محنت ثواب مل رہا ہے کہ فقط نیّت کر لینے سے اعتکاف کا ثواب ملتا ہے، اسے تو نہ کھونا چاہیے۔ مسجد میں اگر دروازہ پر یہ عبارت لکھ دی جائے کہ اعتکاف کی نیّت کر لو، اعتکاف کا ثواب پاؤ گے تو بہتر ہے کہ جو اس سے ناواقف ہیں انھیں معلوم ہو جائے اور جوجانتے ہیں اُن کے لیے یاد دہانی ہو۔
مسئلہ ۶:
اعتکافِ سنت یعنی رمضان شریف کی پچھلی دس تاریخوں میں جوکیا جاتا ہے، اُس میں روزہ شرط ہے، لہذا اگر کسی مریض یا مسافر نے اعتکاف تو کیا مگر روزہ نہ رکھا تو سنت ادا نہ ہوئی بلکہ نفل ہوا۔
(""ردالمحتار""، کتاب الصوم، باب الاعتکاف، ج۳، ص۴۹۶)
مسئلہ ۷:
منت کے اعتکاف میں بھی روزہ شرط ہے، یہاں تک کہ اگر ایک مہینے کے اعتکاف کی منت مانی اور یہ کہا کہ روزہ نہ رکھے گا جب بھی روزہ رکھنا واجب ہے اور اگر رات کے اعتکاف کی منت مانی تو یہ منت صحیح نہیں کہ رات میں روزہ نہیں ہوسکتا اور اگر یوں کہا کہ ایک دن رات کا مجھ پر اعتکاف ہے تو یہ منت صحیح ہے اور اگر آج کے اعتکاف کی منت مانی اور کھانا کھا چکا ہے تو منت صحیح نہیں۔
(""الدرالمختار""، کتاب الصوم، باب الاعتکاف، ج۳، ص۴۹۶ ،
""الفتاوی الھندیۃ""، کتاب الصوم، الباب السابع في الاعتکاف، ج۱، ص۲۱۱)
یوہیں اگر ضحوہ کبریٰ کے بعد منت مانی اور روزہ نہ تھا تو یہ منت صحیح نہیں کہ اب روزہ کی نیّت نہیں کر سکتا، بلکہ اگر روزہ کی نیّت کر سکتا ہو مثلاً ضحوہ کبریٰ سے قبل جب بھی منت صحیح نہیں کہ یہ روزہ نفل ہوگا اور اس اعتکاف میں روزہ واجب درکار۔
مسئلہ ۸:
یہ ضرور نہیں کہ خاص اعتکاف ہی کے لیے روزہ ہو بلکہ روزہ ہونا ضروری ہے، اگرچہ اعتکاف کی نیّت سے نہ ہو مثلاً اس رمضان کے اعتکاف کی منت مانی تو وہی رمضان کے روزے اس اعتکاف کے لیے کافی ہیں اور اگر رمضان کے روزے تو رکھے مگر اعتکاف نہ کیا تو اب ایک ماہ کے روزے رکھے اور اس کے ساتھ اعتکاف کرے اور اگر یوں نہ کیا یعنی روزے رکھ کر اعتکاف نہ کیا اور دوسرا رمضان آگیا تو اس رمضان کے روزے اس اعتکاف کے لیے کافی نہیں۔
یوہیں اگر کسی اور واجب کے روزے رکھے تو یہ اعتکاف ان روزوں کے ساتھ بھی ادا نہیں ہوسکتا، بلکہ اب اُس کے لیے خاص اعتکاف کی نیّت سے روزے رکھنا ضروری ہے اور اگر اس صورت میں کہ رمضان کے اعتکاف کی منت مانی تھی نہ روزے رکھے، نہ اعتکاف کیا اب ان روزوں کی قضا رکھ رہا ہے تو ان قضا روزوں کے ساتھ وہ اعتکاف کی منت بھی پوری کرسکتا ہے۔
