عاشورہ کا تعارف
عاشورہ کی وجہ تسمیہ:
عاشورہ کی وجہ تسمیہ میں علما ء کا اختلاف ہے اس کی وجہ مختلف طور پر بیان کی گئی ہے، اکثر علماء کا قول ہے کہ چونکہ یہ محرم کا دسواں دن ہوتا ہے اس لیے اس کو عاشورہ کہا گیا، بعض کا قول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو بزرگیاں دنوں کے اعتبار سے امت محمدیہ کو عطا فرمائی ہیں اس میں یہ دن دسویں بزرگی ہے اسی مناسبت سے اس کو عاشورہ کہتے ہیں…بعض علماء کا کہنا کہ یوم عاشورہ کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ اﷲتعالیٰ نے اس روز دس پیغمبروں پر ایک ایک عنایت خاص فر مائی (کل دس عنایتیں ہوئیں)۔
(۱) اس روز حضرت آدم کی تو بہ قبول فرمائی۔
(۲) حضرت ادریسکو مقام رفیع پراٹھا یا۔
(۳) حضرت نوح کی کشتی اسی روز کوہ جو دی پر ٹھہری۔
(۴) اسی روز حضرت ابراہیمپیدا ہوئے اوراسی روز اﷲتعالیٰ نے نے ان کو اپنا خلیل بنایا، اسی دن نمرود کی آگ سے ان کو بچایا۔
(۵) اسی روز حضرت داؤد کی تو بہ قبول فرمائی اور اسی دن حضرت سلیمان کو (چھنی ہوئی سلطنت واپس ملی)۔
(۶) اسی روز حضرت ایوب کا ابتلا (دکھ درد) ختم ہوا۔
(۷) اسی دن حضرت موسیٰ کو (رود نیل میں) غرق ہو نے سے بچایا اور فر عون کو غرق کر دیا۔
(۸) اسی روز حضرت یونس کو مچھلی کے پیٹ سے رہائی ملی۔
(۸ ) اسی روز حضرت عیسیٰ کو آسمان پر اٹھا لیا گی۔
(۱۰) اسی دن سرور کا ئنات رسول خداﷺکی پیدائش ہو ئی۔
(نوٹ: اس میں علماء کا اختلاف ہے، جمہور علماء کے نزدیک حضورﷺ کی پیدائش۱۲؍ربیع النور کو ہوئی)۔
( غنیہ الطالبین، صفحہ ۴۶۶)