ایسی کیفیت کبھی نہیں دیکھی
ایسی کیفیت کبھی نہیں دیکھی
غالباً جنوری ۱۹۹۶ء کی بات ہے کہ راقم السطور حضرت تاج الشریعہ کے ہمراہ لدھیانہ (پنجاب) کے تبلیغی سفر پر تھا۔ جناب عین الحق رضوی کی دعوت پر لدھیانہ پہلی بار حضرت کا جانا ہوا۔ دن میں محلّہ غیاث پورہ میں ایک مدرسہ کا سنگ بنیاد رکھا کہ شب میں جلسہ کا اہتمام تھا۔ جلسہ میں تقریباً دو لاکھ انسانوں کا ہجوم تھا، ایسا لگتا تھا کہ جیسے پورا صوبہ پنجاب آج لدھیانہ میں جمع ہوگیا ہے۔ حضرت تقریباً ایک بجکر کچھ منٹ پر جلسہ گاہ میں تشریف لے گئے۔ نعروں کے پر ہجوم شور نے حضرت کے مزاج کو برہم کر دیا، پھر میں نے حضرت کا مزاج بنایا اور عوام کو خاموش کیا۔ ہر مقرر و شاعر حضرت کی شان میں منقبت پڑھتا تھا۔ حضرت نے منع فرمایا کہ میری قصیدہ خوانی کے بجائے اسلام و سنیت پر تقریر کریں اور شعراء نعت رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم پڑھیں۔ اختتام اجلاس سے قبل تقریباً ۷۵ ہزار فرزندان توحید نے حضرت کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ دیکر غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی غلامی کا پٹہ ڈالنے کا عہد و پیمان کیا۔
وہیں پر چند وہابی دیوبندی بھی جلسہ سننے اور حضرت کا دیدار کرنے آئے تھے۔ حضرت کو دیکھتے ہی ممبر پر آگئے۔ کسی نے مجھ سے کہا کہ یہ لوگ آپ سے بات کرنا چاہتے ہیں۔ میں ان کی طرف متوجہ ہوا، کہنے لگے کہ ہم لوگ مولوی قاسم نانوتوی کے قصبہ نانوتہ کے رہنے والے ہیں، یہاں ایک فیکٹری میں کام کرتے ہیں۔ حضرت جیسی نورانی شخصیت آج تک ہم نے نہیں دیکھی ہے۔ اور آج ہم نے سنی اور دیوبندی کا فرق سمجھا ہے، اس لیے اب ہم حضرت کے ہاتھ پر توبہ و رجوع الی اللہ کرنا چاہتے ہیں۔ میں فوراً حضرت کے پاس لے گیا، پورا واقعہ بیان کیا۔ حضرت نے توبہ و تجدید ایمان کرایا۔ داخل اسلام و سنیت فرما کر مرید کیا۔ غالباً پانچ لوگ تھے۔ یہ ہے حضرت کے چہرۂ زیبا کی ضوفشانیاں جن کی نوارنی شعاوؤں سے نظریں خیرہ ہوجاتی ہیں، اور دل و دماغ کی سلطنت بدل جایا کرتی ہے۔
دوسرے دن لدھیانہ سے سہارنپور جانا تھا، حکیم محمد احمد قادری مہتمم دار العلوم غوثیہ رضویہ برکات صابر سہارنپور سے حضرت ملاقات کرنا چاہتے تھے۔ مجھے راستہ معلوم نہیں تھا۔ سہارنپور دو پہر ۱۲ بجے پہنچے، ایک جگہ راستہ معلوم کیا تو بتایا گیا کہ بریلوی مسجد پوچھئے تو ہر آدمی بتادے گا۔ پھر ہر جگہ میں نے بریلوی مسجد کی جگہ کا پتہ معلوم کرتا رہا، کہیں کوئی وقت نہیں آئی اور ہم لوگ حکیم محمد احمد صاحب کی خانقاہ میں پہنچ گئے، حکیم صاحب اور احباب کے مسرتوں کی انتہا نہ تھی۔دو گھنٹہ قیام کر کے واپس لدھیانہ آئے، اور ٹرین کا انتظار کرنے لگے۔ مجھ سے بیوقوفی یہ ہوئی کہ اسٹیشن سے گاڑی والے کو واپس بھیج دیا، اس خیال سے کہ اب ٹرین کا وقت ہوگیا۔ کہاں یہ پریشان ہوں گے اور انتظار کریں گے۔ مگر پلیٹ فارم پر پہنچ کر مجھے اپنی غلطی کا احساس ہوا کہ ٹرین تو دو گھنٹہ لیٹ ہے۔ سامان پلیٹ فارم پر رکھا اور کرسی پر حضرت بیٹھ گئے۔ کچھ دیر بعد ٹہلنے لگے، نماز کا وقت ہوا، ظہر اور عصر کی نماز ایک ہی وضو سے پلیٹ فارم پر پڑھی، ٹرین کا اعلان ہوا کہ پنجاب میل آدھا گھنٹہ اور لیٹ ہوگئی ہے میں دل ہی دل میں یہ محسوس کر رہا تھا کہ حضرت ناراض ہوں گے، مگر حضرت اس دن بہت خوش تھے۔ اس دن پلیٹ فارم پر کم ہی آدمی تھے، میں حضرت کے ساتھ پورے پلیٹ فارم پر ٹہلتا رہا، حضرت چھڑی لیے ٹہلتے ہوئے بہت خوش نظر آ رہے تھے، حضرت کے چہرے مبارکہ پر اتنی زیادہ خوشی کے آثار، لبوں پر مسکراہٹیں، اور گفتگو میں لطافت، برق رفتاری، متانت و سنجیدگی، میں نے کبھی نہیں دیکھی۔ اس دن کا نقشہ آج بھی میرا قلب و ذہن پر نقش ہے۔ جب یاد کرتا ہوں تو ہر چیز ذہن کے پردے پر اتر کر میری نظروں کے سامنے آجاتی ہے، کہ آج حضرت کی خوشی و مسرت کا راز کیا ہے۔ میں سالہاسال کے طویل سفر کے دوران ایسی طمانیت و روحانیت نہیں دیکھی۔ تقریباً ۳؍ گھنٹہ کا لمبا انتظار معلوم ہی نہیں ہوسکا کہ کب شروع ہوا، اور کب جا کر ختم ہوگیا۔