(""الدرالمختار"" و ""ردالمحتار""، کتاب الصوم، باب الاعتکاف، ج۳، ص۴۹۷،
""الفتاوی الھندیۃ""، کتاب الصوم، الباب السابع في الاعتکاف، ج۱، ص۲۱۱)
مسئلہ ۹:
نفلی روزہ رکھا تھا اور اُس دن کے اعتکاف کی منت مانی تو یہ منت صحیح نہیں کہ اعتکاف واجب کے لیے نفلی روزہ کافی نہیں اور یہ روزہ واجب ہو نہیں سکتا۔
(""الفتاوی الھندیۃ""، کتاب الصوم، الباب السابع في الاعتکاف، ج۱، ص۲۱۱)
مسئلہ ۱۰:
ایک مہینے کے اعتکاف کی منت مانی تو یہ منت رمضان میں پوری نہیں کر سکتا بلکہ خاص اُس اعتکاف کے لیے روزے رکھنے ہوں گے۔
(""الفتاوی الھندیۃ""، کتاب الصوم، الباب السابع في الاعتکاف، ج۱، ص۲۱۱)
مسئلہ ۱۱:
اعتکاف واجب میں معتکف کو مسجد سے بغیر عذر نکلنا حرام ہے، اگر نکلاتو اعتکاف جاتا رہا اگرچہ بھول کر نکلا ہو۔ یوہیں اعتکافِ سنت بھی بغیر عذر نکلنے سے جاتا رہتا ہے۔ یوہیں عورت نے مسجد بیت میں اعتکاف واجب یامسنون کیا تو بغیر عذر وہاں سے نہیں نکل سکتی، اگر وہاں سے نکلی اگرچہ گھر ہی میں رہی اعتکاف جاتا رہا۔
(""الفتاوی الھندیۃ""، کتاب الصوم، الباب السابع في الاعتکاف، ج۱، ص۲۱۱ ص۲۱۲،
و ""ردالمحتار""، کتاب الصوم، باب الاعتکاف، ج۳، ص۵۰۱.)
مسئلہ ۱۲:
معتکف کو مسجد سے نکلنے کے دو عذر ہیں۔
(۱) حاجت طبعی کہ مسجد میں پوری نہ ہو سکے جیسے پاخانہ، پیشاب، استنجا، وضو اور غسل کی ضرورت ہو تو غسل، مگر غسل و وضو میں یہ شرط ہے کہ مسجد میں نہ ہو سکیں یعنی کوئی ایسی چیز نہ ہو جس میں وضو و غسل کا پانی لے سکے اس طرح کہ مسجد میں پانی کی کوئی بوند نہ گرے کہ وضو و غسل کا پانی مسجد میں گرانا ناجائز ہے اور لگن وغیرہ موجود ہو کہ اس میں وضو اس طرح کر سکتا ہے کہ کوئی چھینٹ مسجدمیں نہ گرے تو وضو کے لیے مسجد سے نکلنا جائز نہیں، نکلے گا تو اعتکاف جاتا رہے گا۔یوہیں اگر مسجد میں وضو و غسل کے لیے جگہ بنی ہو یا حوض ہو تو باہر جانے کی اب اجازت نہیں۔
(۲) حاجت شرعی مثلاً عید یا جمعہ کے لیے جانا یا اذان کہنے کے لیے منارہ پر جانا، جبکہ منارہ پر جانے کے لیے باہر ہی سے راستہ ہو اور اگر منارہ کا راستہ اندر سے ہو تو غیر مؤذن بھی منارہ پر جا سکتا ہے مؤذن کی تخصیص نہیں۔
