نغمہ و ترنم کا سماں

مشہور قلم کار و ادیب مولانا مفتی شمشاد حسین رضوی پرنسپل مدرسہ شمس العلوم بدایوں شریف بیان فرماتے ہیں کہ ایک دن ہم تمام طالب علم حضرت قاضی کے شمس الدین جونپوری کے درس میں موجود تھے، اور حضرت پڑھا رہے تھے کہ ایک بزرگ صفت انسان تشریف لائے۔ قاضی صاحب نے کھڑے ہوکر ان کا استقبال کیا۔ آنے والے کو اپنی مسند پر بٹھایا، اور خود مؤدب ہوکر بیٹھ گئے، اور طالب علموں کے ذہن و دماغ میں کیا تاثر ابھرا؟ اس کو میں نہیں بتا سکتا۔ البتہ میں نے یہ محسوس کیا۔ قاضی صاحب جیسی شخصیت۔ اللہ اللہ ان کی علمی شان و شوکت کا یہ عالم تھا کہ بڑے بڑے ان کے سامنے طفل مکتب معلوم ہوتے تھے۔ ان کا علمی وقار مسلم تھا۔ لیکن آج کیو ہوگیا ہے کہ علمی جاہ و جلال اور فنی طمطراق نیاز مندی کے سانچے میں ڈھل گیا ہے۔ اپنے اساتذہ میں سے کسی سے میں دریافت کیا۔

حضرت یہ کون ہیں؟ انہوں نے جواب دیا۔

یہ حضرت ازہری میاں ہیں۔ اس وقت تک نام تو سنا تھا مگر دیکھا نہیں تھا، پھر حضرت ازہری میاں صاحب نے عربی زبان میں ایک منقبت پڑھی۔ غالباً یہ منقبت حضرت مجاہد ملت کی شان میں لکھی گئی تھی۔ پڑھنے کالب و لہجہ اس قدر دلکش تھا۔ الفاظ کے زیر و بم میں ایسی موزونیت تھی کہ نغمہ و ترنم کا سماں چھا گیا۔ ہمارے اساتذہ کرام اس منقبت سے متاثر ہوئے اور بہت زیادہ متاثر ہوئے، یہیں سے حضرت تاج الشریعہ کی علمی لیاقت کا اور با کمال صلاحیت کا نقش میرے دل میں ابھرتا ہے۔

۱۹۷۹ء کی بات ہے، میں جماعت رابعہ کا طالب علم تھا، مدرسہ حمیدیہ رضویہ بنارس کے سالانہ امتحان کے لیے حضرت تاج الشریعہ صاحب تشریف لائے ہوئے تھے۔ مشکوٰۃ شریف کا آپ نے امتحان لیا۔ میں امتحان دینے والوں میں شریک تھا۔ لوگوں کا میرے بارے میں خیال تھا کہ ناچیز تمام طالب علموں میں باصلاحیت ہے۔ خیر یہ ان کا حسن ظن تھا۔

حضرت تاج الشریعہ نے فرمایا کہیں سے کوئی حدیث پڑھو، تمام ساتھیوں کا اشارہ پاتے ہی میں نے دو حدیث پڑھی، جس کا مطالعہ میں خاص طور پر کر کے آیا تا۔ حدیث تو میں نے صحیح اعراب کے ساتھ پڑھ دی اور ترجمہ بھی کر دیا۔ اس کے بعد حضرت نے جو سوالات اس حدیث کے متعلق کئے۔ یہ یقین جانئے میں نے یہ محسوس کیا کہ میں ابھی تک علم و فن سے بے بہرہ ہوں۔ ان دو واقعات نے میرے ذہن و دماغ کو بہت متاثر کیا۔

تجویزوآراء