استقبال رمضان
استقبال رمضان المبارک
آیاتِ قرآنی:
شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُراٰنُ ھُدًی لِّلنَّاسِ وَبَیِّنٰتٍ مِّنَ الْہُدٰی وَالْفُرْقَان ج فَمَنْ شَہِدَ مِنْکُمُ الشَّہْرَ فَلْیَصُمْہُ ط وَمَنْ کَانَ مَرِیْضًا اَوْ عَلـٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَط یُرِیْدُاللّٰہُ بِکُمُ الْیُسْرَوَلَا یُرِیْدُ بِکُمُ الْعُسْرَ ز وَلِتُکْمِلُوا الْعِدَّۃ َ وَلِتُکَبِّرُوااللّٰہَ عَلـٰی مَا ھَدٰکُمْ وَلَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ (پارہ ۲،سورۃ البقرۃ،آیت:۱۸۵)
ترجمۂ کنز الایمان:رمضان کا مہینہ جس میں قرآن اترا لوگوں کے لئے ہدایت اور راہنمائی اور فیصلہ کی روشن باتیں ، تو تم میں جو کوئی یہ مہینہ پائے ضرور اس کے روزے رکھے اور جو بیمار یا سفر میں ہو تو اتنے روزے اور دنوں میں اللہ تم پر آسانی چاہتاہے اور تم پر دشواری نہیں چاہتا اور اسلئے کہ تم گنتی پوری کرو اور اللہ کی بڑائی بولو اس پر اس نے تمہیں ہدایت کی اور کہیں تم حق گزار ہو ۔
یٰٓاَیُّـہَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْاکُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ(پارہ ۲،سورۃ البقرۃ،آیت:۱۸۳)
اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کئے گئے جیسے اگلوں پر فرض ہوئے تھے کہ کہیں تمہیں پرہیزگاری ملے۔
سبحان اللہ…الحمد للہ… ماہِ رمضان کی امن و سلامتی اور رحمتوں وبرکتوں سے معمور کیفیات کو لفظوں میں بیان کرنا یا احاطۂ تحریر میں لے آنا ممکن ہی نہیں البتہ ان کیف آگیں لمحات میں حاصل ہونے والی سعادتوں کو صرف آقائے دو جہاں علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ارشادات عالیہ کی روشنی میں محسوس کیا جاسکتا ہے۔ پیارے کریم آقا، سب سے اولیٰ و اعلیٰ، حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ماہ رجب ہی سے ’’رمضان المبارک‘‘ کی آمد کے نہ صرف منتظر رہتے بلکہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم کو انتظار کی تاکید فرماتے۔ صحابہ کرام کے روزہ رکھنے کے شوق اور قیام اللیل کے ذوق کو بڑھانے کیلئے ماہِ شعبان المعظم کے اجتماعات جمعہ میں خصوصی خطابات ارشاد فرماتے اورصحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم کو مخاطب و متوجہ فرما کر دریافت فرماتے کہ ’’تم کس چیز کا انتظار کرتے ہو؟‘‘
حدیث شریف:
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ روایت کرتے ہیں: ’’نبی پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم رمضان آنے سے قبل جماعتِ صحابہ سے فرماتے!ماذا تستقبلون؟ ماذا یستقبلکم؟ تم کس کا استقبال کر رہے ہو اور تمہارا کون استقبال کر رہا ہے؟‘‘ حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے عرض کیا! میرے ماں باپ آپ پر قربان یا رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ! کوئی اللہ کا پیغام آنے والا ہوگا یا پھردین کے دشمنوں سے کوئی معرکہ درپیش ہوگا۔ صاحب لولاک نبی پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’ایسی کوئی بات نہیں…
لکن شہر رمضان یغفر اللّٰہ تعالیٰ فی اول لیلۃ لکل اھل ھٰذہٖ القبلۃ
امام بیہقی علیہ الرحمہ (۴۵۸ھ) ، فضائل الاوقات ، صفحہ ۱۶۶)
