شوال المکرم کے فضائل و معمولات
اس مہینہ کی پہلی تاریخ کو عید الفطر ہوتی ہے جس کو یوم الرحمۃ بھی کہتے ہیں۔ کیونکہ اس دن اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر رحمت فرماتا ہے۔ اور اسی روز اللہ تعالیٰ نے شہد کی مکھی کو شہد بنانے کا الہام کیا تھا۔ اور اسی دن اللہ تعالیٰ نے جنت پیدا فرمائی۔ اور اسی روز اللہ تبارک و تعالیٰ نے درختِ طوبیٰ پیدا کیا۔ اور اسی دن کو اللہ عزوجل نے سیدنا حضرت جبرائیل علیہ الصلوٰۃ والسلام کو وحی کے لیے منتخب فرمایا۔ اور اسی دن میں فرعون کے جادوگروں نے توبہ کی تھی۔
(فضائل ایام و الشہور، صفحہ ۴۴۳،غنیہ الطالبین صفحہ۴۰۵، مکاشفۃ القلوب صفحہ۶۹۳)
اسی مہینہ کی چوتھی تاریخ کو سید العالمین رحمۃ اللعالمین ﷺ نجران کے نصرانیوں کے ساتھ مباہلہ کے لیے نکلے تھے اور اسی ماہ کی پندرہویں تاریخ کو اُحد کی لڑائی ہوئی۔ جس میں سید الشہداء حضرت امیر حمزہ شہید ہوئے تھے اور اسی ماہ کی پچیس تاریخ سے آخرِ ماہ تک جتنے دن ہیں وہ قوم عاد کے لیے منحوس دن تھے جن میں اللہ جل شانہٗ نے قوم عاد کو ہلاک فرمایا تھا۔
(فضائل ایام والشہور صفحہ ۴۴۴، بحوالہ عجائب المخلوقات صفحہ ۴۶)
شوال کی فضیلت:
یہ مبارک مہینہ وہ ہے کہ جو حج کے مہینوں کا پہلا مہینہ ہے(یعنی حج کی نیت سے آغاز ِسفر) اسے شَہْرُ الْفِطْر بھی کہتے ہیں اس کی پہلی تاریخ کو عید الفطر ہوتی ہے۔ جس میں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو بخشش کا مژدہ سناتا ہے۔ جیسا کہ حدیث شریف میں ہے۔
اِذَاکَانَ یَوْمُ عِیْدِہِمْ یَعْنِیْ یَوْمَ فِطْرِہِمْ بَاہـٰی بِہِمْ مَلَائِکَتَہٗ فَقَالَ مَاجَزَآءُ اَجِیْرٍ وَفّٰی عَمَلَہٗ قَالُوْرَبَّنَا جَزَآءُ ہٗ اَنْ یُّوَفّٰی اَجْرُہٗ قَالَ مَلَائِکَتِیْ عَبِیْدِیْ وَاِمَائِیْ قَضَوْ فَرِیْضَتِیْ عَلَیْہِمْ ثُمَّ خَرَجُوْا یَعُجُّوْنَ اِلَی الدُّعَآئِ وَ عِزَّتِیْ وَجَلَالِیْ وَکَرَمِیْ وَ عُلُوِّیْ وَارْتِفَاعِ مَکَانِیْ لَاُجِیْبَنَّہُمْ فَیَقُوْلُ ارْجِعُوْا قَدْغَفَرْتُ لَکُمْ وَ بدَّلْتُ سَیِّاٰتِکُمْ حَسَنَاتٍ قَالَ فَیَرْجِعُوْنَ مَغْفُوْرًا لَّہُمْ۔( رواہ البیہقی فی شعب الایمان۔/ مشکوٰۃ صفحہ ۱۸۳)
جب عید کا دن آتا ہے یعنی عید الفطر کا دن۔ تو اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے فرشتوں سے فرماتا ہے کہ اس مزدور کی کیا مزدوری ہے جس نے اپنا کام پورا کیا ہو۔ فرشتے عرض کرتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار اس کی جزا یہ ہے کہ اسے پورا اجر دیا جائے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے۔ اے میرے فرشتو! میرے بندوں اور باندیوں نے میرے فریضہ کو ادا کردیا ہے پھر وہ (عیدگاہ کی طرف) نکلے دعا کے لیے پکارتے ہوئے۔ اور مجھے اپنی عزت و جلال اور اکرام اور بلندی اور بلند مرتبہ کی قسم میں ان کی دعا قبول کروں گا۔ پس فرماتا ہے اے میرے بندو! لوٹ جاؤ میں نے تمہیں بخش دیا۔ اور تمہاری برائیاں نیکیوں سے بدل دیں۔ حضور اقدس ﷺ نے فرمایا کہ لوگ اس حال میں واپس لوٹتے ہیں کہ ان کی بخشش ہوچکی ہوتی ہے۔
