داڈھی کے لئے ہدایت

داڑھی کے لیے ہدایت

مولانا منصور فریدی مدیر سہ ماہی فیض الرضا بلاسپور (چھتیں گڑھ) بیان کرتے ہیں کہ مجھے آج بھی وہ دن یاد ہے جب میں جامعہ فیض العلوم جمشید پور میں زیر تعلیم تھا، آپ کی تشریف آوری ’’گنبد خضریٰ کانفرنس‘‘ گاندھی میدان میں شرکت کی غرض سے ہوئی تھی، اس وقت مسلمانان جمشید پور کی خوشی عید کی خوشی سے کم نہیں تھی، بھیڑ کے منظر سے ایسا معلوم ہوتا کہ رجال الغیب کی آمد آمد ہے۔ پورا شہر اس جانب دیوانہ وار دوڑ رہا تھا جس جانب سرکار تاج الشریعہ کی سواری چل رہی تھی، جب گاڑی دار العلوم غوثیہ نظامیہ ذاکر نگر کی طرف چلنے لگی تو میں بھی چل پڑا۔ حضرت قاری فضل حق عزیزی نے نماز مغرب پڑھانے کی اور دار العلوم کے معائنہ کی دعوت دی تھی، بعد نماز مغرب لوگوں نے حلقہ میں شامل ہونے کی خواہش کا اظہار کیا تو آپ اسی جگہ تشریف فرما ہوگئے، حلقہ ارادت میں شامل ہونے والوں میں ایک صاحب جن کا نام سلطان احمد تھا، جب قریب پہنچے تو حضور تاج الشریعہ نے اپنے ایک ہاتھ سے ان کا ہاتھ پکڑ لیا، اب کیا تھا تمام حاضرین کے چہرے پر ہوائیاں اڑی اڑی سی نظر آنے لگیں، کہ اب کیا ہوگا پتہ نہیں ان سے کیا غلطی ہوگئی، ابھی ہم تمام لوگ اسی کشمکش میں تھے کہ حضرت کا دوسرا ہاتھ سلطان صاحب کے چہرے اور داڑھی کی طرف اٹھا، اور نہایت مشفقانہ انداز میں محبت بھرے لہجے سے آپ نے فرمایا ’’رخسار داڑھی کا بال اتنا نہیں اتارا جاتا، یہ بھی داڑھی کے حکم میں ہے، اس کو آئندہ تراش خراش نہ کرنا‘‘ میں حیرت میں تھا کہ آپ جاہ و جلال اور رعب کا یہ عالم کہ زمانہ آپ کے قریب آنے سے گھبراتا ہے، مگر شریعت کا حکم نافذ کرنے کے لیے آپ کا جمال اور آپ کی شفقت کا وہ منظر میں اپنی زندگی کے کسی بھی موڑ پر نہیں بھول سکتا۔

۱۹۹۵ء دار العلوم فیض الرضا بلا سپور کا رسم سنگ بنیاد کے لیے حضور تاج الشریعہ تشریف لائے، آپ کی تشریف آوری سے قبل حاسدین میں سے کسی نے راستے میں گٹی ڈال دی تاکہ اس راہ سے گاڑی نہ نکل پائے اور اس طرح ہم کامیاب ہوجائیں کہ دار العلوم کی بنیاد کے لیے تاج الشریعہ تشریف نہ لاسکیں، مگر جب عزم جواں ہوتا ہے اور بزرگوں کا فیضان جاری ہوتا ہے تو خالد و طارق سا جانباز بھی اللہ بھیج دیتا ہے، اور اس سے اپنے دین کا کام لے لیتا ہے، اس منظر کو دیکھ کر حضرت مولانا جہانگیر رضا نوری پریشان ہوجاتے ہیں مگر چونکہ آپ عزم و ارادہ کے پختہ چٹان ٹھہرے اتنی جلدی ہمت کیسے ہارتے، آپ نے مکمل تدبر جہانگیری کو اپناتے ہوئے ایک مزدور سے بات کی، اس گٹی کو کتنی دیر میں ہٹا سکتے ہو، چونکہ گٹی کی تعداد بے شمار تھی یہ تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا کہ ایک دو گھنٹہ میں راستہ صاف کیا جاسکتا ہے، مگر اس مزدور نے صرف اتنا کہا کہ آپ کے حضرت کے آنے سے پہلے ہم راستہ صاف کردیں گے، آپ ادھر کی فکر چھوڑ دیں اور اپنا کام کریں، اور اس بندے نے یہ طے کئے بغیر کہ آپ کتنا دیں گے کام شروع کردیا، جب حضرت کی گاڑی پہنچی اس سے قبل پورا راستہ صاف ہوچکا تھا، اور آپ دار العلوم فیض الرضا رسم سنگ بنیاد کے لیے تشریف لے آئے، آپ کی گاڑی کے پیچھے پیچھے حاسدین جو بدنیتی لیے ہوئے آگے بڑھ کر حضرت کو روکنا ہی چاہ رہے تھے کہ وہ آپ کے چہرۂ پر انوار سے عیاں رعب و جلال کی تاب نہ لاسکے اور فوراً اُلٹے پاؤں لوٹ گئے، اور اس طرح سے دار العلوم فیض الرضا کی بنیاد حضور تاج الشریعہ کے مقدس ہاتھوں سے رکھی گئی۔

