خانقاہ برکاتیہ کی تین کرامتیں
خانقاہ برکاتیہ کی تین کرامتیں
شرف ملت حضرت سید شاہ اشرف میاں برکاتی خانقاہ برکاتیہ مارہرہ شریف اپنے ایک طویل مضمون میں تحریر فرماتے ہیں کہ ۱۹۹۶ء میں سردیوں کے دن تھے میں خانقاہ میں موجود تھا۔ اطلاع ملی کہ حضرت ازہری میاں صاحب آئے ہیں۔ میں نے باہر جا کر ملاقات کی۔ حضرت ازہری میاں جب حضور والد ماجد (احسن العلماء) قدس سرہ کی حیات میں تشریف لاتے تو پُر تکلف ناشتہ کا انتظام ہوتا۔ میں نے بھی انتظام کرنا چاہا لیکن حضرت ازہری میاں نے کہا کہ میں تکلف نہ کروں، ایک لفافہ میں نذرانہ دے کر فرمایا کہ یہ والدۂ ماجدہ کی خدمت میں پیش فرمادیں، اور فوراً رخصت ہوگئے۔ بمشکل چائے پی۔ جب وہ چلے گئے، تب مجھے خیال آیا کہ اس دن میری والدہ ماجدہ کی عدت کی مدت پوری ہونے کا دن تھا، قدیم خاندانوں میں رواج ہے کہ عدت کے خاتمہ پر قریبی اعزہ غم گساری کے لیے آتے ہیں، تبھی مجھے اس بات کا اندازہ ہوا کہ آج حضرت ازہری میاں ناشتہ کے بغیر کیوں چلے گئے۔ دراصل وہ چاہتے تھے اس دن گھر کی خواتین ان کی وجہ سےکوئی تکلیف نہ کریں۔
حضور احسن العلماء قدس سرہ کے وصال پر بھی حضرت ازہری میاں صاحب کو بہت رنج ہوا تھا۔ حضور احسن العلماء کو وہ ایک گھنا درخت کی مانند سمجھتے تھے، جوکڑی، دھوپ میں اپنا سایہ شفقت دراز کر دیتا ہے۔
تھا جو اپنے درد کی حکمی دوا ملتا نہیں
چارہ سازِ درد دل درد آشنا ملتا نہیں
ستمبر ۲۰۰۳ء میں ایک دن حضرت ازہری میاں صاحب کا فون آیا، فرمایا کہ حضور احسن العلماء علیہ الرحمۃ والرضوان کی منقبت میں چند اشعار ہوئے ہیں، آپ نوٹ فرما کر اس سال کے ’’اہل سنت کی آواز‘‘ کے شمارے میں شائع کرادیں۔ میں نے فون پر وہ اشعار نوٹ کیے اور ’’اہل سنت کی آواز‘‘ کے ۱۴۲۴ھ ۲۰۰۳ء کے شمارے میں شائع کر دیے۔
حضور احسن العلماء علیہ الرحمۃ والرضوان کے غلام اور فقیر برکاتی کی حیثیت سے میری فہم مجھے یہ شعور دیتی ہے کہ میں دعا گو رہوں کہ خانوادۂ رضویہ میں حضرت ازہری میاں خصوصا اور دیگر اخلاف عموما اہل سنت و جماعت کی علمی قیادت کے اس منصب کو مضبوطی سے تھام لیں، جس کا علم ہمارے اعلیٰ حضرت اور ہمارے مفتی اعظم نے نہ صرف یہ کہ اٹھایا تھا بلکہ ہمیشہ بلند رکھا تھا۔ ایک بار حضور احسن العلماء علیہ الرحمۃ والرضوان سے کسی نے دریافت کیا کہ حضور آپ کی خانقاہ کے بزرگوں کی کون کون سے کرامات ہیں۔ جواب عطا کیا گیا کہ ہمارے خاندان میں اپنے بزرگوں کی کرامتوں کا زیادہ بیان نہیں کیا جاتا ہے، کیوں کہ ہمارے بزرگ ہمیں سبق دے گئے ہیں کہ دین پر استقامت کسی کرامت سے زیادہ بلند ہوتی ہے۔ وہ صاحب پھر جب بضد رہے تو حضور احسن العلماء علیہ الرحمۃ والرضوان، فرمایا سنیے! ’’ماضی قریب میں میری خانقاہ کی دو کرامتیں ہیں۔ ایک احمد رضا اور دوسری مصطفےٰ رضا‘‘۔ وہ صاحب یہ سن کر ششدر رہ گئے۔ جب مفتی شریف الحق امجدی رضوی برکاتی قدس سرہ یہ واقعہ سناتے تھے، تو آب دیدہ ہوجاتے تھے۔
زندگی ایک بے حد پیچیدہ نظام کا نام ہے۔ دینی افکار، دنیا کی رفتار، روایت کی پاس داری، علم سے حاصل شدہ تصلب اور روحانیت سے کشید کردہ رواداری، اپنی جڑوں سے وابستگی اور اپنے شجر کی ایستادگی، یک در گیر و محکم گیر پر عمل درآمد، اور خود اپنے دریچوں کو وارکھ کر تازہ ہوا کی آمد، اسلاف کی دانش سے فیض اٹھانا، اور اخلاف کی تربیت کرنا، احباب کی ہمہ جہت ترقی کے لیے ان میں جوش بھرنا اور خود ہر موقع پر باہوش رہنا جو بظاہر دور رہتے ہیں ان میں خلوص و للّٰہیت تلاش کرنا، اور جو ہمہ وقت قریب رہتے ہیں ان کے افعال کی نگرانی کرنا، جمعیت کو مربوط رکھنے کے لیے تصلب کو کام میں لانا، اور فتنوں سے دور رہنے اور فتنوں کو دور کرنے کے لیے ضروری لچک پیدا کرنا۔ یہ ان گونا گوں امیدوں میں سے چند ہیں جنہیں میں حضرت کی ذات سے وابستہ رکھتا ہوں، اور دعا گو رہتا ہوں کہ کاش ایسا ہو کہ ہماری خانقاہ برکات کی اگلی پیڑھیاں اپنے زمانے کے پودے والے سے کہہ سکیں سنو ماضی قریب میں ہماری خانقاہ کی تین کرامتیں ہیں۔ احمد رضا، مصطفےٰ رضا اور اختر رضا۔