حدیث ِ مبارکہ:
حضرت انس بن مالک سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ اس شخص کو جس نے ماہِ رمضان میں روزے رکھے، عید الفطرکی رات میں پورا پورا اجر عطا فرمادیتا ہے اورعید کی صبح فرشتوں کو حکم دیتا ہے کہ زمین پر جاؤ اور ہر گلی، کوچہ اور بازار میں اعلان کردو(اس آواز کو جن و انس کے علاوہ تمام مخلوق سنتی ہے) کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے امتیوں! اپنے رب کی طرف بڑھو وہ تمہاری تھوڑی نماز کو قبول کرکے بڑا اجر عطا فرماتا ہے اور بڑے بڑے گناہوں کو بخش دیتا ہے پھر جب لوگ عید گاہ روانہ ہوجاتے ہیں اور وہاں نماز سے فارغ ہوکر دعا مانگتے ہیں تو اللہ تعالیٰ اس وقت کسی دعا اور کسی حاجت کو رد نہیں فرماتا اور کسی گناہ کوبغیرمعاف کئے نہیں چھوڑتا اور لوگ اپنے گھروں کو ’’مغفور‘‘ ہو کر لوٹتے ہیں۔( غنیۃ الطالبین صفحہ ۴۰۵)
حدیثِ مبارکہ:
جو عیدین کی راتوں میں قیام کرے۔ اس کا دل اس دن نہ مرے گا جس دن لوگوں کے دل مرجائیں گے۔(یعنی قیامت کے دن)۔( مکاشفۃ القلوب صفحہ ۶۹۳)
حدیثِ مبارکہ:
جوپانچ راتوں میں شب بیداری کرے اس کے لیے جنت واجب ہے۔ ان میں سے ایک عید الفطر کی رات ہے۔حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ’’پانچ راتیں ایسی ہیں کہ ان میں کی جانے والی دعائیں رد نہیں ہوتیں۔ اول: جمعہ کی شب۔ دوم:رجب کی پہلی رات۔ سوم: شعبان کی پندرہویں رات۔ چہارم: عید الفطر کی رات۔ پنجم: عید الاضحی کی رات۔‘‘
(شعب الایمان للبہیقی جلد ۳، صفحہ ۳۴۲۔ مصنف عبدالرزاق، جلد ۳، صفحہ ۳۱۷)
حدیثِ مبارکہ:
حدیث شریف میں ہے کہ جو مسلمان شوال کی پہلی رات یا دن میں نماز عید کے بعد چار رکعت نفل اپنے گھر میں پڑھے اور ہر رکعت میں الحمد شریف کے بعد قُلْ ہُوَ اللّٰہُ اَحَدٌاکیس مرتبہ پڑھے تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے بہشت کے آٹھوں دروازے کھول دے گا۔ اور دوزخ کے ساتوں دروازے اس پر بند کردے گا اور وہ اس وقت تک نہ مرے گا کہ جب تک اپنا مکان جنت میں نہ دیکھ لے گا۔
(فضائل الایام والشہور صفحہ ۴۴۸)
شبِ عید الفطر یعنی چاند رات کے اعمال:
حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ اس ماہ مبارک کی چاند رات کو لیلۃ الجائزہ یعنی انعام والی رات بھی کہتے ہیں۔ یہ بڑی عظمت والی رات ہے، اس رات کو بہتر تو یہ ہے کہ یاد الٰہی میں گزارے۔ ورنہ عشاء کی نماز باجماعت تکبیر اولیٰ کے ساتھ پڑھے اور فجر کی نماز کی تکبیر اولیٰ میں شریک ہوجائے تو شب بھر بیداری کے ساتھ عبادت میں مصروف رہنے کا ثواب ملے گا۔
