ذوالقعدہ اور قرآن حکیم
سیّدنا موسیٰ علیہ السلام کو تیس راتوں کا وعدہ
ذوالقعدہ کی پہلی تاریخ کو اللہ جل شانہ نے سیّدنا حضرت موسیٰ علی نبینا و علیہ الصلوٰۃ والسلام کو کتاب(توریت) دینے کے لیے تیس راتوں کا وعدہ فرمایا تھا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَواعَدْنَا مُوْسٰی ثَلٰثِیْنَ لَیْلَۃً وَّ اَتْمَمْنٰہَا بِعَشْرٍ فَتَمَّ مِیْقَاتُ رَبِّہٖ اَرْبَعِیْنَ لَیْلَۃً ج وَقَالَ مُوْسٰی لِاَخِیْہِ ھَارُوْنَ اخْلُفْنِیْ فِیْ قَوْمِیْ وَاَصْلِحْ وَلَا تَتَّبِعْ سَبِیْلَ الْمُفْسِدِیْنَ ۔ وَلَمَّا جَآءَ مُوْسٰی لِمِیْقَاتِنَا وَکَلَّمَہٗ رَبُّہٗ(سورۃ اعراف،آیات ۱۴۲۔۱۴۳)
ترجمۂ کنزلایمان : "اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) سے تیس ۰ ۳ رات کا وعدہ فرمایا۔ اور ان میں دس ۱۰ ا ور بڑھا کر پوری کیں۔تو اس کے رب کا وعدہ پوری چالیس رات کا ہوا۔ اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے بھائی (حضرت ہارون علی نبینا و علیہ الصلوٰۃ والسلام) سے کہا کہ میری قوم پر میرے نائب رہنا اور اصلاح کرنا اور فسادیوں کی راہ کو دخل نہ دینا۔ اور جب (حضرت )موسیٰ(علیہ السلام) ہمارے وعدے پر حاضر ہوا اور اس سے اس کے رب نے کلام فرمایا"۔
سیّدنا حضرت موسیٰ علیہ السلام کا بنی اسرائیل سے وعدہ تھا کہ جب اللہ تعالیٰ ان کے دشمن فرعون کو ہلاک فرمادے تو وہ ان کے پاس اللہ تعالیٰ کی جانب سے ایک کتاب لائیں گے جس میں حلال و حرام کا بیان ہوگا۔
جب اللہ تعالیٰ نے فرعون کو ہلاک کیا تو سیّدنا حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنے رب سے اس کتاب کے نازل فرمانے کی درخواست کی۔ تو حکم ہوا کہ تیس روزے رکھیں۔ جب آپ وہ روزے پورے کرچکے تو آپ کو اپنے دہن مبارک میں ایک طرح کی بو معلوم ہوئی تو آپ نے مسواک کی۔ ملائکہ نے عرض کیا کہ ہمیں آپ کے دہن مبارک سے بڑی محبوب خوشبو آیا کرتی تھی آپ نے مسواک کرکے اس کو ختم کردیا۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ماہِ ذی الحجہ میں دس روزے اور رکھیں۔ اور فرمایا کہ اے موسیٰ! (علیہ السلام)کیا تمہیں معلوم نہیں کہ روزے دار کے منہ کی خوشبو میرے نزدیک مشک کی خوشبو سے زیادہ اطیب (پاکیزہ )ہے۔
جب سیّدنا موسیٰ علیہ السلام کلام سننے کے لیے حاضر ہوئے تو آپ نے طہارت کی اور پاکیزہ لباس پہنا اور روزہ رکھ کر طور ِ سینامیں حاضر ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے ایک بادل نازل فرمایا جس نے پہاڑ کو ہر طرف سے بقدر چار فرسنگ ڈھانپ لیا۔ شیاطین اور زمین کے جانور حتیٰ کہ رہنے والے فرشتے تک وہاں سے علیحدہ کردیے گئے۔ اور آپ کے لیے آسمان کھول دیا گیا۔ تو آپ نے ملائکہ کو ملاحظہ فرمایا کہ ہوا میں کھڑے ہیں اور آپ نے عرشِ الٰہی کو صاف دیکھا یہاں تک کہ الواح پر قلموں کی آواز سُنی۔ اور اللہ تبارک و تعالیٰ نے آپ سے کلام فرمایا۔ آپ نے اس کی بار گاہ میں معروضات پیش کیں۔ اس نے اپنا کلامِ کریم سنا کر نوازا۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام آپ کے ساتھ تھے۔ لیکن جو اللہ تعالیٰ نے سیّدنا حضرت موسیٰ علیٰ نبینا وعلیہ الصلوٰۃ والسلام سےکلام فرمایا وہ انہوں نے کچھ نہ سُنا۔ (فضائل ایام والشہور ، صفحہ ۴۵۲ بحوالہ تفسیر خازن وغیرہ)
