میری زندگی کا ناقابل فراموش دن
مولانا مبشر الاسلام نوری دار العلوم فیض العلوم جمشید پور (جھاڑ کھنڈ) کہتے ہیں کہ:
ادھر سے کون گزرا تھا کہ اب تک
دیار کہکشاں میں روشنی ہے
بلاشبہ حضرت کی ذات اندھیری رات کے مسافروں کے لیے مشعل ہدایت اور مینارہ نور کی حیثیت رکھتی ہے۔ ان کا فضل و کمال دلکش اور نکھری ہوئی شخصیت ہی کچھ ایسی ہے کہ دیکھنے والا فوراً متاثر ہوجاتا ہے۔ اور آپ کا گرویدہ ہوجاتا ہے، میری زندگی کا وہ تابناک اور نا قابل فراموش دن تھا۔ جب مرشد برحق کا پہلا دیدار ہوا تھا۔ اور دیدہ و دل کو جلا بخش دیا تھا۔ دل کی تاریکی ہمیشہ کے لیے چھٹ گئی۔ راسخ الاعتقادی کی دولت لا زوال مل گئی۔ بد عقیدگی کا سایہ مٹ گیا۔ جولائی ۱۹۸۵ء میری زندگی ٹرنگ پوائنٹ ثابت ہوا، جب مدینۃ العلماء گھوسی میں عرس امجدی کے پر بہار موقع پر میری نگاہوں نے حضرت کا نورانی چہرہ دیکھا تھا۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب میں طفل مکتب تھا۔ عقل و شعور زیادہ نہیں تھا۔ میں پہلے دیوبندی مکتب فکر کے مدرسے میں زیر تعلیم تھا، اور یوپی کے دیوبندی مدرسہ میں جانے کے لیے پر تول رہا تھا۔ مگر والد مرحوم صحیح العقیدہ سنی تھے۔ ان کی قطعی خواہش نہیں تھی کہ میں دیوبندی مدرسہ جاؤں۔ اس لیے انہوں نے مجھے ایک رشتہ دار حضرت مولانا محمد شہید الرحمٰن رضوی مہتمم مدرسہ قادریہ نوریہ دمکا اور مولانا قاری محمد منظور احمد مصباحی صدر المدرسین مخدومیہ انوار العلوم اسہنا ضلع دیو گھر جو اس وقت فیض العلوم محمد آباد گوہنہ میں زیر تعلیم تھے، اور دیوبندیوں کے عقائد باطلہ کی نشاندہی کی تھی، سمجھا بجھا کر لے گئے، دل میں سوچتا تھا کہ کسی طرح ایک سال گزاروں گا اس کے بعد دیو بندی مدرسہ میں داخلہ لے لوں گا۔
اسی دوران عرس امجدی کی تقریب سعید آگئی تھی، اور ان دونوں کی معیت میں گھوسی چلا گیا۔ میں نے دیکھا کہ لوگوں کا بڑا ہجوم ہے۔ تکبیر و رسالت اور حضرت تاج الشریعہ کے فلک شگاف نعروں سے پوری فضا معمور ہوگئی۔ اور ایک بزرگ، نورانی ہستی، عشاق اور دیوانوں کے درمیان خراماں رواں دواں تھی۔ ان کی ایک جھلک پانے کے لیے کیا علماء، کیا طلبہ اور کیا عامۃ الناس سبھی ایک دوسرے پر ٹوٹ رہے تھے۔ سچ ہے:
جو دلوں کو فتح کر لے وہی فاتح زمانہ
عصر کا وقت ہوچکا تھا۔ محلّہ کریم الدین پور کی ایک مسجد میں حضرت نے عصر کی نماز پڑھائی اور بعد نماز وہیں جلوہ فرما رہے۔ میں نے بالکل قریب سے دیدار کاشرف حاصل کیا۔ آپ نے اسی جگہ لوگوں کو مرید کرنا شروع کر دیا۔ میرے کرم فرمانے مجھے سامنے بیٹھایا، اور کہا تم بھی مرید ہوجاؤ۔ اس وقت میں نہ مریدی سے واقف تھا اور نہ ہی پیری سے۔ اور نہ ہی اعلیٰ حضرت و مفتی اعظم ہند علیہما رحمۃ الرحمٰن کے نام سے میرے کان آشنا ہوئے تھے۔ براہ راست حضرت کے نورانی ہاتھ پر ہاتھ رکھا، اور بیعت کی سعادت سے بہرہ ور ہوگیا۔ حلقہ ارادت میں آنا تھا کہ زندگی کی کایا ہی پلٹ گئی۔ ذہن و دماغ کے دریچے کھل گئے اور سارے شکوک و شبہات کا از خود ازالہ ہوتا چلا گیا۔ حضرت کے دیدار اور ایک نگاہ کرم نے جو ذرہ نوازی کرم فرمائی کی، اسے تاحین حیات فراموش نہیں کیا جاسکتا ہے۔ ان کا دیا ہوا شجرہ جس میں دست مبارک سے حضرت نے اپنا دستخط فرمایا تھا، بعد نماز فجر پڑھنا روز مرہ کا معمول بن گیا تھا۔ پھر کیا تھا بد مذہبیت کے خندق میں جانے سے محفوظ و مامون ہوگیا۔ مجھے خیال آتا ہے کہ اسی موقع پر گریڈیہہ کے مولانا محمد انوار احمد رضوی کے سر پر اس بھیڑ میں مسجد کی چہار دیواری کی اینٹ گر گئی، جس کی وجہ سے خون جاری ہوگیا اور چوٹ لگ گئی تھی۔ حضرت قریب آئے اور آپ نے سر پر دست شفقت رکھا کہ خون بند ہوگیا، اور ساری تکالیف یک لخت دور ہوگئی۔ اس اعتبار سے بھی وہ دن قابل یاد گار ہے کہ جب میں نے رئیس التحریر قائد اہل سنت حضرت علامہ ارشد القادری، شارح بخاری مفتی محمد شریف الحق امجدی، محدث کبیر علامہ ضیاء المصطفےٰ قادری، بحر العلوم مفتی عبد المنان اعظمی جیسے اکابر علماء اور اساطین ملت کو زندگی میں پہلی بار دیکھا تھا۔