(""الدرالمختار"" و ""ردالمحتار""، کتاب الصوم، باب الاعتکاف، ج۳، ص۵۰۱)
مسئلہ ۱۳:
قضائے حاجت کو گیا تو طہارت کرکے فوراً چلا آئے ٹھہرنے کی اجازت نہیں اور اگر معتکف کا مکان مسجد سے دُور ہے اور اس کے دوست کا مکان قریب تو یہ ضرور نہیں کہ دوست کے یہاں قضائے حاجت کوجائے، بلکہ اپنے مکان پر بھی جا سکتا ہے اور اگر اس کے خود دو مکان ہیں ایک نزدیک دوسرا دُور تو نزدیک والے مکان میں جائے کہ بعض مشایخ فرماتے ہیں دُور والے میں جائے گا تو اعتکاف فاسد ہو جائے گا۔
(""ردالمحتار""، کتاب الصوم، باب الاعتکاف، ج۳، ص۵۰۱،
""الفتاوی الھندیۃ""، کتاب الصوم، الباب السابع في الاعتکاف، ج۱، ص۲۱۲)
مسئلہ ۱۴:
جمعہ اگر قریب کی مسجد میں ہوتا ہے تو آفتاب ڈھلنے کے بعد اس وقت جائے کہ اذان ثانی سے پیشتر سنتیں پڑھ لے اور اگر دُور ہو تو آفتاب ڈھلنے سے پہلے بھی جا سکتا ہے، مگر اس انداز سے جائے کہ اذان ثانی کے پہلے سنتیں پڑھ سکے زیادہ پہلے نہ جائے۔
اور یہ بات اس کی رائے پر ہے جب اس کی سمجھ میں آجائے کہ پہنچنے کے بعد صرف سنتوں کاوقت باقی رہے گا، چلا جائے اور فرض جمعہ کے بعد چار یا چھ رکعتیں سنتوں کی پڑھ کر چلا آئے اور ظہر احتیاطی پڑھنی ہے تو اعتکاف والی مسجد میں آکر پڑھے اور اگر پچھلی سنتوں کے بعد واپس نہ آیا، وہیں جامع مسجد میں ٹھہرا رہا، اگرچہ ایک دن رات تک وہیں رہ گیا یا اپنا اعتکاف وہیں پورا کیا تو بھی وہ اعتکاف فاسد نہ ہوا مگر یہ مکروہ ہے اور یہ سب اس صورت میں ہے کہ جس مسجد میں اعتکاف کیا، وہاں جمعہ نہ ہوتا ہو۔
(""الدرالمختار"" و ""ردالمحتار""، کتاب الصوم، باب الاعتکاف، ج۳، ص۵۰۲)
مسئلہ ۱۵:
اگر ایسی مسجد میں اعتکاف کیا جہاں جماعت نہیں ہوتی تو جماعت کے لیے نکلنے کی اجازت ہے۔
(""ردالمحتار""، کتاب الصوم، باب الاعتکاف، ج۳، ص۵۰۳، ۵۰۵)
مسئلہ ۱۶:
اعتکاف کے زمانہ میں حج یا عمرہ کا احرام باندھا تو اعتکاف پورا کر کے جائے اور اگر وقت کم ہے کہ اعتکاف پورا کریگا تو حج جاتا رہے گا تو حج کو چلا جائے پھر سرے سے اعتکاف کرے۔
(""ردالمحتار""، کتاب الصوم، باب الاعتکاف، ج۳، ص۵۰۳)
مسئلہ ۱۷:
اگر وہ مسجد گر گئی یا کسی نے مجبور کر کے وہاں سے نکال دیا اور فوراً دوسری مسجد میں چلا گیا تو اعتکاف فاسد نہ ہوا۔
