ضیائے تراویح
ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ماہ رمضان کی وسط رات میں ایک بار حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے مسجد میں نماز پڑھی لوگوں نے بھی حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی اقتدا میں نماز ادا کی۔ دوسری رات آدمیوں کی اتنی کثرت ہوئی کہ مسجد تنگ ہوگئی لیکن نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم اپنے حجرہ سے برآمد نہیں ہوئے ، صبح کو فجر کی نماز کے لئے تشریف لائے ، فجر کی نماز سے فارغ ہوکر لوگوں سے خطاب فرمایا : ’’تمہاری رات کی حالت مجھ سے پوشیدہ نہ تھی ، لیکن اندیشہ یہ تھا کہ نماز ِ تراویح تم پر فرض نہ ہوجائے اور تم اس کے ادا کرنے سے عاجز ہوجاؤ۔‘‘ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم لوگوں کو رمضان کی راتوں کو زندہ رکھنے (نماز پڑھنے ) کی ترغیب دیا کرتے تھے بغیر اس کے کہ آپ ان پر لزوم کے ساتھ حکم فرمائیں (یعنی وجوبی حکم حضور ا نہیں دیتے تھے) آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے وصال کے بعد حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور عہد فاروقی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ابتدائی دور میں تراویح کا معاملہ یوں ہی رہا ۔حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مجھ سے تراویح کی نماز کی حدیث جب سنی تو آپ نے اس پر عمل فرمایا۔ لوگوں نے دریافت کیا کہ اے امیر المومنین وہ حدیث کیا ہے؟ تو آپ نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم سے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا کہ عرشِ الٰہی کے ارد گرد ایک جگہ جس کا نام ’’حضیرۃ القدوس‘‘ ہے وہ نور کی جگہ ہے اس میں اتنے فرشتے جن کی تعداداللہ ل کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ عبادت الٰہی میں مشغول رہتے ہیں اس میں ایک لمحہ کی بھی کوتاہی نہیں کرتے۔ جب ماہ رمضان کی راتیں آتی ہیں تو یہ اپنے رب سے زمین پر اترنے کی اجازت طلب کرتے ہیں اور وہ بنی آدم کے ساتھ مل کر نماز پڑھتے ہیں ۔ امت محمدیہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم میں جس نے ان کو مَس کیایا انہوں نے کسی کو مَس کیاتو وہ ایسا نیک بخت و سعید بن جاتا ہے کہ پھر کبھی بد بخت و شقی نہیں بنتا ۔ یہ سن کر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا جب کہ اس (نماز ) کی یہ شان ہے تو ہم اس کے زیادہ حقدار ہیں۔ پھر آپ (حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ) نے تراویح کی جماعت قائم کرکے اس کو سنت قرار دے دیا۔ (غنیہ الطالبین صفحات ۳۹۹۔۴۰۰)
نماز تراویح بیس رکعات ہیں:
رمضان المبارک کے مہینہ میں نمازِ عشاء کے بعد بیس ۲۰ رکعت نماز تراویح پڑھنی صحیح مذہب میں سنت مؤکدہ ہے اور تمام آئمہ دین یعنی امام اعظم ابو حنیفہ اور ان کے تلامذہ ، امام مالک اور ان کے تلامذہ، امام شافعی اور ان کے تلامذہ، امام احمد بن حنبل اور ان کے تلامذہ کے علاوہ وہ دیگر مجتہدین بھی (جن کے مقلدین آج دنیا میں نہیں ہیں) اس کے سنت ہونے اور بیس رکعات ہونے پر متفق ہیں ۔ رافضیوں کے علاوہ کوئی جماعت ِتراویح کامنکر نہیں ہے۔غیر مقلدین (نام نہاد اہلحدیث یا اہل الظواہر) بیس رکعات پر کمزور اعتراض کرتے ہیں اور اپنی ہٹ دھرمی کے باعث آٹھ رکعات پڑھتے ہیں ، جو ثابت نہیں ۔ آٹھ رکعات کوتراویح کہنا بھی غلط اور باطل ہے ، کیونکہ ’’تراویح‘‘ جمع ہے ’’ترویحہ ‘‘واحد ہے ، ایک ترویحہ چار رکعات کا ہوتا ہے توعربی قواعد کے اصولو ں کے مطابق آٹھ رکعات ادا کرنے کے نتیجے میں دو ترویحہ بنتے ہیں جس پرتثنیہ کا اطلاق ہوتا ہے اور لغت کے حساب سے ’’ترویحتان‘‘ کہا جاتا ہے ۔