(غنیۃ الطالبین صفحہ ۴۰۵)
عید کی وجہ تسمیہ:
عید کو عید اس لیے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس دن اپنے بندوں کی طرف فرحت و شادمانی باربار عطا کرتاہے یعنی عید اور عود ہم معنی ہیں۔ بعض علماء کا قول ہے کہ عید کے دن اللہ تعالیٰ کی طرف سے بندہ کو منافع، احسانات اور انعامات حاصل ہوتے ہیں یعنی عید عوائد سے مشتق ہے اور عوائد کے معنی ہیں منافع کے یا عید کے دن، بندہ چونکہ گریہ و زاری کی طرف لوٹتا ہے اور اس کے عوض اللہ تعالیٰ بخشش و عطا کی جانب رجوع فرماتا ہے۔ بعض علماء کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ بندہ اطاعت الٰہی سے اطاعت رسولﷺ کی طرف رجوع کرتا اور فرض کے بعد سنت کی طرف پلٹتا ہے، ماہ رمضان کے روزے رکھنے کے بعد ماہ شوال کے چھ روزوں کی طرف متوجہ ہوتا ہے اس لیے اس کو عید کہتے ہیں عید کی وجہ تسمیہ کے متعلق بعض علماء کا کہنا ہے کہ عید کو اس لیے عید کہا گیا ہے کہ اس دن مسلمانوں سے کہا جاتا ہے(اللہ تعالیٰ فرماتا ہے) کہ اب تم مغفور ہو کر اپنے گھروں اور مقامات کو لوٹ جاؤ۔ بعض علماء نے فرمایا کہ اس کو عید اس لیے کہا گیا کہ اس میں وعدہ و وعید کا ذکر ہے، باندی اور غلام کی آزادی کا دن ہے، حق تعالیٰ اس دن اپنی قریب اور بعید مخلوق کی طرف توجہ فرماتا ہے، کمزور و ناتواں بندے اپنے رب کے سامنے گناہوں سے توبہ اور رجوع کرتے ہیں۔
(غنیۃ الطالبین صفحہ۴۰۴ اور ۴۰۵)
عید منانے کا اسلامی طریقہ
عید الفطر کے مستحب کام:
(۱) حجامت بنوانا (۲)ناخن ترشوانا (۳)غسل کرنا (۴)مسواک کرنا (۵) اچھے کپڑے پہننا نیا ہو تو بہتر ورنہ دھلا ہوا ہو۔ (۶) ساڑھے چار ماشہ چاندی کی انگوٹھی پہننا۔ (۷) خوشبو لگانا۔ (۸) فجرکی نماز محلہ کی مسجد میں ادا کرنا۔ (۹) نبی کریم ﷺ کی بارگاہ میں بصد خلوص درود و سلام کا نذرانہ پیش کرنا (۱۰)عید گاہ میں جلدی جانا (۱۱) عید گاہ کو پیدل جانا (۱۲) واپسی پر دوسرا راستہ اختیار کرناراستے میں تکبیرتشریق پڑھتے ہوئے جانا (۱۳) نمازعید کو جانے سے پہلے چند کھجوریں کھالینا۔ (۱۴) تین یا پانچ یا سات یا کم و بیش مگر طاق ہوں کھجوریں نہ ہوں تو کوئی میٹھی چیز کھالے۔ نماز سے پہلے کچھ نہ کھایا تو گنہگار نہ ہوگا مگر عشاء تک نہ کھایا تو گنہگار بھی ہوگا اورعتاب بھی کیا جائے گا۔(۱۵) نماز عید کے بعد معانقہ و مصافحہ کرنا اور رمضان کی کامیابیوں پر مبارکباد اور عید کی مبارکباد دینا۔(۱۶) سُبْحَانَ اللّٰہِ وَ بِحَمْدِہٖ ۳۰۰ مرتبہ پڑھنا بے حد اجر و ثواب کا باعث ہے۔
عید کے دن کا انمول وظیفہ:
حضور اکرم، سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا: جس نے عید کے دن تین سو بار یہ ورد پڑھا سُبْحَانَ اللہِ وَ بِحَمْدِہٖ (اللہ پاک ہے اور اس کی حمد ہے) پھر اس کا ثواب تمام مسلمان مُردوں کو بخش دیا، تو ہر قبر میں ایک ہزارا نوار داخل ہوں گے اور جب یہ آدمی فوت ہوگا تو اللہ تعالیٰ اس کی قبر میں بھی ایک ہزارا نوار داخل کرے گا۔( مکاشفۃ القلوب صفحہ ۶۹۲)
نماز عید سے قبل میٹھا کھانے کی حکمت:
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید گاہ جانے سے قبل تین یا پانچ یا سات، طاق عدد میں کھجوریں تناول فرماتے۔( بخاری شریف)
فقہا و محدثین فرماتے ہیں کہ اس میں یہ حکمت ہے کہ کھجوریں کھانا اس لیے مستحب ہے کہ شیریں ہوتی ہے اور شیرینی اس بینائی کو قوت دیتی ہے جو روزہ سے ضعیف ہوجائے۔ نیز شیرینی دل کو نرم کرتی ہے اور ایمانی مزاج کے موافق ہے۔ اس لیے مروی ہے کہ مسلمان آدمی میری شیرینی ہے اور اگر کوئی شخص خواب میں شیرینی کھاتا دیکھے تو اس کی تعبیر یہ ہے کہ اسے ایمان کی لذت نصیب ہوگی۔ اس وجہ سے شیرینی سے افطار افضل ہے جیسے شہد اور کھجور سے۔( ماثبت من السنۃ، صفحہ ۲۲۲، ۲۲۳)
نماز ِ عید سے قبل صدقۂ فطر ادا کرنا ضروری ہے:
جب تک صدقۂ فطر نہ دیا جائے روزے معلق رہیں گے۔ جو کچھ لغو اور بے ہودہ باتیں روزوں میں سرزد ہوگئی ہیں، صدقۂ فطر روزوں کو ان سے پاک کردے گا۔ صدقۂ فطرعید کے دن صبح صادق کے طلوع ہوتے ہی واجب ہوتا ہے۔ مرد اپنی نابالغ اولاد کی طرف سے بھی دے اور بالغ اولادکو دینے کی ہدایت کرے اگر باپ نہ ہوتو داداباپ کی جگہ ہے۔ وہ اپنے یتیم پوتا پوتی کی طرف سے صدقۂ فطر دے۔ہر گھر کا سرپرست اپنی زیر کفالت نابالغ افراد (جن میں عید کی نماز سے پہلے پیدا ہوجانے والا بچہ بھی شامل ہے) کی جانب سے فطرہ دینے کا پابند ہے صدقۂ فطر کی مقدار 100روپے فی کس ہے۔ مسنون و بہتر یہ ہے کہ عید گاہ جانے سے پہلے صدقہ فطر ادا کرے اگر نہ دیا تو واجب سر پر رہے گا عمر بھر میں جب بھی دینا چاہے ادا ہو جائے گا۔( بہارِ شریعت، حصہ پنجم، صفحہ ۵۵، ۵۶)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عید
حدیثِ مبارکہ:
حضرت ِ جابر بن سمرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عید کی نمازیں ادا کی ہیں اور ہر دفعہ انہیں اذان اور اقامت کے بغیر ہی ادا کیا۔( مسلم شریف)
حدیثِ مبارکہ:
نبی کریم ﷺ کی یہ عادت شریفہ تھی کہ عیدکی نماز ہمیشہ جامع مسجد کے باہر یا کسی اور جگہ کھلے میدان میں پڑھنے کا حکم دیتے، البتہ ایک دفعہ جب بارش ہوئی تو آپ ﷺ نے مسجد میں ہی نماز ادا کرلی۔( بخاری شریف)
حدیثِ مبارکہ:
حضور سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم جب عید گاہ کے لیے روانہ ہوتے تو راستے میں اور نمازِ عید شروع کرنے سے قبل تک تکبیر پڑھتے رہتے، اسے بلند آواز سے پڑھتے، اور واپس ہمیشہ دوسرے راستہ سے آتے، لیکن واپسی کے وقت تکبیر نہیں پڑھتے۔
(بخاری شریف، سننِ کبریٰ بیہقی)
حدیثِ مبارکہ:
رسول اکرم محبوبِ معظم ﷺنے حضرت عمرو بن حزم رضی اللہ عنہ کو (جب وہ نجران میں تھے ) خط لکھا کہ عید الاضحی کی نماز جلدی پڑھاؤاور عید الفطر کی دیر سے اور اس کے بعد لوگوں کو وعظ و نصیحت کرو۔( مسند امام شافعی)
نمازِ عید الفطر کامسنون طریقہ وآداب:
اللہ تعالیٰ عزوجل فرماتا ہے:
وَلِتُکْمِلُو الْعِدَّۃَ وَلِتُکَبِّرُو اللہَ عَلٰی مَا ہَدٰکُمْ وَلَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ( پارہ دوم سورۃ البقرۃ آیت ۱۸۵)
’’روزوں کی گنتی پوری کرو اور اللہ کی بڑائی بولواس پر کہ اس نے تمہیں ہدایت فرمائی تاکہ تم شکر گزار ہو۔‘‘( کنزالایمان)
نماز عید کا وقت وہی ہے جو کہ اشراق کی نماز کا ہوتا ہے، یعنی سورج اتنا اوپر آجائے کہ اسے نظر بھر کر نہ دیکھا جاسکے۔ عیدین کی نماز کے لیے حضور پر نور ﷺ نے نہ کبھی اذان دلوائی اور نہ کبھی اقامت کہلوائی۔
شیرینی کھا کر گھر سے نکلتے وقت تکبیر تشریق وردِ زباں رکھیں (تکبیر تشریق:’’اَللہُ اَکْبَرُ، اللہُ اَکْبَرُ لَا اِلٰـہَ اِلَّا اِللہُ وَاللہُ اَکْبَرُ اَللہُ اَکْبَرُ وَلِلہِ الْحَمْدُ‘‘ اور عید گاہ پہنچ کر تکبیر و درود شریف پڑھتے رہیں، (یاد رکھیں صحیح العقیدہ سُنی عالمِ دین و خطیب کے پیچھے ہی نماز ادا ہوگی) عالمِ دین،وعظ فرمارہے ہوں تو بغور سماعت کرنا چاہیے۔ جماعت کے قیام میں وقت باقی ہو نے کی وجہ سے بعض لوگ نوافل وغیرہ ادا کرتے ہیں جو غلط ہے۔ جس وقت جماعت کھڑی ہو تو کھڑے ہو کر صف بندی کا خیال کریں، نماز کے آداب کا خیال کریں، ننگے سر، کھلی کہنیوں، اور کھلے گریبان کے ساتھ نماز مکروہِ تحریمی ہوگی۔ نماز عید عورتوں پر واجب نہیں ہے۔
نماز عید کی نیت:
میں نیت کرتا ہوں دو رکعات نماز عید الفطر واجب زائد چھ تکبیرات کے ساتھ، خاص واسطے اللہ تعالیٰ کے، متوجہ ہوا میں بیت اللہ شریف کی طرف، پیچھے حاضر اس امام کے۔
تکبیر تحریمہ:
امام کے تکبیر تحریمہ ادا کرنے کے بعد مقتدی تقلید کرتے ہوئے اپنی تکبیر تحریمہ کہے گا۔ یعنی نیت کے بعد کانوں تک ہاتھ اٹھا کر،ہتھیلیوں کوقبلہ رخ کرکے’’اللہ ُاکبر‘‘ زبان سے ادا کرنا پھر ہاتھوں کو باندھ لینا، اور ثنا پڑھنا جو عام نمازوں میں پڑھتے ہیں۔
زائد تکبیرات کی ادائیگی:
ثناپڑھ لینے کے بعد امام صاحب تین تکبیریں باآوازِ بلند کہیں گے، پہلی تکبیر پر مقتدی کانوں تک ہاتھ اٹھا کر نیچے چھوڑ دینگے، دوسری تکبیر پر کانوں تک ہاتھ اٹھا کر پھر چھوڑ دینگے اور تیسری تکبیر پر کانوں تک ہاتھ اٹھا کر، ہاتھوں کو زیرِ ناف باندھ لیں گے۔ امام صاحب تلاوت کریں گے اور رکوع و سجود کریں گے پھر دوسری رکعت کے لیے کھڑے ہوں گے، تلاوت ہوگی، رکوع میں جانے سے پہلے بقایا تین تکبیرات کی ادائیگی اس طرح ہوگی کہ امام صاحب سے پہلی تکبیر سن کر مقتدی کانوں تک ہاتھ اٹھا کر نیچے گرادینگے، دوسری اور تیسری تکبیر پر بھی کانوں تک ہاتھ اٹھا کر نیچے گرادینگے جبکہ چوتھی تکبیر پر کانوں تک ہاتھ اٹھائے بغیر رکوع میں چلے جائیں گے، باقی عام نماز وں کے انداز میں نماز مکمل ہوگی۔
خطبۂ عید الفطر:
نماز جمعہ کے بر عکس عید الفطر اور عید الاضحی کے خطبے فراغت ِ نماز کے بعد ہوتے ہیں دورانِ خطبہ مقتدیوں کو خاموش اور باادب بیٹھنا چاہیے، ادھر اُدھر دیکھنے، بلا وجہ بدن کھجانے، موبائل فون استعمال کرنے،چہرے سے بے زاری کا اظہار کرنے، خطبے اور دعا کی طوالت پر عدم دلچسپی کا اظہار کرنے سے بچنا چاہیے۔
صحابہ کرام کی عید
حکایت ۱:
حضرت عمرؓ نے اپنے بیٹے کو عید کے دن دیکھا، اس کی قمیض پرانی تھی، تو رو پڑے۔ اس نے کہا: آپ کیوں روتے ہیں؟ فرمایا: اے بیٹا! مجھے خطرہ ہے عید کے دن تیرا دل ٹوٹ جائے گا، جب بچے تمہیں یہ پُرانی قمیض پہنے دیکھیں گے۔ اس نے کہا: دل اس کا ٹوٹتا ہے جس کو اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل نہ ہو، یا اس نے ماں باپ کی نافرمانی کی ہو اور مجھے امید ہے کہ آپ کی رضا کے باعث اللہ تعالیٰ مجھے سے راضی ہوگا۔ حضرت عمرؓ روپڑے اور اسے سینہ سے لگالیا اور اس کے لیے دعا کی۔( مکاشفۃ القلوب، صفحہ ۶۹۳)
حکایت ۲:
عید کے دن حضرت علیؓکی خدمت میں ایک شخص حاضر ہوا آپ اس وقت بھوسی کی روٹی کھارہے تھے، اس نے عرض کیا کہ آج عید کا دن ہے اور آپ چوکر(بھوسی) کی روٹی کھارہے ہیں؟ آپ نے جواب دیا آج عید تو اس کی ہے جس کا روزہ قبول ہو، جس کی محنت مشکور ہو، اور جس کے گناہ بخش دیے گئے ہوں۔ آج کا دن بھی ہمارے لیے عید کا دن ہے کل بھی ہمارے لیے عید ہوگی اور ہر دن ہمارے لیے عید کا دن ہے جس دن ہم اللہ تعالیٰ کی نافرمانی نہ کریں۔( غنیۃ الطالبین صفحہ ۴۱۱)
اہم نکتہ:
عید کی نماز سے فارغ ہوکر لوگ عید گاہ سے لوٹتے ہیں، کوئی گھر کو جاتا ہے، کوئی دکان کو اور کوئی مسجد کو تو اس وقت یہ حالت دیکھ کر مسلمان کو چاہیے کہ اس منظر اور کیفیت کو یاد کرے کہ اس طرح لوگ قیامت میں جزا و سزا دینے والے بادشاہ کے حضور سے جنت اور دوزخ کی طرف لوٹ کر جائیں گے، جیسا کہ حق تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَتُنْذِرَ یَوْمَ الْجَمْعِ لَا رَیْبَ فِیْہِ فَرِیْقٌ فِی الْجَنَّۃِ وَفَرِیْقٌ فِی السَّعِیْرِ( پارہ ۲۵،سورۃ شوریٰ، آیت ۷)
اور تم ڈراؤ اکٹھے ہونے کے دن سے جس میں کچھ شک نہیں، ایک گروہ جنت میں ہے اور ایک گروہ دوزخ میں۔