(""الفتاوی الھندیۃ""، کتاب الصوم، الباب السابع في الاعتکاف، ج۱، ص۲۱۲)
مسئلہ ۱۸:
اگر ڈوبنے یا جلنے والے کے بچانے کے لیے مسجد سے باہر گیا یا گواہی دینے کے لیے گیا یا جہاد میں سب لوگوں کا بلاوا ہوا اور یہ بھی نکلا یا مریض کی عیادت یا نمازِ جنازہ کے لیے گیا، اگرچہ کوئی دوسرا پڑھنے والا نہ ہو تو ان سب صورتوں میں اعتکاف فاسد ہوگیا۔
(""الفتاوی الھندیۃ""، کتاب الصوم، الباب السابع في الاعتکاف، ج۱، ص۲۱۲)
مسئلہ ۱۹:
عورت مسجد میں معتکف تھی، اسے طلاق دی گئی تو گھرچلی جائے اور اسی اعتکاف کو پورا کرلے۔
(""الفتاوی الھندیۃ""، کتاب الصوم، الباب السابع في الاعتکاف، ج۱، ص۲۱۲)
مسئلہ ۲۰:
اگر منت مانتے وقت یہ شرط کر لی کہ مریض کی عیادت اور نماز جنازہ اور مجلس علم میں حاضر ہوگا تو یہ شرط جائز ہے۔ اب اگر ان کاموں کے لیے جائے تو اعتکاف فاسد نہ ہوگا، مگر خالی دل میں نیّت کر لینا کافی نہیں بلکہ زبان سے کہہ لینا ضروری ہے۔
(""الفتاوی الھندیۃ""، کتاب الصوم، الباب السابع في الاعتکاف، ج۱، ص۲۱۲،
""ردالمحتار""، کتاب الصوم، باب الاعتکاف، ج۳، ص۵۰۶)
مسئلہ ۲۱:
پاخانہ پیشاب کے لیے گیا تھا، قرض خواہ نے روک لیا اعتکاف فاسد ہوگیا۔
(""الفتاوی الھندیۃ""، کتاب الصوم، الباب السابع في الاعتکاف، ج۱، ص۲۱۲)
مسئلہ ۲۲:
معتکف کو وطی کرنا اور عورت کا بوسہ لینا یا چھونا یا گلے لگانا حرام ہے۔ جماع سے بہرحال اعتکاف فاسد ہوجائے گا، انزال ہو یا نہ ہو قصداً ہو یا بھولے سے مسجد میں ہو یا باہر رات میں ہو یا دن میں، جماع کے علاوہ اوروں میں اگر انزال ہو تو فاسد ہے ورنہ نہیں، احتلام ہوگیا یا خیال جمانے یا نظر کرنے سے انزال ہوا تو اعتکاف فاسد نہ ہوا۔
(""الفتاوی الھندیۃ""، کتاب الصوم، الباب السابع في الاعتکاف، ج۱، ص۲۱۳، وغیرہ)
مسئلہ ۲۳:
معتکف نے دن میں بھول کر کھالیا تو اعتکاف فاسد نہ ہوا، گالی گلوچ یا جھگڑا کرنے سے اعتکاف فاسد نہیں ہوتا مگر بے نور و بے برکت ہوتا ہے۔
(""الفتاوی الھندیۃ""، کتاب الصوم، الباب السابع في الاعتکاف، ج۱، ص۲۱۳)
مسئلہ ۲۴:
معتکف نکاح کر سکتا ہے اورعورت کو رجعی طلاق دی ہے تو رجعت بھی کر سکتا ہے، مگر ان امور کے لیے اگر مسجد سے باہر ہوگا تو اعتکاف جاتا رہے گا۔
(""الفتاوی الھندیۃ""، کتاب الصوم، الباب السابع في الاعتکاف، ج۱، ص۲۱۳.
