جنت کا سودہ کر لیا
جنت کا سودا کر لیا
قاری دل شاد احمد رضوی بنارسی کا بیان ہے کہ طالب علمی کا دور تھا، جمشید پور میں قائد اہلسنت علامہ ارشد القادری علیہ الرحمہ کی قیات میں شہر کے قاری دلشاد احمد رضوی بنارس کا بیان ہے کہ گولموری محلّہ میں امام احمد رضا کانفرنس میں حضور تاج الشریعہ کی آمد ہوئی۔ ہم لوگ مرشد گرامی کی خدمت پر مامور کئے گئے، بیعت و ارشاد کا سلسلہ شروع تھا۔ ذہن میں ایک بات کھٹکتی تھی کہ بغیر والدین کی اجازت کیسے بیعت ہوجاؤں، قلبی کیفیت میں ایک ابل تھا جسے لفظوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا، قائد اہل سنت نے میری پریشانی محسوس کی جیسے پیشانی کی لکریں پڑھ لیں ہو۔ ارشاد فرمایا کیا کوئی پریشانی ہے۔ آنکھیں بھیگ گئیں، عرض کیا حضور کیا حضور بیعت ہونا چاہتا ہوں، کیا والدین کی اجازت کے بغیر ممکن ہے۔ قربان جائیے قائد اہلسنت کے الفاظ پر جو میری زندگی کا سب سے قیمتی اثاثہ ہیں، ارشاد فرمایا ’’نادان جنت کا سودا والدین سے پوچھ کر نہیں کیا جاتا اور میں بھی تو تمہارا باب ہوں‘‘ یہ کہتے ہوئے مجھے تاج الشریعہ کے قدموں میں ڈال دیا۔ حضور یہ بچہ رشیدی کا صاحب کا ہے، جو اہل سنت کے علم برادر ہیں اور نعت کے زور گو شاعر بھی ہیں، ان کا بچہ آپ کی خدمت میں ہے، اسے غوث اعظم تک پہنچا دیجئے۔ مرشد ربانی نے میرا ہاتھ پکڑا، سلسلہ قادریہ میں داخل کیا دعاؤں سے نوازا، ارشاد فرمایا۔ فارغ ہو کر مسلک اعلیٰ حضرت کی نشر و اشاعت کرنا، یہی قرآن و سنت کا راستہ ہے۔ یہ جملہ کیا تھا، پوری زندگی کا نصب العین سامنے رکھ دیا۔ مجھے حضور تاج الشریعہ کی زندگی کے اس حصے کو ضبط تحریر کرنا ہے جس کا تعلق صرف قرآن و سنت سے ہے۔
میں ایک بار بریلی شریف حاضر ہوا، شہزادۂ تاج الشریعہ علامہ محمد عسجد رضا خاں کی وساطت سے بعد نماز مغرب ملاقات کے لیے حضرت کے حجرے میں داخل ہوا، اس وقت مفتیان کرام موجود تھے، چند لمحے میں حضور تاج الشریعہ اندرون خانہ سے اپنے حجرہ شریف میں تشریف لائے، بعد سلام و قدم بوسی کے میں بھی صف کے کنارے بیٹھ گیا۔ ایک مفتی صاحب نے عبارت پڑھی اور حضرت نے حدیث مبارک کے ختم ہوتے ہی پر سوز لہجے میں اللہ اکبر فرمایا۔
اور چہرۂ مبارک مثل آفتاب ہوگیا۔ رقت آمیز لہجے میں فرمایا، کیا شان ہے سرکار کی شفا شریف کی وہ حدیث یاد آگئی ہے جسے حضرت سیدنا قاضی عیاض مالکی اندلسی رحمۃ اللہ علیہ نے سلف صالحین اور عمل بالسنہ کے باب میں بیان فرمایا ہے۔
حدیث: حضرت عمرو بن میمون رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں حضرت سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی خدمت میں تھا، ایک دن انہوں نے آقا صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی حدیث بیان کی، اور قال قال رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کہتے ہوئے ان پر عجیب کیفیت طاری ہوگئی اور چہرۂ مبارک عرق آلود ہوگیا۔ [1]
