معمولی خراش
معمولی خراش
مشہور نقیب جناب حلیم حاذق رضوی ہوڑہ نے تحریر کیا کہ فیل خانہ میں سرکار مجاہد ملت علیہ الرحمہ کے ایک مرید جناب انوار احمد جیبی ہیں۔ انہوں نے ایک بار مجھ سے کہا کہ حضور تاج الشریعہ سے بعض شرپسند لوگوں کی غلط بیانیوں کے سبب میرے دل میں بھی ایک بے چینی تھی، اور میری عقیدت کی شمع ٹمٹاتی جا رہی تھی۔
ایک شب میرا نصیبہ بیدار ہوا، اور خواب میں دیکھا کہ سرکار مجاہد ملت اور حضور ازہری میاں مسجد میں نماز پڑھ رہے ہیں۔ میں بھی صحن مسجد میں سوچ ہی رہا تھا کہ سرکار مجاہد ملت نے مجھے ڈانٹ کر فرمایا ’’ان کی خدمت کرو، یہ میرے مخدوم زادے ہیں‘‘ اس کے بعد حضور ازہری میاں کی طرف میرا دل کھینچتا چلا گیا۔
فیل خانہ ہوڑہ کے سکنڈ لین میدان میں دیوبندیوں کا ایک جلسہ کوئی چار پانچ سال قبل ہوا تھا۔ اس جلسے میں ایک دیوبندی مقرر نے اعلیٰ حضرت اور مجاہد ملت کی شان میں گستاخانہ تقریر کی۔ صبح ہوتے ہی میں نے اس کی تقریر کی کیسٹ کو بڑی مشکل سے حاصل کیا، اور علاقائی علماء سے رابطہ کیا کہ یہ پہلا اتفاق ہے اگر اس کی جم کر تر دید نہ کی گئی تو آنے والا وقت ہمیں معاف نہیں کرے گا۔ بہت سے احباب نے کہا کہ یہ فلاں مولوی کی تقریر کا رد عمل ہے، اور چند بالکل خاموش۔ حسن اتفاق سے تیرے یا چوتھے دن حضور تاج الشریعہ کی آمد ایک مدرسے کے جشن دستار بندی میں ہوئی۔ حضرت ختم بخاری شریف کے وقت تشریف لائے۔ دیوبندی مقرر کے قابل اعتراض جملوں اور بہتان طرازیوں کو نوٹ کرکے ان کی خدمت میں پہنچا کہ تمام صورت حال سے مطلع کروں۔ مگر میں اپنی کوششوں میں ناکام ہوگیا کہ حضرت سے ملاقات نہ ہو پائی۔ ختم بخاری شریف میں حضور ازہری میاں فارغین کو آخری حدیث شریف کا درس دے رہے تھے، اور میں بیٹھا سوچ رہا تھا کہ یا اللہ! ان اعتراضات و بہتان کا جواب کون دے گا۔ مگر میری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ حضور ازہری میاں نے دیوبندی خیالات و نظریات کا رد بلیغ اسی آخری حدیث شریف کی تفسیر و تعبیر میں فرمانے لگے، اور میرے سارے سوالات خود بخود روشن جوابات پاتے چلے گئے۔
اسے بزرگوں کا تصرف نہیں تو کیا کہیں گے۔
ایک موقع پر محمد پور بزرگ ضلع مظفر پور میں صوفی جمیل رضوی قادری نے ایک بہت عالی شان جلسہ کیا۔ جس میں خصوصیت کے ساتھ حضور تاج الشریعہ مدعو کیے گئے تھے۔ یہ شاید اس علاقے کا نمائندہ جلسہ تھا کہ آس پاس کے سیکڑوں علماء محض حضور تاج الشریعہ سے شرف بیعت کے لیے حاضر ہوئے تھے۔ میں اپنی نقابت کے ذریعہ سلام و دعا تک بخوبی جلسہ کو پہنچا چکا تھا۔ مگر بیعت و ارادت کے مشتاق کے دیوانے اور پروانے قابو سے باہر ہو رہے تھے، آخر ایک بڑا سیلاب اسٹیج تک پہنچ گیا۔ حضور تاج الشریعہ کرسی پر تشریف فرما تھے، اور میں مائیک پر بار بار التجا پر التجا کرتا کہ اسٹیج کمزور ہے۔ للہ کرم کیجیے۔
اسی اثناء میں چرمرانے کی آواز ابھری، اور پورا اسٹیج جو کافی اونچائی پر بنایا گیا تھا زمیں بوس ہوگیا۔ سارے لوگ چیخ پڑے۔ حضرت کی کرسی کو میں اور صوفی صاحب نے پوری قوت سے پکڑ لی تھی۔ مگر ایک بانس کی قینچی میرے پیٹ میں یوں آلگی کہ اگر جنبش ہو تو پیٹ میں گھس جائے، مگر اراکین و سامعین نے کمال ہوشمندی سے اس بانس کی قینچی کو آرے سے کاٹ دیا، اگر میں شیروانی نہ پہنا ہوتا تو بے دریغ وہ بانس کی انی پیٹ پھاڑ دیتی۔
صبح کے وقت ناشتے پر حضرت نے مجھ سے پوچھا ’’آپ کو چوٹ تو نہ آئی ہوگی‘‘ میں نے عرض کیا ’’حضور آپ کی موجودگی میں بڑا سانحہ معمولی خراش میں بدل گیا‘‘۔ حضرت نے بے پناہ دعائیں کیں، میرا وجدان کہتا ہے کہ یہ برکت حضور تاج الشریعہ کی تھی ورنہ کچھ بھی ہوسکتا تھا۔ یہ دو کرامت بیان کردی ہیں۔