ذو القعدۃ کے فضائل و معمولاتِ اہلسنت

ذوالقعدہ کی اہمیت:

ذوالقعدہ کے خصائص میں سے ایک بات یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام عمرے ذوالقعدہ میں ادا ہوئے ، سوائے اس عمرے کے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حج سے ملا ہوا تھا پھر بھی آپ نے اس عمرے کا احرام ذوالقعدہ ہی میں باندھا تھا لیکن اس عمرے کی ادائیگی آپ نے ماہِ ذوالحجہ میں اپنے حج کے ساتھ کی تھی۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیاتِ مبارکہ میں چار عمرے ادا فرمائے ہیں سب سے پہلا عمرہ عمرۂ حدیبیہ کہلاتا ہے جو پورا نہ ہوسکاتھا بلکہ آپ حدیبیہ کے مقام پر حلال ہوکر واپس تشریف لے آئے تھے۔ پھر اس عمرے کی قضاء اگلے سال فرمائی تھی (یہ آپ کا دوسرا عمرہ کہلایا) تیسرا عمرہ ، عمرۂ جعرانہ کہلایا جو کہ فتح مکہ کے موقع پر ادا فرمایا۔ جس وقت حنین کی غنیمتیں تقسیم ہوئی تھیں بعض لوگوں کے نزدیک یہ شوال کے آخر میں ہوا تھا۔ لیکن مشہور قول یہی ہے کہ یہ ذوالقعدہ میں ہوا تھا اور یہی جمہور کا مذہب ہے۔ چوتھا اور آخری عمرہ حجۃ الوداع میں ہوا تھا جیسا کہ اس بارے میں نصوصِ صحیحہ دلالت کرتی ہیں اور جمہور علماء بھی اسی طرف گئے ہیں۔

اسلاف کی ایک جماعت جن میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما ، سیّدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور عطاء﷫ ہیں روایت کرتے ہیں کہ ذوالقعدہ اور شوال کا عمرہ رمضان المبارک کے مہینے پر فضیلت رکھتا ہے۔ کیونکہ نبی کریمﷺ نے ذوالقعدہ میں عمرے ادا فرمائے ہیں جبکہ حج کے مہینوں میں فضیلت اس لیے بڑھ جاتی ہے کہ حاجی پر اپنے حج کی وجہ سے قربانی واجب ہوجاتی ہے اور ھدی (قربانی کا جانور) ایسی چیز ہے جو مناسک حج میں ایک منسک ہے تو حج میں منسک عمرہ اور منسک ھدی دونوں جمع ہوجاتے ہیں۔

ذوالقعدہ کی ایک اور فضیلت یہ ہے کہ کہا گیا ہے کہ یہی وہ تیس دن تھے جن کا وعدہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام سے فرمایاتھا۔ لیث نے مجاہد سے اللہ تعالیٰ کے اس قول:

وَوٰعَدْ نَا مُوْسٰی ثَلٰثِیْنَ لَیْلَۃً(سورۃ اعراف،آیات ۱۴۲)

’’اور وعدہ کیا ہم نے موسیٰ سے تیس ۳۰ رات کا‘‘

کے بارے میں روایت کی ہے کہ اس سے مراد ذوالقعدہ ہے۔

وَاَتْمَمْنٰہَا بِعَشْرٍ(سورۃ اعراف،آیات ۱۴۲۔۱۴۳)

’’اور پورا کیا ان کو اور دس سے‘‘۔

اس سے مراد ذی الحجہ کا عشرہ ہے۔

سیّدنا موسیٰ علیہ السلام کو تیس راتوں کا وعدہ

ذوالقعدہ کی پہلی تاریخ کو اللہ جل شانہ نے سیّدنا حضرت موسیٰ علی نبینا و علیہ الصلوٰۃ والسلام کو کتاب دینے کے لیے تیس راتوں کا وعدہ فرمایا تھا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

وَواعَدْنَا مُوْسٰی ثَلٰثِیْنَ لَیْلَۃً وَّ اَتْمَمْنٰہَا بِعَشْرٍ فَتَمَّ مِیْقَاتُ رَبِّہٖ اَرْبَعِیْنَ لَیْلَۃً ج وَقَالَ مُوْسٰی لِاَخِیْہِ ھَارُوْنَ اخْلُفْنِیْ فِیْ قَوْمِیْ وَاَصْلِحْ وَلَا تَتَّبِعْ سَبِیْلَ الْمُفْسِدِیْنَ ۔ وَلَمَّا جَآءَ مُوْسٰی لِمِیْقَاتِنَا وَکَلَّمَہٗ رَبُّہٗ

ترجمۂ کنزالایمان: اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) سے تیس ۰ ۳ رات کا وعدہ فرمایا۔ اور ان میں دس ۱۰ ا ور بڑھا کر پوری کیں۔تو اس کے رب کا وعدہ پوری چالیس رات کا ہوا۔ اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے بھائی (حضرت ہارون علی نبینا و علیہ الصلوٰۃ والسلام) سے کہا کہ میری قوم پر میرے نائب رہنا اور اصلاح کرنا اور فسادیوں کی راہ کو دخل نہ دینا۔ اور جب (حضرت )موسیٰ(علیہ السلام) ہمارے وعدے پر حاضر ہوا اور اس سے اس کے رب نے کلام فرمایا۔(سورۃ اعراف،آیات ۱۴۲۔۱۴۳)

سیّدنا حضرت موسیٰ علیہ السلام کا بنی اسرائیل سے وعدہ تھا کہ جب اللہ تعالیٰ ان کے دشمن فرعون کو ہلاک فرمادے تو وہ ان کے پاس اللہ تعالیٰ کی جانب سے ایک کتاب لائیں گے جس میں حلال و حرام کا بیان ہوگا۔

جب اللہ تعالیٰ نے فرعون کو ہلاک کیا تو سیّدنا حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنے رب سے اس کتاب کے نازل فرمانے کی درخواست کی۔ تو حکم ہوا کہ تیس روزے رکھیں۔ جب آپ وہ روزے پورے کرچکے تو آپ کو اپنے دہن مبارک میں ایک طرح کی بو معلوم ہوئی تو آپ نے مسواک کی۔ ملائکہ نے عرض کیا کہ ہمیں آپ کے دہن مبارک سے بڑی محبوب خوشبو آیا کرتی تھی آپ نے مسواک کرکے اس کو ختم کردیا۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ماہِ ذی الحجہ میں دس روزے اور رکھیں۔ اور فرمایا کہ اے موسیٰ! (علیہ السلام)کیا تمہیں معلوم نہیں کہ روزے دار کے منہ کی خوشبو میرے نزدیک خوشبو مشک سے زیادہ اطیب ہے۔

جب سیّدنا موسیٰ علیہ السلام کلام سننے کے لیے حاضر ہوئے تو آپ نے طہارت کی اور پاکیزہ لباس پہنا اور روزہ رکھ کر طور ِ سینامیں حاضر ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے ایک بادل نازل فرمایا جس نے پہاڑ کو ہر طرف سے بقدر چار فرسنگ ڈھانپ لیا۔ شیاطین اور زمین کے جانور حتیٰ کہ رہنے والے فرشتے تک وہاں سے علیحدہ کردیے گئے۔ اور آپ کے لیے آسمان کھول دیا گیا۔ تو آپ نے ملائکہ کو ملاحظہ فرمایا کہ ہوا میں کھڑے ہیں اور آپ نے عرشِ الٰہی کو صاف دیکھا یہاں تک کہ الواح پر قلموں کی آواز سُنی۔ اور اللہ تبارک و تعالیٰ نے آپ سے کلام فرمایا۔ آپ نے اس کی بار گاہ میں معروضات پیش کیے۔ اس نے اپنا کلامِ کریم سنا کر نوازا۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام آپ کے ساتھ تھے۔ لیکن جو اللہ تعالیٰ نے سیّدنا حضرت موسیٰ علیٰ نبینا وعلیہ الصلوٰۃ والسلام سے فرمایا وہ انہوں نے کچھ نہ سُنا۔(فضائل ایام والشہور ، صفحہ ۴۵۲ بحوالہ تفسیر خازن وغیرہ)

 

بیت اللہ شریف کی بنیاد

اسی مہینہ یعنی ذوالقعدہ شریف کی پانچویں تاریخ کو سیّدنا حضرت ابراہیم خلیل اللہ علی نبینا و علیہ الصلوٰۃ والسلام اور سیّدنا حضرت اسماعیل ذبیح اللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بیت اللہ شریف کی بنیاد رکھی تھی۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ:

وَاِذْ یَرْفَعُ اِبْرَاہِیْمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَیْتِ وَاِسْمَاعِیْلُط رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّاط اِنَّکَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ؀ رَبَّنَا وَ اجْعَلْنَا مُسْلِمَیْنِ لَکَ وَمِنْ ذُرِّیَّتِنَآ اُمَّۃً مُّسْلِمَۃً لَّکَ وَاَرِنَا مَنَا سِکَنَا وَتُبْ عَلَیْنَا ط اِنَّکَ اَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ؀

