گمشدہ بیٹا مل گیا

گمشدہ بیٹا مل گیا

(۱)حضرت سید اتا رحمۃ  اللہ تعالیٰ علیہ اور آپ(  خواجہ علی علیہ الرحمہ) ہمعصر تھے۔ اور کبھی کبھی ایک دوسرے سے ملاقات بھی کرلیا کرتے تھے۔شروع شروع میں سید اتا کا دل آپ کے متعلق صاف نہیں تھاچناچہ ایک روز سید اتا کی طرف سے آپ کی شان میں کوئی بے ادبی اور گستاخی وقوع پذیر ہوگئی۔ اتفاق ایسا ہوا کہ انہی دنوں ایک جماعتدشتِ قبچاق کی طرف سے حملہ آور ہوئی اور سید اتا کے لڑکے کو پکڑ کے لے گئی۔سید اتا کو خیا آیا کہ یہ حادثہ اُس بے ادبی کے نتیجے میں وقوع پذیر ہوئی ہے۔فوراً  آکے معذرت کی اور اپنے ہاں آپ کی دعوت کی جسے آپ نے قبول فرمالیا۔آپ اُن کی دعوت میں تشریف لے گئے۔ دعوت میں بڑے بڑےعلماء اور مشاہیرمدعو تھے۔ آپ اُس روز نہایت خوش وقت اور عالمِ کیفیت میں تھے۔جب خادم نے دستر خوان بچھایااور نمک دان لایاتو آپ نے ارشاد فرمایا کہ علی(حضرت نے اپنے آپ کو مخاطب کیا)اُس وقت تک اپنی انگلی نمک پر نہیں رکھے گااور نہ ہاتھ کھانے کی طرف بڑھائے گاجب سید اتا کا لڑکا دستر خوان پر حاضر نہ ہوجائے۔ یہ کہ کر آپ نے تھوڑی دیر سکوت فرمایاتو اچانک لڑکا دروازے سے اندر داخل ہوا۔ مجلس میں یکبارگی شور بلند ہوااور سب کے سب حیران ہوگئے۔ لڑکے سے اس کے آنے کی کیفیت دریافت کی گئی تو اس نے بتایا کہ میں اس سے زیادہ کچھ نہیں جانتاکہ ابھی ابھی میں ترکوں کی قید میں تھااور وہ مجھے اپنے ملک لے جارہے تھےلیکن اب دیکھ رہا کہ آپ سب کے سامنے حاضر ہوں۔ اہلِ مجلس کو یقین ہوگیا کہ یہ آپ(خواجہ علی) کا تصرف ہے۔سب آپ کے پاؤں پر گرپڑےاور مرید ہوگئے۔


متعلقہ

تجویزوآراء