قیدی کی غائبانہ رہائی
قیدی کی غائبانہ رہائی
صاحب الشواہد النبوت (مولانا جامی) فرماتے ہیں کہ اسلاف میں سے ایک شخص نے روایت کی ہے کہ میں نے ایک دفعہ عراق میں ایک ایسے آدمی کے متعلق سنا جس نے پیغمبری کا دعویٰ کردیا اور اسے لوہے کی زنجیروں میں جکڑ دیا گیا۔ میں بھی اسے دیکھنے گیا اور دربان کو اطلاع دے کر اس کے پاس پہنچا، وُہ ایک فہیم، ذہین اور باہوش آدمی نظر آتا تھا۔ میں نے اس سے دریافت کیا کہ تمہارے ساتھ کیا ماجرا ہوا۔ اس نے بتایا کہ میں شام میں عبادتِ خداوندی میں مشغول تھا۔ جس مسجد میں حضرت حسین کا سر نیزے پر رکھا گیا اس میں نماز پڑھ رہا تھا۔ ایک رات میں یادِ الٰہی میں مشغول رُو بہ قبلہ بیٹھا تھا کہ ایک شخص آیا اور مجھے کہنے لگا:اٹھو۔ میں اٹھا اور اس کے ساتھ ہولیا۔ وُہ مجھے کُوفے کی ایک ایسی مسجد میں لے گیا جہاں حضرت علی کرم اللہ وجہہ، امامت کرایا کرتے تھے۔ اس نے مجھے پُوچھا، جانتے ہو یہ کون سی جگہ ہے۔ میں نے کہا: یہ کوفہ کی مسجد ہے۔ وہ نماز میں مشغول ہُوا اور میں بھی نماز پڑھنے لگا۔ اس کے بعد ہم اس مسجد سے نکل کر شہر سے باہر آگئے اور تھوڑے ہی وقت میں مدینہ منورہ کی مسجد نبوی میں پہنچ گئے۔ اس مسجد میں بھی دورکعت نماز پڑھ کر روانہ ہوگئے اور چند قدم اٹھانے کے بعد ہم نے اپنے آپ کو بیت اللہ میں دیکھا، وہاں نماز ادا کی اور جب بیت اللہ شریف سے باہر آیا تو وہ غائب تھا۔ میں اس واقعہ سے بڑا ہی متعجب ہوا اور مجھے کچھ علم نہ تھا۔ کہ یہ شخص کون تھا اور کہاں سے آیا۔ جب اسی حالت میں ایک سال گزر گیا تو میں نے دیکھا کہ اسی وقت اور اسی مقام پر رات کے وقت وہی شخص آیا اور مجھے ساتھ لے لیا اور گزشتہ سال کی طرح مجھے اُن اُن مقامات سے گزارتا گیا۔ جب وُہ جدا ہونے لگا تو میں نے اسے قسم دی کہ اپنا نام و پتہ تو بتا جاؤ۔ اس نے کہا: میرا نام محمد بن علی بن موسیٰ بن جعفر امام ہے۔ صبح ہوئی تو میں نے بعض لوگوں سے یہ واقعہ بیان کیا۔ رفتہ رفتہ یہ واقعہ حاکم وقت نے بھی سنا اور مجھے دعوت نبّوت کے الزام میں قید و بند میں ڈال دیا گیا۔ دراصل میں غلطی پر ہُوں کہ راز دارانِ خدا کے رازوں کو افشاکرنے کا مرتکب ہوا ہوں یہ بات سن کر میرے دل میں بڑا رحم پیدا ہُوا اور میں نے حاکمِ وقت کو ایک سفارش رقعہ لکھا۔ اس نے لکھا کہ جو شخص ایک رات میں کوفہ سے مدینہ اور مدینہ سے بیت اللہ ہوکر واپس آیا ہے اسے کہیں کہ وہی لوگ اسے قید و بند سے بھی نجات دلادیں۔ مجھے اس تحریر سے بڑا دکھ ہُوا اور میں مغموم ہوکر اٹھ کر چلا آیا تاکہ اسے رقعہ کے جواب سے آگاہ کروں۔ میں جیل کے دروازے پر پہنچا تو تمام پہرہ دار اور سپاہی پریشان نظر آئے۔ میں نے پُوچھا تو معلوم ہُوا کہ دعویِٰ نبوت کرنے والا قیدی گم ہوگیا ہے۔ پتہ نہیں چل رہا کہ اسے زمین کھاگئی یا آسمان نے اٹھا لیا۔