و ""ردالمحتار""، کتاب الصوم، باب الاعتکاف، ج۳، ص۵۰۶)
مگر جماع اور بوسہ وغیرہ سے اس کو رجعت حرام ہے، اگرچہ رجعت ہو جائے گی۔
مسئلہ ۲۵:
معتکف نے حرام مال یا نشہ کی چیز رات میں کھائی تو اعتکاف فاسد نہ ہوا۔
(""الفتاوی الھندیۃ""، کتاب الصوم، الباب السابع في الاعتکاف، ج۱، ص۲۱۳)
مگر اس حرام کا گناہ ہوا توبہ کرے۔
مسئلہ ۲۶:
بے ہوشی اور جنون اگر طویل ہوں کہ روزہ نہ ہو سکے تو اعتکاف جاتا رہا اور قضا واجب ہے، اگرچہ کئی سال کے بعد صحت ہو اور اگر معتوہ یعنی بوہرا ہوگیا، جب بھی اچھے ہونے کے بعد قضا واجب ہے۔
(""الفتاوی الھندیۃ""، کتاب الصوم، الباب السابع في الاعتکاف، ج۱، ص۲۱۳)
مسئلہ ۲۷:
معتکف مسجد ہی میں کھائے پیے سوئے ان امور کے لیے مسجد سے باہر ہوگا تو اعتکاف جاتا رہے گا۔
(""الدرالمختار""، کتاب الصوم، باب الاعتکاف، ج۳، ص۵۰۶)
مگر کھانے پینے میں یہ احتیاط لازم ہے کہ مسجد آلودہ نہ ہو۔
مسئلہ ۲۸:
معتکف کے سوا اور کسی کو مسجد میں کھانے پینے سونے کی اجازت نہیں اور اگر یہ کام کرنا چاہے تو اعتکاف کی نیّت کر کے مسجد میں جائے اور نماز پڑھے یا ذکر الٰہی کرے پھر یہ کام کر سکتا ہے۔
(""ردالمحتار""، کتاب الصوم، باب الاعتکاف، ج۳، ص۵۰۶)
مسئلہ ۲۹:
معتکف کو اپنی یا بال بچوں کی ضرورت سے مسجد میں کوئی چیز خریدنا یا بیچنا جائز ہے، بشرطیکہ وہ چیز مسجد میں نہ ہو یا ہو تو تھوڑی ہو کہ جگہ نہ گھیرے اور اگر خریدوفروخت بقصد تجارت ہو تو ناجائز اگرچہ وہ چیز مسجد میں نہ ہو۔
(""الدرالمختار"" و ""ردالمحتار""، کتاب الصوم، باب الاعتکاف، ج۳، ص۵۰۶)
مسئلہ ۳۰:
معتکف اگر بہ نیّت عبادت سکوت کرے یعنی چپ رہنے کو ثواب کی بات سمجھے تو مکروہِ تحریمی ہے اور اگرچُپ رہنا ثواب کی بات سمجھ کر نہ ہو تو حرج نہیں اور بری بات سے چُپ رہا تو یہ مکروہ نہیں، بلکہ یہ تو اعلیٰ درجہ کی چیز ہے کیونکہ بری بات زبان سے نہ نکالنا واجب ہے اور جس بات میں نہ ثواب ہو نہ گناہ یعنی مباح بات بھی معتکف کو مکروہ ہے، مگر بوقت ضرورت اور بے ضرورت مسجد میں مباح کلام نیکیوں کو ایسے کھاتا ہے جیسے آگ لکڑی کو۔
(""الدرالمختار""، کتاب الصوم، باب الاعتکاف، ج۳، ص۵۰۷)
مسئلہ ۳۱:
معتکف نہ چُپ رہے، نہ کلام کرے تو کیا کرے۔ یہ کرے قرآن مجید کی تلاوت، حدیث شریف کی قراء ت اور درود شریف کی کثرت، علم دین کا درس و تدریس، نبی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم و دیگر انبیا علیہم الصلوٰۃ والسلام کے سیرو اذکار اور اولیا و صالحین کی حکایت اور امورِ دین کی کتابت۔
