شب قدر کے فضائل
شبِ قدر کے فضائل:
شب قدر میں قرآن مجید کا نزول ہوا ۔ امام بخاری و امام مسلم رحمہما اللہ نے یہ حدیث نقل کی ہے ، ’’جس نے اس رات میں ایمان و اخلاص کے ساتھ شب بیداری کر کے عبادت کی اللہ تعالیٰ اس کے سال بھر کے گناہ بخش دیتا ہے ۔‘‘
مفتی سید نعیم الدین مرادآبادی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں :روایاتِ کثیرہ سے ثابت ہے کہ شب قدر، رمضان المبارک کے عشرۂ اخیرہ میں ہوتی ہے اور اکثر اس کی بھی طاق راتوں میں سے کسی رات میں، بعض علماء کے نزدیک رمضان المبارک کی ستائیسویں رات شب قدر ہوتی ہے یہی حضرت امام اعظم رضی اللہ عنہٗ سے مروی ہے ۔
(تفسیر خزائن العرفان، صدر الافاضل مفتی سید نعیم الدین مراد آبادی علیہ الرحمہ)
یہ اللہ تعالیٰ کا کرم ہے کہ اس نے اپنے محبوب علیہ الصلوٰۃ والسلام کے وسیلے سے ان کے غلاموں کو یہ موقع عطا فرمایا کہ ایک رات عبادت کریں تو گویا ہزار مہینے سے زیادہ عبادت میں مشغول قرار پائیں ۔
شبِ قدر میں دعا قبول ہوتی ہے:
ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں، کہ :’’ میں نے عرض کی کہ یا رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم آپ بتائیں کہ اگر مجھے لیلۃ القدر(شب قدر) کا پتہ چل جائے تو میں کون سی دعا مانگوں ‘‘ آپ نے ارشاد فرمایا :’’کہ تو یہ دعا مانگ ’’اے اللہ! بے شک تو معاف کرنے والا ہے اور معافی کو دوست رکھتا ہے مجھے بھی معاف کردے ۔
(رواہ الترمذی، مشکوٰۃ ۱۸۲، لطائف اشرفی ،جلد دوم ،صفحہ ۳۴۹)
مطلب یہ ہے کہ اس رات اپنے پروردگار سے معافی طلب کرے اور یہ کہتا رہے ،
اَللّٰہُمَّ اِنَّکَ عَفُوٌّ کَرِیْمٌ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّیْ یَا غَفُوْرُ یَا غَفُوْرُیَا غَفُوْرُیَا کَرِیْمُ۔
لیلۃ القدرکا تعین؟
شہنشاہِ بغداد ، فرد الافراد، غوثِ اعظم شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ لکھتے ہیں، "شب قدر کو رمضان شریف کے آخری عشرے میں تلاش کیا جائے ، ان تاریخوں میں زیادہ مشہور ۲۷ویں شب ہے ……امام احمد بن حنبل رضی اللہ عنہٗ نے بالاسناد حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اپنے اپنے خواب آخری عشرہ میں (رمضان) میں رسول خدا ا سے بیان کیا کرتے تھے اس پر حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے فرمایا مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تم لوگوں کے خواب ۲۷ویں شب کے متعلق متواتر ہیں۔ اس لئے جو شخص شب قدر کی جستجو کرے وہ ۲۷ویں رات کو کرے۔ یہ بھی مروی ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہمانے حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا میں نے طاق اعدادمیں سات کے عدد کو کثرت سے ہر شئے میں پایا یعنی سات کے عدد پر غور کیا تو آسمانوں ،زمینوں ،ہفتے کے دن اور رات، سمندروں، طواف و سعی، رمی جمار میں سات کا ہندسہ کار فرما ہے ، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے مزید اشیاء اور سات کے ہندسے کی مناسبت بیان کی ہے کہ سورۃ فاتحہ کی آیات سات، قرآن کی قرأتیں سات، قرآن کی منزلیں سات ہیں، انسان کی تخلیق سات اعضاء سے اور سجدہ بھی سات اعضاء پر ہوتا ہے ……انہوں نے مزید فرمایا سورۃ القدر میں آغاز سے سَلَامٌ تک لفظوں کی تعداد ۲۷ ہے تو اللہ تعالیٰ نے سَلَامٌ ھِیَ حَتّٰی مَطْلَعِ الْفَجْرِ فرماکربندوں کو آگاہ کردیا کہ شب قدر ۲۷ویں شب ہے "۔
(غنیہ الطّالبین ، صفحہ ۳۹۴)
علمائے طریقت (یعنی مشائخ کرام) ایک دلیل یہ دیتے ہیں کہ ’’لیلۃ القدر‘‘ کلمہ میں ۹ حروف ہیں جبکہ یہ کلمہ ’’لیلۃ القدر‘‘ اس سورۃ میں تین مرتبہ آیا ہے اس طرح ۹ کو تین سے ضرب دینے پر ۲۷ حاصل ہوتا ہے۔ نیز رمضان کے تین عشرے ہیں اگر ’’لیلۃ القدر‘‘ کے ۹ حروف کو تینوں عشروں سے ضرب دیا جائے تو بھی ۲۷ حاصل ہوتا ہے۔
تیرہویں صدی ہجری کے مجدد شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں :’’ اس رات شام سے صبح تک رحمت و تجلّیِ الٰہی بندوں کی طرف متوجہ رہتی ہے۔ فرشتے حضرت جبرائیل علیہ السلام کے ساتھ زمین پر اترتے ہیں اور عبادت کرنے والوں سے ملاقات کرتے ہیں جس کی وجہ سے عبادت میں لذت و کیفیت پیدا ہوتی ہے جو دوسری راتوںمیں نہیں ہوتی۔ قرآن اسی رات میں نازل ہوا اور فرشتوں کی پیدائش بھی اسی رات میں ہوئی ، اسی رات میں جنت میں باغات لگائے گئے۔
(تفسیر عزیزی، پارہ عم، صفحہ ۲۵۷۔۲۵۸)
فضیلتِ شب قدر:
شب قدر کی عبادت ستر ہزار شب کی عبادتوں سے افضل ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ میری امت مسلمہ میں سے جو مرد یا عورت یہ خواہش کرے کہ میری قبر نور کی روشنی سے منور ہو تو اسے چاہئے کہ ماہ رمضان کی شب قدروں میں کثرت سے عبادات الٰہی بجالائے تاکہ ان مبارک اور متبرک راتوں کی عبادت سے باری تعالیٰ اس کے نامۂ اعمال سے برائیاں مٹا کر نیکیوں کا ثواب عطا فرمائے۔