ذی الحج کے فضائل اور معمولاتِ اھلسنت

ماہِ ذی الحجہ کی فضیلت:

ذوالحجہ کا مہینہ ان چار برکت اور حرمت والے مہینوں میں سے ایک ہے۔ اس مبارک مہینہ میں کثرتِ نوافل، روزے، تلاوت قرآن، تسبیح و تہلیل، تکبیر و تقدیس اور صدقات و خیرات وغیرہ اعمال کا بہت بڑا ثواب ہے۔ اور بالخصوص اس کے پہلے دس دنوں کی اتنی فضیلت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس عشرہ کی دس راتوں کی قسم یاد فرمائی ہے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَالْفَجْرِ وَلَیَالٍ عَشْرٍ 

(ترجمہ) قسم ہے مجھے فجر کی عیدِ قربان کی اور دس راتوں کی جو ذوالحجہ کی پہلی دس راتیں ہیں۔

اس قسم سے پتہ چلتا ہے کہ عشرہ ذی الحجہ کی بہت بڑی فضیلت ہے۔( فضائل الایام والشہور صفحہ ۴۶۳)

ماہِ ذوالحجہ کی فضیلت احادیث مبارکہ کی روشنی میں

حدیث ۱:

عَنْ اُمِّ سَلْمَۃ قَالَتْ قَالَ رَسُول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اِذَا دَخَلَ الْعَشْرُ وَ اَرَادَ بَعْضُکُمْ اَنْ یُّضَحِّیَ فَلَا یَمَسَّ مِنْ شَعْرِہٖ وَبَشَرِہٖ شَیْئًا وَّفِیْ رِوَایَۃٍ فَلَا یَأْ خُذَنَّ شَعْرًا وَّلَا یُقْلِمَنَّ ظُفْرًا وَفِیْ رِوَایَۃٍ مَنْ رَأْی ھِلَالَ ذِی الْحَجَّۃِ وَ اَرَا دَ اَن یُّخَحِّیَ فَلَا یَأْ خُذْ مِنْ شَعْرِہٖ وَلَا مِنْ اَظْفَا....( رواہ المسلم (مشکوٰۃ ص ۱۲۷))

ترجمہ: سیّدہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول خدا حبیب ِ کبریا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ جس وقت عشرہ ذی الحجہ داخل ہوجائے اور تمہارا کوئی آدمی قربانی کرنے کا ارادہ رکھتا ہو تو چاہیے کہ بال اور جسم سے کسی چیز کو مس نہ کرے۔ اور ایک روایت میں ہے کہ فرمایا کہ بال نہ کترائے اور نہ ناخن اتروائے۔ اور ایک روایت میں ہے کہ جو شخص ذی الحجہ کا چاند دیکھ لے اور قربانی کا ارادہ ہو تو نہ بال منڈائے اور نہ ناخن ترشوائے۔

حدیث۲:

عَنْ اِبْن عَبَّاس قَالَ قَالَ رَسُوْل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مَا مِنْ اَیَّامِ الْعَمَلُ الصَّالِحُ فِیْھِنَّ اَحَبُّ اِلَی اللّٰہِ مِنْ ہٰذِ ہِ الْاَیَّامِ الْعَشْرَۃِ قَالُوْا یَا رَسُوْلَ اللہِ وَلَا الْجِہَادُ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ قَالَ وَلَا الْجِہَادُ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ اِلَّا رَجُلٌ خَرَجَ بِنَفْسِہٖ وَمَالِہٖ فَلَمْ یَرْجِعْ مِنْ ذَالِکَ بِشَیءٍ۔(رواہ البخاری (مشکوٰۃ ص ۱۲۸))

سیّدنا حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا کہ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کوئی دن ایسا نہیں ہے کہ نیک عمل اس میں ان ایام عشرہ سے اللہ تعالیٰ کے نزدیک زیادہ محبوب ہو۔ صحابۂ کرام صلی اللہ علیہ وسلم نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں ؟ فرمایا: جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں! مگر وہ مرد جو اپنی جان اور مال لے کر نکلا اور ان میں سے کسی چیز کے ساتھ واپس نہیں آیا۔(یعنی شہادت)

حدیث ۳:

عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃ رضی اللہ عنہ   عَنِ النَّبِی ِصلی اللہ علیہ وسلم اَنَّہٗ قَالَ مَامِنْ اَیَّامٍ اَحَبُّ اِلَی اللہِ تَعَالٰی اَنْ یَّتَعَبَّدَ لَہٗ فِیْھِنَّ مِنْ اَیَّامِ عَشْرِ ذِی الْحَجَّۃِ وَاِنَّ صِیَامَ یَوْمٍ فِیْہَایَعْدِلُ صِیَامَ سَنَۃٍ وَقِیَامَ لَیْلَۃٍ فِیْھِنَّ کَقِیَامِ سَنَۃٍ۔

(غنیۃ الطالبین ص ۴۱۷، مشکوٰۃ ص ۱۲۸)

سیّدنا حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ کوئی دن زیادہ محبوب نہیں اللہ تعالیٰ کی طرف کہ ان میں عبادت کی جائے ذی الحجہ کے ان دس دنوں سے۔ ان دنوں میں ایک دن کا روزہ سال کے روزوں کے برابر ہے اور اس کی ایک رات کا قیام سال کے قیام کے برابر ہے۔

(فضائل الایام والشہور صفحہ ۴۶۴ تا ۴۶۶)

عشرہ ذی الحجہ کی فضیلت:

جو شخص ان دس ایام کی عزت کرتا ہے اللہ تعالیٰ یہ دس چیزیں اس کو مرحمت فرماکر اس کی عزت افزائی کرتا ہے(۱) عمر میں برکت(۲) مال میں افزونی (۳) اہل و عیال کی حفاظت (۴) گناہوں کا کفارہ (۵) نیکیوں میں اضافہ (۶) نزع میں آسانی (۷)ظلمت میں روشنی (۸) میزان میں سنگینی یعنی وزنی بنانا (۹) دوزخ کے طبقات سے نجات (۱۰) جنت کے درجات پر عروج۔

جس نے اس عشرہ میں کسی مسکین کو کچھ خیرات دی اس نے گویا اپنے پیغمبروں علیہم السلام کی سنت پر صدقہ دیا۔ جس نے ان دنوں میں کسی کی عیادت کی اس نے اولیاء اللہ اور ابدال کی عیادت کی، جو کسی کے جنازے کے ساتھ گیا اس نے گویا شہیدوں کے جنازے میں شرکت کی، جس نے کسی مومن کو اس عشرہ میں لباس پہنایا، اللہ تعالیٰ اس کو اپنی طرف سے خلعت پہنائے گا جو کسی یتیم پر مہربانی کرے گا، اللہ تعالیٰ اس پر عرش کے نیچے مہربانی فرمائے گا، جو شخص کسی عالم کی مجلس میں اس عشرہ میں شریک ہوا وہ گویا انبیا اور مرسلین علیہم السلام کی مجلس میں شریک ہوا۔

(غنیہ الطالبین صفحہ ۴۱۹)

توبہ کا عشرہ:

وہب بن منبہ علیہ الرحمہ کا ارشاد ہے کہ جب آدم علیہ السلام کو زمین پر اتارا گیا تو وہ اپنی خطاؤںپر چھ روز تک روتے رہے، ساتویں دن اللہ تعالیٰ نے وحی نازل فرمائی (اس حال میں کہ حضرت آدم علیہ السلام مغموم و غم زدہ سر جھکائے بیٹھے تھے) کہ اے آدم ! تم نے کیسی مشقت اور محنت اختیار کر رکھی ہے؟ حضرت آدم علیہ السلام نے عرض کیا: الہی! میری مصیبت بڑی مصیبت ہے، میرے گناہ نے مجھے ہر طرف سے گھیر رکھا ہے، میں سعادت اور عزت کے گھر یعنی خلد سے نکل کر ذلت، بدبختی، موت اور فنا کے گھر میں پہنچ گیا ہوں پھر اپنے گناہوں پر کیوں نہ روؤں۔ اللہ تعالیٰ نے وحی فرمائی: کہ آدم ! کیا میں نے تجھے اپنا خاص نہیں بنایا تھا؟ اپنی مخلوق پر تجھے فضیلت نہیں دی تھی؟ کیا مخصوص طریقہ پر تجھے معزز نہیں بنایا؟ کیا اپنی محبت سے تجھے نہیں نوازا؟ کیا تجھے اپنے ہاتھوں سے نہیں بنایا؟ کیا اپنے فرشتوں سے تجھے سجدہ نہیں کرایا؟ کیا تو میری طرف سے منتہائے کرامت اور مقام عزت میں نہیں رہا؟ پھر تونے میرے حکم کے خلاف کیوں کیا؟ میرے حکم کو بھلا دیا، تونے کس طرح میری رحمت اور نعمت کو بھلادیا؟ مجھے اپنے عزت اور جلا ل کی قسم ہے کہ اگر تیری طرح لوگوں سے ساری زمین بھر جائے اور وہ سب رات دن میری تسبیح میں مشغول رہیں اور ایک لمحہ کو بھی میری عبادت پر سستی نہ کریں اور پھر وہ میری نافرمانی کریں تو میں ان کو ضرور نافرمانوں کی منزل میں اتار دوں گا۔ یہ سن کر حضرت آدم علیہ السلام کو ہِ ہند پر تین سو برس تک روتے رہے، ان کے آنسو پہاڑی نالوں میں بہتے تھے اور ان سے پاکیزہ درخت اگ آتے تھے، پھر حضرت جبرائیل علیہ السلام نے کہا کہ اے آدم علیہ السلام! بیت اللہ جایئے، اور عشرہ ذی الحج کے منتظر رہیے۔ شاید اللہ تعالیٰ آپ کی لغزش پر رحم فرمائے۔ حضرت آدم علیہ السلام وہاں سے کعبہ کو روانہ ہوگئے، وہاں پہنچ کر پورے ایک ہفتہ طواف کیا اور اتنا روئے کہ گھٹنوں گھٹنوں تک پانی چڑھ گیا۔ حضرت آدم علیہ السلام نے عرض کیا: الٰہی تیرے سوا کوئی معبود نہیں تو پاک ہے میں تیری حمد کرتا ہوں، میں نے بدی کی اور اپنے اوپر خود ظلم کیا۔ میرا قصور معاف فرمادے تو تمام بخشنے والوں سے بہتر ہے تو ارحم الراحمین ہے مجھ پر رحم فرما۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے بعد وحی بھیجی اور فرمایا ! آدم مجھے تیری کمزوری پر رحم آگیا میں نے تیرا گناہ معاف کردیا اور تیری توبہ قبول کرلی۔ یہ اسی عشرہ کی برکت تھی کہ اللہ تعالیٰ نے حضرتِ آدم علیہ السلام کی توبہ قبول کی پس اس طرح اگر کوئی مومن اللہ کا نا فرمان ہوجائے اور نفسانی خواہشات کی پیروی کرنے لگے اور وہ ان دنوں (عشرہ ذی الحجہ) میں توبہ کرے اور اللہ کی طرف رجوع کرے اور خدا کا فرمانبردار بن جائے تو اللہ اس پر مہربانی فرمائے گا اور اس کے گناہ معاف فرمادے گا، اپنی مہربانی سے اس کے گناہوں کو نیکیوں سے بدل دے گا۔(غنیہ الطالبین صفحہ ۴۲۰)

 

ذی الحجہ کی اہم دعا 

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

الحمد للّٰہ الذی فی السماء عرشہ، و الحمد للّٰہ الذی فی الارض قدرتہ، و الحمد للّٰہ الذی فی القیمۃ ھیبتہ، و الحمد للّٰہ الذی فی القبور قضاء ہ، و الحمد للّٰہ الذی فی الجنۃ رحمتہ، و الحمد للّٰہ الذی فی جھنم سلطانہ، و الحمد للّٰہ الذی فی البر و البحر برھانہ، و الحمد للّٰہ الذی فی الھواء ریحہ، و الحمد للّٰہ الذی لا مقر

و لا ملجاء الا اللّٰہ،و الحمد للّٰہ رب العالمین.

.....ترجمہ.....

ہر خوبی اللہ کے لیے ہے جس کا عرش آسمان میں ہے، تعریف اللہ کے لیے ہے جس کی قدرت زمین پر ہے، تعریف اللہ کے لیے ہے جس کی ہیبت قیامت میں ہے، تعریف اللہ کے لیے ہے جس کا حکم قبروں پر ہے، تعریف اللہ کے لیے ہے جس کی رحمت جنت میں ہے، تعریف اللہ کے لیے ہے جس کی برہان خشکی اور سمندر میں ہے، تعریف اللہ کے لیے ہے جس کی خوشبو ہوا میں ہے، تعریف اللہ کے لیے ہے کہ سوائے اس کی ذات کے کوئی پناہ کی جگہ نہیں ہے تعریف اللہ کے لیے

ہے جو رب العالمین ہے۔

تجویزوآراء