ظاہری حالت میں دور رہ کر دیدار اور جنات سے حفاظت
ظاہری حالت میں دور رہ کر دیدار اور جنات سے حفاظت
۲۷؍ جولائی ۲۰۱۵ء کو میں اپنی آفس میں بیٹھا ہوا تھا، حضرت سے ملنے والوں کا بے پناہ ہجوم تھا، اسی درمیان تین یا چار شخص کافی لمبے تڑنگے آفس میں داخل ہوئے، سلام و دعا کے بعد کہنے لگے، کہ آپ نے مجھے پہچانا، میں نے کہا کہ ہاں چہرہ پہنچان رہا ہوں، مگر نام یاد نہیں آرہا ہے، ان میں ایک بزرگ شخصیت تھی، سفید داڑھی تھی، نورانی چہرہ اور اس پر سفید کپڑا اور سر پر سفید رومال و ٹوپی نے چہرہ کو نہایت بارونق بنادیا تھا۔ انہوں نے جیب سے مجلد ایک چھوٹی سی پاکٹ سائز کی کتاب کو میری طرف بڑھاتے ہوئے کہا کہ دیکھیے یہ کیا ہے۔ میں نے دیکھا تو وہ شجرہ شریف تھا، اندر کھولا تو موصوف کا نام میرے ہاتھوں سے حاجی احمد علی قادری رضوی جموں و کشمیر لکھا ہوا تھا، وہ ۲؍ فروری ۲۰۰۷ء کو حضرت سے داخل سلسلہ ہوئے تھے۔
حاجی احمد علی رضوی کے ہمراہ مولانا دل محمد رضوی مرحوم کے صاحبزادے محمود احمد رضوی، ایڈوکیٹ ہائی کورٹ جموں کشمیر بھی تھے۔ حاجی صاحب نے اپنے صاحبزادے آفتاب احمد کا تعارف کراتے ہوئے بتایا کہ ان کو مرید کرانے کے لیے لایا ہوں، بولے کہ واقعہ یہ ہوا کہ اس کے اوپر جنات کے اثرات ہیں، اکثر حاضری ہوجاتی ہے۔
ایک بار جنات اس کے اوپر حملہ آور ہوگئے، میں گھبرا گیا کہ اب کیا کروں، کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ دفعتاً میری زبان سے یہ آواز نکلی کہ ’’تم جانتے ہو کہ میری سر پرستی کون کر رہے ہیں اور میں کس بزرگ کا مرید ہوں‘‘ کہ اتنے میں حضرت تاج الشریعہ میری پشت کی طرف کھڑے تھے، کہ آفتاب احمد نے دیکھا اور وہ گھبرا گیا، اس کے اوپر جو جنات کے اثرات تھے، وہ کافور ہوتے نظر آئے، اس کے منہ سے یہ آواز سنائی دیتی رہی کہ اب میں نہیں آؤں گا، اب نہیں آؤں گا آفتاب احمد کی خواہش ہوئی کہ جس پیر سے آپ مرید ہیں ان کے پاس مجھے لے چلئے، میں بھی انہی سے مرید ہونا چاہتا ہوں، پہلے میں زیارت کرونگا پھر مرید ہوں گا۔ حاجی صاحب حضرت نشست گاہ میں گئے، بغیر کچھ کہے آفتاب احمد کہنے لگے کہ یہی شخصیت ہے، جس کو میں نے دیکھا تھا، انہی کی ہیبت اور روحانی فیضان نے جن کو بھاگنے پر مجبور کر دیا تھا۔ پھر آفتاب احمد حضرت کے دست حق پرست پر مرید ہوگئے، چار لوگوں کو میں نے شجرہ شریف دیا اور بہت خوش ہوکر، جموں کشمیر کے لیے روانہ ہوگئے، اللہ تعالیٰ ان کو اسی طرح سے پیر و مرشد کا فیضان نصیب فرمائے۔ (آمین ثم آمین)