جیپ کا پلٹ جانا
جیپ کا پلٹ جانا
مولانا حبیب النبی رضوی نوری جمالی شاہدی مدرس الجامعۃ الاسلامیہ رامپور نے اپنا ایک عینی مشاہدہ تحریر کیا ہے، لکھتے ہیں کہ یہ ایمان افروز واقعہ ۱۹۸۹ء کے اوائل کا ہے، جب محقق عصر، مبلغ مسلک رضا، چشم و چراغ سادات پیپلی شریف، خلیفۂ حضور مفتی اعظم حضرت علامہ مولانا مفتی الحاج سید شاہد علی حسنی رضوی نوری جمالی، شیخ الحدیث و ناظم اعلیٰ، مرکزی درسگاہ اہل سنت، الجامعۃ الاسلامیہ و قاضی شرع و مفتی ضلع رامپور کی دعوت پر قاضی القضاۃ، تاج الشریعہ جانشین مفتی اعظم حضرت علامہ مفتی الحاج محمد اختر رضا خاں صاحب ازہری دامت برکاتہم القدسیہ، مرکزی درسگاہ اہل سنت الجامعۃ الاسلامیہ پرانا گنج رامپور تشریف لائے، جہاں اراکین اساتذہ و طلبہ جامعہ نے موصوف کا شایان شان خیر مقدم کیا۔
مجوزہ پروگرام کے تحت، اسی دن حضرت تاج الشریعہ موضع عثمان نگر ضلع رامپور تشریف لے گئے، جہاں کثیر تعداد میں لوگوں نے حضرت کے دست حق پرست پر شرف بیعت حاصل کیا، عثمان نگر میں کچھ دیر قیام کے بعد، حضرت تاج الشریعہ وہاں سے رخصت ہو کر، عثمان نگر میں کچھ دیر قیام کے بعد، حضرت تاج الشریعہ وہاں سے رخصت ہوکر، ایک کھلی ہوئی جیپ میں روانہ ہوئے، جیپ میں حضرت تاج الشریعہ کے ساتھ، حضرت علامہ مفتی سید شاہد علی رضوی اور درائیور سمیت چھ افراد سوار تھے۔ جیپ میں سوار یہ قافلہ، رامپور بلا سپور شاہراہ پر ’’پیلا کھارندی‘‘ کے کنارے باندھ پر سے گزر رہا تھا چلتی ہوئی جیپ، جب باندھ کے کھڑنجے کے اوپر سے گزری تو اچانک کھڑنجے کے کنارے کی ایٹیں اکھٹر گئیں، جس سے جیپ کا توازن بگڑ گیا اور جیپ نے تین پلٹے کھائے اور حیرت انگیز طور پر تقریباً پچاس ساٹھ فٹ گہرائی میں، باندھے کے نیچے ایک گڑھے میں پہنچ کر، سیدھی کھڑی ہوگئی۔ جیپ میں موجود دوسرے لوگ حواس باختہ تھے۔ جیپ جیسے ہی زمین پر رکی، تو لوگوں نے دیکھا کہ حضرت تاج الشریعہ سیٹ پر سجدہ کی حالت میں پر سکون بیٹھے ہیں۔ چند لمحوں بعد ہی آپ نے پوچھا؟ سید صاحب آپ ٹھیک ہیں، آپ کو چوٹ تو نہیں آئی؟ نہیں حضور میں ٹھیک ہوں کوئی چوٹ نہیں آئی حضرت علامہ سید شاہد علی رضوی نے فوراً جواب دیا، اور دریافت کیا حضرت آپ تو خیریت سے ہیں، حضرت نے فرمایا بحمدہ تعالیٰ بخیریت ہوں۔ اس حادثہ میں کسی ایک فرد کے بھی کوئی قابل ذکر چوٹ نہیں آئی سب لوگ بحفاظت رہے، البتہ جیپ کی چھت کا پچھلا حصہ ٹوٹ گیا اور پہچاننے میں نہیں آرہی تھی کہ یہ جیپ ہے۔