اور ایک روایت کے مطابق ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے روایت کرتے وقت گلے کی رگیں پھول جاتیں، آنکھیں آشکبار ہوجاتیں۔ اور چہرہ کا رنگ متغیر ہوجاتا۔
حضور تاج الشریعہ درس حدیث دیتے وقت صحابہ کرام کے مظہر نظر آرہے تھے۔ جیسے سرکار کا سراپا سامنے ہو اور جلوۂ زیبا کے دیدار کی دولت حاصل ہو رہی ہے، اور دل اعتراف حقیقت کر رہا ہے۔ یہی وہ آثار ہیں جس عشق رسالت مآب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی جلوہ گری تاج الشریعہ کی ذات میں جلوہ فگن نظر آتی ہے، ایک عالم ربانی کی ذات میں جتنی خوبی ہونی چاہیے حضور تاج الشریعہ کی صبح و شام اور ان کی محفل کے شب و روز میں دیکھنے کے بعد من و عن ویسی ہی نظر آتی ہے، جیسا کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے قول و فعل میں ہم آہنگی برقرار رکھنے کی تعلیم دی ہے۔ قول و فعل کی ہم آہنگی علم و تقویٰ کی یک جہتی، شریعت و طریقت کا حسین سنگم، جلوت و خلوت میں یکسانیت دیکھ کر دل کو اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ حضور تاج الشریعہ ہر جہت ہر زاوئیے سے عالم ربانی ہی نظر آتے ہیں، تاج الشریعہ کے علمی فیضان سے صرف بر صغیر ہی نہیں بلکہ پوری دنیائے سنیت اس وقت مالا مال نظر آ رہی ہے۔ اس دور پر فتن میں دین کی نشر و اشاعت کرنے والوں کے لیے ایک ایسے امر کا سامنا ہے، جسے بیان کرنا ضروری سمجھتا ہوں تاکہ تاج الشریعہ کی شخصیت استقامت فی الدین کی حیثیت بھی اجاگر ہوجائے۔ یورپ و ایشیا کے دیگر ممالک میں بھی تصویر کشی ایک عام چلن بن کر رہ گئی ہے، جسے چاہ کر بھی بیشتر علماء اس سے بچ نہیں پاتے۔ اجلاس دینیہ میں پورے پروگرام کی منظر کشی ہوتی ہے۔ علماء کے منع کرنے کے باوجود لوگ باز نہیں آتے۔ مگر تاج الشریعہ کا موقف اس مسئلے پر جو ناجائز ہونے کا ہے۔ یہ صرف آپ کے فتوی کے حصار تک محدود نہیں ہے۔ بلکہ تصویر کشی اگر وہ قلم سے نا جائز گردانتے ہیں۔ تو اپنے عمل سے بھی ثابت کر دیکھاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تاج الشریعہ جس محفل میں موجود ہوتے ہیں، چاہے وہ ایشیا کی کوئی کانفرنس ہو یا یورپ کا کوئی اجلاس، ان کی ہیبت لوگوں پر کچھ اس طرح طاری رہتی ہے کہ بڑے بڑے جریح بھی غیر شرعی حرکت کی ہمت نہیں کر پاتے۔ یہ بھی تاج الشریعہ کی استقامت فی الدین کی نظیر ہے۔ کہ اللہ تعالیٰ بندہ کا ان پر ایسا رعب طاری کر دیتا ہے کہ عاشق مصطفےٰ تا مرون بالمعروف کے ساتھ وینھون عن المنکر کی تفسیر و تنویر نظر آتا ہے۔ اس مقام پر دل یقین کر لیتا ہے کہ ایسا شخص جو دین پر سختی کے ساتھ کار بند رہنے والا ہے وہ خدا کا سچا بندہ اور عالم ربانی ہے۔