شب قدر اور فرمان مصطفیٰ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم

شبِ قدر اور فرامینِ مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم

(۱)

علاماتِ شبِ قدر

حضرتِ سَیِّدُنا عُبَادَہ بن صامِت رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نبیٔ کریم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمتِ بابَرَکت میں شبِ قَدر کے بارے میں سُوال کیا تو سرکار نبیٔ کریم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:""شبِ قدر رَمَضان المبارک کے آخری عشرہ کی طاق راتوں یعنی اِکیسو یں،تئیسویں، پچیسویں، ستائیسویں یاانتیسویں شب یا رمضا ن کی آخری شب میں ہے ۔تو جو کوئی اِیمان کےساتھ بہ نیتِ ثواب اِس مبارک رات میں عبادت کرے ، اُس کے تمام گزشتہ گُناہ بخش دئے جاتے ہیں ۔ اُس کی عَلامات میں سے یہ بھی ہے کہ وہ مبارک شب کھلی ہوئی ، روشن اور بِالکل صاف وشَفّاف ہوتی ہے۔اِس میں نہ زیادہ گرمی ہوتی ہے نہ زیادہ سردی بلکہ یہ رات معتدل ہوتی ہے،گویا کہ اِس میں چاند کھلا ہوا ہوتا ہے،اس پوری رات میں شیاطین کو آسمان کے ستارے نہیں مارے جاتے ۔مزید نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ اِس رات کے گزرنے کے بعد جو صبح آتی ہے اُس میں سُورج بغیر شُعاع کے طُلوع ہوتا ہے اور وہ ایسا ہوتا ہے گویا کہ چودھویں کا چاند۔اللہ عزوجل نے اس دن طلوعِ آفتاب کے ساتھ شیطان کو نکلنے سے روک دیا ہے۔ (اِس ایک دِن کے عِلاوہ ہر روز سورج کے ساتھ ساتھ شیطان بھی نکلتا ہے)۔

(مسند اِمام احمد ج۸ص۴۱۴حدیث۲۲۸۲۹)

(۲)

حضرتِ سَیِّدَتُنا عائِشہ صِدّیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاسے رِوایَت ہے ، سرکار نبیٔ کریم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: ’’شبِ قدر کو رَمَضانُ المبارک کے آخری عشرہ کی طاق راتوں یعنی اِکیسویں، تیئسویں، پچیسویں، ستائیسویں ، اوراُنتیسویں راتوں میں تلاش کرو۔‘‘(صحیح بخاری ج۱ص۶۶۲حدیث۲۰۲۰)

(۳)

امام عبدالوہاب شعرانی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں :’’ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے صحابہ نے سوال کیا کہ شب قدر کی علامات بیان فرمائیں، تو حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا : یہ رات چمکدار شفاف ہوتی ہے ، جس میں نہ گرمی ہو نہ سردی ، اور نہ بادل اور نہ بارش ، نہ تیز ہوا، نہ شہابِ ثاقب کا ٹوٹنا ہو اور صبح طلوع کے وقت سورج میں سرخ روشنی نہ ہو ۔

(کشف الغمہ جلد اول/۲۱۳۔۲۱۴)

بعض عرفا ء اور اولیاء فرماتے ہیں کہ اس رات میں کتے کے بھونکنے کی آواز نہیں سنی جائے گی ۔

(غنیہ الطالبین ۳۹۹)

تجویزوآراء