بیت اللہ شریف کی بنیاد
اسی مہینہ یعنی ذوالقعدہ شریف کی پانچویں تاریخ کو سیّدنا حضرت ابراہیم خلیل اللہ علی نبینا و علیہ الصلوٰۃ والسلام اور سیّدنا حضرت اسماعیل ذبیح اللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بیت اللہ شریف کی بنیاد رکھی تھی۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ:
وَاِذْ یَرْفَعُ اِبْرَاہِیْمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَیْتِ وَاِسْمَاعِیْلُط رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّاط اِنَّکَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ۔ رَبَّنَا وَ اجْعَلْنَا مُسْلِمَیْنِ لَکَ وَمِنْ ذُرِّیَّتِنَآ اُمَّۃً مُّسْلِمَۃً لَّکَ وَاَرِنَا مَنَا سِکَنَا وَتُبْ عَلَیْنَا ط اِنَّکَ اَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ۔
(سورۃ بقرہ،آیات ۱۲۷۔۱۲۸)
ترجمۂ کنزلایمان: اور جب اٹھاتا تھا ابراہیم (علیہ السلام) اس گھر کی نیویں۔ اور اسماعیل (علیہ السلام ) یہ کہتے ہوئے۔ اے رب ہمارے ہم سے قبول فرما بے شک تو ہی ہے سنتا جانتا۔ اے رب ہمارے اور کر ہمیں تیرے حضور گردن رکھنے والا۔ اور ہماری اولاد میں سے ایک امت تیری فرمانبردار اور ہمیں ہماری عبادت کے قاعدے بتا اور ہم پر اپنی رحمت کے ساتھ رجوع فرما بیشک تو ہی ہے بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان۔(سورۃ بقرہ،آیات ۱۲۷۔۱۲۸)
پہلی مرتبہ کعبہ معظّمہ کی بنیاد سیّدنا حضرت آدم علی نبینا و علیہ الصلوٰۃ والسلام نے رکھی تھی اور بعد طوفانِ نوح پھرسیدنا حضرت ابراہیم علی نبینا و علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اسی بنیاد پر تعمیر فرمائی۔ یہ تعمیر آپ کے دست اقدس سے ہوئی اور اس کے لیے پتھر اٹھاکر لانے کی خدمت اور سعادت سیّدنا حضرت اسماعیل علیہ السلام کو میسر ہوئی۔ دونوں حضرات نے اس وقت یہ دعا کی کہ یا رب عزوجل ہماری یہ طاعت و خدمت قبول فرما۔
سیّدنا یونس علی نبیناوعلیہ الصلوٰۃ والسلام کا
مچھلی کے پیٹ سے باہر تشریف لانا
ماہِ ذو القعدہ کی چودہویں تاریخ میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے سیدنا حضرت یونس علی نبینا و علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مچھلی کے پیٹ سے نجات عطا فرمائی تھی۔ ارشادِ ربّانی ہے کہ:
وَاِنَّ یُوْنُسَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَ ۔ اِذْ اَبَقَ اِلَی الْفُلْکِ الْمَشْحُوْنِ ۔ فَسَاہَمَ فَکَانَ مِنَ الْمُدْحَضِیْنَ ۔ فَالْتَقَمَہُ الْحُوْتُ وَھُوَ مُلِیْمٌ ۔ فَلَوْ لَا اَنَّہٗ کَانَ مِنَ الْمُسَبِّحِیْنَ ۔ لَلَبِثَ فِیْ بَطْنِہٖ اِلٰی یَوْمِ یُبْعَثُوْنَ ۔ فَنَبَذْنٰہُ بِالْعَرَآءِ وَہُوَ سَقِیْمٌ۔(سورۃصافات،آیات ۱۳۹ تا ۱۴۵)
