مقدمہ میں کامیابی ایک کرامت
علامہ مفتی عبد المنان کلیمی شہر مفتی مراد آبادی و شیخ الحدیث جامعہ اکرم العلوم لال مسجد کا بیان ہے کہ فقیر نے عرصہ ۱۹۸۵ء سے مخدومی تاج الشریعہ کی خدمت و مجلس اور بعض اہم اسفار میں معیت و رفاقت کا شرف حاصل کر چکا ہے، میں نے ہر بار حضرت قبلہ کو تصلب فی الدین کا مظہر اتم، اور اپنے اسلاف کے ہمہ گیر اخلاق و اوصاف اور علم وفضل کا سچا جانشین پایا۔ جب کسی عنوان پر آپ کا قلم اٹھتا ہے، تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سیدنا اعلیٰ حضرت کا قلم سیال رواں دواں ہے۔ اور جب زبان کھلتی ہے تو یہ محسوس کیے بغیر کوئی نہیں رہتا کہ سیدنا حضور مفتی اعظم ہند کی شان علمیت نمایاں ہے۔
فقہی مجلس ہو یا دار الافتاء علما کی جماعت ہو یا فقہا کا گروہ، متکلمین کی نشست ہو یا محدثین کا مجمع، ہر جگہ آپ مقتدیٰ اور میر مجلس نمایاں نظر آتے ہیں۔
یہ تو علم و فضل کی بات ہوئی اللہ تعالیٰ نے آپ کو سیرت و صورت، حلم و برد باری اور شفقت و مہربانی میں بھی ایسا خصوصی درجہ عطا فرمایا ہے کہ آپ کی پہلی زیارت کے بعد ہی تشنگانِ روحانیت آپ کی طرف کھینچے چلے آتے ہیں اور یہ محسوس کیے بغیر نہیں رہتے کہ آپ اپنے اسلاف کرام اور خاندانی مقتدایان عظام کی بولتی تصویر اور ہم پیکر ہیں۔
فقیر نے بار ہا حضرت قبلہ سے اکتساب فیض کے لیے استفتاء کیا جس کے جواب میں آپ نے ایسے ایسے لعل و گہر کے پھول برسائے کہ سن کر انسان حیرت زدہ ہوجائے، اور یہ ماننے پر مجبور ہوجائے کہ یہ اپنے وقت کے عالم ربانی اور فقیہ النفس کی حیثیت رکھتے ہیں۔
فقیر اس امر کے بیان میں اپنے کو نہایت خوش نصیب سمجھتا ہے کہ ۱۹۸۶ء / ۱۴۰۷ھ میں جب آپ کو سعودی حکومت نے گرفتار کیا تو میں نے حضرت کی حمایت و برأت میں تقریباً بیسوں قسطوں پر اپنے رشحات قلم کے ذریعہ نجدی حکومت کے پرخچے اڑائے، اور حضرت قبلہ کی بارگاہِ قدس میں اپنے قلم کے ذریعہ بہترین خراج عقیدت و محبت پیش کرنے کی کوشش کی۔ جس کے شاہد عدل کی حیثیت سے ماہنامہ سنی دنیا کے قدیم شمارے موجود ہیں۔
دوسرا جب ہندوستان میں ریڈ اور ٹیلی ویژن کی حلت و حرمت کی بحث چھڑی تو وہاں کے بہت سارے قدر دانوں میں اس فقیر کا نام بھی لیا جا سکتا ہے۔
تیسرا یہ کہ جب مراد آباد میں آپ پر ایک نام نہاد، کم ظرف اور بد ترین قسم کے حاسد مولوی نے ’’مسئلہ اللہ میاں‘‘ میں اپنے منشا کے مطابق آپ کی جانب سے فتوی نہ ملنے کی رقابت کا بدلہ لینے، اور آپ کی پروقار شخصیت کو مجروح کرنے کی ناروا جسارت کرتے ہوئے آپ پر ایک جھوٹا مقدمہ مراد آباد کورٹ کے ذریعہ قائم کرایا تو اس نا چیز کلیمی نے فاضل جلیل مولانا محمد شہاب الدین صاحب رضوی اطال اللہ عمرہ و الحاج افروز رضا خواہر زادہ حضور تاج الشریعہ اور صاحبزاادہ گرامی علامہ عسجد رضا خاں صاحب وغیرہ کے باہمی مشورہ سے مقدمہ کے پیروکاری کی مکمل ذمہ داری اپنے ذمہ لی۔ اور مراد آباد کے ضلعی کورٹ میں جاری اس مقدمہ کی ایسی پیروی کی کہ مخالفین کے پاؤ اکھڑے گئے اور ان کو خاسر المرام ہونا پڑا، اور اللہ تعالیٰ نے حضرت قبلہ کو ایسی فتح اور جیت عطا فرمائی جس کا تصور نہیں کیا جاسکتا ہے۔ اس عظیم الشان کامیابی پر یہ کہنا مبالغہ ہوگا کہ آپ جد کریم سیدنا امام احمد رضا فاضل بریلوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر بھی ایک مقدمہ قائم کیا گیا، جس کی مکمل پیروکاری کا شرف سیدنا حضور صدر الافاضل مراد آبادی کو حاصل ہوا، بعینہ اسی طرح ان کے فرزند پر بھی ایک مقدمہ قائم کیا گیا جس کی پیروی مراد آباد کے تعلق سے اس ناچیز کے حصہ میں آئی مولانا محمد شہاب الدین رضوی برابر ہر تاریخ پر مراد آبادی آتا اور میں ان کے ساتھ کورٹ جاتا، وکیلوں سے صلاح و مشورہ کرتا۔ میں اس مقدمہ کی پیروی کو اپنی خوش نصیبی و خوش بختی تصور کیا کرتا ہوں۔ اور یہ یقین کرتا ہوں کہ میرے اوپر سیدنا اعلیٰ حضرت کا کرم ہوا، اور میں اس خانوادے کے کام آگیا۔