گستاخ کا حشر

گستاخ کا حشر

حضرت خواجہ ایشاں رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی عمر مبارک تقریباً بیس برس کی تھی کہ جب آپ بخارا سے دخش تشریف لے گئے ایک روز حاکم دخش باقی بیگ کی مجلس میں جانے کا اتفاق ہوا۔ باقی بیگ بڑا تند مزاج اور متکبر شخص تھا اس نے جب آپ کو دیکھا تو بڑی گستاخی سے کہنے لگا کہ یہ لوگ جو خواجہ زادہ کہلاتے ہیں اصل میں لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں ان لوگوں کے تو کان اور ناک کاٹ کر تشہیر کرنی چاہیے میرا نام باقی بیگ نہیں اگر مَیں یہ کام نہ کروں باقی بیگ کی اس گستاخی کو سُن کو آپ جلال میں آگئے اور فرمایا کہ مجھے اُمید ہے کہ تیرے کان اور ناک ایک روز ضرور کاٹے جائیں گے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کی قدرت دیکھیے کہ اس بات کے پورا ہونے کا سبب اس طرح سے ہوا کہ شاہ بخارا عبد اللہ خان کا میر شکار اپنے شکاری جانور کے ساتھ دخش میں آیا اور اس سے کوئی خطا سر زد ہوگئی۔ باقی بیگ نے اس پر خوب تشدد کروایا اور پھر وحش سے نکال دیا اس نے راستے میں بادشاہ کے خاص باز کو ہلاک کردیا اور بادشاہ بخارا عبد اللہ خان کے پاس روتا پیٹتا ہوا حاضر ہوا کہ باقی بیگ نے میرے ساتھ ناحق ظلم کیا ہے مجھ پر تشدد کروایا اور غصے میں شاہی باز کو بھی ہلاک کردیا یہ سُن کر بادشاہ کو غصہ آگیا اور اس نے سپاہیوں کو بھیجا کہ وہ باقی بیگ کو گرفتار کرکے لائیں اور حکم دیا کہ اس کے دونوں کان اور ناک کاٹ دیے جائیں چنانچہ بادشاہ کے حکم کے مطابق باقی بیگ کے ساتھ اسی طرح کا سلوک ہی کیا گیا اس طرح اولیاء اللہ سے گستاخی کرنے والے کا بُرا حشر ہوا۔


متعلقہ

تجویزوآراء