(سورۃ بقرہ،آیات ۱۲۷۔۱۲۸)

ترجمۂ کنزالایمان :  اور جب اٹھاتا تھا ابراہیم (علیہ السلام) اس گھر کی نیویں۔ اور اسماعیل (علیہ السلام ) یہ کہتے ہوئے۔ اے رب ہمارے ہم سے قبول فرما بے شک تو ہی ہے سنتا جانتا۔ اے رب ہمارے اور کر ہمیں تیرے حضور گردن رکھنے والا۔ اور ہماری اولاد میں سے ایک امت تیری فرمانبردار اور ہمیں ہماری عبادت کے قاعدے بتا اور ہم پر اپنی رحمت کے ساتھ رجوع فرما بیشک تو ہی ہے بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان۔(سورۃ بقرہ،آیات ۱۲۷۔۱۲۸)

پہلی مرتبہ کعبہ معظّمہ کی بنیاد سیّدنا حضرت آدم علی نبینا و علیہ الصلوٰۃ والسلام نے رکھی تھی اور بعد طوفانِ نوح پھرسیدنا حضرت ابراہیم علی نبینا و علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اسی بنیاد پر تعمیر فرمائی۔ یہ تعمیر آپ کے دست اقدس سے ہوئی اور اس کے لیے پتھر اٹھاکر لانے کی خدمت اور سعادت سیّدنا حضرت اسماعیل کو میسر ہوئی۔ دونوں حضرات نے اس وقت یہ دعا کی کہ یا رب عزوجل ہماری یہ طاعت و خدمت قبول فرما۔

 جو کوئی ذوالقعدہ کی پہلی رات میں چار کعات نفل پڑھے اور اس کی ہر رکعت میں الحمد شریف کے بعد ۳۳ دفعہ (سورۃ الاخلاص) یعنی قُلْ ھُوَ اللہُ اَحَدٌ پڑھے تو اس کے لیے جنت میں اللہ تعالیٰ ہزار مکان یا قوت ِ سرخ کے بنائے گا اور ہر مکان میں جواہر کے تخت ہوں گے۔ اور ہر تخت پر ایک حور بیٹھی ہوگی ، جس کی پیشانی سورج سے زیادہ روشن ہوگی۔

ایک اور روایت میں ہے کہ جو آدمی اس مہینہ کی ہر رات میں دو ۲ رکعات نفل پڑھے کہ ہر رکعت میں الحمد شریف کے بعد (سورۃ الاخلاص) یعنی قُلْ ھُوَ اللہُ اَحَدٌ تین بار پڑھے تو اس کو ہر رات میں ایک شہید اور ایک حج کا ثواب ملتا ہے۔

جو کوئی اس مہینہ میں ہر جمعہ کو چار۴ رکعات نفل پڑھے اور ہر رکعت میں الحمد شریف کے بعد اکیس۲۱ بار(سورۃ الاخلاص) یعنی قُلْ ھُوَ اللہُ اَحَدٌ پڑھے تو اللہ تعالیٰ اس کے واسطے حج اور عمرہ کا ثواب لکھتا ہے۔

اور فرمایا کہ جو کوئی پنج شنبہ (جمعرات) کے دن اس مہینہ میں سو ۱۰۰ رکعات پڑھے اور ہر رکعت میں الحمد شریف کے بعد دس ۱۰مرتبہ (سورۃ الاخلاص) یعنی قُلْ ھُوَ اللہُ اَحَدٌ پڑھے تو اس نے بے انتہا ثواب پایا۔(فضائل الایام والشہور صفحہ ۴۵۷، ۴۵۸ ، بحوالہ رسالہ فضائل الشہور)

حدیث شریف میں ہے کہ جوشخص ذوالقعدہ کے مہینہ میں ایک دن روزہ رکھتا ہے تو اللہ کریم اس کے واسطے ہر ساعت میں ایک حج مقبول اور ایک غلام آزاد کرنے کا ثواب لکھنے کا حکم دیتا ہے۔

ایک حدیث شریف میں ہے کہ ذوالقعدہ کے مہینہ کو بزرگ جانو کیونکہ حرمت والے مہینوں میں یہ پہلا مہینہ ہے۔

ایک اور حدیث مبارکہ میں ہے کہ اس مہینہ کے اندر ایک ساعت کی عبادت ہزار سال کی عبادت سے بہتر ہے اور فرمایاکہ اس مہینہ میں پیر کے دن روزہ رکھنا ہزار برس کی عبادت سے بہتر ہے۔

( فضائل الایام والشہورصفحہ ۴۵۷ بحوالہ رسالہ فضائل الشہور)

تجویزوآراء