ہجوم غیر مسلمان

حافظ محمد شمس الحق رضوی ڈائریکٹر رضا ہوزری لدھیانہ (پنجاب) اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ میں ہندوستان کے جس ضلع سے تعلق رکھتا ہوں وہ ہندوستان کا مردم خیز، علمی و تاریخی شہر سیتا مڑھی ہے، جہاں ایک سے ایک علم و فن کے شہسوار پیدا ہوئے۔ اسی ضلع کا ایک معروف قصبہ پوکھر پراشریف ہے، جہاں اپنے وقت کے عارف باللہ سیدنا عبدالرحمٰن سرکار محیی پوکھرپروری ہیں۔ آپ اعلیٰ حضرت کے احب الخلفاء میں سے ہیں۔ جنہوں نے اس پورے علاقے میں اسلام و سنیت کی بے لوث خدمات انجام دیں۔ اس پورے علاقہ میں آج جو دین و سنیت کی بہاریں ہیں وہ انہیں کی مرہون منت میں سے ہیں، پورے علاقے سے بدعقیدگی کے طوفان کو آپ نے مضبوطی کے ساتھ روک دیا۔ اور اسلام و سنیت کی اشاعت کے لیے آہنی ستون بن کر ڈٹے رہے۔ آپ نے جہاں مدارس و مساجد کے قیام کے ذریعہ دین کی خدمت کی، وہیں پورے علاقے میں اپنے وعظ و ہدایت کے ذریعہ خلق خدا کی خوب خوب رہنمائی کی۔ آپ کا قائم کردہ دینی و علمی ادارہ مدرسہ نور الہدیٰ پوکھریرا آج بھی طالبان علوم نبویہ کی علمی پیاس بجھا رہا ہے۔ آپ نے حدیث، تفسیر، اسلامیات میں کثیر تصانیف یادگار چھوڑی ہیں۔ اصلاح عوام کے لیے آپ نے ایک دینی و علمی مجلہ بھی جاری کیا تھا، جو آپ کے بعد بند ہوگیا۔ آپ کے ایک علمی رسالہ پر اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قادری علیہ الرحمہ کی زبردست تقریظ جلیل بھی ہے، جس سے آپ کے اور اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ کے درمیان کے درمیان علمی و فکری روابط کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ اعلیٰ حضرت سے گہرے تعلقات ہی کا نتیجہ ہے کہ خانوادہ رضویہ کے مشائخ کرام میں حضور حجۃ الاسلام، مفتی اعظم ہند، ریحان ملت وغیرہم سیتا مڑھی کا تبلیغٰ دورہ فرماتے رہے، اور سیتا مڑھی کے باشندگان سنی مسلمانوں کی علمی و عملی اور دینی رہنمائی فرماتے رہے۔

مرشد گرامی حضور تاج الشریعہ دامت فیوضہ بھی متعدد بار ضلع سیتا مڑھی میں اپنے تبلیغی دورے اور پروگرام کے تحت تشریف لائے۔ پورے علاقے میں آپ کے ہر ہر پروگرام میں آپ کی آمد پر مسرت اور خلق خدا کا ہجوم دیدنی ہوتا ہے۔ اس ضلع کے سینکڑوں مواضعات تو ایسے ہیں جہاں کی پوری پوری آبادی آپ کی زیارت کے لیے بے تابانہ اشتیاق اور دست بوسی و قدم بوسی کے لیے امنڈ آتی اور شرف بیعت سے مشرف ہوئی۔ یہاں تک کہ اکثر علاقہ کے غیر مسلم بھی آپ کے نورانی چہرے کی زیارت کے بعد بہت اچھے اچھے الفاظ سے آپ کو یاد کرتے نظر آئے۔

خلق خدا کا جس قدر بے ساختہ ہجوم میں نے ان علاقوں میں حضرت تاج الشریعہ کے لیے مشاہدہ کیا وہ کسی اور کے تعلق سے آج تک دیکھنے کو نہ ملا۔ اس قدر مقبولیت فی الخلق یقیناً آپ کی بارگاہ الٰہی میں مقبولیت پہ شاہد عدل ہے۔

۱۹۹۵ء کا وہ واقعہ مجھے آج تک یاد ہے جب میں مرادآباد سے ایک سفر کے سلسلے میں حافظ محمد مسلم اشرفی کے ساتھ دہلی کے لیے آیا۔ حسن اتفاق دہلی اسٹیشن پہ حضور تاج الشریعہ کی زیارت ہوئی، ہم دونوں بے ساختہ حضور کی قدم بوسی و دست بوسی کے لیے بارگاہ میں حاضر ہوئے، اور سلام و دست بوسی و قدم بوسی سے نیاز مندی حاصل کی۔ اتفاق سے اس وقت میں چین والی گھڑی پہنے ہوا تھا۔ آپ نے فرمایا: آپ یہ گھڑی پہنے ہوئے ہیں۔ اسے پہن کر نماز بھی پڑھتے ہوں گے۔ پھر آپ نے بڑی شفقت سے پورے مسئلہ کو تفصیل سے بیان فرمایا، اور چین والی گھڑی نہ پہننے کا حکم دیا۔ پھر کیا تھا میں نے اسی وقت اس گھڑی کو ہاتھ سے نکال دیا۔ جب سے آج تک میں نے چین والی گھڑی نہیں پہنی۔ اسی سفر میں میں نے پہلی بار ڈیڑھ گھنٹے حضرت کے روبرو رہا، اور خدمت کی سعادت بھی میسر آئی۔ اس ڈیڑھ گھنٹے میں آپ کے پند و نصائح سے میں نے ایسے فیوض و برکات حاصل کیے جسے میری کوتاہ قلم حیطہ تحریر میں لانے سے عاجز ہے۔ پہلی بار کسی نجی مجلس میں آپ کی شیرنی گفتار اور رس گھولتی ہوئی انداز نصیحت کے لطف سے میں محفوظ ہوا تھا۔ جی تو یہ چاہ رہا تھا کہ یہ گھڑی دراز ہوتی رہے اور میں آپ کے رخ روشن کی زیارت سے اپنے دل کے بند دریچے کھولتا رہوں لیکن پھر آپ کو کسی سفر کے لیے فورا روانہ ہونا تھا۔ آپ نے مجھ فقیر کو ڈھیر ساری دعاؤں سے نوازا اور رخصت ہو گئے۔ آج ان دعاؤں کا ثمرہ ’’رضا ہوزری لدھیانہ‘‘ اور ازہری مارکیٹ اور ’’ازہری کمپلیس سرسنڈ سیتا مڑھی‘‘ کی شکل میں عام لوگوں کے مشاہدے میں ہے۔

تجویزوآراء