اسی سفر کا واقعہ ہے کہ محبّ مکرم حافظ و قاری محمد صادق حسین فرماتے ہیں کہ حضور تاج الشریعہ کی خدمت کے لیے معمور تھا اور آپ الحاج غلام سرور کے گھر آرام فرما تھے، میں حضرت کے سر میں تیل مالش کر رہا تھا اور اپنے مقدر پر ناز کر رہا تھا کہ ایک ذرۂ ناچیز کو فلک کی قدمبوسی کا شرف حاصل ہو رہا تھا، اچانک میری نگاہ حضور والا کی ہتھیلیوں پہ پڑی، میں ایک لمحہ کے لیے تھراگیا آخر یہ کی اہو رہا ہے میری نگاہیں کیا دیکھ رہی ہیں مجھے یقین نہیں ہو رہا ہے، آپ تو گہری نیند میں ہیں پھر آپ کی انگلیاں حرکت میں کیسے ہیں؟ میں نے مولانا عبد الوحید فتحپوری جو اس وقت موجود تھے اور دیگر افراد کو بھی اس جانب متوجہ کیا، تمام حیرت و استعجاب میں ڈوب گئے تھے، معاملہ یہ ہے کہ آپ کی انگلیاں اس طرح حرکت کر رہی تھیں گویا آپ تسبیح پڑھ رہے ہوں، اور یہ منظر میں اس وقت تک دیکھتا رہا جب تک کہ آپ بیدار نہیں ہوگئے، ان تمام تر کیفیات کو دیکھنے کے بعد دل پکار اٹھتا ہے کہ:

سوئے ہیں یہ بظاہر دل ان کا جاگتا ہے

۲۰۰۳ء میں عرس حضور مفتی اعظم کے موقع پر دہانور روڈ ممبئی میں ایک سرائے کی بنیاد رکھی جانی تھی، جس میں حضور تاج الشریعہ، اور مولانا شعیب رضا صاحب مدعو تھے، بحیثیت سامع میں بھی موجود تھا، اچانک دل میں خیال آیا کہ کاش حضور تاج الشریعہ کے ساتھ ایک دسترخوان پر بیٹھنے کا موقع مل جاتا تو قسمت سنور جاتی، اسی تصور میں غرق قیام گاہ کے دروازہ پر کھڑا تھا میری طرح سیکڑوں مشتاقان دید قلب و جگر فرش راہ کئے ہوئے تھے، اچانک دروازہ کھلا اور ایک صاحب نے آواز لگائی منصور فریدی کون ہیں اندر آئیے، مجھے اس وقت اپنی سماعت پر یقین نہیں ہو رہا تھا کہ وہ تمہیں ہو جسے آواز دی جا رہی ہے، مگر دل کہہ رہا تھا کہ ہاں ہاں تمہیں ہو، اور پھر کیا تھا فرط مسرت سے میری آنکھیں بھیگ چکی تھیں، آنسو پوچھتے ہوئے میں اندر گیا، سلام و مصافحہ سے سرفراز ہوکر گھنٹوں حضرت کی خدمت میں لگا رہا، آج بھی تصور کرتا ہوں تو اس کیف زا کیفیت سے قلب و روح کو ٹھنڈک کا احساس ہوتا ہے، میری تمنا کیا پوری ہوئی میرے اعتقاد کی دنیا نے ایک ٹھوس اور مستحکم قلعے کو گویا تسخیر کر لیا تھا، جہاں سے آج بھی تصور شیخ میری رہنمائی کرتا نظر آتا ہے۔ یہ جتنی باتیں لکھی گئی ہیں حقائق پر مبنی ہیں، اس کے علاوہ بھی بے شمار آپ کی کرامتیں اور تصرفات کا ذکر ملتا ہے۔

تجویزوآراء