رنگ رخ آفتاب کا کیا کہنا
رنگ رخ آفتاب کا کیا کھنا
مشہور عالم دین اور حضور مفتی اعظم کے خلیفہ علامہ شبیہ القادری بانی دار العلوم غوث الوری سیوان (بہار) بیان کرتے ہیں کہ غالباً ۱۹۵۱ء یا ۱۹۵۲ء کی بات ہے کہ مہر چرخ ولایت حضور تاج الشریعہ اپنے آبائی مسکن محلّہ خواجہ قطب کے محور سے گزرتے ہوئے دار العلوم منظر اسلام میں اردو کی پہلی کتاب دست مبارک میں لیے ہوئے جلوہ بار ہوتے تھے۔ ان کے ساتھ ان کے ایک بڑے بھائی تنویر رضا ہوتے۔ دونوں کی عمر میں ایک دو سال کا فرق تھا، غرض دونوں آفتاب و ماہتاب کی طرح ہوتے اس کی مصداق حضرت سعدی کا یہ شعر ہے۔
دو پاکیزہ پیکر جو حور و پری
چو خورشید و ماہ ازسہ دگر بری
اور نہایت ہی سنجیدگی سے کتاب لے کر دفتر میں منشی جی کے پاس بیٹھ جاتے، بعد میں سنا گیا کہ ان کے برادر بزرگ تنویر رضا صاحب مفقود الخبر ہوگئے۔ اس زمانے میں یہ فقیر بھی میزان الصرف وغیرہ دار العلوم منظر اسلام ہی کی ابتدائی درس گاہ میں پڑھتا تھا۔ حضرت کے چہرے پر نظر پڑ جاتی تو ایسا محسوس ہوتا کہ چہرہ عالم تاب سے نور ولایت چھن چھن کر ساری فضا کو نور بار کر رہا ہے۔
بالائے سرش زہو شمندی
می تافت ستارۂ بلندی
گویا تاج الشریعہ کی ذات صدر شک قمر اور رنگ رخ آفتاب ہے جہاں سے شعور آگہی کا چشمہ پھوٹتا ہے، جس کی ترجمانی حافظ شیرازی کا یہ شعر کر رہا ہے۔
اے نو بہار مارخِ فرخندہ مآل تو
مشروح کآں نامہ و خوبی جمال تو