( کنز الایمان)
اسلامی تہوار مثالی معاشرے کے قیام کی ضمانت:
اقوامِ عالم مختلف مواقع پر خوشیوں کے اظہار کے لیے اجتماعی طور پر تہوار مناتی ہیں، یہ تہوار مذہبی روایات اور قومی جذبات کے آئینہ دار ہوتے ہیں۔ لیکن یہ ایک امر مسلّمہ ہے کہ اسلامی تہوار محض تفریحِ طبع کے لیے منعقد نہیں ہوتے بلکہ اسلامی معاشرے کو خوشحالی اور فلاحی بنانے کا ذریعہ ہوتے ہیں۔ مختلف ادیان و مذاہب کے ماننے والے جتنے تہوار مناتے ہیں اسے ہر طرح کے مادّی سازو سامان سے معمور رکھتے ہیں۔عیش و عشرت، راگ و موسیقی، نغمہ و سرود، شراب و شباب اور میلوں تماشوں میں محو و مگن ہوتے ہیں۔ بحمدہٖ تعالیٰ مسلمانوں کے تمام تہوار، دینی شعار کی طرح صرف ذاتی خوشی کے لیے نہیں بلکہ اللہ عزوجل کی رضا کے لیے ہوتے ہیں، ان تہواروں کا انعقاد اللہ عزوجل اور اس کے پیارے محبوب علیہ الصلوٰۃ والسلام کے احکام پر عمل کے نتیجے میں ہوتا ہے۔ اسی لیے تہوار کاآغاز ہی اللہ تعالیٰ کی کبریائی کے اعلان اور اس کے ذکر و اذکار سے ہوتا ہے۔ اسلامی تہوار غم گساری بھی سکھاتا ہے کہ اپنے دوسرے مسلمان بھائیوں کے معاشی استحکام کے لیے ایک متمول مسلمان اپنا کردار ادا کرے۔بین المسلمین مواخات کے رشتے اسلامی تہوار کے ذریعے مضبوط اور مربوط ہوتے ہیں۔ مسلمانوں کا باہم ایک دوسرے سے معانقہ کرنا، مصافحہ کرنا،رمضان کی مبارکباد پیش کرنا، تراویح و تسبیحات کی قبولیت کی ایک دوسرے کے حق میں دعا کرنا، ایک دوسرے کے حق میں مغفرت کی دعا کرنا، تحائف کا تبادلہ کرنا اور طعام کی دعوت دیناوغیرہ، ایک اخلاقی،مثالی اور فلاحی معاشرے کے قیام کی ضمانت دیتے ہیں۔یہ معمولات و عادات زندہ مسلمانوں کے درمیان ہی نظر نہیں آتے ہیں بلکہ مسلمانوں کے تہوار اپنے پیش رو مرحومین کو بھی نظر انداز نہیں کرتے، نماز ِ عید کی ادائیگی کے بعد اور برادرانِ اسلام سے ملاقات کے بعد قبرستان جانا اور مسلمان مرحومین کے حق میں دعائے مغفرت کرنا، سنّت ِ متواترہ ہے۔
حضور غوث الثقلین شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ فرماتے ہیں، ’’مسلمان کی عید، طاعت و بندگی کی علامات کے ظاہر ہونے سے ہے، گناہوں اور خطاؤں سے دوری کی بنیاد پر ہے، سیئات کے عوض حسنات (نیکیوں) کے حصول اور درجات کی بلندی کی بشارت ملنے پر ہے، اللہ تعالیٰ جل شانہٗ کی طرف سے خلعتیں، بخششیں اور کرامتیں حاصل ہونے کے باعث ہے، مسلمان کو نورِ ایمان سے معمور سینہ کی روشنی، قوتِ یقین اور دوسری نمایاں علامات کے سبب دل میں سکون پیدا ہوتا ہے پھر دل کے اتھاہ سمندر سے علوم و فنون اور حکمتوں کا بیان زبان پر رواں ہوجانے سے عید کی حقیقی مسرتیں حاصل ہوتی ہیں۔‘‘( غنیۃالطالبین، صفحہ ۴۱۰، ۴۱۱)