(""الدرالمختار""، کتاب الصوم، باب الاعتکاف، ج۳، ص۵۰۷۔۵۰۸)
مسئلہ ۳۲:
ایک دن کے اعتکاف کی منت مانی تو اس میں رات داخل نہیں۔ طلوع فجر سے پیشتر مسجد میں چلا جائے اور غروب کے بعد چلا آئے اور اگر دو دن یا تین دن یا زیادہ دنوں کی منت مانی یا دو یا تین یا زیادہ راتوں کے اعتکاف کی منت مانی تو ان دونوں صورتوں میں اگر صرف دن یا صرف راتیں مراد لیں تو نیّت صحیح ہے، لہذا پہلی صورت میں منت صحیح ہے اور صرف دنوں میں اعتکاف واجب ہوا اور اس صورت میں اختیار ہے کہ اتنے دنوں کا لگاتار اعتکاف کرے یا متفرق طور پر۔ اور دوسری صورت میں منت صحیح نہیں کہ اعتکاف کے لیے روزہ شرط ہے اور رات میں روزہ ہو نہیں سکتا اور اگر دونوں صورتوں میں دن اور رات دونوں مراد ہیں۔ یا کچھ نیّت نہ کی تو دونوں صورتوں میں دن اور رات دونوں کا اعتکاف واجب ہے اور علی الاتصال اتنے دنوں میں اعتکاف ضروری ہے، تفریق نہیں کرسکتا۔
نیز اس صورت میں یہ بھی ضرور ہے کہ دن سے پہلے جو رات ہے، اس میں اعتکاف ہو، لہٰذا غروب آفتاب سے پہلے جائے اعتکاف میں چلا جائے اور جس دن پورا ہو غروبِ آفتاب کے بعد نکل آئے اور اگر دن کی منت مانی اورکہتا یہ ہے کہ میں نے دن کہہ کر رات مراد لی ،تو یہ نیّت صحیح نہیں دن اور رات دونوں کا اعتکاف واجب ہے۔
(""الجوہرۃ النیرۃ""، کتاب الصوم، باب الاعتکاف، ص۱۹۰،""الدرالمختار""، کتاب الصوم، باب الاعتکاف، ج۳، ص۵۱۰،
و ""الفتاوی الھندیۃ""، کتاب الصوم، الباب السابع في الاعتکاف، ج۱، ص۲۱۳ ۔ ۲۱۴)
مسئلہ ۳۳:
عید کے دن کے اعتکاف کی منت مانی تو کسی اور دن میں جس دن روزہ رکھنا جائز ہے، اس کی قضا کرے اور اگر یمین کی نیّت تھی تو کفارہ دے اور عید ہی کے دن کر لیا تو منت پوری ہوگئی مگر گنہگار ہوا۔
(""الفتاوی الھندیۃ""، کتاب الصوم، الباب السابع في الاعتکاف، ج۱، ص۲۱۴)
مسئلہ ۳۴:
کسی دن یا کسی مہینے کے اعتکاف کی منت مانی تو اس سے پیشتر بھی اس منت کو پورا کر سکتا ہے یعنی جبکہ معلّق نہ ہو اور مسجد حرم شریف میں اعتکاف کرنے کی منّت مانی تو دوسری مسجد میں بھی کر سکتا ہے۔
(""الفتاوی الھندیۃ""، کتاب الصوم، الباب السابع في الاعتکاف، ج۱، ص۲۱۴)
مسئلہ ۳۵:
ماہِ گزشتہ کے اعتکاف کی منت مانی تو صحیح نہیں۔ منت مان کر معاذ اﷲ مرتد ہوگیا تو منّت ساقط ہوگئی پھر مسلمان ہوا تو اُس کی قضا واجب نہیں۔
(""الفتاوی الھندیۃ""، کتاب الصوم، الباب السابع في الاعتکاف، ج۱، ص۲۱۴)