عربی میں کسی بھی لفظ کی جمع کا اطلاق دو سے زائد پر ہوتا ہے لہٰذا آٹھ رکعات کو کبھی بھی تراویح قرار نہیں دیا جاسکتا ۔ حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے کبھی بھی رمضان میں آٹھ رکعات تراویح کے طور پر ادا نہیں فرمائیں۔ اور نہ ہی آٹھ رکعات ادا کرنے کی ہدایت فرمائی۔ امام بیہقی علیہ الرحمۃ نے بسند صحیح حضرت سائب بن یزید رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ سے روایت کی کہ’’ لوگ فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کے زمانہ میں بیس رکعتیں پڑھا کرتے تھے اور عثمان و علی رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے عہد میں بھی ایسا ہی تھا ‘‘اور ’’موطا ‘‘میں یزید بن رومان سے روایت ہے کہ ’’عمر رضی اللہ عنہٗ کے زمانہ میں لوگ تئیس ۲۳ رکعات پڑھتے ‘‘۔ بیہقی علیہ الرحمہ نے کہا اس میں تین رکعتیں وتر کی ہیں اور مولیٰ علی رضی اللہ عنہٗ نے ایک شخص کو حکم فرمایا کہ’’ رمضان میں لوگوں کو بیس ۲۰ رکعتیں پڑھائے ۔‘‘نیز اس کے بیس رکعت میں یہ حکمت ہے کہ فرائض و واجبات کی اس سے تکمیل ہوتی ہے اور کل فرائض و واجبات کی ہر روز بیس رکعتیں ہیں (یعنی فجر ۲ +ظہر ۴+عصر۴+مغرب۳+عشاء فرض۴+ وتر۳=۲۰رکعات) لہٰذا مناسب تھا کہ یہ بھی بیس ہوں ۔
( بہار شریعت، حصہ چہارم، صفحہ ۳۰)
نماز تراویح کی اہمیت و فضیلت:
محقق علی الاطلاق حضرت عبدالحق محدث دہلوی علیہ الرحمۃ نے اپنی کتا ب ’’مَاثَبَتْ مِنَ السُنَّۃ‘‘ میں بعض کتبِ فقہ کے حوالہ سے لکھا ہے۔
ذُکِرَ فِیْ بَعْضِ کُتُبِ الْفِقْہِیَّۃِ لَوْ تَرَکَ اَھْلُ الْبَلَدَۃِ التَّرَاوِیْحَ قَاتَلَہُمُ الْاِمَامُ عَلـٰی ذَالِکَ
(ماثبت فی السنۃ ۱۵۸)
بعض فقہ کی کتابوں میں مذکور ہے کہ اگر اہلِ شہر تراویح پڑھنا چھوڑ دیں تو امام(حاکم) اس پر ان سے جنگ کرے۔
سیدنا غوث اعظم شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہٗ لکھتے ہیں کہ ’’مستحب ہے کہ نماز تراویح باجماعت ہو اور تلاوتِ قرآن جہری ہو۔اس لئے کہ حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے نماز تراویح اسی طرح پڑھی تھی۔ نماز تراویح کی ابتدا اسی رات سے کرنا چاہئے جس رات کو ماہ رمضان کا چاند نظر آجائے اس لئے کہ وہ رات ماہ رمضان کی رات ہوتی ہے ۔ تراویح عشا کی نماز کے فرضوں اور سنتوں کے بعد ہونی چاہئے۔ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کا عمل یہی تھا۔ تراویح کی بیس رکعتیں ہیں۔ہر دو رکعت کے بعد سلام پھیرنا چاہئے۔ بیس رکعت کے پانچ ترویحہ ہیں یعنی ہر چار رکعت کا ایک ترویحہ ، ہر چار رکعت کے بعد کچھ دیر لئے وقفہ ضروری ہے۔۔۔۔۔۔پورے قرآن کو تراویح میں پڑھنا مستحب ہے ۔ (غنیہ الطالبین صفحات ۴۰۰۔۴۰۱)
مسلمان مرد کومسجد میں جماعت سے نماز تراویح پڑھنی چاہئے۔ اور مسلمان عورت کو اپنے گھر کی چار دیواری میں تراویح پڑھنی چاہئے ۔ تراویح پڑھتے وقت ہر چار رکعت کے بعد نمازی کو اختیار ہے کہ تسبیح پڑھے یا قرآن مجید پڑھے یا نفلیں پڑھے۔ خواہ خاموش رہے اگر تسبیح پڑھے تو یہ پڑھے:
سُبْحَانَ ذِی الْمُلْکِ وَالْمَلَکُوْتِ سُبْحَانَ ذِی الْعِزَّۃِ وَالْعَظَمَۃِ وَالْہَیْبَۃِ وَالْقُدْرَۃِ وَالْکِبْرِیَآئِ وَالْجَبَرُوْتِ سُبْحَانَ الْمَلِکِ الْحَیِّ الَّذِیْ لَا یَنَامُ وَلَا یَمُوْتُ سُبُّوحٌ قُدُّوْسٌ رَبُّنَا وَرَبُّ الْمَلَائِکَۃِ وَالرُّوْحِ اَللّٰہُمَّ اَجِرْنَا مِنَ النَّارِ یَا مُجِیْرُ یَا مُجِیْرُ یَا مُجِیْرُo اَلصَّلـٰوۃُ بَرْ مُحَمَّدُ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم