کندھو ں پر چار پائی

کندھو ں پر چار پائی

مشہور تذکرہ نگار مولانا غلام جابر شمسی مصباحی پور نوی بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ برسات میں تاج الشریعہ علامہ اختر رضا خاں ازہری بائسی تشریف لائے، میرے گاؤں کے حضرت مولانا عبد الحئی نوری، جو میرے قریبی رشتہ دار ہیں، ہری پور جانے کےلیے تیار کر لیے، بائسی سے فقیر کو ٹوٹی چوک تک تو ماروتی سے لائے، اب وہاں سے ہری پور جو چند قدم پر ہے کیس لے جائیں، بیچ میں نالے پانی سے پر تھے، کرایہ کی جو کشتیاں چلتی تھیں، وہ غائب تھیں، کش مکش کے عالم میں مولانا نوری نے چار پائی منگائی، حضرت تاج الشریعہ کو بٹھایا، چار علما ء یا علما ء نما لوگوں نے کاندھوں پر اٹھایا، نالے کا پانی عبور کر کے بیٹھک تک لائے۔ حضور جو اندر سے جمال، باہر سے جلال میں بھرے ہوئے تھے ہچکولے، ہلکورے کھاتے ہوئے فرمایا: ’’یا اللہ! لوگ مرنے کے بعد چار کندھوں سے اٹھائی ہوئی کھاٹ پر سوار ہوتے ہیں، آپ لوگوں نے مجھے جیتے جی ہی سوار کر دیا‘‘۔ یہ سن کر لوگ قہقہہ میں ڈوب گئے۔ لوگ آتے گئے، سنتے گئے، قہقہے بلند ہوتے گئے، یہاں تک کہ یہ بات تمام اطراف میں پھیل گئی، جو سنتا، ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہوجاتا۔ آج بھی لوگ یاد کرتے ہیں۔ تو زیر لب مسکرا دیتے ہیں۔

تجویزوآراء