مسجد میں چندہ

مسجد میں چندہ

۱۹۹۷ء یا ۱۹۹۸ء کی بات ہے کہ صوبۂ بہار کا راقم السطور نے حضرت کی طرف سے پروگرام دے دیا تھا، یہ تاریخیں تقریباً دس دن کی تھیں، ہر ایک دن حضرت کے تین سے چار اجلاس ہوا کرتے تھے۔ اور ایسا خاکہ تیار کیا تھا کہ جس جگہ سے حضرت چلیں گے اور جہاں تک جانا ہے، تو لب سڑک سے متصل جتنے بھی گاؤں اور قصبے ہوں گے سبھی جگہ ۱۵ منٹ حضرت رک کر بیعت و ارشاد فرمائیں گے، اس طرح ان دس دنوں میں درجنوں پروگرام ہوگئے۔ اور درجنوں گاؤں و دیہات کے علاقوں میں حضرت کے قدوم میمنت لزوم پہنچ گئے، تقریباً آدھا صوبہ بہار اعلیٰ حضرت امام احمد رضا فاضل بریلوی اور تاجدار اہل سنت حضور مفتی اعظم قدس سرہما کے فیضان سے مالا مال ہوگیا۔

حضرت شہر کشن گنج سے بہادر گنج جاتے ہوئے مفتی مطیع الرحمٰن مضطر رضوی اور علم و فن حضرت خواجہ مظفر حسین رضوی مرحوم کے گاؤں تشریف لے گئے۔ راستہ میں ایک صاحب غالباً مولانا مفتی ایوب مظہر قادری کے بھائی یا قریبی رشتہ دار ملے، وہاں سے آگے بڑھے ہوں گے کہ ایک مسجد یا مدرسہ کی تعمیر ہو رہی تھی۔ چندہ کی اپیل کا بینر لگا ہوا تھا، معاً مجھے خیال آیا کہ یہ غریب مسلمانوں کا علاقہ ہے، یہاں مدد ہونا چاہیے، میرے پاس اتنے روپئے بھی نہیں ہیں کہ میں فی الحال ان کی مدد کردوں، میں اپنے ذہن و خیال میں سونچتا ہوا جا رہا تھا، گاڑی تیز رفتاری کے ساتھ بڑھ رہی تھی، آگے ہی کچھ فاصلے پر قیام گاہ تھی۔ قیام گاہ پہنچے، سامان گاڑی سے لا کر کمرہ میں رکھا، حضرت کچھ دیر کے لیے آرام کرنے لگے، جب بیدار ہوئے فرمایا کہ تم اس وقت کیا سوچ رہے تھے، بیگ میں فلاں جگہ کا نذرانہ رکھا ہوگا، اس کو لے لو اور جا کر اس مسجد یا مدرسہ میں تعاون کردو، یہ نہایت ہی اچھا عمل ہے۔ اللہ ایسے لوگوں کو بہترین جزا دیتا ہے۔

میں نے عرض کیا کہ حضور میں واقعی یہی سوچ رہا تھا کہ ان کی مدد ہونی چاہیے۔ آپ نے کشف کے ذریعہ میرے دل کا حال جان لیا ہے۔ اب میں وہاں کے جو ذمہ دار ہوں گے، ان سے ملکر آپ کی طرف سے تعمیر مسجد میں چندہ دیدونگا۔ پھر فرمایا کہ جا کر تعاون کرو مگر نام کے اظہاری کی ضرورت نہیں ہے۔ میں نے ایک موٹر سائیکل والے کو ساتھ لیا اور اکیلے ہی چلا گیا۔ متولی صاحب سے ملاقات ہوئی، میں نے صرف اپنا اتنا تعارف کرایا کہ میں بریلی شریف سے حاضر ہوا ہوں، فلاں جلسہ میں آیا ہوں، یہ دس ہزار روپیہ مسجد کی تعمیر میں بطور تعاون حاضر ہیں۔ وہ بہت خوش ہوئے۔

حضرت دلوں کا حال جانتے ہیں۔ اپنے مریدین و خدام کے جذبات و احساسات کی قدر کرتے ہیں۔ یہی اولیائے کرام و مقربان بارگاہ الٰہی کی پہنچان ہے۔ [1]



[1] ۔ ۱۷ ؍ اگست ۲۰۱۵ ء۔

تجویزوآراء