ہر دل عزیز قائد پر فخر

ڈاکٹر مولانا غلام زرقانی بن رئیس التحریر علامہ ارشد القادری مقیم ہوسٹن (امریکہ) کا بیان ہے کہ چند سال قبل جمشید پور میں ایک مسجد کی سنگ بنیاد کے جلسہ میں حضرت تاج الشریعہ کے ساتھ میں بھی شریک تھا۔ رانچی ایر پورٹ پر انسانوں کا ایک طوفان استقبال کے لیے حاضر تھا۔ جوں ہی حضرت موصوف باہر تشریف لائے لوگ دست بوسی کے لیے ٹوٹ پڑے۔ بڑی مشکلوں سے مجمع کو قابو میں کیا گیا۔ جب جمشید پور پہنچے تو یہی عالم تھا۔ لوگوں کا شوق جنوں خیز دیکھنے کے قابل تھا۔ جذبات کے تلاطم میں لوگوں کو اپنی سلامتی کی فکر نہ تھی۔ بس خواہش تھی تو یہی کہ حضرت سے مصافحہ کا موقع میسر آجائے۔ اس دیوانگی کی کیفیت سے میں بڑا متاثر ہوا، اور جب خطابت کے لیے کھڑا ہوا تو میں نے کہا تھا کہ میں جب حضرت موصوف اور آپ کی محبت کو دیکھتا ہوں تو مجھے افسوس بھی ہوتا ہے اور خوشی بھی۔ افسوس اس لیے کہ لوگ پروانہ وار اس طرح ٹوٹ پڑتے ہیں کہ حضرت کا سنبھالنا مشکل ہوجاتا ہے، اور خوشی اس لیے ہوتی ہے کہ ہماری جماعت کا قائد ایسا ہر دل عزیز ہے کہ لوگ اپنی عزت نفس حضرت کے قدموں میں لٹانے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔

اور یہ کیفیت صرف ہندوستان میں ہی نہیں ہوتی، بلکہ بیرون ملک بھی حضرت کے ساتھ والہانہ شغف رکھنے والے جاں نثار اسی طرح اپنی عقیدتوں کا خراج پیش کرتے ہیں۔ ابھی چند سال قبل حضرت امریکہ کے دورے پر تشریف لائے تھے۔ آپ کے ہمراہ محدث کبیر حضرت علامہ ضیاء المصطفےٰ قادری بھی تھے۔ ایک عقیدت مند کی ذاتی محفل میں محدث کبیر مدظلہ العالی نے اپنی تقریر کے بعد حضرت کی خدمت میں مائک پیش کرتے ہوئے عرض کیا کہ انگریزی میں کچھ بیان فرمادیں۔ حضرت نے فی البدیہہ انگریزی میں کافی دیر تک بیان فرمایا۔ لوگوں پر ایک سکتہ طاری تھا کہ اتنی صاف و ششتہ انگریزی زبان۔

یقین کریں اس شب ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ واقعی عالم اسلام کے قائد کو ایسا ہی ہونا چاہیے، کہ جب ادھر رخ کیا عربی میں خطاب فرمایا فارسی داں طبقہ میں بیٹھے تو فارسی میں گفتگو کرلی، اہل ہند و پاک کے درمیان موجود ہوں تو اردو میں بول پڑے اور یورپ و امریکہ میں عقیدۂ حقہ کی ترویج و اشاعت کے لیے نکلی تو انگریزی زبان میں اپنا مدعا دنیا کے سامنے پیش کر دیا۔

تجویزوآراء