حضرت تاج الشریعہ کی جیپ کے پیچھے پیچھے، موٹر سائیکلوں پر سوار عقیدت مندوں اور وابستگان سلسلہ عالیہ قادریہ رضویہ کا ایک عظیم قافلہ ساتھ چل رہا تھا، جس نے کھلی آنکھوں سے یہ اندوہناک حادثہ دیکھا، اور میں بچاؤ کے نقطہ نظر سے گبھرائے ہوئے انداز میں فوراً ہی ایک محفوظ راستے سے نیچے جائے حادثہ یہ پہنچا، اور جیپ میں سوار سب حضرات کو بخیر و عافیت دیکھ کر میں حیرت زدہ رہ گیا۔ واقعہ یقیناً خرق عادت تھا، اس لیے کہ تمام طور پر اس قسم کے حادثات میں جانیں نہیں بچتیں، چہ جائیکہ کسی کے چوٹ تک نہ آئے۔ یہ حضرت تاج الشریعہ دامت برکاتہم القدسیہ کی کھلی ہوئی کرامت تھی۔
حضرت علامہ مفتی سید شاہد علی صاحب رضوی کا بیان ہے کہ جیسے ہی جیپ نے پلٹا کھایا، تو حضرت تاج الشریعہ نے ’’یا للہ یا رحمٰن یا رحیم‘‘ کا ورد کرنا شروع کر دیا تھا، اور جب جیپ ٹھہری تو آپ سجدہ کی حالت میں تھے۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے، کہ حضرت سید صاحب قبلہ بھی اس حادثہ جانکاہ کے وقت کچھ کلمات خیر و رد زبان کیے ہوئے تھے، اس واقعہ کے عین شاہدین آج بھی سیکڑوں کی تعداد میں موجود ہیں، کیوں کہ جب یہ حادثہ ہوا، چشم زدن میں لوگوں کی ایک بھیڑ وہاں اکٹھی ہوگئی تھی۔
اللہ اللہ اس دور قحط الرجال میں، اللہ کے کیسے کیسے برگزیدہ بندے اس دنیا میں موجود ہیں جن کی برکتوں سے بڑے بڑے حادثے ٹل جاتے ہیں۔ یہ ایسے ہی نفوس قدسیہ ہیں جن کے لیے کہا گیا ہے:
اولیاء راہست قدرت ازالہ
تیر جستہ باز گرد اندز راہ
اس حادثہ کے بعد گاڑی وہیں چھوڑ کر، تقریباً ساٹھ فٹ کی چڑھائی چڑھ کر، حضرت تاج الشریعہ اور سارے رفقائے سفر وہاں سے پیدل چل کر، باندھ کے ڈھلوان کو پار کر کے اوپر سڑک پر آگئے، اور وہاں سے پیدل چلتے ہوئے تقریباً ایک میل کا فاصلہ طے کر کے ’’شنکر چورا‘‘ ہے پر پہنچے، اور وہاں باغ والی مسجد میں نماز ظہر ادا فرمائی اسی دوران شہر سے رابطہ کر کے دوسری گاڑی منگوالی گئی تھی۔ نماز ظہر سے فراغت پاکر یہ قافلہ، دوبارہ مرکزی درسگاہ اہل سنت الجامعۃ الاسلامیہ پرانا گنج رامپور پہنچا، اور مسجد جامعہ میں حضرت تاج الشریعہ کی اقتداء میں سب نے نماز عصر ادا کی، پھر قل شریف ہوا، اس کے بعد کثیر تعداد میں لوگ حضرت تاج الشریعہ کے دست حق پرست پر بیعت ہوئے۔ نماز مغرب بھی حضرت ہی کی اقتداء میں ادا کی گئی۔