ترجمۂ کنزلایمان: اور بے شک یونس (علی نبینا و علیہ الصلوٰۃ والسلام )پیغمبروں سے ہیں۔ جب کہ بھری کشتی کی طرف نکل گیا۔ تو قرعہ ڈالا تو ڈھکیلے ہوؤں میں ہوا پھر اسے مچھلی نے نگل لیا۔ اور وہ اپنے آپ کو ملامت کرتا تھا تو اگر وہ تسبیح کرنے والا نہ ہوتا تو ضرور اس کے پیٹ میں رہتا جس دن تک لوگ اٹھائے جائیں گے۔ پھر ہم نے اسے میدان پر ڈال دیا اور وہ بیمار تھا۔ (سورۃصافات،آیات ۱۳۹ تا ۱۴۵)
سیّدنا حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما اور وہب کا قول ہے کہ سیّدنا حضرت یونس علی نبینا و علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی قوم سے عذاب کا وعدہ کیا تھا۔ اس میں تاخیر ہوئی تو آپ ان سے چھپ کر نکل گئے اور آپ نے دریائی سفرکا قصد فرمایا۔ کشتی پر سوار ہوئے۔ دریا کے درمیان میں کشتی ٹھہر گئی۔ اور اس کے ٹھہر نے کا کوئی سبب ِظاہری موجود نہ تھا۔ ملاحوں نے کہا کہ اس کشتی میں اپنے مولا سے بھاگا ہوا کوئی غلام ہے۔ قرعہ ڈالنے سے ظاہر ہوجائے گا۔ قرعہ ڈالا گیا تو آپ ہی کا نام نکلا تو آپ علی نبینا و علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ میں ہی وہ غلام ہوں تو آپ کو پانی میں ڈال دیا گیا۔ کیوں کہ اس وقت کا دستور یہی تھا کہ جب تک بھاگا ہوا غلام دریا میں غرق نہ کردیا جائے اس وقت تک کشتی چلتی نہ تھی۔ بحکمِ الٰہی مچھلی نے آپ کو نگل لیا آپ مچھلی کے پیٹ میں ایک دن یا تین دن یا سات دن یا چالیس دن رہے۔ آپ علی نبینا و علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ذکرِ الٰہی کی کثرت کی اور مچھلی کے پیٹ میں لَا اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ سُبْحَانَکَ اِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ پڑھنا شروع کر دیا تو اللہ جل شانہٗ نے مچھلی کو حکم دیا تو اس نے سیدنا حضرت یونس علی نبینا و علیہ الصلوٰۃ والسلام کو دریا کے کنارے ڈال دیا۔
مچھلی کے پیٹ میں رہنے کے باعث آپ ایسے ضعیف اور نازک ہو گئے تھے جیسا کہ بچہ پیدائش کے وقت ہوتا ہے۔ جسم کی کھال نرم ہوگئی تھی۔ بدن پر کوئی بال باقی نہ رہ گیا تھا۔ تو اللہ تعالیٰ نے کدو کا درخت اگا دیا۔ جو آپ پر سایہ کرتا تھا اور مکھیوں سے محفوظ رکھتا تھا۔ اور بحکمِ الٰہی ایک بکری روزانہ آتی اور آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام کو دودھ پلا جا تی۔ یہاں تک کہ جسم مبارک کی جِلد شریف یعنی کھال مضبوط ہو گئی اور اپنے موقع سے بال جمے اور جسم مبارک میں توانائی آئی۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
وَاَنْبَتْنَا عَلَیْہِ شَجَرَۃً مِّنْ یَّقْطِیْنٍ ۔
یعنی ہم نے اس پر کدو کا درخت اگا دیا۔(سورۃ الصٰفٰت ،آیت ۱۴۶)
یہ کدو کا درخت آپ پر ذوالقعدہ کی سترہویں تاریخ کو اگایا گیا تھا۔(فضائل الایام والشہور ، صفحہ ۴۵۷، بحوالہ عجائب المخلوقات صفحہ ۴۶)