تم ماہ رمضان کا استقبال کر رہے ہو، جس کی پہلی ہی رات میں اللہ تعالیٰ عزوجل تمام اہل قبلہ کی مغفرت فرمادیتا ہے۔
اور درجِ ذیل حدیث شریف کے کلمات انتظارِ رمضان کے عمل کے علاوہ تمنائوں کا اظہار ان دعائیہ کلمات کی صورت میں حصولِ برکت کے ذوقِ عمل کی نشاندہی کرتے ہیں۔
حدیث شریف:
حضرت زیاد النمیری (تابعی) حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ سے روایت کرتے ہیں:
’’کان النبی صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم اذا دخل رجب قال اللّٰہم بارک لنا فی رجب و شعبان وبارک لنا فی رمضان ‘‘
(امام ابو عبداللہ شیبانی ، (۲۴۱ھ) مسند امام احمد، جلد اول، صفحہ ۴۲۸)
نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ہمیشہ یہ اہتمام فرماتے کہ ماہ رجب المرجب شروع ہوتے ہی اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں یوں عرض کرتے، اے اللہ! ہمارے رجب اور شعبان میں برکتیں فرما اور رمضان میں بھی برکتیں عطا فرما۔
یہی حدیث شریف امام طبرانی علیہ الرحمۃ (وصال ۳۶۰ھ) نے اپنی معجم الاوسط میں اور امام ابن حجر ہیثمی مکی علیہ الرحمۃ (وصال ۸۰۷ھ) نے مجمع الزوائد میں درج ذیل دعانقل کی ہے۔
حدیث شریف:
اللّٰہم بارک لنا فی رجب و شعبان وبلغنا شہر رمضان
یا اللہ رجب اور شعبان میں ہمارے لئے برکت عطافرما اور ہمیں ماہ رمضان نصیب فرما۔
امام ابو القاسم سلیمان بن احمد الطبرانی علیہ الرحمۃ (۳۶۰) المعجم الکبیر
امام نور الدین علی بن ابی بکر الہیثمی علیہ الرحمۃ (۸۰۷ھ) مجمع الزوائد ، جلد دوم صفحہ ۱۶۵
امام ابو بکر احمد بن محمد ادینوری ابن السنی علیہ الرحمۃ (۳۶۴ھ) عمل الیوم واللیلہ ، صفحہ ۶۰۳
امام جلال الدین سیوطی علیہ الرحمۃ (۹۱۱ھ) در منثور ، جلد اول صفحہ ۳۳۴
امام عجلونی علیہ الرحمہ کشف الخفائ، جلد اول صفحہ ۲۱۳
امام علی متقی ہندی علیہ الرحمۃ (۹۷۵ھ) کنز العمال
امام ابو عبداللہ محمد الذہبی علیہ الرحمۃ (۷۴۸ھ) میزان الاعتدال
امام ابو الفضل محمد بن طاہر المقدسی الفتنی علیہ الرحمۃ (۵۰۷ھ) تذکرۃ الموضوعات، صفحہ ۱۱۷
امام ابو ذکریا النووی علیہ الرحمۃ (۶۷۶ھ)، الاذکار النوویہ ، صفحہ ۷۱۔
امام محمد بن عبداللہ التبریزی علیہ الرحمہ، مشکوٰۃ ، ابواب الصوم
امام ابن حجر عسقلانی علیہ الرحمۃ ، (۸۵۲ھ) تبین العجب بما ورد فی فضل رجب، صفحہ ۳۰۔
حضرت یعلیٰ بن فضل علیہ الرحمہ بیان کرتے ہیں کہ ’’صحابہ کرام اور تابعین عظام چھ ماہ رمضان پانے کی دعا کرتے اور چھ ماہ اس کی قبولیت کیلئے دعا کرتے۔‘‘ یعنی چھ ماہ آمد پہ خوشی اور چھ ماہ رمضان کی جدائی پر دکھ کا اظہار کرتے۔
(حضرت علامہ مفتی محمد خان قادری مد ظلہٗ ، حضور رمضان کیسے گزارتے ، صفحہ ۲۶،لطائف المعارف ، صفحہ ۲۸۰)
آمدِ رمضان پر خطبہ ارشاد فرماتے:
نبی کریم ا رمضان شریف کی آمد کے مقدس موقع پر یوں خیر مقدم فرماتے :
عن سلمان الفارسی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ قال خطبنا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ و الہ وسلم فی اخر یوم من شعبان فقال ایھا الناس قد اظلکم شہر عظیم شھر مبارک شہر فیہ لیلۃ خیر من الف شہر۔ شہر جعل اللّٰہ صیامہ فریضۃ وقیام لیلہ تطوعًا۔ من تقرب فیہ بخصلۃ من الخیر کان کمن أدی فریضۃ فیما سواہ۔ ومن أدی فریضۃ فیہ کان کمن أدی سبعین فریضۃ فیما سواہ۔ وہو شھر الصبر و الصبر ثوابہ الجنّۃ وشہر المواساۃ وشھر یزاد فیہ رزق المؤمن من فطرفیہ صائما کان لہ مغفرۃ لذنوبہ وعتق رقبتہ من النار وکان لہ مثل اجرہ من غیر ان ینتقص من اجرہ شیٔ۔
