شریعت کی پاسداری

شریعت کی پاسداری

مشہور خطیب مولانا عبد المصطفےٰ حشمتی صدیقی مہتمم دار العلوم مخدومیہ رود ولی شریف ضلع بارہ بنکی نے امسال عرس نوری منعقدہ ۱۳؍ محرم الحرام ۱۴۳۷ء کو ازہری مہمان خانہ میں تحریر میں بیان فرمایا کہ دبئی میں ایک عبد الرزاق نامی شخص جو سونے کا بہت بڑا تاجر ہے، سینکڑوں لوگ اس کے یہاں کام کرتے ہیں، بلاشبہ وہ تاجر کھرب پتی ہے، وہ تاج الشریعہ کے مریدوں میں سے ہے، دبئی کے قیام کے دوران وہ تاج الشریعہ سے ملنے آیا، کسی شخص نے تاج الشریعہ سے یہ بتا دیا کہ ان کے یہاں تراویح کی امامت کوئی دیوبندی یا وہابی کرتا ہے۔ اتنا سننا تھا کہ تاج الشریعہ کے جلال کا عالم نہ پوچھئے، اس شخص سے مصافحہ نہیں کیا اور بہت سخت سست کہا، اخیر کار اس نے معذرت کی اور توبہ کیا اور عذر پیش کیا کہ ہمیں اس بات کا علم نہیں ہے کہ ہماری کمپنی میں سیکڑوں لوگ کام کرتے ہیں، اس لیے ہمیں اس کا علم نہیں ہوسکا کہ کون امامت کرتا ہے، بہر حال آئندہ ایسا نہیں ہوگا، جب سب کے سامنے اس نے توبہ استغفار کیا پھر تاج الشریعہ نے اسے نرمی سے سمجھایا، اور عقائد وہابیہ بتایا، اور مسائل شریعہ اس کے سامنے پیش کیا، وہ شخص سر تا پیر سراپا عجز و انکساری کا مجسمہ بنا رہا، موقع پا کر اس نے عرض کیا حضور غریب خانے پر تشریف لے چلیں تو حضرت نے صاف لفظوں میں فرمایا کہ اس بار تو میں نہیں جا سکتا اگر تم توبہ پہ قائم رہے تو آئندہ سفر میں چلوں گا۔ حالانکہ اس سے پہلے کئی بار اس کے گھر جا چکے تھے۔ اس مشاہدہ کو پیش کرنے کا مقصد یہ ہے کہ تاج الشریعہ حقیقی معنوں میں اعلیٰ حضرت، حجۃ الاسلام اور حضور مفتی اعظم ہند کے علم و عمل اور فضل و کمال کے سچے وارث و امین ہیں، اور موجودہ وقت میں ان کی شخصیت آفتاب و ماہتاب کی طرح ہے، جس سے سارا زمانہ فیض پاتا ہے۔ سوا ان کے جو آنکھ رکھ کر بھی حسد میں بند کئے رہتے ہیں۔

دبئی میں گولڈ مارکیٹ کے قریب الفیم الراس میں سنیوں کی مرکزی مسجد جس میں پاکستان کے قاری غلام رسول صاحب امام تھے۔ جمعہ کا دن تھا با وجود یہ کہ وہاں مائیک پہ نماز ہوتی تھی، بڑی مسجد تھی، بھیڑ بھاڑ نمازیوں کی اتنی ہوتی تھی کہ مائیک کے بغیر آواز پہنچنا مشکل تھا، ان تمام باتوں کے باوجود نہ یہ کہ لوگ کیا کہیں گے اور کیا ہوگا، جمعہ کی امامت فرمائی بغیر مائیک کے، نہ کوئی چوں چرا، نہ کوئی ہنگامہ، حالانکہ لوگوں کو سوال کرنے کا پورا پورا حق تھا، کہ جب ہر جمعہ کو مائک پہ نماز ہوتی ہے تو آج بغیر مائیک کے کیوں؟

یہ سب کچھ فضل خدا وندی اور اطاعت شرع کا ثمرہ ہے اور نتیجہ ہے، عوام بھی انہیں علماء کو مطعون کرتی ہے، جو شریعت کو مذاق بنائے ہوئے ہیں، اگر کوئی پابند شریعت ہو تو ضرور اس سے محبت کرتی ہے اور احترام بھی۔

رودھ لی شریف میں ۲۴؍ جمادی الآخرۃ ۱۴۰۰ھ میں سنی کانفرنس کے نام سے کچھ لوگوں نے ایک جلسہ کیا، اور رئیس اڑیسہ حضور مجاہد ملت مولانا شاہ حبیب الرحمٰن صاحب اڑیسوی (م ۱۴۰۱ھ) اور تاج الشریعہ، کو مدعو کیا۔ جلسہ والوں کی بے توجہی اور افراتفری دیکھ کر میں نے ان دونوں بزرگوں سے گزارش کی کہ ہمارے یہاں تشریف لے چلیں۔ ان حضرات کی کرم فرمائی کہ دعوت قبول فرما لی، لیکن اس وقت مدرسہ کی عمارت مختصر اور انتظامات بھی معقول نہ تھے۔ اس لیے مدرسہ سے متصل محمد عمر قریشی صاحب کے مکان میں دونوں بزرگوں کے قیام کا انتظام ہوا، صاحب خانہ کا کاروبار کلکتہ میں چلتا تھا، وہ وہیں حضور مجاہد ملت کے دامن سے وابستہ ہوگئے تھے، صاحب خانہ کے صاحبزادے جاوید عمر صاحب نے کہا کہ میری والدہ بھی حضور مجاہد ملت سے مرید ہونا چاہتی ہے، آپ حضرت سے گزارش کردیں کہ قبول فرمالیں، میں نے حضور مجاہد ملت سے عرض کیا، حضرت نے فرمایا ’’میاں! سرکار اعلیٰ حضرت کے شہزادے حضرت ازہری میاں کی موجودگی میں ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ میں مرید کروں، انہیں سے مرید کروائیے‘‘ چونکہ صاحب خانہ پہلے سے حضور مجاہد ملت کے دامن کرم سے وابستہ ہوچکے تھے، اس لیے اہلیہ بھی بضد رہیں کہ مجھے بھی حضرت کی کنیزوں میں داخل کرائیے۔ باصرار میں حضرت کو راضی تو کر لیا مگر گھر کے اندر جانے کا جو راستہ تھا وہ حضور تاج الشریعہ کی قیام گاہ سے ہوکر گزرتا تھا۔ حضرت نے فرمایا کہ میں حضرت ازہری میاں صاحب کے سامنے سے ہوکر کیسے گزر سکتا ہوں، اخیر کار عقبی دروازے سے حضرت اندر تشریف لے گئے اور فرماتے تھے کہ ’’کوئی تیز آواز میں نہ بولے کہ حضرت ازہری میاں تشریف فرما ہیں، آہستہ بولو، شہزادے قیام فرما ہیں۔‘‘

اللہ اکبر میں دیکھ کر دنگ رہ گیا، کہاں ایک اسی سال کی عظیم المرتبت شخصیت جن کا عالمانہ وقار اور مجاہدانہ شان کا زمانہ خطبہ پڑھتا ہو، ایک تیس پینتیس سال کے شہزادے کا کتنا احترام اور ادب فرما رہے ہیں۔

تجویزوآراء