عاشق رسول
عاشق رسول
ڈاکٹر حافظ شفیق اجمل رضوی ہندو یونیورسٹی بنارس کہتے ہیں کہ حضرت تاج الشریعہ علامہ اختر رضا خاں اختر بریلوی ایک سچے عاشق رسول ہیں۔ محبوب سے دوری انہیں قطعاً برداشت نہیں ہے۔ ان کے کلام میں فرقت مدینہ کی صورت میں بیقراری کی کیفیت اور مدینہ کی حاضری کی تمنا خوب نظر آتی ہے۔ چند اشعار ملاحظہ فرمائیں۔
داغ فرقت طبیہ قلب مضمحل جاتا
کاش گنبد خضرا دیکھنے کو مل جاتا
فرقت مدینہ نے وہ دئیے مجھے صدمے
کوہ پر اگر پڑتے کوہ بھی تو ہل جاتا
دور اے دل رہیں مدینے سے
موت بہتر ہے ایسے جینے سے
فرقت طیبہ کی وحشت دل سے جائے خیر سے
میں مدینہ کو چلوں وہ دن پھر آئے خیر سے
شمیم زلف نبی لا صبا مدینے سے
مریض ہجر کو لا کر سونگھا مدینے سے
الٰہی! وہ مدینہ کیسی بستی ہے دکھا دینا
جہاں رحمت برستی ہے جہاں رحمت ہی رحمت ہے
ایک عاشق صادق کی یہ آرزو اور تمنا ہوتی ہے کہ اس کی روح جب نکلے تو محبوب کی جلوہ گری رہے محبوب کے قدموں میں گر کر اپنی جان نچھاور کرے۔ موت برحق ہے، ہر نفس کو موت کا مزہ چکھنا ہے۔ مگر یہ موت اگر محبوب کے قدموں میں ہو تو پھر اس کا کیا کہنا۔ حضرت اختر رضا بریلوی ایسی موت کو زندگی سے تعبیر کرتے ہیں اور عیش جاودانی بتاتے ہیں۔ حضرت اختر کے یہاں موت کے اسی پاکیزہ تصور کی کار فرمائی جا بجا دیکھنے کو ملتی ہے۔
ترے دامن کرم میں جسے نیند آگئی ہے
و فنا نہ ہوگی ایسی اسے زندگی ملی ہے