شوال المکرم اور فرامین مصطفیٰ

شوال کی فضیلت:

یہ مبارک مہینہ وہ ہے کہ جو حج کے مہینوں کا پہلا مہینہ ہے(یعنی حج کی نیت سے آغاز ِسفر) اسے شَہْرُ الْفِطْر بھی کہتے ہیں اس کی پہلی تاریخ کو عید الفطر ہوتی ہے۔ جس میں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو بخشش کا مژدہ سناتا ہے۔ جیسا کہ حدیث شریف میں ہے۔

اِذَاکَانَ یَوْمُ عِیْدِہِمْ یَعْنِیْ یَوْمَ فِطْرِہِمْ بَاہـٰی بِہِمْ مَلَائِکَتَہٗ فَقَالَ مَاجَزَآءُ اَجِیْرٍ وَفّٰی عَمَلَہٗ قَالُوْرَبَّنَا جَزَآءُ ہٗ اَنْ یُّوَفّٰی اَجْرُہٗ قَالَ مَلَائِکَتِیْ عَبِیْدِیْ وَاِمَائِیْ قَضَوْ فَرِیْضَتِیْ عَلَیْہِمْ ثُمَّ خَرَجُوْا یَعُجُّوْنَ اِلَی الدُّعَآئِ وَ عِزَّتِیْ وَجَلَالِیْ وَکَرَمِیْ وَ عُلُوِّیْ وَارْتِفَاعِ مَکَانِیْ لَاُجِیْبَنَّہُمْ فَیَقُوْلُ ارْجِعُوْا قَدْغَفَرْتُ لَکُمْ وَ بدَّلْتُ سَیِّاٰتِکُمْ حَسَنَاتٍ قَالَ فَیَرْجِعُوْنَ مَغْفُوْرًا لَّہُمْ۔( رواہ البیہقی فی شعب الایمان۔/ مشکوٰۃ صفحہ ۱۸۳)

جب عید کا دن آتا ہے یعنی عید الفطر کا دن۔ تو اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے فرشتوں سے فرماتا ہے کہ اس مزدور کی کیا مزدوری ہے جس نے اپنا کام پورا کیا ہو۔ فرشتے عرض کرتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار اس کی جزا یہ ہے کہ اسے پورا اجر دیا جائے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے۔ اے میرے فرشتو! میرے بندوں اور باندیوں نے میرے فریضہ کو ادا کردیا ہے پھر وہ (عیدگاہ کی طرف) نکلے دعا کے لیے پکارتے ہوئے۔ اور مجھے اپنی عزت و جلال اور اکرام اور بلندی اور بلند مرتبہ کی قسم میں ان کی دعا قبول کروں گا۔ پس فرماتا ہے اے میرے بندو! لوٹ جاؤ میں نے تمہیں بخش دیا۔ اور تمہاری برائیاں نیکیوں سے بدل دیں۔ حضور اقدس ﷺ نے فرمایا کہ لوگ اس حال میں واپس لوٹتے ہیں کہ ان کی بخشش ہوچکی ہوتی ہے۔

حدیث ِ مبارکہ:

حضرت انس بن مالک﷛ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ اس شخص کو جس نے ماہِ رمضان میں روزے رکھے، عید الفطرکی رات میں پورا پورا اجر عطا فرمادیتا ہے اورعید کی صبح فرشتوں کو حکم دیتا ہے کہ زمین پر جاؤ اور ہر گلی، کوچہ اور بازار میں اعلان کردو(اس آواز کو جن و انس کے علاوہ تمام مخلوق سنتی ہے) کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے امتیوں! اپنے رب کی طرف بڑھو وہ تمہاری تھوڑی نماز کو قبول کرکے بڑا اجر عطا فرماتا ہے اور بڑے بڑے گناہوں کو بخش دیتا ہے پھر جب لوگ عید گاہ روانہ ہوجاتے ہیں اور وہاں نماز سے فارغ ہوکر دعا مانگتے ہیں تو اللہ تعالیٰ اس وقت کسی دعا اور کسی حاجت کو رد نہیں فرماتا اور کسی گناہ کوبغیرمعاف کئے نہیں چھوڑتا اور لوگ اپنے گھروں کو ’’مغفور‘‘ ہو کر لوٹتے ہیں۔( غنیۃ الطالبین صفحہ ۴۰۵)


عید کے دن شیطان کا رونا:

حدیث مبارکہ:

حضرت وہب بن منبہ ﷛سے مروی ہے کہ ہر عید کے دن ابلیس چلا کر روتا ہے۔ دوسرے شیاطین اس کے پاس جمع ہوتے ہیں اور پوچھتے ہیں: اے ہمارے سردار آپ کیوں ناراض ہیں؟ وہ کہتا ہے: اللہ تعالیٰ نے اس دن میں حضرت محمدمصطفی ﷺ کی امت کو معاف کردیا۔ اب تم پر لازم ہے کہ انہیں شہوات و لذّات میں ڈال کر غافل کردو۔( مکاشفۃ القلوب صفحہ۶۹۳)

حدیثِ مبارکہ:

جو عیدین کی راتوں میں قیام کرے۔ اس کا دل اس دن نہ مرے گا جس دن لوگوں کے دل مرجائیں گے۔(یعنی قیامت کے دن)۔( مکاشفۃ القلوب صفحہ ۶۹۳)

حدیثِ مبارکہ:

جوپانچ راتوں میں شب بیداری کرے اس کے لیے جنت واجب ہے۔ ان میں سے ایک عید الفطر کی رات ہے۔حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ’’پانچ راتیں ایسی ہیں کہ ان میں کی جانے والی دعائیں رد نہیں ہوتیں۔ اول: جمعہ کی شب۔ دوم:رجب کی پہلی رات۔ سوم: شعبان کی پندرہویں رات۔ چہارم: عید الفطر کی رات۔ پنجم: عید الاضحی کی رات۔‘‘

(شعب الایمان للبہیقی جلد ۳، صفحہ ۳۴۲۔ مصنف عبدالرزاق، جلد ۳، صفحہ ۳۱۷)

حدیثِ مبارکہ:

حدیث شریف میں ہے کہ جو مسلمان شوال کی پہلی رات یا دن میں نماز عید کے بعد چار رکعت نفل اپنے گھر میں پڑھے اور ہر رکعت میں الحمد شریف کے بعد قُلْ ہُوَ اللّٰہُ اَحَدٌاکیس مرتبہ پڑھے تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے بہشت کے آٹھوں دروازے کھول دے گا۔ اور دوزخ کے ساتوں دروازے اس پر بند کردے گا اور وہ اس وقت تک نہ مرے گا کہ جب تک اپنا مکان جنت میں نہ دیکھ لے گا۔

(فضائل الایام والشہور صفحہ ۴۴۸)

تجویزوآراء