نماز مغرب کے بعد یہ عظیم الشان قافلہ، حضرت تاج الشریعہ اور حضرت مفتی سید شاہد علی رضوی کی معیت میں، ایک جلوس کی شکل میں رامپور کے قصبہ نگلیا عاقل کے لیے روانہ ہوا۔ جیسے ہی یہ قافلہ نگلیا عاقل پہنچا، تو اہالیان قصبہ نے نعرہ ہائے تکبیر و رسالت و غوثیت سے پر جوش خیر مقدم کیا۔ علماء اہل سنت زندہ باد، حضور تاج الشریعہ زندہ باد کے فلک شگاف نعروں سے ساری بستی گونج اٹھی، سب لوگ جوش و ولولہ اور نہایت عقیدت و احترام کے ساتھ حضور تاج الشریعہ کو متعینہ نشست گاہ مدرسہ سراج العلوم لے گئے۔
راقم الحروف اپنے متعلقین، رشتہ داروں اور محبین کے ساتھ حضرت کے استقبال کرنے والوں میں پیش پیش رہا۔ خصوصا مولانا عتیق الرحمٰن ازہری للواری صدر المدرسین مدرسہ سراج العلوم نے حضرت کی پذیرائی کی۔
اس وقت وہاں موجود لوگوں کا جو والہانہ انداز و وارفتگی کا عالم تھا، اسے لفظوں میں سمیٹنا بڑا مشکل ہے۔ غرض یہ کہ سیکڑوں متلاشیان ہدایت، آپ کے ارد گرد حلقہ باندھے کھڑے تھے۔ آپ نے سب کو توبہ کرائی، اور سب کو سلسلۂ عالیہ قادریہ رضویہ نوریہ میں بیعت فرما کر سرکار غوث پاک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی غلامی اور پناہ میں دیدیا۔ آپ نے عشاء کی نماز ’’نگلیا عاقل‘‘ میں ہی ادا فرمائی، اور کچھ دیر نگلیا عاقل ہی میں قیام فرما کر، حضور تاج الشریعہ وہاں سے رخصت ہوئے اور پھر رامپور کے لیے عزم سفر کیا، کیوں کہ حضرت تاج الشریعہ وہاں سے رخصت ہوئے اور پھر رامپور کے لیے عزم سفر کیا، کیوں کہ حضرت تاج الشریعہ نے الحاج ظہور احمد رضوی رکن جامعہ کے بے حد اصرار پر، ان کی دعوت اس شرط پر قبول فرمائی تھی کہ وہ دعوت کے لوازمات کے بے حد مصارف سے گریز کر کے صرف مونگ کی کھچڑی پکوائیں گے۔
چنانچہ حضرت تاج الشریعہ مدظلہ العالی، حسب وعدہ تقریباً ۱۱؍ بجے شب موصوف کے مکان واقع پرانا گنج پہنچے، دسترخوان کو زینت بخشی اور دعوت دہندہ کی خوشی کی خاطر بزرگوں کی عادت مبارکہ کے موافق، چند لقموں پر اکتفا کیا مگر اہل خانہ اور دیگر حاضرین کو خوب کھلایا۔
اس موقع پر منظور احمد رضوی، نبیہ احمد قادری خازن جامعہ، صغیر احمد ازہری محاسب جامعہ، امیر احمد سیفی رضوی، الحاج شبیر احمد رضوی، جمیل احمد خاں رضوی کے علاوہ بہت سے محبین و مخلصین اور اراکین جامعہ موجود رہے۔ کھانے سے فراغت پاکر حضرت تاج الشریعہ دامت برکاتہم القدسیہ، اپنے خادم مولانا شکیل احمد خاں صاحب رضوی، جو اس پورے سفر میں حضرت کے ساتھ رہے تھے، کو اپنے ساتھ لے کر بذریعہ کار شب کو ہی بریلی شریف کےلیے رخصت ہوگئے۔