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ شعبان کے آخر میں سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ہم کو خطبہ دیا اور فرمایا :۔
تم پر ایک عظمت اور برکت والا مہینہ سایہ فگن ہونے والا ہے۔ اس میں ایسی ایک رات ہے جو ہزار مہینوں سے افضل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کا روزہ فرض فرمایا اور اس میں قیام کو ثواب و اجر کے قابل بنایا ہے ۔ جو شخص اس میں کسی نیکی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا قرب چاہے گا وہ اس کی مثل درجہ پائے جس نے کسی دوسرے مہینہ میں فرض اداکیا۔ جس نے اس میں کسی فرض کو ادا کیا وہ ایسے ہے جیسے کسی نے غیر رمضان میں ستر فرائض ادا کئے ہوں۔ یہ ماہ صبر ہے اور صبر کا ثواب جنت ہے۔ یہ لوگوں کے ساتھ ہمدردی اور غمخواری کا مہینہ ہے اور یہی وہ مہینہ ہے جس میں مومن بندوں کے رزق میں اضافہ کر دیا جاتا ہے۔ جس نے کسی کا روزہ افطار کروایا وہ اس کے گناہوں کی معافی اور دوزخ سے آزادی کا سبب ہوگا اور اسے روزہ دار کے برابرثواب ملے گا لیکن روزہ دار کے ثواب میں بھی کوئی کمی واقع نہ ہوگی۔
قلنا یا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ و الہ وسلم کلنا یجد ما یفطر الصائم فقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ و الہ وسلم : یعطی اللّٰہ ھذا الثواب من فطر صائما علی مذقۃ للبن أو تمرۃ او شربۃ من مائ، و من اشبع صائماً سقاہ اللّٰہ من حوضی شربۃ لا یظمأ حتی یدخل الجنّۃ وھو شہر اولہ رحمۃ و اوسطہ مغفرۃ وآخرہ عتق من النار۔ و استکثروا فیہ من اربع خصال خصلتان ترضون بھما ربکم خصلتان لا غنی لکم عنھما ۔فأما الخصلتان اللتان ترضون بھما ربکم فشہادۃ ان لّا الٰہ الّا اللّٰہ و تستغفرونہ وأما اللتان لا غنی لکم عنھما فتسألون اللّٰہ الجنۃ وتعوذون بہ من النار۔
(ابو بکر محمد بن اسحق بن خزیمہ علیہ الرحمہ (۳۱۱ھ)،
صحیح ابن خزیمہ ،امام ابوبکر احمد بن الحسین بیہقی علیہ الرحمہ (۴۵۸ھ) ،
شعب الایمان، ۳: ۳۰۵ ۔۳۰۶،
مشکوٰۃ ص ۱۷۳)
ہم نے عرض کیا ! یا رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ہم میں سے ہر ایک کو افطار کرانے کی قوت کہاں ؟ تو رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا :یہ ثواب تو اللہ تعالیٰ اسے بھی عطا فرمائے گا جو دودھ کی تھوڑی سی لسی یا ایک کھجور یا ایک گھونٹ پانی پلادے اور جو کوئی کسی روزہ دار کو پورا کھانا کھلا دے اس کو اللہ تعالیٰ میرے حوض سے ایسا سیراب کرے گا جس کے بعد اس کو کبھی پیاس ہی نہیں لگے گی جتی کہ وہ داخل جنت ہوگا۔ اس ماہ کا پہلا رحمت اور درمیانہ حصہ مغفرت اور آخری حصہ آگ سے آزادی کا ہوتا ہے۔ اور چار چیزوں کی اس میں کثرت رکھو ان میں دو ایسی ہیں جن سے تم اپنے رب کو راضی کر سکتے ہو اور دو ایسی ہیں جن کے بغیر تمہارا گزارہ نہیں ہو سکتا وہ دو چیزیں جن سے اپنے رب کو راضی کرو کلمہ طیبہ کا ذکر اور استغفار و توبہ وہ دو چیزیں جن کے بغیر بخشش نہیں۔ اللہ تعالیٰ سے جنت مانگو اور دوزخ سے اس کے دامن رحمت کی پناہ مانگو۔