مسئلہ ۳۶:
ایک مہینے کے اعتکاف کی منت مانی اور مر گیا تو ہر روز کے بدلے بقدر صدقہ فطر کے مسکین کو دیا جائے یعنی جبکہ وصیّت کی ہو اور اس پر واجب ہے کہ وصیّت کر جائے اور وصیّت نہ کی، مگر وارثوں نے اپنی طرف سے فدیہ دے دیا، جب بھی جائز ہے۔ مریض نے منت مانی اور مر گیا تو اگر ایک دن کو بھی اچھا ہوگیا تھا تو ہر روز کے بدلے صدقہ فطر کی قدر دیا جائے اور ایک دن کو بھی اچھا نہ ہوا تو کچھ واجب نہیں۔
(""الفتاوی الھندیۃ""، کتاب الصوم، الباب السابع في الاعتکاف، ج۱، ص۲۱۴)
مسئلہ ۳۷:
ایک مہینے کے اعتکاف کی منت مانی تو یہ بات اس کے اختیار میں ہے کہ جس مہینے کا چاہے اعتکاف کرے، مگر لگاتار اعتکاف میں بیٹھنا واجب ہے اور اگر یہ کہے کہ میری مراد ایک مہینے کے صرف دن تھے، راتیں نہیں تو یہ قول نہیں مانا جائے گا۔ دن اور رات دونوں کا اعتکاف واجب ہے اور تیس دن کہا تھا جب بھی یہی حکم ہے۔ ہاں اگر منت مانتے وقت یہ کہا تھا کہ ایک مہینے کے دنوں کا اعتکاف ہے، راتوں کا نہیں تو صرف دنوں کا اعتکاف واجب ہوا اور اب یہ بھی اختیار ہے کہ متفرق طور پر تیس دن کااعتکاف کرلے اور اگر یہ کہا تھا کہ ایک مہینے کی راتوں کا اعتکاف ہے دِنوں کا نہیں تو کچھ نہیں۔
(""الجوہرۃ النیرۃ""، کتاب الصوم، باب الاعتکاف، ص۱۹۰، ۱۹۱، ""الدرالمختار""، کتاب الصوم، باب الاعتکاف، ج۳، ص۵۱۰)
مسئلہ ۳۸:
اعتکاف نفل اگر چھوڑ دے تو اس کی قضا نہیں ،کہ وہیں تک ختم ہوگیا اور اعتکاف مسنون کہ رمضان کی پچھلی دس تاریخوں تک کے لیے بیٹھا تھا، اسے توڑا تو جس دن توڑا فقط اس ایک دن کی قضا کرے، پورے دس دنوں کی قضا واجب نہیں اورمنّت کا اعتکاف توڑا تو اگر کسی معّین مہینے کی منت تھی تو باقی دنوں کی قضاکرے، ورنہ اگرعلی الاتصال واجب ہوا تھا تو سِرے سے اعتکاف کرے اور علی الاتصال واجب نہ تھا تو باقی کا اعتکاف کرے۔
(""ردالمحتار""، کتاب الصوم، باب الاعتکاف، ج۳، ص۴۹۹، ۵۰۱، ۵۰۳)
مسئلہ ۳۹:
اعتکاف کی قضا صرف قصداً توڑنے سے نہیں بلکہ اگر عذر کی وجہ سے چھوڑا مثلاً بیمار ہوگیا یا بلا اختیار چھوٹا مثلاً عورت کو حیض یا نفاس آیا یا جنون و بے ہوشی طویل طاری ہوئی، ان میں بھی قضا واجب ہے اور ان میں اگر بعض فوت ہو تو کُل کی قضا کی حاجت نہیں، بلکہ بعض کی قضا کر دے اور کُل فوت ہوا تو کُل کی قضا ہے اورمنّت میں علی الاتصال واجب ہوا تھا اور تو علی الاتصال (مسلسل بلا ناغہ) کُل کی قضا ہے۔
(""ردالمحتار""، کتاب الصوم، باب الاعتکاف، ج۳، ص۵۰۳)