مر دغیب کا ناشتہ لانا
مر دغیب کا ناشتہ لانا
مفتی محمد سلیم اختر بلالی در بھنگہ کا بیان ہے کہ آج سے تقریباً پندرہ برس پہلے میں اودے پور راجستھان کے قریب سڑاڑہ قصبہ میں امام احمد رضا کانفرنس سے خطاب کرنے کے لیے مدعو تھا۔ خوش قسمتی سے سرکار تاج الشریعہ بھی اس علاقہ میں فیضان تقسیم کرنے کے لیے تشریف لانے والے تھے۔ ہوئی اڈے پر ۲۱ توپوں کی سلامی کا اہتمام کیا گیا تھا، ۲۱ گاڑیاں حضرت کی کار کے پیچھے رضا کاروں سے بھری ہوئی استقبال کے لیے موجود تھیں، ہوائی اڈے کے عملہ اس عظیم الشان شخصیت کو دیکھنے کےلیے پریشان تھا کہ وہ کون سی ایسی ہستی ہے جن کے استقبال کی یہ تیاریاں ہیں، حضرت تاج الشریعہ جب ہوئی جہاز سے اترے تو برادران وطن کی عقیدت و محبت اور ان سے وابستگی کی کیفیت احاطہ بیان میں لانا مشکل ہے۔ پھر جب جلسہ گاہ میں حضرت رونق افروز ہوگئے تو منتظمین جلسہ سے وہاں کے برادران وطن نے خاصی گزارش کی کہ حضرت کے دیدار کا ہم کو موقع دیا جائے۔ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ حضرت تاج الشریعہ عالمانہ جاہ و جلال کے ساتھ اسٹیج پر جلوہ بار ہیں، اور قطار در قطار صرف برادران وطن سامنے سے گزر رہے ہیں، اور حضرت کے رو برو ہونے پر اپنے مذہبی انداز میں اظہار عقیدت کر رہے ہیں، یہ تو ان کا حال تھا، اپنوں کا کیا حال بتاؤں، ہر آدمی اپنا ہر کچھ نثار کرنے کو تیار تھا، عجیب عقیدت و محبت کا معاملہ تھا، یہ سب کچھ اس کا اظہار تھا جورب کی جانب سے ان کو ودیعت کی گئی ہے جسے لوگ مقبولیت فی الارض کے نام سے جانتے ہیں۔
اس سفر میں ایک عجیب بات یہ ہوئی جسے میں کبھی بھول نہیں سکا، اور اکثر اس واقعہ کو بتا کر ہم لوگوں سے کہتے ہیں کہ یہ حضرت کی کرامت تھی۔ معاملہ یوں ہوا کہ جلسہ رات میں ختم ہوا۔ صبح حضرت کی روانگی تھی، اور مجھے بھی وہاں سے اپنے جامعہ اسلامیہ امانیہ لوام در بھنگہ (بہار) کا سفر کرنا تھا، پوری آبادی کے لوگ حضرت کو رخصت کرنے میں لگے تھے، حتیٰ کہ وہاں کے خطیب و امام مولانا طیب رضا صاحب جو حضرت کے مرید بھی تھے اور انہوں نے ہی مجھے مدعو بھی کیا تھا، وہ بھی مجھے بھول بیٹھے تھے، دن کے ۱۰ بجے گئے اور میں تنہا اپنے کمرے میں ٹھہرا ہوا تھا، سارے قصبے میں چہل پہل حضرت کی موجودگی کی رونق میں عجیب سا احسال سے دو چار تھا، کہ اچانک ایک آدمی میرے کمرے میں ناشتہ کے ساتھ وارد ہوا، اور میرے قریب بیٹھ کر کہا حضرت تاج الشریعہ نے مجھے آپ کے پاس بھیجا ہے، اور فرمایا ہے کہ بلالی کو ناشتہ کرادو، بعد میں کسی نے اس کا اقرار نہیں کیا کہ حضرت نے مجھے بھیجا تھا، پتہ نہیں یہ مرد غیب حضرت کی کون سی خدمت پہ مامور تھا۔ سرکار مفتی اعظم کے بعد اگر کوئی اتنی مقبول شخصیت نظر آتی ہے۔ تو یہ تاج الشریعہ کی ذات بابرکات ہے، جدھرے حضرت کا گزر ہوجائے اعلان عام ہوجاتا ہے کہ ادھر سے سرکار گزرنے والے ہیں، پھر خلائق کا ہجوم
ایں سعادت بزور باز و نیست
تا نہ بخشد خدائے بخشند
علمائے اہل سنت بہار نے یہ محسوس کیا کہ حضرت تاج الشریعہ کا اگر دورہ ہوجائے، اور لوگ حضرت کی زیارت سے مشرف ہوجائیں تو یہ سنیت کا ایک بڑا کام ہوگا۔ اس سلسلہ میں دربھنگہ شہر کا نام آیا اور سرکار نے منظوری عنایت فرمادی۔ یہ بات حضرت کے تعلق سے کافی مشہور کہ حضرت لوگوں سے کم ملنا پسند فرماتے ہیں۔ خلوت پسند ہیں، از دہام، دست بوسی قدمبسوسی سے دوری پسند ہے، اور علماء عوام و خواص کا یہ حال کہ مجھے موقع ملے تو مجھے موقع ملے۔ حضرت کا قیام در بھنگہ میں مفتی ہالینڈ حضرت مولانا عبد الواجد قادری صاحب قبلہ کے دولت کدہ پر تھا حضرت کے ہمراہ مولانا محمد شہاب الدین رضوی بھی خادم آئے تے۔ حمیدیہ قلعہ گھاٹ کے وسیع و عریض میدان میں جلسہ کا اہتمام تھا۔ علامہ مفتی مطیع الرحمٰن صاحب قبلہ، علامہ مفتی محبوب رضا القادری صاحب قبلہ وغیرہ پیش پیش تھے۔ حضرت کا حکم تھا کہ کوئی دست بوسی نہ کرے۔ میرے ساتھ سارے علماء کو حصار کے لیے متعین کر دیا گیا، حضرت کافی خوش تھے کہ میری مان لی گئی ہے، لوگوں کا ہجوم بے پایاں ٹوٹا پڑ رہا تھا، ہر کوئی اپنی آنکھ میں اس رخ زیبا کے جمال کو سما لینا چاہتا تھا۔ عجیب دیوانگی تھی۔ حضرت سے موجود علماء نے نعت مقدس سنانے کی گزارش کی، جسے قبولیت کا شرف مل گیا۔ کیا بتاؤں کہ سنانے والا ایک عاشق رسول اپنے دل کی گہرائی سے محبوب خدا کی بارگاہ میں کلام پیش کر رہا تھا، ایک تو کلام کا اثر پھر جب اسے کوئی محب صادق پیش کر رہا ہو تو اثر کا دوبالا سہ بالا ہوجانا فطری تھا۔ ایک پر کیف ماحول سارے مجمع پر طاری تھا۔ کچھ لوگوں نے سوچا اچھا موقع ہاتھ آیا، حضرت کلام پڑھ رہے ہیں۔ چلو کچھ نذر بھی دے دیں گے، اور اسی موقع پر دست بوسی کا شرف بھی حاصل کرلیں گے، جونہی دو چار آدمی گئے حضرت نے کلام کو روک دیا اور فرمایا کہ اب کوئی میرے درمیان مخل ہونے آیا تو میں اسٹیج سے اتر جاؤں گا۔ لوگ رک گئے، اور حضرت کا فیضان خوب خوب برسا، آج بھی لوگ جب اس منظر کو یاد کرتے ہیں تو خوب لطف اندوز ہوتے ہیں۔